تین طلاق پر سپریم کورٹ کا موقف
عبد المعید ازہری
تین طلاق کو لے کر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس پر مختلف و متعدد سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا اپنے موقف و منشاء کے مطابق رد عمل اس وقت ملک میں ایک غیر ضروری بحث کے ذریعے ملک کے نہایت ہی سنگین اور سنجیدہ مدعوں سے بھٹکائے ہوئے ہے۔اس پر میڈیا کی درباری اور سرکاری زبان نے آگ میں گھی ڈالنے کی وفاداری نبھائی ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کو مزکزی حکومت کی کامیابی، عورتوں کی تاریخی فتح اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کی کامیابی کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کا موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس موقف کی وضاحت ہو چکی ہے۔1937,1950 اور 2002 وغیرہ میں اس موضوع پر بحث وہ چکی ہے۔سچ کہیں تو یہ موقف امت مسلمہ کو ایک کریہہ اضطراب سے بچانے کا حل بھی ہو سکتا ہے۔جس موقف کی کھل کر وضاحت اور اس کی بھرپور تعلیم ہونی چاہئے تھی لیکن معلمین کچھ نااہلی اور کچھ غیر ضروری حکمتوں نے حالات کہاں سے کہاں پہنچا دئے ایسے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم واقعی سوئی ہوئی فکروں کے جگانے کا کام کر سکتا ہے۔ہو سکتا ہے اس کے بعد امت کو باربار ذلت و پشیمانی سے محفوظ کرنے کے لئے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس تین کے قرآن وضاحت کو دور حاضر کی نئی تکنیکی فہم و فراست کے رو بہ رو کرایا جا سکے۔ خیر یہ تو ابھی بعد کی باتیں ہیں لیکن کچھ سیاسی حلقوں میں تو جشن کا ماحول ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی یو پی حکومت کی جانب سے مدرسوں کے لئے جاری کئے گئے ایک فرمان کے بعد تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مدرسوں میں قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانا گانا ضروری ہے۔ حالانکہ یہ کام اہل مدارس برسوں کے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اسے اس میڈیا اور کچھ سرکاری ٹکڑا خوروں نے یہ ثابت کرے کی کوشش کی کہ یہ یو پی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مدرسوں میں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانا گانے پر ان اہل مدارس اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا۔ بھکت تو آخر بھکت ہیں۔ انہوں نے جشن منایا۔ اب میڈیا اس معاملے میں بھلا پیچھے کیسے رہ سکتی ہے۔ اس نے گورکھپور کے معصوموں کی جان پر کوئی توجہ دینے کی بجائے بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے ذریعہ ملک کے جذبات کا سودا کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس سنگین معاملے کو یوں ہی دبا دیا گیا۔ ناکامی کو جھوٹے جشن میں گم کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا کی بھی اپنی ایک دنیا اور کبھی کبھی لگتا ہے اس کا اپنا ایک ملک اور اپنے قوانین ہیں۔ جہاں سچ کے علاوہ سب کچھ ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کے مطابق تین طلاق کو ایک بیٹھک میں دینے پرچھہ ماہ کی پابندی لگائی گئی ہے۔ان چھہ مہینوں میں اس بابت ایک قانون بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت اس سے پہلے اس معاملے میں اپنا حلف نامہ داخل کر چکی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ خود قوم مسلم میں بھی برسوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اب شاید یہ قوم اور اس کے ذمہ دار اس حساس اور سنجیدہ مسئلے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں۔اس معاملے میں جملہ احناف کا اگرچہ متفقہ موقف ایک بیٹھک میں تین طلاق کے واقع ہونے کا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک متفق علیہ رائے ہے کہ یہ عمل ناجائز، حرام یا کم سے کم باعث گناہ ہے۔ طلاق بذات خود ایک ایسا جائز عمل ہے جو رب کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے۔اس حوالے سے عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ہی صورتوں کا عملی وقوع تاریخ میں ملتا ہے۔اس کے ساتھ ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کوسزائیں بھی دی گئی ہیں۔ اب اگر حکومت اس معاملے میں ایک ساتھ تین طلاق دینے والے کے لئے کوئی سزا تجویز کرتی ہے تو شاید اب بات کو خود مسلم ذمہ دار محسوس کر رہے تھے۔ جبکہ ایک ساتھ تین طلاق کے نفاذ کا کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں ہے۔وہ شریعت کے اعتبار سے نافظ ہوگا۔کیونکہ سزا کا تصور ہی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک بیٹھک میں دی گئی تین طلاق واقع ہو جانے کی وجہ سے چونکہ عورت نکاح
اور مرد کی ذمہ داری سے نکل گئی اس لئے مرد پر سزا لازم ہے۔
کورٹ نے اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا فیصلہ لیا ہے۔ پرسنل لاء میں جبری اور غیر قانونی دخل اندازی کو سرے سے خارج کر دیا اورہر ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جن کے ذریعہ آنے والے اگلے دو برسوں کی سیاست کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ناکام ہو گئی۔در اصل طلاق کبھی بھی اس ملک کا اہم اور سنجیدہ مدعیٰ تھا ہی نہیں۔ اس کی شروعات ملک کے وزیر اعظم ملک کی مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کے لئے شروع کرتے ہیں لیکن کیا واقعی وہ ایسا چاہتے بھی ہیں، یہ سبھی نے دیکھ لیا ہے۔ خود انہیں کی ریاست کی مسلم عورت ذکیہ جعفری اب تک انصاف مانگ رہی ہے۔ نجیب، منہاج، اخلاق، پہلے خان جیسے سیکڑوں کے اہل خانہ کی نگاہیں انصاف دیکھنے کی آس میں سوکھی جا رہی ہیں۔ گجرات معاملے سے لے کر مظفر نگر، اجمیر اور مالے گاؤں جیسے سیکڑوں حادثات کی چپیٹ سے جوجھتی مسلم عورتوں کا درد نہ تو دکھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی وہ معنیٰ رکھتا ہے۔ مسلم عورتوں کے بہتری کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کی نہ صرف تائید ہوتی بلکہ اس میں ہر ممکن تعاون بھی ہوتا اگر واقعی ملک کا مکھیا یہی کرنا چاہتا۔ ان مسلم ماں بہنوں کے اوپر ظلم کی ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ ہے ایک بیٹھک میں تین طلاق۔ جب کہ زخموں کے نہا خانوں میں اور بھی درد ہیں جو رونے بھی نہیں دیتے ہیں۔جہاں تک طلاق کی وجہ سے بے گھر ہونے والی عورتوں کا سوال ہے تو اس کا فیصد جو اب تک نکالا گیا ہے اس میں تین گنا سے زیادہ فیصد غیر مسلم عورتوں کا ہے جنہیں گھر سے بے گھر کر دیا گیا ہے۔کیا کوئی قانون اس پر بھی بنانے کی بات ہوگی؟
در اصل 2014کی مرکزی حکومت ہو یا 2016 کی یوپی کی ریاستی حکومت دونوں کی واضح اکثریت نے دل اور دماغ کا توازن ختم کر دیا۔ دونوں ہی سرکاریں ایک طویل مدت کے بعد اقتدار میں آئی ہیں اس لئے ہڑبڑاہٹ میں ایسے کام کرنے لگیں جو خود اپنی ہی حکومت اور اس کے منشور کے خلاف ہونے لگا۔ یو پی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ نے ساری اہلیت اور قابلیت کو صاف کر دیا کہ اس سرکار کے پاس بھی مذہب کی سیاست کے علاوہ کچھ اور کرنے کو نہیں ہے۔اس لئے اس نے بھی اپنی ساری طاقت ناموں کی تبدیلی اور گایوں کی حفاظت میں جھونک دی۔ یو پی کے دس سے زائد ضلعے باڑھ کی چپیٹ میں آگئے، سیکڑوں بے گھر ہو گئے اور اموات کا بھی شمار سو کو پہنچنے والا ہے۔ گائے کی حفاظت کے لئے انسانوں کا سر عام خون حلا ل کر دیا گیا۔
سیاست کی خونی پیاس یہاں بھی نہ بجھی 60سے زیادہ معصوموں کی موت پر خاموشی، مضحکہ خیز بلکہ توہین آمیز بیان دے کر بجھائی گئی۔لگاتار دو ٹرین حادثوں کی وجہ سے ہونے والی بیسوں اموات اور سیکڑوں کے زخموں نے جب آواز لگائی اور ادھر اجمیر بلاسٹ کے اہم ملزم کو جب ضمانت مل گئی اور لگا کہ پردا فاش ہو جائے گا تو سارا زور طلاق پر دے دیا گیا۔انسانی اموات کا سلسلہ چلتا رہا۔ میڈیا میں اس بات پر بحث جاری رہی کہ مدرسے قومی پرچم لہراکر اور قومی ترانہ گا کر اپنی وطن پرستی کا ثبوت دیں گے۔ مسلم عورتوں کے تین طلاق سے طلاق دلانا ہی اس سرکار کا اولین ترین مقصد ہے۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس حکومت نے یہ ایک آسان راہ نکالی کہ میڈیا کے ذریعے اسے ایک مشتعل کن مسئلہ بنا دیا۔
یہ اس وقت کی سیاست کی نااہلی ہے یا بد عنوانی ہے کہ ہر بڑے حادثے کومذہبی جذبات اور انسانی خون سے دھو دیا جاتا ہے۔2014 سے2017اس سرکار کی جانب سے سرمایا داروں کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر مذہبی لیبا پوتی ہوتی رہی۔ بے روزگاری اور بدعنوانی ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں اس حکومت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ آج حکومتیں صرف بدعنوانی ہی کے لئے بنائی جاتی ہیں۔51فیصد FDIکی مخالفت کرنے والی حذب مخالف جماعت نے اقتدار میں آتے ہی 100فیصد FDIکو منظور کردیا۔ جب تک اقتدار سے باہر تھے GSTکا بائکاٹ کرتے رہے ، اقتدار میں آتے ہی بڑی چالاکی سے پاس کر دیا۔ نوٹ بندی بھی جاری کر دی اور نہ جانے کتنے ہزار کروڑ اس ادلا بدلی کا شکار ہوکر ملک کے غریب طبقے کو اور غریب کرنے اور کسانوں کو خودکشی پر آمادہ کر گئے۔ آخر یہ لاکھوں کروڑ کے گھوٹالے ایک نہیں ہزاروں اسکیم اس ملک کو کہاں لے جار ہے ہیں۔ لیکن ہماری عوام ابھی بھی اسی میں الجھی ہے کہ یو پی میں رہنا ے تو یوگی یوگی کہنا ہے اور بھارت میں رہنا ہے تو مودی مودی کہنا ہے۔
اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو بول سکتا پر خاموش ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/ raebarely
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment