Friday, January 26, 2018

भारतीय संस्कृति, सूफी और दरगाहIndian Culture, Sufis and Shrinesہندوستانی تہذیب، صوفیا اور درگاہیں


ہندوستانی تہذیب، صوفیا اور درگاہیں

عبد المعید ازہری

دنیا کے قیام سے لے کر جاری دور تک ہزاروں تہذیبوں نے جنم لیا اور بے شمار ثقافتیں دنیا میں آئیں۔ ان کے اپنے اثرات رہے ۔ صدیاں گذر گئیں اور ان کے ساتھ ہی کئی تمدن اور ان سے وابستہ روایتیں ختم ہو گئیں۔یہاں تک کہ ان کے اثرات بھی باقی نہیں رہے۔ لیکن ہندوستانی تہذیب دنیا کی ان مخصوص روایتوں میں سے ایک ہے جو ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود باقی ہے۔ زندہ و جاوید ہے۔ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ اس تہذیب کے باقی رہنے اور اس کی سالمیت کی بنیادی وجہ یہ کہ اس ثقافت میں قبولیت، یکجہتی، بقائے باہم اور آپسی میل جول اس کے بنیادی عناصر میں ہیں۔ ملک کی قدیم تاریخ سے لے آج کی موجودہ شکل و صورت تک ملک کے دامن سے وابستہ سبھی تہذیبیں زندہ و جاوید ہیں۔ہندوستانی تہذیب کا ایک بے مثال عنصر یہ بھی ہے کہ اس ملک نے ہر تہذیب اور رویات، مذہب و رسومات کو یکساں جگہ دی۔ ایک ساتھ ملک بھر کی پھیلی ہوئی وسیع و عریض زمین پر اپنے اپنے عقائد و نظریات کے مطابق جبیں بوسی، سجدہ ریزی اور دل وارفتگی کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس ملک نے ہمیشہ سے ہی دو روایتوں کی حفاظت کی ہے اور یہی اس ملک کی ایک الگ شناخت بناتی ہے۔ یہ ملک مذہب کا گرویدہ ہے۔ یہاں مذہبی وابستگی کسی دوسرے ملک کے مقابل زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے اسلاف کے طور پر یہاں کے صوفی سنت اور فقیروں کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہی اس ملک بانی، مبانی، فلاسفر اور رہنما ہیں۔ اسی لئے اس ملک کو صوفیوں کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے مذہب کی مذہبی روایات و عبادات کو اپنے تشخص میں برقرار رکھتے ہوئے ملک کی تہذیب کو ایسی بلندی عطا کی جہاں مذہب، ملت، ذات اور برادری کے نام پر کسی بھی طرح کی غیریت، تعصب اور نفرت و حسد نہیں ہے۔ملک کی قدیم تاریخ سے لیکر جدید توضیح تک اس روایت کو باقی رکھا گیا۔ ملک میں حکومت کرنے والوں کے دور اور دن بدلتے گئے۔ نئی تہذیب اور روایتوں کے پروردہ اشخاص نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ لیکن سب نے ہندوستانی تہذیب اور اس کی مسلسل روایت کو کھونے نہیں دیا۔یہ ملک اپنے مذہب میں یقین اور دوسرے مذہب کے احترام کے لئے جانا جاتا ہے۔ہر گھر میں مذہب موجود تھا اور ہے لیکن گلیوں محلوں اور ملک کے کونے کونے میں انسان اور صرف انسان نظر آتے تھے۔ یہی ہم ہندوستانیوں کا قومی اور ملکی سرمایہ ہے۔ شاید آج اس دولت کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں اور فقیروں کے مسکن، ان کی تعلیمات اور ان کی سماجی خدمات کو یکساں طور پر انسان دوستی کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ آج بھی درگاہوں پر آنے والے زائرین اور عقیدت مندوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر طبقہ کے لوگ آتے ہیں یا یوں کہیں کہ لوگ اپنی ذات، برادری، مذہب و ملت گھر چھوڑ کر انسان کے طور پر آتے ہیں۔یہاں اہل دولت و ثروت اور صاحب اثر رسوخ بھی فریادی ہوتے ہیں۔سیکڑوں کی سیکیورٹی والا شخص بھی درگاہ کے احاطے بھر میں ننگے پیر گھومتا ہے اور دن بھر محنت اور مزدوری کرنے والا ایک عام انسان بھی اس کے برابر میں کھڑا ہو کر اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتا ہے۔ ان صاحب درگاہ صوفیوں نے اپنی پوری زندگی انہیں اعمال وافعال اور کردار و اخلاق کی تعلیم دی ہے۔قومی یکجہتی، سماجی رواداری، انسان دوستی اور اخوت و مساوات کی زندہ مثالیں ان درگاہوں کے علاوہ بڑی مشکل سے ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی عدم رواداری، مذہبی منافرت، فرقہ واریت یا انسان دشمنی جیسے افکار و نظریا ت کو فروغ دے کر انانیت اور بد عنوان سیاست کا آغاز کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے ملک کی اس قدیم تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہب اور اس کی روایتوں میں شکوک شبہات داخل کر دئے جاتے ہیں۔ اچانک سے ان روایتوں کو جھٹلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا سب بڑا رزولیوشن یہی ہے کہ اگر دنیا کو نفرت و تشدد اور مذہبی فرقہ پرستی سے آزاد کرنا اور رکھنا چاہتے ہیں تو صوفیا کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔ یوں ہی اگر مزید فساد اور انتہا پسند چاہتے ہو تو درگاہوں اور سنت فقیروں کی روایتوں کو یکسر جھٹلا دو۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ صوفیوں نے ہمیشہ انسان کو ملانے اور ان میں آپس میں محبت اور بھائی چارگی قائم کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کی ایک مثال دہلی میں واقع چشتی سلسلے کے ایک عظیم بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؓ کی درگاہ ہے۔ یہ درگاہ دہلی کے مہرولی میں واقع ہے۔ یہاں ہر سال پھولوں کی سیر کے نام سے ایک میلا لگتا ہے۔ جسے نہایات ہی تزک اہتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہندو، مسلم سبھی لوگ اس میں بخوشی شامل ہوتے ہیں۔اس موقعہ پر مہرولی میں ہی واقع یوگ مایا مندر اور درگاہ قطب پاک پر پھولوں کی خوشبودار چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میلے میں مختلف رنگ و خوشبو کے پھولوں سے الگ الگ طرح کی کی چیزیں مثلا، پنکھا ، چادر وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔اس روایت کی شروعات مغل بادشاہ اکبر شاہ دوم کے دور حکومت میں بادشاہ کی بیوی ممتاز محل نے شروع کی تھی۔بادشاہ کے شہزادے مرزا جہانگیر کے برٹش ریزیڈنٹ سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انگریزوں نے شہزادے کو الٰہ آباد جیل میں بند کردیا۔ بیٹے کی محبت میں ممتاز محل نے منت مانی کہ بیٹے کی رہائی پر وہ صوفی درویش خواجہ قطب پاک کی درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گی۔بیگم کی دعا جلد ہی قبول ہو گئی۔انگریزوں اور مغلوں میں صلح ہوئی۔مرزا جہانگیر رہا کر دئے گئے۔اس موقعہ پر سلطنت کے باشندوں نے خوشی میں درگاہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ اور یوگ مایا مندر کو پھولوں سے سجا کر تین دن تک خوشیاں منائیں۔یہ ہندوستانیوں کی مذہبی وابستگی اور مذہبی احترام ہے کہ انہوں نے اپنی خوشی میں بھی اپنی مذہبی رویات کو برقرار رکھا۔ ایک دوسرے کا برابر احترام کیا۔
آج بھی یہ میلا انجمن سیر گل فروشاں سوسائٹی کے ذریعے منعقد کیا جاتا ہے۔ لوگ درگاہ پر حاضری دے کر اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کی تہذیب سے محبت کو پختہ کرتے ہیں۔


Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment