Saturday, June 17, 2017

رمضان : قرآن کے نزول کا مہینہ Ramzan: The month of Quran रमज़ान:क़ुरान का महीना


رمضان : قرآن کے نزول کا مہینہ
آج اس بات کی ضرورت زیادہ ہے کہ قرآن خوانی سے زیادہ قرآن فہمی پر زور دیا جائے ورنہ تلاوت تو ہوگی لیکن یہ قرآن حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔
عبد المعید ازہری

رمضان المبارک کو روزہ ، تقوی، عبادت کے ساتھ قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآ ن میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ۔ جس میں لوگوں کیلئے یدایت۔ ہے راہ راست اور حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کے بیانات ہیں‘‘(القرآن : ترجمہ)۔ اس آیت کی توضیح میں مفسرین کرام کی چند آراء ہیں: رمضان وہ مہینہ ہے جس کی عظمت و شرافت میں قرآن کا نزول ہوا یعنی اس کی فرضیت ، اہمیت و افادیت میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں جو اس ماہ کے روزوں کو مخصوص کر تے ہیں ۔ چانچہ قرآن کا ارشاد ہے ۔’’ائے ایمان والوں ! تم پرخاص دنوں کیلئے روزے فرض کئے گئے جیساکہ تم سے پہلوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگا ر ہو جاؤ‘‘۔ تو جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو (جس کی وجہ سے روزہ رکھنا مشکل ہو)تو وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھے (جب بیماری سے شفا مل جائے اورسفر ختم ہو جائے )۔جو لوگ طاقت و استطاعت رکھتے ہیں وہ مسکینوں کو کھانا کھلا کر فدیہ ادا کریں۔بہتری پر عمل کرنا باعث خیر ہے ۔ اگر صاحب علم ہو تو(جان لو کہ ) روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے ‘‘(القرآن :ترجمہ)۔
دوسری وجہ مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کا نزول اسی مہینے سے شروع ہوا ہے ۔ تیسری توجیہ جس پر اکثر لوگوں کو رجحان ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینہ کی شب قدر کو پورا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا یا بیت العزت پر نازل کیا گیا ۔ اس کے بعد ضرورت اور موقعہ و محل کے اعتبار سے دھیرے دھیرے ۲۳ سال تک نازل ہوتا رہا ۔ان توضیحات کے علاوہ اکثر مؤمین کا یہ معمول ہے کہ وہ اس ماہ کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔مرد و عورت ، بچے اور بوڑھے سبھی میں قرآن کی تلاوت کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے ۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد میں اکٹھا ہوکر اس کار ثواب کو انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تراویح میں بھی ختم قرآن کا معمول ہے ۔ تقریبا ہر چھوٹی بڑی مسجد میں تراویح اور ختم قرآن کا اہتمام ہوتاہے ۔ ۵ دن سے لیکر ۲۷ دن کی تراویح ہوتی ہے ۔ کہیں کہیں ایک شب میں بھی ختم قرآن ہوتاہے جس کو شبینہ کہا جاتا ہے ۔اس معمولات کے اعتبار سے بھی یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ بلا شبہ قرآن کی تلاوت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ تلاوت قرآن کے وقت خاص رحمتوں کا نزول ہوتاہے ۔قرآن کے بارے میں فرمان نبوی ہے کہ ہر ایک حرف کی تلاوت کے بدلے ثواب ہے یہاں تک کہ جو قرآن پڑھ نہیں سکتے ان کیلئے اس قرآن کا چومنا ، دیکھنا اور ادب و تعظیم کرنا بھی ثواب ہے ۔
قرآن ایک معجزہ ہے ۔ قرآن دنیا کی پہلی وہ کتا ب جس نے اپنے بارے میں یہ دعوہ کیا ہے کہ’ اس کا بدل پیش کرو اور ہرگز پیش نہیں کر سکتے ‘۔جب پیغمبر اعظم ﷺ نے لوگوں کو قرآن سنایا اور فرمان خداوندی کی طرف لوگوں کو مدعو کیا تو قوم عرب نے آپ کو جادوگر کہنا شروع کردیا۔ جادوگر کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ جب قرآن سنا تے تھے تو لوگ متاثر ہو کر آپ کی طرف مائل ہو جاتے تھے ۔ لوگوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ عبداللہ کے بیٹے نے جادو کرنا شروع کر دیا۔ ان کے پاس کچھ منتر ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں جو پڑھتا ہوں وہ میرا کلام نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ جو معبود حقیقی ہے ۔سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے میں بے چینی پیدا ہو گئی ۔ بنو ہاشم اور خاندان قریش ابن عبد اللہ یعنی محمد ﷺ کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ آپ ؑ ﷺ کے شب و روز انہیں کے درمیان گزرے ہیں۔اعلان نبوت سے پہلے انہیں لوگوں نے آپ کو ’صادق،امین ‘ کہہ کر پکارا تھا ۔ اپنے معاملات میں آپ کو حاکم بھی بناتے تھے ۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ کلام عرب کے کسی بڑے شاعر ، فصیح البیان اور بلیغ اللسان کا معلوم پڑتا ہے ۔ ابن عبد اللہ نے تو کسی سے تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہے ۔ پورے عرب میں کوئی بھی ان کا استاد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا یہ ان کاخود کا کلام تو نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علاوہ یہ کسی شاعر کا بھی کلام نہیں ۔ کیونکہ شاعری جیسا انداز تو ہے لیکن شاعری نہیں ہے ۔ دشمنوں نے خوب کوشش کی ۔ لیکن وہ یہ بات ثابت نہ کر سکے کہ یہ کلام ابن عبداللہ کا ہے۔ اسی کو قرآن نے اپنے انداز میں بیا ن کی ہے ۔
’اور اگر تمہیں اس بات میں تردد ہے کہ جو (قرآن)ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر نازل کیا (وہ ہمارا کلام نہیں )تو کوئی ایک سورت اس کے مثل لے کر آؤ۔اللہ کے سوا تمام ہم نواؤں کی مدد لے لو ۔اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (تو قرآن کی ایک سورت کے مثل کوئی سور ت لے کر آؤ)۔اور اگر ایسا نہ کر سکو ، اور ہر گذ نہیں کر سکوگے ۔تو اس آگ سے ڈروجس کے اندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘(القرآن : ترجمہ)۔مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ قرآن کا عجاز ہے کہ پورا قرآن یا اس کی ایک سورت تو الگ بات ہے، اس کی ایک آیت کی بھی مثال نہ پیش کی جا سکی ۔ قرآن کے نزول سے لیکر اب تک حاسدین کوشش کرتے رہے لیکن وہ ایساکر نہ سکے ۔ جس عربی زبان میں یہ قرآن نازل ہوا اس زبان کے ماہر بڑے بڑے فصاحت و بلاغت کے تاجوروں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے ۔ قرآن کا یہ دعوی آج بھی سلامت ہے ۔عرب کے سب سے مشہور عربی داں کو ابو جہل اور اس کے ہم نوا ؤں نے اس بات پر راضی کیا کہ وہ ایک سورت پیش کرے گا ۔ چھہ مہینہ تک ایک کمرے بند ہوکر وہ اس پر کام کرتا رہا ۔ جب باہر آیا تو خالی ہاتھ تھا ۔وہ قرآن کے اعجاز کا قائل ہو گیا۔
اس کلام کی تاثیر کا یہ حال ہے کہ کفار مکہ لوگوں کو قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اگر کوئی اس کلام کو سنے گا تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔ چنانچہ جب تاجروں کا قافلہ مکہ آتا تھا یا کعبہ کی زیارت کرنے کیلئے لوگ مکہ آتے تھے، تو باقاعدہ دشمنوں کی یہ جماعت ان لوگوں کے کان بند کرنے کیلئے کپڑا تقسیم کرتی تھی ۔ اپنے اپنے چبوترے پر لوگوں کی ڈیوٹی تھی کہ ہر آنے جانے والے کو اس سے آگاہ کیاجائے ۔ان کا عقیدہ راسخ تھا کہ جو بھی قرآن سنے گا وہ متاثر ضرورہوگا ۔ ایسا ہوا بھی ۔ کئی لوگ صرف قرآن سن کر گرویدہ ہوگئے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔ کسی مسلمان کے دروازے سے جب یہ لوگ گذرتے تھے تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیا کرتے تھے ۔ قرآن پڑھنے پر پابند عائد کی گئی ۔ حضرت صدیق اکبر پر پابندی لگائی گئی کہ یہ بلند آواز میں قرآن کی تلاوت نہیں کریں گے ۔حضرت عمر کا مشہور واقعہ ہے ۔ جب آپ نے اپنی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو اس کا سیدھا اثر آپ دل پر ہوا۔ دل کی کیفیت بدل گئی ۔ قتل کرنے کا ارادہ ترک کیا ۔ مسلمان ہوگئے ۔
قرآن پڑھنے کے کئی لحن ہیں ۔ ان میں سے ایک لحن داؤدی ہے ۔ حضرت داؤد ؑ کی خصوصیت تھی کہ جب آپ اللہ کا کلام پڑھتے تھے تو پرندے بھی ٹھہر کر سنا کرتے تھے ۔ فضا میں ایک قسم کا سقوط و جمود طاری ہوجاتا تھا۔ اسی طرح قرآن پڑھنے کا ایک لہجہ ’حسینی‘ ہے ۔ اس انداز میں قرآن جب پڑھا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ قرآن کا اعجاز اس کی تاثیر اور موثر ہونے کی تاریخ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ۔آج بھی قرآن کی تلاوت ہوتی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں حفاظ کرام ہیں ۔ بالخصوص رمضان المبارک کے مہینے میں تو ختم قرآن کا با قاعدہ اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ قرآن ہمارے حلق سے نہیں اترتا ہے۔مقررین کے خطاب میں دلائل بھی قرآن کی آیات ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری عقلوں کی اس تک رسائی نہیں ہو پاتی ۔ نہ دل میں کسی قسم کا لرزہ طاری ہوتاہے اورنہ ہی ہماری آنکھو ں میں کوئی نمی آتی ہے ۔ کسی بھی لہجہ میں پڑھا جائے ۔ویسے یہ بھی ایک مشکل مسئلہ ہے ۔ ہمارے قراء حضرات کہتے توہیں کہ یہ فلاں لحن ہے اور یہ فلا ں لہجہ ہے ۔ لیکن اب ہم کیا کریں جب اس کا کوئی اثر سرے سے مرتب ہی نہین ہوتا ۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے ۔ہماری خود کی عبادتوں سے ہمیں ہی کوئی لذت نہیں ملتی ۔ ہماری تلاوتوں کا خود ہم پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔نہ روزوں سے ہم تربیت حاصل کر پا رہے ہیں اور نہ ہی حج سے کسی قسم کی عبرت لے رہے ہیں۔شاید ہماری عبادتیں ذوق و شوق سے خالی ہو گئی ہیں۔ اسے ہم رسم یا ڈیوٹی سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔اس کے اندر جا کر اسرار و معرفت کے دروازوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ یا ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ معرفت بس کچھ لوگوں کے لئے ہی محفوظ ہے ۔
رمضان مبارک اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں قرآن جیسی معجز اور عظیم کتاب سے قریب ہونے اور اسے سمجھنے کا زیادہ موقعہ ہو تا ہے ۔قرآن کی
رسمی تلاوت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 9582859385

No comments:

Post a Comment