مذہب اور اہل مذہب میں بڑا فرق ہے
عبد المعید ازہری
آج دنیا بھر کی دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیمیں جس قدر مذہب کا لبادہ اوڑھ مذہب ملک اور انسانیت کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس نہ صرف انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ وہ مذہب بھی نشانہ بن رہا ہے جس کے نام پر یہ فکریں فروغ پارہی ہیںْ۔ ان تنظیموں کی اپنی ایک فکر ہے۔ اس کا اگر چہ کسی بھی دھرم، مذہب یا قوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ فکر ہر جگہ موجود ہے۔آج پوری دنیا میں مذہب مخالف نظریہ اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔سماجی اور معاشرتی یکجہتی اور ہم آہنگی و رواداری کو یکسر توڑنے کے لئے اس مذہب کا زور شور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات لگتا ہے کہ ان انہتا پسند تنظیموں کو مختلف مذاہب سے خوراک ملتی ہے۔ ان کے فروغ میں مذہبی تعلیمات شامل ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ کبھی کبھی خود مذہب ان کے جبر کے آگے بے بس و مجبور نظر آتاہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عام نظریہ قائم ہو گیاکہ دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پر فروغ پا رہی ہیں۔در اصل آض انتہا پسندی ، تشدد اور انانیت و بے لگامی کی راہ کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ماخذ اور محرکات کی تفتیش لازم ہے۔کیونکہ یہ انتہا پسند نظریہ اسلام کی شبیہ کو ایک سخت اور غیر واضح مذہب کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جبکہ یہ مذہب انسان دوستجی، ہم آہنگی اور ہمدردی جیسی خصوصیات پر مشتمل ایک مستقل انسانی زندگی کا مکمل نظریہ ہے۔اس انتہا پسند فکر نے اتنا تو کر دیا کہ آج اسلام کے مکمل طور پر دو مختلف نظریے ہو گئے ہیں۔ ایک پیار اور رواداری جیسی پرانی روایتوں کااسلام جو صوفی ازم کہلاتا ہے ۔دوسرا کم بولنے والا، فرقہ پرست ، تفریق کار، توڑنے اور نفرتیں پھیلانے والا نظریہ جس میں انسانیت اور اخلاقیات کیلئے کو ئی جگہ نہیں۔جو ایک خاص فکر کی ترجمان ہے اور جسے کچھ مخصوص ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ ہی برسوں میں اس فکر نے توحید کے نا م پر اپنے نظریے کو تیزی سے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
قرآن وحدیث، اجماع اور قیاس پر مبنی دین کی عملی شریعت میں ذاتی مفاد و نظریہ شامل کرنے والی اس فکر نے قرآنی آیات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔ جہاد سے متعلق آیات کی غلط تشریح کرکے اس کے مقام استعمال کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ قوم کی نئی نسل کو گمراہ کیا۔ ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو آلہ کار بنایا اور انسان کے اندر نفرت کا بارود بھر دیا۔احادیث مبارکہ کی من مانی تاویل کی۔ اس غلط تاویل اور بے تشریح و توضیح نے اصل اسلام کے مقابل ایک نیا اسلام کھڑا کر دیا۔ جسے کچھ ممالک نے اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ نفرت اور ہتھیاروں کے سوداگروں نے نہ صرف دین اسلام بلکہ دیگر مذاہب کے اندر بھی انتہا پسند فکر ڈال دی۔ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے لئے خطرہ ثابت کردیا۔ ہر ہونے والے فطری حادثات کا سیاسی استعمال کیا۔ اس کے ذریعہ فرقہ واریت کو ہوا دی۔اگر چہ ان فکروں نے سب سے زیادہ اپنی ہو قوموں کا نقصان کیا ہے لیکن انسان دشمن عناصر نے بڑی ہی چالاکی سے اس فکر کے فروغ کو دین کی صحیح خدمات تصور کرا دیا۔آج جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو ماتھے کی نگاہیں اس کی فکر کی مضبوط ہوتی جڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ ایک عجیب سی فضا قائم ہے۔ جہاں ایک مذہب دوسرے مذہب کا دشمن ہے۔ جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ کس مذہب کو کس سے خطرہ ہے۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کے بعد اب دیگر مذاہب کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ انہیں بھی انتہا پسند بنایا جا رہا ہے۔ یا ان کے تشدد کا اب باقاعدہ اظہار ہو رہا ہے۔
آج دنیا کو یہ سمجھنے کے ساتھ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی مذہب تشدد کے لئے نہیں آیا۔ انسان کے اندر کی شیطنت کو ختم کرنے کے لئے ہی مذہبی فلسفوں کا وجود ہوا ہے۔ جب شیطان حاوی ہوتا ہے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔آج دنیاکے سامنے ہر مذہب کو اپنی مذہبی تعلیمات رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان
تاریخی روایات کو دوہرانے کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر صدیوں نے ان مذاہب کی روایات برقرارہیں۔ہر مذہب میں ایک چیز مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے۔ وہ ہے روحانی تقویت جسے تصوف کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ آج اس کی اہم اور اشد ضرورت ہے کہ اسلاف کی ان روایت کو زندہ کیا جائے۔ کیونکہ آج کے اس پر آشوب اور پر فتن دور میں پھر سے انہیں صوفیانہ کرداروں اور روایتوں کی ضرورت ہے۔قرآن فہمی اور حدیث بیانی کی وہ روایتیں اور تعلیمات جنہوں نے پتھر دل انسان کو دردمند اور ہمدرد بنا دیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج بھی وہی قرآنی نسخہ اور احادیث کا مجموعہ موجود ہے لیکن اس کی تاثیر سے دلوں پر نہ تو رقت طاری ہوتی ہے اور نہ ہو وہ پسیجتا اور پگھلتا ہے۔
مذہب انسانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اگر یہی مذہب انسان مخالف ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو وہ مذہب ہی نہیں رہا یا پھر اس کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔مذہب ہمیشہ اپنی تعلیمات سے زندہ رہتا ہے۔ اپنی دلیلوں سے فروغ پاتا ہے۔ انہیں دلیلوں اور تعلیمات کو اختیار کر کے لوگ انسان بنتے ہیں۔ انسانی تعلیمات کا پہلا سبق محبت اور انسیت ہے۔رشتوں کا احترام، ان کی تعظیم وتوقیر اور ان روایتوں کی حفاظت ہمیں اشرف المخلوقات بناتی ہیں۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/

ماشااللہ بہت خوب،
ReplyDeleteشکریہ جناب
ReplyDelete