"بھارت ماتا کی جئے"
عبد المعید ازہری
ملک میں مختلف تہذیبیں اور متعدد زبانیں ہیں۔ ہر تہذیب و زبان نے وطن پرستی کے گیت گائے ہیں۔ یہی اس ملک کی شان رہی ہے۔کوئی چھوٹا سے چھوٹا قبیلہ اور بڑی سے بڑی آبادی وطن پرستی کے نعروں سے خالی نہیں رہی۔ کسی نے ’’وجئی وشو ترنگا پیارا‘‘ گایا تو کسی نے ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گایا‘‘۔ گویا اس ملک میں بسنے والی ہر تہذیب و زبان اور اس میں پرورش پانے والے ہر بچے کو اپنی تہذیب وزبان میں وطن پرستی کے نعرے، گانے اور ترانے نہ صرف یاد ہیں بلکہ جوش میں وہ گنگنائے بھی جاتے ہیں۔ایسا شاید اس لئے ہوا کہ چونکہ ملک کا جغرافیائی حال دیکھیں تو ہر دس میل پر بولی اور لہجہ بدل جاتا ہے اور سو میل پر زبان تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب اتنے طویل و عریض ملک میں جہاں لو گ ایک دوسرے کے زبان و بیان سے واقف نہیں ہیں لیکن وطن سب کا ایک ہے۔ اس کی محبت یکساں ہیں۔ اب اس کے لئے احسا س تو ایک ہے لیکن زبان و بیان میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ دل کے احساس کے ساتھ اس ملک سے محبت کا اظہار اور عقیدت بیان ہو سکے۔ ایسا ہوا بھی اور اب تک ہو بھی رہا ہے۔
اس یکجہتی میں بغاوت کی شروعات یا پھر اس کا علان اسی وقت ہو گیا تھا جب مجاہدین آزادی کی تاریخیں بدلی گئیں۔ مہاتما گاندھی کے قاتل کو دیوتا تصورکیا گیااور ایک سے زائد مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو شک و شبہات کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ وہیں سے وطن پرستی کا ایک ٹیسٹ پیپر بھی چھاپا گیا۔ جس میں پاس ہونا ضروری ہے۔اس پیپر کی خلاف ورزی ملک کی خلاف ورزی تصور کیا گیا۔ وطن پرستی کے اظہار کو مخصوص زبان و بیان اور اس کے نعرے، گانے اور ترانے کی بولی کو مخصوص کیا گیا۔یہ المیہ تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب بند کمرے میں اے سی کی ہوا میں بیٹھ کر چند مفاد پرستوں کی ٹولی بغیر ٹھوکر اور دھوپ کی تمازیت برداشت کئے وطن پرستی کا ٹیسٹ پیپر تیار کرنے لگی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کم سے کم اس ملک کا مستقبل یا کم از کم حال تو نہیں تھا۔
’’وندے ماترم‘‘ یا’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘کے نعروں سے ملک کے تئیں وفاداری ثابت کرنے کا ایک چارٹ پلان تیار ہوا۔حکومتوں کی شراکت اس میں کس حد تک تھی کہنا مشکل ہے۔ ہاں اس ملک مخالف سرگرمی کو روکنے میں اس کا ذرا سا بھی ہاتھ نہیں ۔ یہ بات بڑے ہی وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔ہندوستان کی راجہ مہاراجہ، اس سے پہلے دور حکومت اور اس کے بعد کی مغل حکومت کی مجموعی تاریخوں میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ ملک سے وفاداری کے لئے کوئی مخصوص نعرہ لگوایا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی تاریخ میں نہیں ہے کہ اس طرح کے نعروں پر کوئی سخت مذمت یا اس کے انکار میں کوئی شدید رد عمل رقم کیا گیاہو۔ جیسا کہ آج ہو رہاہے۔جبراکہلانے اور شدید انکار دونوں ہی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔زبان و بیان کی تفریق کی وجہ سے صورت حال میں اس قدر خلش صرف ذاتی مفاد پرستی کے ساتھ بغض وعناد اور نفرت و وحشت کی بنیاد پر ہے۔
ملک نے ہر دور میں کچھ نہ کچھ قربانیاں مانگی ہیں۔ جان و مال اور خون کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کاملک تقاضہ کررہا ہے۔ اسے بد عنوانی ، لاعلمی، بے روزگاری، بیماری اور تعصب سے محفوظ کرنا ہے۔ اس کے لئے یکساں کوشش ہی در اصل وطن پرستی ہے۔اب اگر ہمارے تمہارے یا کسی کے بھی نعرہ لگا لینے سے ملک کا وقار بچتا ہے، اس کی عزت بڑھتی ہے، ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، تو ایک نہیں ہزار بار کہوں گا ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘جس کسی زبان میں بھی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں ہر زبان میں یہ نعرہ دہرائیں گے۔ہزار بار دہرائیں گے۔لیکن کیا واقعی یہی وطن پرستی ہے؟ زبانی نعرہ لگا نے کے بعد نہ فکر میں تبدیلی ہے اور نہ ہی عمل میں کوئی بدلاؤ ہے۔ نفرت بڑھتی ہے تو بڑھتی جارہی ہے۔ غریبی، بھکمری، بے روزگاری، جہالت، بیماری بڑھتی جار ہی۔ سیاست بد عنوان سے اور زیادہ بد عنوان ہوتی جا رہی ہے۔ملک کو بیچ کھانے والوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔لیکن ہماری وفاداری بس نعروں سے مضبوط اور اسی میں محدودہوتی جا ر ہی ہے۔70برس کی آزادی کا جشن ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے بارے میں فکر کریں۔ اس کی تہذیب اور بیان کو محدود نہ کریں۔
ایک سوال ان سے بھی ہے جو اس نعرہ سے چڑھتے ہیں۔ جان دے دیں گے لیکن یہ نعرہ نہیں لگائیں گے۔ تلوار کی نوک پر بھی وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ نہیں کہیں گے۔کچھ لوگوں کا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ درج کرنا ضروری ہے کہ ابھی پچھلے سال مارچ مہینے میں ہندوستانی صوفیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے ایک بین الاقوامی چار روزہ صوفی کانفرنس، ورلڈ صوفی فورم کے نام سے منعقد ہوئی تھی۔اس کے افتتاحی پروگرام ہی میں کسی نے ملک کے وزیر اعظم کی آمد پر ’’ بھارت ماتا کی جئے ‘‘کا نعرہ لگا دیا۔چونکہ اس صوفی کانفرنس سے کچھ مخصوص اور چند لوگوں کو چڑھ تھی۔جب کہ اس کانفرنس میں 25 سے زائد ملک کے علماء مشائخ اور دانشوروں کے علاوہ ہندوستان کے تقریبا ہر صوبے کے علماء و مشائخ اور دانش ور طبقے کی نمائندگی تھی۔ اس کانفرنس کو تاریخی کانفرنس بھی کہا گیاکہ ملک میں قیام امن اور دہشت گردی کے مخالف اتنی بڑی کانفرنس کبھی بھی منعقد نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی کچھ لوگ تھے جنہیں یہ کانفرنس پسند نہیں تھی۔ انہوں نے ورلڈ صوفی فورم کے افتتاحی پروگرام میں کسی کی جانب سے لگائے جانے والے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے کی وجہ سے اس حال میں موجود سبھی علماء، مشائخ اور دانشوروں کے ساتھ شرکا ء کو اسلام سے خارج کر دیا۔
کچھ نام نہاد مفکر اور مصنفوں نے روشنائی اور پیپر بھی خراب کئے اور ایک طویل قلم کاری کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ بھارت ماتا ایک دیوی کا نام ہے اس لئے اس کی جئے کار کرنا کفر ہے۔ مجھے فورا ایک مقولہ یاد آ گیا’’ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان‘‘۔ بھارت ماتا دیوی کے نام کی تحقیق پر بحث اور تحریر پھر کبھی۔ سوال یہ ہے کہ کسی اورکے تصور سے کسی دوسرے کا ایمان کیسے زائل ہو جاتا ہے جب کہ وہی فکر دوسری زبان میں ہمیں عزیز بھی ہے۔
ہندوستان کے مشہور سیاست داں اور بیرسٹر اسد الدین اویسی اور ان کے برادر خورد اکبر الدین اویسی کی بھی زلزلہ خیز تقریریں اس عنوان پر آکر اس مسئلے کو آگ لگانے کا کام کر گئیں۔ یہاں بھی سوال یہی ہے کہ ہندوستان زندہ بعد کے نعرے لگانے کے بعد اسی کو’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟۔آج کی روزانہ کی زندگی میں نہ جانے کتنے سیاسی، قومی و غیر قومی لیڈروں کے لئے زندہ بعد کے نعرے لگاتے ہم نہیں تھکتے، اور ملک کے لئے اگر وہی نعرہ لگا لیا تو کفر ہوگیا۔ یہ ایمان اور اسلام اتنا کمزور کب سے ہو گیا ہے کہ دوسرے کے تصورات سے ٹوٹنے یا کمزور ہونے لگاہے۔ حالانکہ یہ اسلام کا موقف بالکل نہیں ہے۔ یہ محض لا علمی ہے۔ اب درگاہوں پر حاضری دے کر ہر ایک کے تصورات الگ ہوتے ہیں تو کیا سبھی کو ایک ہی تصور میں لاکر شرک کا فتوی داغ دیا جائے۔جس میں ہر قوم اور مذہب کے لوگ جاتے ہیں ۔ ان کے رسوم الگ اوراعتقاد الگ لیکن حاضری تو ساتھ ہی دیتے ہیں۔کفر کے لئے اب تک فقہی اور اعتقادی طور پر جو اصول سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ صریح طور پر کفریہ ہونے کے ساتھ اس کی نیت بھی ہو۔ الفاظ کی ادائیگی کے بعد اس سے اس کی نیت دریافت کی جائے۔ اگر اس نے وہی کفریہ اعتقاد مراد لیا ہے تو اس پر حکم نافذ کرنے کے جو طریقے ہیں استعمال کئے جائیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی کے اوپر جب کفر کا مسئلہ سامنے ہو تو اس سو شق میں سے اگر ۹۹ سے کفر اور ایک سے ایمان ثابت ہوتا ہو تو اسے ایمان پر قائم رکھا جائے ۔ لیکن یہ عجیب وطیرہ ہے کہ کسی کردار و گفتار میں ایمان تلاش کرنے کی بجائے اس میں کفر تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے دلیلیں اکٹھا کی جاتی ہیں۔بند کمرے میں بیٹھ مجرمانہ طور پر خوشامدی تحریریں لکھ کر قوم کو گمرا ہ کیا جاتا ہے۔
اس پورے ماہ سوشل میڈیا پر ایک میسج بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہوا اور اسے خوب شیئر بھی کیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسے مسلم اور غیر مسلم دونوں IDs سے پھیلایا گیا۔ میسج یہ تھا کہ آزادی کی تاریخ میں ایسے کئی نعرے ملتے ہیں جنہیں کسی مسلم مجاہد آزادی یا سماجی کرکن نے تخلیق کیا ہے۔ جیسے انقلاب زندہ باد، انگریزوں بھارت چھوڑو، مادر وطن بھارت کی جئے اور اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی گئی کہ موجودہ ترنگے کو ایک مسلم خاتون نے ترتیب دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو مذہب کی سیاست کرنے والے دونوں ہی گروہوں کے نام نہاد نمائندوں کو واقعی اس پر غور کرنا چاہئے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو کم از کم ہندوستان کے جملہ علماء، مشائخ اور دانشوروں کا کسی ایک موقف پر اجماع ہو جانا چاہئے۔ ورنہ یہ تکفیر کی تجارت بند کر کے کچھ تعمیری کام میں حصہ داری کی جائے۔ اگر کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو کم ازکم تخریب کا حصہ بن کرخود ذلیل ہو کر قوم کو رسوا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
یہ ایک موقف ہے اور سوال بھی ہے۔ جواب کی تلاش ہے۔ مجھے سمجھنا ہے دوسرے کا تصور اور عقیدہ ہمارے ایمان کو کسیے زائل کرتا ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi), Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

No comments:
Post a Comment