ٹائی اور ٹوپی کے تنازع میں پھنسی قوم
عبد المعید ازہری
مسلمانوں کے سیاسی، سماجی و معاشی زوال میں اغیار کی سازش کے علاوہ داخلی انتشار کا بڑا اہم رول ہے۔ اس اندرونی منافرت نے اس قوم کا اخلاقی،زبانی، ادبی اور علمی معیار بھی زمین سے ملا دیا۔داخلی شیرازوں کے شعبوں میں صرف مذہبی خانہ جنگی نہیں ہے۔ شیعہ سنی اور وہابی گروہ میں بٹی یہ قوم آگے اور دس سے زائد جماعتوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔ پھر اس کی سماج تقسیم ہوتی ہے۔ذات اور برادری کی تقسیم الگ سے ہے۔ ان سبھی خانوں میں مالی مضبوطی اور سیاسی طاقت کی لکیریں بھی کھیچی جاتی ہیں۔اب ایسے میں جب کہ اس قوم کے پاس دانشوری کے نام پر محض آٹے میں نمک کے برابر افراد ہوں اور وہ بھی اس اندرونی تقسیم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں برابر کے کارکن بھی ہوں، تو اب اس قوم کی نگہبانی کون کر سکتا ہے۔قوم کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی بھی صرف اپنے امام کی سنتی ہے۔ مانتی کتنا ہے یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن چونکہ اسی سے ڈرتی ہے اس لئے اسی کی سنتی ہے۔ دور حاضر میں قوم کے ذمہ دار عہدوں میں سب سے اہم، نازک اور ہمہ جہت ذمہ داریوں پر مشتمل شعبہ امامت کا ہے۔ افسوس کہ یہ شعبہ آج کی تاریخ میں دیگر اہم شعبوں کی طرح وجدان اور حکمت و دانشوری سے خالی ہے۔دوسرا بڑاشعبہ دانشوروں کا ہے۔ جس کے پاس وجدان بھی ہے اور حکمت بھی ہے۔ دنیا اور اس کی سیاست کو دیکھنے، پرکھنے اور اس کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔علم اور تجربہ سب کچھ ہے لیکن اس کے پاس قوم نہیں ہے۔نہ یہ عوام کو جانتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی انہیں جانتا ہے۔یعنی جو عوام سے جڑا ہے، اس کے پاس وژن نہیں ہے اور جن کے پاس وژن ہے، ان کے پاس عوام نہیں ہے۔ ان دونوں کی آپسی حالت یہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف کفرو ایمان کے نظریے لئے بیٹھے ہیں۔
اہل علم و دانش کے مطابق قوم کا سب سے بگڑا ہوا ذمہ دارطبقہ آج کی مذہبی برادری ہے۔ ان کے پاس جو علم اور تجربہ ہے، ا س کی روشنی میں وہ صحیح ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں ایسے چندہ خوروں کو ضرور دیکھا ہوگا جو بغیر مسجد و مدرسہ کے چندے کا دھندہ کرتے ہوں۔ یا ۵۰،۶۰، یا ۷۰ فیصد پر چندہ کرتے ہوں۔ ایسے سیکڑوں مدارس دیکھیں ہوں گے جہاں کا علمی معیار اور رویہ نہایت ہی قدیم ہواور آج کے دور کے مطانق وہاں کی قدامت پرستی موافق حال نہ ہو۔اس سے بڑھ کر بھی چیزیں تسلیم کی جاسکتی ہیں۔یقیناًاس طبقہ کے اکثریتی افراد فکری طور پر معزور ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے مختلف و متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔کچھ مناسب تو کچھ غیر مناسب ہو سکتی ہیں۔لیکن وجدان کا بحران ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کیوں کہ یہ سچ ہے کہ کئی مدارس و مساجد ذاتی انانیت اور کم علمی کی وجہ سے جہالت کا مرکز بن چکے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری کمیوں کے باوجود یہ لوگ قوم سے جڑے ہیں۔ ان کے پاس جتنا علم ہے اور جتنی سوچ ہے، اس کے مطابق کام کر رہے ہیں۔کم از کم اتنا تو ہے کہ قوم کو کسی موہوم سی ہی صحیح لیکن امید تو دئے ہوئے ہیں۔ اسی امید کے سہارے قوم آہستہ آہستہ آگے کھسک رہی ہے۔ایک مولوی اگر آسائشیں لیتا ہے۔ چندے کا کاروبار بھی کرتا ہے لیکن ایک وہی ہے جو قوم کی ضرورت پر اس کے ساتھ ہوتا ہے۔لاکھوں روپئے خرچ کرنے کی حالت میں اگر چہ نہیں ہے۔لیکن رات کو بارہ بجے بھی اگر کوئی بیمار پڑتا ہے، تو مولوی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا کر پانی دم کراتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ وہ شفایاب ہو جائے گا۔بچے کی پیدائش سے لے کر نکاح اور موت تک ایک مولوی کہیں نہ کہیں لگا رہتاہے۔ایک امید قائم کئے رہتا ہے۔
وہیں دوسری طرف دانش ور طبقہ بھی قربانیوں کے معاملے میں پیچھے نہیں رہتا۔ دسیوں برس تک دنیا اور اس کی آسائشوں سے بے نیاز ہوکر کتابوں اور لائبریریوں کو ہی اپنی دنیا بنا لیتاہے۔سارے تعلقات سے رشتے ختم کر کے بس علم ہی اسکی دنیا، رشتہ اور تعلق ہوتا ہے۔بیس برس کے اس مجاہدے کے بعد اسے دنیا کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کا نظریہ ملتا ہے۔ان برسوں میں چونکہ سارے رشتے منقطع ہوگئے ہیں۔اس ضروری فکر تک آگہی اور شعوری بے داری کے
لئے یہ سب ضروری تھا۔ اب اس کی عملی نمائش کے لئے ضروری ہے کہ اسی معیار کا انسان ہو جس سے اس طرح کی گفتگو کر سکے۔اس لئے وہ سیمینار کی دنیاسے بندھ گیا۔وہاں کا تو بادشاہ ہے لیکن باہر نکلتے ہی اسے کوئی نہیں جانتا۔قوم کے مزاج کی سمجھ ہے۔ اس کے در پیش مسائل سے آگاہ ہے۔ اس سے نپٹنے کے لئے اس کے پاس حل بھی ہے لیکن معذور ہے۔ قوم تک پہنچانے کے لئے اس کے پاس آواز نہیں ہے۔ وہ آواز مسجد کے امام کے پاس ہے اور دونوں کی ایک دوسرے سے بنتی نہیں ہے۔
حالانکہ اس طرح کی دوریاں اکثر ہر دور میں رہی ہیں۔ لیکن اسے ختم کرنے کے لئے خدا نے قوم مسلم کو ایک اور طبقہ عطا کر رکھا ہے۔ جسے ہم صسوفی، سنت ،فقیر یا درویش کتہے ہیں۔جس کے توکل کا عالم یہ ہوتا تھا کہ رات کو گھڑے کا پانی ختم کر کے سوتے تھے کہ رزق دینے والنے کو ہماری ضرورتوں کی خبرہے۔یہ طبقہ سب کے لئے خاص اور سب میں سب سے مقبول طبقہ تھا۔ اس کاکام ہی یہی تھا کہ مختلف شعبوں کے درمیان بڑھی ہوئی دوریوں کو حکمت و دانائی سے کم کر دینا۔مال داروں کے مال کو غریبوں اور ضرورت مندوں تک پہنچانا اور اہل علم و فکر کے افکار و نظریا ت کو قوم کے مستعد ذمہ داروں تک پہنچانا۔اس سے ہر شعبے میں ہم آہنگی بنی رہتی تھی۔ سارا کام ہوتا تھا۔اس طبقہ پر بھی کسی کی بری نظر پڑ گئی اور یہ بھی ذمہ داریوں سے بھٹک گیا۔
اب صورت ایسی ہے کہ گھر کے سارے افراد، گھر میں کھانے کا سارا سامان ہونے کے باجود بھوک سے مر رہے ہیں کیونکہ سارا سامان بکھرا ہوا ہے۔ کوئی سمیٹنا نہیں چاہتا۔ سب ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے پر لگے ہوئے ہیں یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہے۔ اب یہ سب تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سب ہماری طرف سے ہے، تو بھی کیا کیا جائے؟
ہم پلٹ کر پھر وہیںآتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ کی اچھائی اور برائی میں اس شعبہ کے سبھی افراد کو شامل مان کر، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر ہر ایک کو اقدامات کرنا چاہئے۔سبھی شعبوں میں سے کچھ تو ایسے افراد ضرور ہوں گے جنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ یقیناًابھی بھی اسیے لوگ ہیں۔ بس ان کی نشان دہی کرنے کے بعد انہیں کام شروع کردینے کی ضرورت ہے۔ہر آدمی اگر یہ سوچنے لگے کہ ہمیں ساری دنیا کو بدل کر رکھ دینا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرے ادا کرنا اور دوسروں کو متاثر کرتے رہنا یہی بدلاؤ کی شروعات اور اس کی منزل ہے۔شروعات خود سے کرنی ہوگی۔ اگر اپنے آپ کو ذمہ دار مان کر زمینی سطح سے کام شروع کر دیا جائے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔اب اگر آج پیڑ لگا کر کل پھل کھانے کی تمناہو تو ایسے خوابوں کا دیکھنا جرم عظیم ہے۔
سیدھا سا فارمولہ ہے۔کسی کے لگائے ہوئے درختوں کے سائے اور اس کے پھلوں کامزہ لینے کے بعد ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے بدلے میں باغ لگایا جائے تاکہ اس سائے اور پھلوں سے آنے والی نسل مستفید ہو سکے۔اس تنازع کو ختم کرنے کا یہ آسان طریقہ قوم کو مزید بھیانک تباہیوں سے بچا سکتا ہے۔
ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کا شکار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اندیشہ تو یہ ہے کہ دونوں ہی طبقے اپنی بساط اور وقار و اہمیت کھو دیں گے۔ جس دن ایسا ہوگا قوم کو اس کی مکمل بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان حالات کے باوجود امیدیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ مدھم مدھم کشاں کشاں روشن بھی ہو رہی ہیں۔مدرسوں سے فارغ ہو کر یونیورسٹی کا رخ کرنے والی نسل پر رواں دور میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنی روایت اور اسلاف کی وراثت سے بھی واقف ہیں اور جدید دور کے تقاضوں سے روزانہ رو بہ رو بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں دونوں ہی شعبوں کو اس نئی نسل کو بڑھا وا دینا چاہئے تاکہ امید کے ان ستاروں کو چاند سورج میں تبدیل کیا جا سکے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
Facebook: https://www.facebook.com/raeba rely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid0 7
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@




No comments:
Post a Comment