نفرت کی جنگ محبت سے لڑی جائے
عبد المعید ازہری
مذہب کے نام پر سماجی تفریق چند مفاد پرست مذہب مخالف افراد و افکار کی اپنی نجی و ناپاک کوشش ہی ہے ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عام مسلمان اور غیر مسلم کے رہن سہن اور ان کے سوچنے کے طریقے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔معاشرے میں بظاہر پھیلی اس نفرت اور اسے ہوا دینے والے سماجی میڈیا کی بدولت دور و نزدیک تک پہنچنے والے اس زہر کے باجود اجتماعیت، تکثیریت اور یکجہتی ایک عام انسان کا وطیرہ و دستورہے جس کا عکس معاشرے میں صاف نظر آتا ہے۔ملک کے ہر کونے میں ابھی ہندوستانیت پر بھروسے کی پر اعتماد تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ملک کی سالمیت کے لاکھ دشمن ہوں اور اس کی ہم آہنگی کو توڑنے والی قوتیں خواہ کتنی ہو کوششیں کر رہی ہوں لیکن ملک کی صدیوں پرانی تہذیب آج بھی اپنے وقار و آبرو کے ساتھ باقی ہے۔ ہاں کبھی سسکتی ہے اور آہیں بھی بھرتی ہے لیکن زندہ ہے۔ یہی وہ ملکی وراثت اور روایت ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی قبولیت کو فروغ دیتا ہے۔ایک عام مسلمان ہو یا غیر مسلم، سب بحیثیت انسان برابر ہیں۔تاہم ہر گروہ میں کچھ ایسے افرادہوتے ہیں جو اپنی زبان، مذہب یا گروہ کو دوسرو ں کے بالمقابل زیادہ پسند کرنے کے لئے پوری جماعت کو بیجا اکساتے رہتے ہیں۔جبکہ ایک عام مسلمان کسی دوسرے کو صرف اس وجہ سے مارنا یا پریشان کرنا پسند نہیں کرے گا کہ وہ شخص کسی دوسرے مذہب کا پیروکار ہے۔اسی طرح ایک عام غیر مسلم بھی ایسا نہیں کرے گا۔یہی وہ بنیادی فکر ہے جو دونوں ہی قوموں کو ایک ساتھ مل کر رہنے کی طبعی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔ان فرقہ پرست طاقتوں کا تعلق کسی بھی مذہب وفکر سے نہیں ہوتا ہے بلکہ دور حاضر کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ یہ فرقہ پرست طاقتیں انتہا پسند فکروں کے ساتھ فروغ پاتی ہیں۔اسی میں انہیں جلا ملتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک عام آدمی خواہ کسی بھی مذہب کا ہو وہ یکجہتی کے ساتھ زندگی میں یقین رکھتا ہے اور اسی میں فروغ پاتا ہے۔وہیں فرقہ پرست طاقتیں پس و پیش میں رہتے ہیں عمر بھر غیر یقینی زندگی گذارتی ہیں۔یہ فرقہ پرست طاقتیں بلا تفریق مذہب و ملت ہمیشہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ رکھتی ہیں۔
تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ساتھ اسلاموفوبیا ایسے دائرے ہیں جہاں ایک کے فروغ سے دوسرے کو مددملتی ہے۔سبھی آپس میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔جتنا تشدد کو فروغ ملے گا اتنا ہی اسلاموفوبیا کو بڑھاوا ملے گا۔اسی طرح بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے درمیا ن کوئی فرق نہیں ہے۔بنیاد پرستی ایک ذہنی دہشت گردی ہے جب کہ دہشت گردی کسی تشدد کا اعلیٰ نمونہ ہے۔مختلف افکار و نظریات کے نام سے سیاسی مفاد اور ذاتی اقتدار کے لئے ابھاری گئی یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کا انیدھن ہیں۔ایک دوسرے کے فروغ میں ایک دوسرے کی حمایت کرتی ہیں۔ جیسے ہی فرقہ پرستی کمزور ہونے لگتی ہے ایک دوسرے کو تقویت دے کر بہر حال اس انتہا پسندی کو ایک ساتھ مل کر فروغ دیا جاتا ہے۔مختلف رنگ ڈھنگ میں پائی جانے والی یہ واحد فکر جالوں کا ایسا پلندہ ہے جس کی آپسی کڑیوں کا جوڑ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا لگتا ہے۔تلوار و ترشول میں بٹی یہ فکر اور رام اور رحیم کے نام دہشت پھیلانے والے ایک دوسرے کے وفادار بھی ہوتے ہیں اس سچائی تک پہنچنا اگر چہ سب کے بس کی بات نہیں لیکن یہ ایک ناگذیر حقیقت ہے۔ایک کمزور پڑتا ہے تو دوسرا طاقت دیتا ہے اور دوسرا کمزور پڑتا ہے تو پہلا اسے تقویت پہنچاتا ہے۔اس مایا نگری اور سیاسی جال کے چنگل میں پھنسی بھولی بھالی ہندوستانی عوام آج تک اپنے خون کے نذرانے دے کر ملک کی قومی یکجہتی کے باغیچے کو سینچ رہی ہے اور چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سرحدیں جتنا لہو مانگیں گی ہم دیں گے مگر پھر سے اس ملک کا نقشہ نہ سمٹنے دیں گے۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں ایک طرف دہشت گردی اور آتنک واد کے خلاف مسلسل کوششیں جاری ہیں، وہیں دوسری طرف چند بنیاد پرست تحریکیں جیسے کہ خوارج، تکفیری، اخوانی، کراماتی اور حشاشینی فکر اسلامی تاریخ میں اپنی موجودگی درج کرا رہی ہیں۔جن کی وجہ سے جہاد کے نام پر ہو رہے تشدد کو پھلنے پھولنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ حال ہی میں ابھری دہشت گرد تنظیمیں داعش، القاعدہ اور لشکر طیبہ اسی کڑی کا اہم حصہ ہیں۔آج ان غیر قانونی تنظیموں کی کرتوتوں کی وجہ عالمی امن کو خطرہ پیدا ہو گیا اور انہوں نے اسلام کو بنیاد پرست مذہب اور مسلمانوں کی تصویرکو انتہاپسند بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے۔اس لئے یہ اس مسلم قوم کی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ اجتماعیت اور یکجہتی کو فروغ دیں تاکہ تباہ کن فکر کے ساتھ ساتھ داعش جیسی تنظیموں کے اثر و رسوخ کو بھی نیست و نابود کیا جا سکے۔جو نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں۔یہ اس قوم کی دہری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دامن میں لگے اس داغ کو صاف کرنے کے لئے خود سے سامنے آئیں اور کچھ ایسے کڑے فیصلے لیں جس نہ صرف ان کی شبیہ پر اچھلنے والے کیچڑ کو جگہ نہ ملے بلکہ ہندوستانی قومی برادری کو بھی سامنے آکر اس بات کا اقرار کرنا پڑے کہ یہ قوم خود بھی مظلوم ہے۔ اسی کے ساتھ بنام مسلم ہونے والی دہشت گردانہ واقعات و حادثات کو آڑ بنا کر اپنی ناپاک سیاست چمکانے والوں کو بھی ایک واضح اور کھلا ہوا جواب ملے کہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔یہ وقت کی ہم ضرورت ہے کہ اپنی قومی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس کیا جائے بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر آجائے نجات اور دفاع کی تیاری کر لینی چاہئے۔
دہشت گردی، آتنک واد اور انتہا پسندی ایک عالمی اور اجتماعی مسئلہ ہے اسے مل کر ہی لڑناہوگا۔ ایک دوسرے پر الزام لگا کر اور انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا کر اس لڑائی کو لڑنا ممکن نہیں بلکہ اس سے مزید ان فرقہ پرست طاقتوں کو ہوا ملے اور ان کے ارادے مضبوط ہوں گے۔ ہمیں ایسے ہر کسی عمل سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو ان انتہا پسند طاقتون کو تقویت پہنچا سکتی ہوں۔ ہمیں ہر حال میں قومی یکجہتی کو فروغ دے کر ان طاقتوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگانا ہی ہوگا۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/ raebarely
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:
Post a Comment