بین المذاہب شادی اور تبدیلی مذہب پر سیاست
ایک سوال بار بار کیا جاتا ہے کہ جب دو لوگوں نے آپس میں نکاح کے پاک رشتے میں جڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر اس کے لئے تبدیلی مذہب کی ضرورت کیوں کر پڑ جاتی ہے۔سوال کافی اہم ہے۔ جواب میں کئی فلسفوں کی ضرورت درکار ہو سکتی ہے۔اگرچہ اس طرح کی شادیوں کی کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست بھی ہے، جس میں سیاسی شخصیات، فلمی دینا کے اداکاران کے علاوہ قومی لیڈران کی شادیاں شامل ہیں۔لیکن اس سکے کا دوسرا پہلو متعدد فرقہ وارانہ فسادات سے پر بھی ہے۔جو لو جہاد یا گھر واپسی کے نام سے ہوئے ہیں۔چونکہ کچھ بین المذاہب شادیوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہنگاموں کا ایک الم ناک پس منظر ہمارے سامنے ہے، اس لئے اس مسئلے کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور عوامی بات چیت درکار ہے تاکہ مزید مذہبی نفرتوں اور عدم رواداری کے واقعات سے گریز کیا جا سکے۔کمیونٹی کے لیڈران اور دیگر با اثر افراد کی ذمہ داری ہے کہ دو قوموں کی اپنی ذاتی دلچسپیوں کے جذبات کو مشتعل نہ کریں۔ جس کی وجہ سے علیحدگی اور فرقہ واریت مزید تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔اس کے لئے خواہ کورٹ کی شادی کا راستہ اختیار کیاجائے یا پھر مذہبی رسومات ادا کی جائیں۔من مرضی شادی ہو یا بین المذاہب رشتہ یہ دو لوگوں کی اپنی پسند ہے۔ اسے کسی مذہب یا سماجی روایت سے جوڑ کر فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینا بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شخص اس طرح کے اقدامات کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے مذہب کے اصول اور سماج کی روایتوں کو ٹھکراتا ہے اور اپنے آپ کو کسی بھی سماجی و مذہبی بندھن سے آزاد کرلیتا ہے۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/raeba rely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid0 7
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment