بی جے پی کی مسلم خواتین پر مہربانی
عبد المعید ازہری
مسلم خواتین کی نمائندہ سیاسی پارٹی بی جے پی نے آخر کار اپنی سیاسی منشا کی تکمیل کی اور طلاق ثلاثہ کے مخالف بل کو لوک سبھا میں پیش بھی کر دیا اور اپنی حامی جماعتوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے اسے پاس بھی کر دیا۔ بڑی حریف جماعتوں نے زیادہ مخالفت کی کوشش نہیں کی۔ کچھ نے ہمت نہیں دکھائی شاید باقی نہیں رہی اور کچھ نے احسان کا بدلہ چکا دیا۔میڈیا اپنا کام بڑی ایمانداری سے کر رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے سے مظلوم خواتین کی فہرست تیار کر رہی ہے اور انہیں ٹی وی کیمرا کے سامنے لا کر ان کے حق میں کئے گئے انصاف کی چرچا کرنے میں مصروف ہے۔مسلم حلقوں میں کچھ بے مطلب کی سی بے چینی ہے۔ کچھ زبانی مظاہرے ہیں جو دو چند روز میں سر د ہو جائیں کے۔ وہ معزور بھی ہو سکتے ہیں یا ان کی اپنی کوئی مجوری بھی ہو سکتی ہے۔کچھ دانش وروں نے سوال اٹھائے ہیں ۔ بڑی باریکی سے طلاق ثلاثہ کے متعلق پاس کئے گئے بل کو دیکھا اور اس پر غور کیا اور چند غور طلب پہلؤں کو اجاگر کیا۔ بند کمروں میں ان کا اظہار جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج اور تائید مسلسل جاری ہے۔ اس وہم محض کے ساتھ کہ ہم اس سوشل میڈیا کے توسط سے جنگ جیت لیں گے۔ٹی وی پر بحث کا موضوع آج کل کافی ٹی آر پی بڑھا رہا ہے۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے علماء اور سیاسی قائدین کی جنگ بھی جاری ہے۔ یہ بھی شاید سچ ہے کہ وہ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ کم از کم اسی بہانے ٹی وی کے ذریعے اس سوئی ہوئی غافل قوم کے اندر ان کی اپنی ساخت بن جائے گی کہ انہوں نے قوم کے حق میں ٹی وی چینلوں پر کتنے ہی بحث کر ڈالے۔
اخباروں، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیاکے ذریعے ملی خبروں کے مطابق بل میں کچھ کمی رہ گئی ہے یا کر دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم خواتین کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی بی جے پی نے آخر ملک کے اتنے سنگین مسائل مثلا، بے روزگاری، عام خواتین کی عصمت دری، کسانوں کی خودکشی،فرقہ پرست طاقتوں کی آئین دشمنی کو چھوڑ کر آخر مسلم خواتین کے ذاتی و مذہبی مسئلے میں دلچسپی لینے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ حالانکہ ملک کے مکھیا ہونے کے ناطے کسی بھی وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے ہر باشندے کا خیال رکھے اس کے تحفظ اور حقوق کی ادائگی کے ساتھ اس کے ساتھ انصاف اور برابری کے سلوک کو یقینی بنائے۔اس لحاظ سے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مسلم خواتین کے تئیں اقدام کی فکر کی۔ لیکن اس اقدام میں خود آئین کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے کہ کیونکہ ملک کا آئیں کسی بھی شخص کو اس کی مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اس بل کے مطابق اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایک بار میں تین طلاق دے دیا تو اسے تین سال کی سزا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی تین طلاق واقع بھی نہیں ہوں گی۔ وہ ایک ہی مانی جائے گی۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی دی جائے گی۔ شیعہ اور اہل حدیث کے یہاں پہلے سے ہی یہ نظام ہے کہ تین ہو یا تین سو یا اس بھی مزید چاہے جتنی طلاقیں دی جائیں ایک بار میں صرف ایک طلاق ہی وقع ہوگی۔ تو ایسے میں کوئی قانون یا بل لانے کی کیا ضرورت تھی۔
تین طلاق کے بعد بھی وہ بیوی ہی رہے گی یہ الگ بات ہے۔ طلاق دینے والا جیل بھی جائے گا اور بیوی اور بچوں کا خرچ بھی اٹھائے گا۔تین طلاق کے ثبوت کا حق بھی عورت کو ہوگا۔ جیسے کہ جہیز کے خلاف عورت کو خصوصی اور رعائتی حق حاصل ہے۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے خلاف جہیز کا کیس درج کرا دیا تو شوہر سے پوچھے بغیر اور اس سے اس بابت کوئی بھی سوال جواب کئے بغیر اسے پہلے جیل میں بھیجا جائے گا اس کے بعد ہی کوئی پوچھ تاچھ کی کارروائی ہوگی۔ اب اس معاملے میں آج کے حالات کیا ہیں سب کے سامنے ہیں۔
جب سے یہ طلاق کا مدعیٰ اٹھا ہے تب سے ایک بات بڑے تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں ، ان کے نمائندوں اور ٹی وی چینلوں کے ساتھ اخبار والوں نے اب تک کسی طلاق دینے والے کو بلا کر اس سے اس کے طلاق دینے کی وجہ نہیں پوچھی۔ جن خواتین کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو تو دکھایا گیا لیکن کس نے کیوں ایسا کیا اس معاملے تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اب تک جن خواتین نے اس معاملے میں اگوائی کی ہے ان میں سے اکثر کا کسی بھی گروہ میں یقین ہونا یقینی نہیں ہے۔ سرے سے وہ کسی نظام کو نہیں مانتی تو ان کے لئے ایک، دو یا تین طلاق کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔اس معاملے میں شروع سے ایسے کردار گڑھے گئے ہیں کہ معاملہ کو اتنا پیچیدہ بنا دیا جائے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنے اور بولنے سے پہلے لوگ پس وپیش کا شکار ہو جائیں۔
طلاق ثلاثہ، لو جہاد اور گؤ رکشا کے مدعوں سے اپنی سیاسی ناکامی پر پردہ ڈالا گیا تھا وہ آج تک بدستور جاری ہے۔ترقی اور روزگار کی ناکامی اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی نااہلی کی پردہ پوشی کے لئے یہ مذہبی کارڈ انتخاب کے دنوں سے لے کر اب تک چل رہا ہے۔اس کارڈ کو مسلمانوں نے ہی آسان کر دیا ہے۔ابھی حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے گھوٹالے 2Gکے بارے میں کورٹ کا ایک فیصلہ آیا اور کئی ملزمین کے اوپر سے الزام ہٹایا گیا اور سبھی کو بے گناہ قرار دیا گیا۔حالانکہ اس گھوٹالے کے بارے میں انکشاف کرنے والی ایسی ایجنسیا بھی ہیں جو ملک میں اساس کا درجہ رکھتی ہیں۔اب ان کا بھی یقین داؤں پر لگ گیا ہے۔ حالانکہ جس طرح بی جے پی حکومت کی دیکھ ریکھ میں یہ اے راجہ کے علاوہ دیگر ملزمین کو ایک عرصے کے بعد انصاف ملا اسی طرح اگر چہ کانگریس بی جے سے ناراض اور اس کی سخت مخالف ہو اس کے باوجوس لوک سبھا میں اس نے بی جے پی کی جانب سے طلاق ثلاثہ سے متعلق بل کی زیادہ مخالفت نہیں کی کیونکہ اسے بھی لگا یہ بل درست ہے۔
یوپی کی بی جے پی حکومت نے جب اپنا تعلیمی بل پیش کیا تو اس میں لوگوں نے حکومت کی قابلیت اور اہلیت کو پہچان لیا اور ہر طرف سے لوگ اس کے متعلق بحث اور چرچہ کرنے لگے۔ حکومت کو لگا کہ اس کی پالیسی کی کافی چرچہ ہو رہی ہے اس لئے اس نے موضوع بدلنے کے لئے گو کشی کو بند کرنے کا اہم اعلان کیا اور کیونکہ یو پی کی ترقی کا سب سے بڑا روڑا یہی تھا۔ غیر قانونی بوچڑ خانوں کو آن کی آن میں بند کر دیا گیااور ریاست ترقی کی راہوں پر چل پڑا۔ رہی سہی کسر لو جہاد اور گو رکشک دلوں نے پوری کر دی۔ چونکہ حکومت انصاف نہیں کر پا رہی تھی۔ اس لئے ان لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینا پڑا اور ملک کے کونے کونے میں انہوں نے حکومت کی پشت پناہی میں انصاف خانے کھول دئے۔
امید ہے ایسا ہی چلتا رہے گا۔ ایک دن آئے گا جب ریاستوں کو حکومت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Emai: abdulmlid07@gmail.com, Contact: 9582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment