Tuesday, February 13, 2018

The Quranic Concept of Co Existenceبقائے باہم کا قرآن تصورआपसी मेल जोल का क़ुरानी सिद्धांत


بقائے باہم اور رواداری کا قرآنی تصور
عبد المعید ازہری

’ہم اپنے عمل کے لئے جواب دہ ہیں اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ رب کریم ہمیں ایک ساتھ اکٹھا کرے گا۔ ہمیں اسی کی طرف جانا ہے‘ (القرآن:ترجمہ)۔ یہ آیت کریمہ ہمیں انسانی رواداری کی تعلیم دیتی ہے۔ چونکہ مجموعی سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے رواداری ایک بنیادی تصوراتی اور عملی خیال ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس وسیع ترین دنیا میں بقائے باہم، آپسی میل جول اور انسانی ترقی کی رفتار کی ترویج کے لئے رواداری اور ہم آہنگی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اسی سے ایک ملن سار ماحول میں مختلف اقدار اور بقائے باہم کے ساتھ شناختوں میں تکثیریت اور تنوع کا تصور کیا جا سکتا ہے۔اس کے برعکس احساس برتری ایک ایسا نظام ہے جہاں ایک خاص قدر کو دوسروں پر جبرا تھوپا جاتا ہے۔ رواداری، یقینا ایک روحانی تصور ہے جو تعدد اور کثرت کو ایک خدا کی اصطلاح اور تصور کی جانب لے جاتا ہے۔ قرآن نے واضح طور پر اجتماعیت اور رواداری کو تسلیم کیا ہے۔اسے بڑی ہی سنجیدگی سے بیان کیا ہے ’مذہب میں کوئی زور و جبر نہیں ہے‘(القرآن: ترجمہ)۔ خدا کی جانب سے آدم کی سبھی اولاد کو عزت دی گئی ہے (القرآن:ترجمہ)۔ ان بیانات میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں کی گئی ہے۔ قرآن مذہبی تنوع کو صرف انسانی وجود کی بنیادی حقیقتوں کے لئے ہی متعارف نہیں کراتا بلکہ انسانیت کی روحانی ترقی کے لئے مقام خاص کے بطور بھی اسے فروغ دیتا ہے۔ قرآنی آیات آج کی ہماری تکثیریتی دنیا کی حقیقتوں کو مزید مناسب ترین انداز میں واضح کرتی ہیں۔ کسی کی اپنی مذہبی، اعتقادی نظریہ کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ اسی طرح دوسروں کے عقائد کے ساتھ رواداری اور احترام کا برتاؤ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ ہمدردی ایک مثبت سماج کا سنگ میل اور باہم زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد، عقیدتوں اور نظریوں کا احترام کرتے ہوئے ہمیں خوشی سے جینا ہے۔

Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
                          +919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment