کیا یہ میڈیا کی وطن پرستی پر سوال نہیں؟
عبد المعید ازہری
جس طرح سے میڈیا اپنے اخلاق کا گلا گھونٹ کر ملک کو اخلاقی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے، وہ اس مصداق پر پوری طرح کھری اتر رہی ہے کہ’’ ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔میڈیا کا گرتا معیار آج گرتی سرکاروں سے زیادہ بکاؤ ہوتا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کی آزادی اور خود مختاری کے طوفان نے میڈیا اور سیاست کے دل و دماغ کو ایک ساتھ معزور و معزول کر دیا ہے۔آج کا میڈیا دہشت اور نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک زمانے میں میڈیا کو جمہوریت کا ستون کا کہا جاتا ہے۔آج بھی ستون ہی ہے لیکن سب سے پہلے گرنے اور بکنے والاستون۔اس ملک کے لئے میڈیا کی بھی بڑی قربانیاں رہی ہیں لیکن آج کے غدار اور کاروباری میڈیا والوں نے ان قربان ہونے والوں کی روحوں کو پھر سے مارنے کا کام کیا ہے۔ حق گوئی اور بے باکی، سچ بولنے، دکھانے اور اسے ثابت کرنے کا سارا جذبہ چمچا گیری کی نذر ہو گیا۔ آج جب بھی اخبار اور ٹی وی دیکھو تو ڈر لگتا ہے۔ نہ جانے اب کس خبر سے دہشت پیدا کر دی جائے۔ ایک داعش اور اس کی ہم فکر تنظیمیں دہشت کا کاروبار کر رہی ہیں۔ دوسری ہمارے ملک کی مخصوص بھیڑ ڈر کا کاروبار کر ہی ہے۔ بیچ چوراہے پر کسی کو بھی مار کر اس کی ویڈیو بناکر اسے خود شیئر کر کے ملک کے آئین اس کے دستور اور اس کے جمہوری نظاموں کو چیلنج دے کر انصاف اور قانون کا خون کر رہے ہیں ۔ وہیں میڈیا بھی ان کا آلہ کار بن کر اس کاروبارکو فروغ دینے کا کام کر رہی ہے۔لوگوں کو اطراف اکناف کی ضروری تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی بجائے ان پر خوف طاری کر رہی ہے۔ اس کے بعد اس خوف کے ازالہ کے لئے کاروباری دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ڈر کا کوروبار ایسا ہے جس میں نقصان نہیں ہوتا ہے۔
میڈیا کے اس ڈوبتے سورج کی کبھی صبح امید اور جوش کی تپش اور جنون کی گرمی بھی ہوا کرتی تھی جس میں نہ جانے کتنی باطل اور مجرم طاقتوں کی کالی بدلیاں کسی نا معلوم کونوں میں دبک جاتی تھیں۔ انصاف کے جب سارے دروازے بند ہو جاتے تھے تو یہی ایک دروازہ تھا جس نے کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ سیاسی رہنماؤں کی طرح اس شعبہ نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جو تاریخ میں زندہ ہیں اور انہیں کی وجہ سے آج کی صحافت کی آبروزندہ ہے ورنہ آج کے کاروباری اور بکاؤ صحافیوں نے تو اس کا گلا تقریبا گھونٹ ہی دیاہے۔ایک سچا صحافی اپنے آپ میں ایک انصاف بلکہ ایک انقلاب ہوتا ہے۔ ملک کے ذمہ داروں میں اس کا شمارہوتا ہے۔ جس طرح ملک کا مستقبل سیاسی،سماجی اور قانونی رہنماء طے کرتے ہیں اسی طرح اس میں ایک حصہ میڈیا کا بھی ہوتا ہے لیکن آج بد عنوانی کی آندھی میں یہ ستون بھی گر چکا ہے۔
آج اخبار میں کیا آنا ہے اور ٹی وی میں کیا دکھایا جانا ہے یہ سب بند کمرے کی سیاست طے کرتی ہے۔قومی سطح پر کس کو کہاں کیا اور کیسا مقام دینا ہے یہ سب طے شدہ ہوتا ہے۔ایک سینئر صحافی کے ۵۰ سالہ صحافتی تجربہ کے مطابق ملک میں رونما ہونے والے بڑے حادثات جیسے دنگے، فرقہ وارانہ فسادات،سر عام کسی کا قتل یا پھر انکاؤنٹر یہ سب پہلے سے طے ہوتا ہے۔ان تمام چیزوں سے پرے میڈیا کا اپنا ایک اصول ہے کہ وہ اپنی خبروں سے معاشرے میں ڈر پیدا نہیں کر سکتی۔ اسے ہر حال میں لوگوں میں ہمت اور امیدبنائے رکھنا ہوتا ہے۔ آج کی میڈیا میں بالکل اس کے مخالف کام ہو رہا ہے۔کسی کو بھی مجرم یا دہشت گرد کہنا تو اس کا یومیہ مشق ہو گیا ہے۔ اس کا جرم ہے بھی کہ نہیں، عدالت اورقانون اسے کیا کہتا ہے ان سب چیزوں کی پرواہ کئے بغیر ہمارے صاحب کیاکہتے ہیں اس کی پرواہ کی جاتی ہے۔ہر روز اپنا نیا ساتھی یا پھر ساتھ کے لئے ہر روز بکنے والا معیار ہو گیا ہے۔ اس کا یہ معیار خود اس میڈیانے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ آج کی میڈیا محض کاروبار ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ میڈیا کاروبار اور پیسہ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جی حضوری کے چکر میں ملک کی عظمت اور اس کے وقار کو بھی خاک میں ملا سکتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ حال ہی میں ہوا ہے۔
TRP، سنسنی اور سب سے پہلے خبر دینے کی ہوڑ نے سب کے ہوش اڑادئے جب یہ خبر میڈیامیں عام ہوئی کہ’’ ملک کے پاس ہتھیار کم ہیں‘‘۔جنگ کی صورت میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مطلب ہم کمزور ہیں۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کے سوالات نہایت ہی خطرناک ہیں۔ سب سے پہلا سوال کہ ’ہمارے ملک میں کتنا ہتھیار ہے‘ یہ خبر ایسے ہی میڈیا میں کیسے آگئی؟یہ خبر چھاپنے یا دکھانے سے پہلے میڈیا نے کیوں نہیں سوچا کہ اس کا کیا رد عمل یا پس منظر و پیش منظر ہو سکتا ہے۔اس خبر کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک پر کیااثر پڑے گا۔ اس خبر سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟یہ سب بڑے ہی ڈرامائی اور فلمی انداز میں ہوا۔ چین کی جانب سے ملک کے خلاف بڑھتے اقدامات کے جواب میں کئی ممالک کی حمایت کی خبریں آتی ہیں۔ چینی سامان کے بائکاٹ کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے۔ ہند و چین کے روزانہ بگڑتے حالات کی خبریں بھی آئی ہیں۔اچانک خبر آئی ہے کہ ہمارے پاس تو ہتھیار ہی نہیں ہیں۔سرجیکل اسٹرائک سے لے کر اب تک جس طرح سے ہماری فوج کا سیاسی استعمال اور قدرے استحصال ہوا وہ شاید ملک کی تاریخ میں ایک نمایاں باب ہو۔اس خبر نے جہاں ملک کو ایک طرف کشمکش میں ڈال دیا ہے وہیں دوسری طرف ایک بڑے خدشے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اب جب ملک میں ہتھیار کم ہیں۔ اس پر پاکستان اور چین کی طرف سے مسلسل دست درازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس لئے بھاری مقدارمیں اسلحہ اور ہتھیار کی خریداری ہونی ہے۔ کچھ دن قبل فوجی ٹرک کی خریداری اور اس سے جڑے کچھ خلاصے سامنے آئے تھے۔ اس خریداری میں جس قدر گھوٹالہ اور اسکیم کامعاملہ سامنے آیا تھا کیا یہ اس سے بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔یہ پانچ گھنٹے کی فلم میں ہر آدھے گھنٹے ،بیس منٹ، اور ایک گھنٹے میں جو سسپینس اور ٹویسٹ آرہے ہیں، وہ برے مہلک ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی تو دو گھنٹے کی فلم باقی بھی ہے۔ اس پر مزید یہ ہے کہ اگلے پانچ گھنٹے کی اس فلم کی دوسری سیریز بھی تقریبا تیار نظر آتی ہے۔کیونکہ تقریبا سارے پروڈکشن ہاؤس بند پڑے ہیں کہیں کوئی شوٹنگ چل ہی نہیں رہی ہے اور جس طرح سے یہ مسالہ فلم چل رہی ہے ایسا لگتا ہے کئی ریکارڑ توڑ کر ہی دم لے گی۔
ملک کی داخلی صورت حال وہ بھی سیکیورٹی سے متعلق خبریں نشر کرنا اور وہ بھی اتنی غیر ذمہ دارانہ طورمیڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ اس سلسلے میں یہ عقدہ کشائی ایک طرف کہ آخر یہ خبر میڈیا میں آئی کیسے۔ اس کا سرجکل، نوٹ بندی،کشمیر، امرناتھ، GST ،صدر جمہوریہ کا الیکشن یا بہارکی سرکار اور سی بی آئی کے چھاپوں سے تو ہو سکتا ہے کوئی لینا دینا نہ ہو لیکن آج سیاست کی گھٹی میں شامل بد عنوانی کو تو کافی بڑا راستہ مل گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر حکومتوں کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔اس انتہا پسند بھیڑ کا کیا رد عمل ہوتا جو ملک میں کھانا، کپڑا، کاروبار، کہنا سننا اور بولنا طے کرتے ہیں۔ جو ملک کی وفاداری کا ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں۔ اب وہ اس بات کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔احتجاجی پیشہ وروں کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک قابل غور امر ہے۔سوشل میڈیا کے کرانتی کاری بھی اب تک خاموش ہیں۔ یا تو انہیں اب تک بتایا نہیں گیا یا رموٹ آن نہیں کیا گیا۔اب ایسی صورت حال میں اس قدر خاموشی ذہنی و اخلاقی طورپر موت کے ساتھ ساتھ وطن پرستی کی امید کے دم مرگ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی میڈیا کی سفاکیت ہے کہ سیمانچل کے سیلاب زدگان، گورکھپور کے معصوم بچوں کی اموات، دو ٹرینوں کے حادثے اور کرنل پروہت کی ضمانت کو دباکر سپریم کورٹ کے تین طلاق کے فیصلے اور وطن پرستی کے تئین بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم پر سارا زور لگا رہی ہے۔ اس میڈیا کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کسی طرح سے یوپی حکومت کی چمچہ گیری کو ثابت کرنے کیلئے یہ ثابت کر دیں یوپی کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یوگی سرکار کے فرمان کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مدرسوں میں ترنگا پھہرایا اب ناگپور میں کیا ہوا اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ مودی حکومت نے مسلم عورتوں کے حق کے لئے ملک کو لاکھوں نوجوانوں کے روزگار، کسانوں کی خودکشیوں اور عورتوں کی آبروریزی کے سنجیدہ معاملا ت کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یہ سب بس چند ٹکڑوں کے لئے ہوا۔
یہ خالص ملک، اس کی حفاظت، اس کے وقار اور داخلی پالیسی کا مسئلہ ہے۔لیکن وطن پرستی کی یہ خاموشی واقعی حیران کرنے والی ہے۔
جس طرح سے محض افواہ میں بے گناہوں کا قتل کر کے ملک کی حفاظت کا دعوی کرنے والی دہشت پسند بھیڑ نے ملک کے وقار کے تئیں اپنے خون کی قربانی دینے کے دعوے کئے ہیں کیا وہ لوگ اب اس میڈیا اور اس خبر کے نشر کرنے والوں کے ذمہ داروں سے اس متعلق سوال کریں گے۔ حکومت خاموش ہے۔ قانون چپ ہے۔ وفاداری کے سارے دعوے دار بے زبان ہیں۔کھلے عام ملک کے وقار کی توہین کی گئی ۔ذمہ دار کون ہے، محاسب کون ہے اور حساب کون دے گا؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
follow me:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment