Friday, January 5, 2018

तीन तलाक़ बिल: मुस्लिम विद्वानता पर प्रश्न चिन्हتین طلاق بل: مسلم دانشوری پر سوالیہ نشانTriple Talaq Bill:Question mark on Muslim intelligence


تین طلاق بل: مسلم دانشوری پر سوالیہ نشان
عبد المعید ازہری

لوک سبھامیں تین طلاق کو پابندکئے جانے کے متعلق بل پیش ہو کر پاس بھی ہو گیا۔ البتہ ابھی راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہونا باقی ہے۔بل کے مختلف پہلؤں پر متعدد باتیں بھی عوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آچکی ہیں۔حالات ایسے بنا دئے گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ملک بھی یہی چاہتا ہے کہ اس بل کو پاس ہی کیا جانا چاہئے تھا۔پھر کچھ نادان مسلمان نہ جانے کیوں مظاہر ہ، مخالفت اور ضد پا آمادہ ہیں۔ کیا ان کا یہ احتجاج، مظاہرہ یا ضد اس بل کے پاس یا رد ہونے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ جس کا ابھی تک کوئی معقول جواب موصول ہونا باقی ہے۔کچھ مسلمانوں اور اکثر ہندوستانیوں کا یہ خیال ہے کہ بی جے پی واضح طور پر ایک مذہبی اور نظریاتی پشت پناہی میں کام کرنے والی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ مسلمانوں کی کھلی مخالف ہے۔ بی جے پی نے اسے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے مسلم خواتین کے حق میں آواز بلند کی اور تین طلاق کے ذریعے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف پارلیا منٹ میں ایک بل پاس کر دیا۔بی جے پی کی یہ مسلم دوستی کتنا سیاسی اور کتنا سماجی ہے، اس کے لئے حق شناس اور حق گو انسان درکار ہیں۔ جو اس وقت تقریبا معدوم ہیں۔ لیکن بی جے پی حکومت کے اس اقدام کے بعد کیا اس کی امید کی جائے کہ بیس لاکھ سے زائد ہندو خواتین کے لئے بھی حکومت کوئی اقدام کرے گی جنہیں بے گھر اور بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ ان کی صورت تو ان مسلم خواتین سے بھی بدتر ہے کہ وہ دوسری شادی بھی نہیں کر سکتیں۔ کیا یہ حکومت ان خواتین کو انصاف دلانے کے لئے کوئی اقدام کرے گی یا صرف انہیں ملک کے اس خاص مسلم طبقے کی خواتین سے ہمدردی ہے اور باقی کو قدرت کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔
پاس ہونے والے اس بل کے متعلق یہ اشکال بر قرار ہے کہ کیا سپریم کورٹ نے اپنے پرانے فیصلے میں کسی ایسے بل کے پیش کرنے کی بات کہی تھی۔ کیا یہی وہ بل ہے جس کا تقاضہ کچھ مسلم خواتین نے میڈیا کے سامنے آکر اپنی مظلومیت کی داستان سنا کر کیا تھا۔ چونکہ یہ خالص مذہب سے متعلق بل ہے؟ تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی مذہب و عقیدے سے متعلق کوئی قانون بنانے سے پہلے ان سے اس بابت بات کی جائے۔ اس طرح کے کئی سوال ہیں جن کے جواب آنے باقی ہیں۔ لوک سبھا کے بعد ابھی راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہونا باقی ہے۔ تو کیا راجیہ سبھا میں موجود مسلم ممبران اس بل کی اہمیت و افادیت یا پھر اس سے متعلق اشکال و اعتراضات کے لئے تیار ہیں۔یا ان کا غم و غصہ فقط بندکمروں کی آواز بن کر ہوا میں دم گھونٹ دے گا۔
اس نازک معاملے کو کورٹ کچہری کے چکر لگاتے ہوئے تقریبا چھہ مہینے ہو گئے۔ چھہ مہیوں میں وقفہ وقفہ سے مسلم تنظیموں نے جملہ بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔ جمعہ کے بعد احتجاج کر لینا فرض کی ادائگی تصور کرتے ہیں۔ علماء، ائمہ، مفتی، مفکرین اور جملہ مسلم دانش ور حضرات مل کر ابھی تک اپنا کوئی موقف طئے نہیں کر سکے ہیں۔ ایک بار میں تین طلاق دینے کے متعلق اگر تینوں یا ایک واقع ہوگی ، دونوں طرح کی روایات موجود ہیں،اس کے ساتھ ہی تین طلاق ناجائز و حرام کے سا تھ تین طلاق دینے والے کو کو ڑے کی سزا دی گئی ہے۔ تو کیا پھر سے اس پر غور کر کے کوئی نیا لائحہ تیار کر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یا کم از کم اگر کسی بھی طرح کی گنجائش باقی نہیں ہے تو ملک بھر کے مفتیان کرام اور علماء و دانشور حضرات نے اس چھہ مہینے کی مدت میں متفق موقف حکومتوں کو پیش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ گر ایک بار میں تین طلا ق کی کثرت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور خواتین مجبور ہو کر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں تو کیا سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ آخر ہم اپنے ہی معاشرے کے مذہبی مسائل کو حل کرنے کے اہل کیوں نہیں ہے۔ طلاق کے علاوہ دیگر کئی معاملات کی اس قدرسنگینی نے ایک بات تو واضح کر دی کہ موجودہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی اہلیت کھو چکا ہے۔ اسے ترمیم کرکے اہل ذمہ دار اور فعال لوگوں کو آنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ موروثی وراثت کی طرح اس کے عہدے تقسیم ہوتے رہیں گے اور یوں ہی ہر وقفے پر کوئی نہ کوئی تماشہ کھڑا ہوتا رہے گا۔ آخر میں اس سوال پر لوگ احتجاج اور لعن طعن کر کے خاموش ہو جائیں گے کہ آخر کار مولانا اسرار الحق نے پارلیا منٹ میں آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ کیا وہ آواز اٹھاتے تو بل رک جاتا ۔ کیا وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آواز اٹھاپاتے۔نے جواس پوزیشن میں تھے جیسے کہ جناب اسد الدین اویسی انہوں نے اپنی بات رکھی۔ جو سوال انہیں واجب لگے انہوں نے کئے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا حل کیا نکلا۔بدر الدین اجمل کی اپنی پارٹی ہے۔ انہیں بھی بولنا چاہئے تھا ان کی خاموشی مجرمانہ ہے۔
اصل مدعی تو یہ ہے کہ ہمارے پاس جملے بازی کے علاوہ حل کیا ہے۔جمعہ کی نماز کے علاوہ اگر دس بیس پچاس کلومیٹر کے سفر کی دوری پر کوئی بڑا اور ہنگامی احتجاج منعقد بھی کیا جائے تو لوگ کتنے آئیں گے۔ اس جانب قدم اٹھانے والے کو پہلے قسمیں کھانی ہو ں گی کہ آپ ان کا سودا تو نہیں کر دوگے جن کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یا پھرانہیں دوسرے دن انصاف چاہئے۔ پورا ذمہ دار طبقہ کسی نئے داماد کی طرح ناراض ہو جائے گا کہ آخر کوئی اور اس میں پیش پیش کیوں ہے۔موجودہ صورت حال کے لئے ذمہ دار طبقے کا ہر فرد قصور وار ہے جنہوں نے اپنی ذاتی انا کی خاطر اپنی آنکھو ں کے آگے دین کا سودا ہونے دیا۔ خواہ وہ خانقاہ میں بیٹھے پیران عظام ہوں، مدارس کے اساتذہ ہوں، ائمہ و مبلغین ہوں، مقرررین و شاعر ہوں، تبلیغی ہوں یا دعوتی ہوں کیوں کہ انہیں جب خود کیلئے کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو کسی نہ کسی طرح دین کی دہائی دے کر اس کاانتظام کر لیتے ہیں۔لیکن دین کے لئے ان کے فلک بوس نعروں اور جادو اور کرامتوں نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا اور نہ زمین آسمان میں کوئی زلزلہ آیا۔
چھہ مہینے پہلے بھی بند کمروں میں یا دوچند لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ کے بعد احتجاج کیا تھا آج بھی وہی کر رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ اگر ابھی بل پاس کرانے والی جماعت آکر کہتی ہے کہ چلو اس بل کو منسوخ کرتے ہیں۔ تمہارے اپنے پاس اس متعلق کیا خاکہ و منسوبہ ہے۔ کیا ہم اس جواب کے لئے تیار ہیں؟ آخر دسیوں ممالک نے تین طلاق پر مطلقا پابندی عائد کردی ہے، اور وہ مسلم ممالک ہیں۔پڑوسی ملک پاکستا ن نے بھی ایسا قانون بنایا ہے۔ تو آخرہندوستان میں اسے لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا ان سوالوں کا کوئی معقول جواب ہمارے پاس ہے؟ اگر ہے، تو اس سے پوری قوم مسلم کے ساتھ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو آگاہ کیا جائے اور اگر نہیں ہے، تو جملہ بازی کرنے کی بجائے سنجیدگی سے اس پر غور کر لیا جائے۔ یا پھر اس کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ خاموشی اور خوشی سے اس بل کااستقبال کریں۔
ایک آخری امید آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ سے ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جب حکومت نے تین طلاق کے خلاف کورٹ میں اپنا حلف نامہ داخل کیا تھا اس وقت بورڈ کے بانی و صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو ملک کے جملہ مقتفدر علماء و مشائخ کے درمیان رکھیں گے اور اس پر ایک متفق رائے بنانے کی کوشش کریں گے۔ ابھی ان کے موقف کا انتظار ہے۔ شاید اس وقت قوم سلم کو سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ اس معاملے پر غور کرنا چاہئے۔ بورڈ کو آگے آکر ایک عظیم اور انقلابی اقدام کرنا چاہئے کیونکہ یہ اس وقت قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment