Friday, January 26, 2018

Global Peace Movementवैश्विक शांति संवादبین الاقوامی امن کی کوشش


بین الاقوامی امن کی کوشش ایک اہم اور ضروری اقدام

عبد المعید ازہری

دہلی کی شاہی جامع مسجد سیاسی، سماجی اور مذہبی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔ اس کی شہرت کا تعلق جہاں اس کی دیدہ زیب تعمیر اور دیواروں، گنبدوں اور پتھروں پر کی گئی نقاشی ہے وہیں دوسری طرح کچھ اہل دل کی عقیدت کا مرکز جامع مسجد کی دائیں جانب واقع ایک درگاہ ہے۔ جسے درگاہ آثار شریف کہتے ہیں۔ جو اپنی قدر و منزلت اور پاکی طہارت کی بنیاد پر بین الاقوامی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔درگاہ آثار شریف کی اہمیت و فضیلت متعدد کتابوں اور رسالوں میں بقید تحریر ہے۔ اس درگاہ میں حضرت علی، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے مقدس ہاتھوں سے لکھے گئے قرآن پاک اور ان کے اجزاء ہیں۔ نقش پائے نبی،حضور اکرم کے داڑھی مبارک کا بال مبارک،نعلین مقدس کے علاوہ دیگر تبرکات ہیں جو مغلوں کے دور میں شاہی خزانے میں برکات و حسنات کے طور پر رکھے گئے تھے۔ خزانوں میں ان تبرکات کے رکھنے کے پیچھے نیت یہ تھی کہ ان کی پاکی کی وجہ سے خزانے میں برکت ہوگی اور آسیب بلیات اور لوٹ مار سے محفوظ رہیں گے۔ یہ تبرکات خلفاء بنو عباس، شاہان سلاجقہ اور خلفاء عثمانیہ کے گھرانوں سے ہوتے ہوئے آل تیمور میں آئے۔ اور شہنشاہ ہمایوں کی معیت میں ان اسلاف کے ساتھ ہندوستان آئے جو سادات حسنی حسینی تھے۔ جب شاہ جہاں نے جامع مسجد کی تعمیر کی تو ان تبرکات کی نگرانی خواجہ محمد قیام الدین المعروف خواجہ محمد عرب حسنی حسینی کو دے دی گئی۔تاکہ عوام بھی ان فیوض و برکات سے فائدہ حاصل کر کر سکیں۔ اس درگاہ کی نگرانی صدیوں سے اسی سید خاندان کے ذمہ ہے ۔ جو آج بھی کئی نسلوں سے اس ذمہ داری کے فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ اس خاندان کو خصوصی طور پر ان باقیات و تبرکات کی نگہ داشت کے لئے بلایا گیا تھا۔ پاک آثار کے لئے پاک ذات کا انتخاب عین فطرت کے مطابق ہے۔
اس خاندان سے صرف درگاہ آثار شریف کی زیارت ہی تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اپنی موروثی خدمات سے بھی امت محمدیہ کو روشناس کرایا۔ چونکہ دہلی اپنی تعمیرات اور اردو ادب کے ساتھ ساتھ تصوف کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ تقریبا ۲۲ خواجگان کی وابستگی اس دہلی کو حاصل ہے۔ اسی لئے اسے تصوف اور صوفیا کے مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس تصوف کا اثر دہلی کے باقی تمام آثار پر بھی مرتب ہوا۔ چونکہ مرزا غالب نے بھی اپنے انداز میں بات کہی کہ’’ یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب، تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘۔آثار قدیمہ میں بھی اس کے اثرات واضح ہیں۔ اب چونکہ تصوف کی ندیاں خاندان اہل بیت سے ہی جاری ہوئی جس کے ماخذ مولائے کائنات ہیں۔ انہیں کا ایک سرچشمہ سرزمین ہندوستان میں حضرت سید معین الدین چشتی ؑ کے نام سے جاری ہوا جس کے تبلیغی اور ایمانی پانی سے سبھی ہندوستانی مسلمان بحرہ ور ہوئے۔ جب کبھی بھی تصوف کا نام لیا جائے گا تو اس کے اعمال میں ذاتی ذکر و اذکار کے ساتھ ہی سب سے زیادہ جس چیز کو اہمیت دی گئی ہے وہ ہے خدا کی مخلوق کی خدمت۔ پیغمبر اسلام کے دور سے لیکر بعد کے خلفاء اور امراء کے دور تک اور اس کے بعد بھی سبھی صوفیا کے دور میں یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ ان صوفیوں نے الگ الگ طرح کی محفلیں قائم کی تاکہ اس میں شامل ہونے والے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔ انہیں کھانا کھلائیں، پانی پلائیں اور فرصت و سکون کے چند لمحے گزارنے کے مواقع فراہم کر سکیں۔ ہندوستان بھر کی خانقاہوں میں لنگر کا نظام اسی کی سنت ہے۔صوفیوں نے خانقاہیں بنائیں۔ دور دراز کا سفر طے کر کے لوگ ہفتہ دو ہفتہ سے لیکر مہینوں تک رہتے تھے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ کیونکہ زائرین کی زندگی میںیہی وہ جگہ ہوتی تھی جہاں نہ تو ان کی ذات پوچھی جاتی تھی اور نہ ہی ان کا مذہب اور ان کا نام دریافت کیا جاتا تھا۔ اسی لئے یہاں ہر وقت زائرین کی بھیڑ ہوتی تھی۔کھیتی بھی خود ہوتی تھی۔ کاشت کاری کے بعد خود ہی بناتے تھے اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو کھلاتے بھی تھے۔ اس کے بعد صوفیوں کی محفلوں میں بیٹھ کر قلبی اور روحانی سکون بھی پاتے تھے۔
ان صوفیوں نے ہر طرح کے مراکز قائم کئے۔ علمی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی مراکز کے ساتھ متعلقہ محفلیں قائم ہونے لگیں۔ ہر میدان کی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی رہی۔سبھی محفلوں میں ایک بات مشترک ہوتی تھی۔ وہ تھی نفرتوں کے خلاف محبتوں کی فضا کا قیام کرنا۔کیونکہ ماحول بندی وقت طلب کام ہے۔ اس لئے اس کی زیادہ ترغیب دی جاتی تھی۔ مذہبی، معاشی اور سماجی منافرت ختم کر کے یکجہتی، ہم آہنگی اور بقائے باہم کی روایتیں قائم کرنے کی تعلیم و ترغیب دی جاتی رہی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے سے وہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی اسے خود ہم مذہب و ہم خیال نے شرک و بدعت کے نذر کردیا تو کبھی مغربی تہذہب نے اس کی روح ختم کردی۔ لیکن ابھی تک وہ سلسلہ وار روایتیں خانقاہوں میں برقرار ہیں۔
درگاہ آثار سوسائٹی کے زیر اہتمام اس خانوادے نے درجنوں نے علمی و تبلیغی مراکز قائم کئے۔فروغ تصوف اور امن کی تبلیغ کے لئے ہر سال مولد نبوی شریف کا انعقاد کرتے ہیں۔ بین الاقوامی شخصیات مدعو ہوتی ہیں۔ ملکی سطح پر تشددو نفرت کے خلاف امن و محبت کے قیام کی باہمی کوششیں ہوتی ہیں۔گذشتہ سال انہوں نے ملک میں ایک تاریخی کیلیگرافی کا بین الاقوامی مقابلہ کرایا تھا۔ جس نے دم توڑتی ثقافت اور ہنر کو یکسر سہارا دیا۔ہفتہ وار اور مہینہ وار اجتماعات کے ساتھ موقعہ بہ موقعہ ایسی مذہبی اور سماجی اجلاس کا قیام کیا جس میں غریبوں کی تن پوشی کے لئے کپڑے، خوردونوش کی اشیا ء تقسیم کئے۔ بچوں کی بنیادی تعلیم کے لئے درجوں مکاتب قائم کئے۔
روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس سال بھی آنے والی 14دسمبر کو ایک بین الاقوامی میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا جانا ہے۔جس میں ترکی، مصر، ملیشیاء، سینیگل اور ترکمینستان ودیگر ممالک کے مندوبین کی آمد ہوگی۔نفرت سے بھرے اس سماج کو پھر سے کیسے امن و محبت کا گہوارہ بنایا جائے اس پر بات ہوگی۔ ملک میں قیام امن کے لئے کئی ممالک ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔
یہ وقت ہے جب تمام امن پسند افراد کو ساتھ ہونا چاہئے اور اس طرح کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنانے میں ہر طرح کا تعاون پیش کرنا چاہئے۔تشدد و نفرت کو ختم کرنے کے لئے تصوف اور محبت کو عام کرنا ہی ہوگا۔ ہر امن پسند انسان یوں تو اپنے اپنے طورپر کوشش کرتاہے لیکن اسے اجتماعی شکل دے کر مزید موثر بنانے کے لئے اس طرح کے موقعوں پر کھڑے ہونا اور کوشش کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا نہایت ہی اہم ہے۔


Abdul Moid Azhari

(Journalist, Motivational Speaker/Writer, Translator, Trainer)
+919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment