Tuesday, July 31, 2018

عرب کا بدلتا مزاجअरब की बदलती विचारधाराArab's turning policy

عرب کا بدلتا مزاج
 
عبدالمعید ازہری

سعودی عرب دنیا کے ان ممالک میں سے ایک ہے جو خواتین کے حقوق اور مذہبی تصلب کے تئیں اکثر بحث و مباحثہ کا موضوع رہتا ہے۔ کبھی عرب ممالک میں عورتوں کے لئے مکمل پردے کا نظام تو کبھی حکومتی عہدوں پر ان کی تقرری عرب کے بدلے مزاج کی عکاسی کرتی نظر آتی ہے۔ سعودی عرب پر جب اس بات کا شکنجہ کسا جانے لگا کہ وہ عورتوں کا استحصال کرتا ہے۔ انہیں مکمل آزادی نہیں دیتا۔ خواتین کو گھر میں قید رکھنے کی روایت کو ترجیح دیتا ہے۔ تو عرب نے اپنی خواتین کو بین الاقوامی کھیلوں کا حصہ بناکر دنیا کو بتایا کہ مغرب کا الزام جھوٹا ہے۔ ہماری خواتین بھی آزاد ہیں۔ حال ہی میں سعودی حکومت نے خواتین کو گاڑی چلانے کی جازت کے ساتھ اسٹیڈیم میں ایک ساتھ بیٹھ کر کھیل سے لطف اندوز ہونے کا تحفہ دیاہے۔ یہی نہیں بلکہ سعودی وزارتی حکومت کے ذریعے یوگ کو کھیل کا درجہ دیا گیا۔ جس کا صحرا وہاں کی پہلی خاتون یوگ معلمہ ناعوف المراوی کی بے لوث جد و جہد اور غیر معمولی کوششوں کو دیا جا رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی سعود عرب کی سب سے بڑی مسلم مذہبی تنظیم کے سینیر مولانا نے کہا ہمارے ملک کی خواتین کو عوامی جگہوں پر عبایا پہننے کی ضرورت نہیں ہے۔اس کی اطلاع اسلام سے منسوب قوانین کی وضاحت کرنے والے کاونسل آف سینیر اسکالر کے سینیر مسلم اسکالر شیخ عبد اللہ المطاف نے ایک ٹی وی انٹرویو میں دی۔انہوں نے کہا کہ پاکیزگی اور اخلاقیات کو کپڑے کے دپٹوں میں لپیٹ کر نہیں رکھا جا سکتا۔
سعودی عرب نے اپنے اوپر مذہبی تصلب کے الزام کو خارج کرتے ہوئے عرب میں پہلے ہندو مندر کے قیام کے خواب کو شرمندہ تعبیر کرنے کا عزم کیا۔فروری 2018 میں عرب نے ہمارے وزیر اعظم کے ابو دھابی کے دورے میں شہزادہ شیخ محمد بن زائد النحیان کی مہمان نوازی میں عرب امیرات کی طرف سے دی گئی زمین پر سوامی ناراین ہندو مندر کی بنیاد رکھ کر دنیا کو اپنے بدلتے مزاج کا ایک بڑا پیغام دیا۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@




Monday, July 23, 2018

धर्म में पुनर्विचार की संभावनाएं Reconsideration possibilities on Religion understandingدین میں نظر ثانی کے امکانات


دین میں نظر ثانی کے امکانات
عبدالمعید ازہری

دینی روایتیں جب سماجی رکاوٹوں کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں تو سوال صرف ان روایتوں پر نہیں اٹھتے ہیں بلکہ انہیں فروغ دینے والی قوم، ان کو فکری مضبوطی دینے والے مذہب کو بھی سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔یہ معاملہ زمین پر رائج ہر مذہب و روایت کے ساتھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔مذہب پر سیدھے سوال کی اس روایت کو اس وقت مزید تقویت مل گئی جب مذہبی رہنمائی اور سماجی کارکنی کے راستے اورعمل درآمد کرنے والے اہل کار الگ ہونے لگے۔یہ علیحدگی آہستہ آہستہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرنے لگی۔ان کی بولیاں بدلیں۔ان کے لباس الگ ہو گئے۔اسٹیج اور ادارے الگ ہو گئے۔اپنے اپنے طور پر انسانی خدمت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے۔ پوری طاقت اسی ذاتی تصادم میں صرف کرنے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اصلاح کی بجائے انتشار ہونے لگا۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں دس سے زائد گروہ ہو چکے ہیں۔اس کے بعد ہر گروہ کے اندر بھی دسیوں طرح کے نظریاتی اور ذاتی اختلاف پائے جانے لگے۔اس اختلاف نے مذہب و سماج کے ما بین ایسی دوری قائم کر دی اورنفرت و تحقیر کی اتنی روایتیں حائل کر دیں کہ ایسا لگتا ہے کہ سماج کے مخالف اگر کوئی ہے تو وہ مذہب ہے اور مذہب کے آگے سب سے بڑی دیوار سماج و معاشرہ ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کی بنیادی تعلیم ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ، انسان کا احترام اور اخوت و رواداری کو فروغ دینا ہے۔
اتنا بڑا تصادم اور فرق امتیاز ایک دن میں نہیں آتا۔ کسی بھی اچھی بری تبدیلی میں ایک عرصہ لگتا ہے۔سماج کے اندر اسے پھیلانے میں سب کا ہاتھ ہوتا ہے۔کسی کا ہاتھ چھپا ہوتا ہے۔ تو کسی کا آستین کے اندر ہوتا ہے۔ کوئی کھل کر معاصیت کو فروغ دیتا ہے، تو کوئی اسے نظر انداز کر کے اور ظلم پر خاموش رہ کر اس میں شرکت کرتا ہے۔ ظلم کو فروغ پانے سے روکنے کے جتنے بھی راستے ہو سکتے ہیں ہر راستے کو بند کرنے کی کوشش نہ کرنا بھی برائی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد وہ چلن اور فروغ تب پاتا ہے جب ہر کوئی صفائی دینے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ خود کو بچاکر دوسرے کو اس کا ذمہ دار گردانتا ہے۔سماج میں یا مذہبی روایات میں غلط طریقے سے رائج پانے والی روایات یا غلط روایات کے داخل ہو کر رواج پانے کے لئے ہر فرد اجتماعی طور پر اور سماج و مذہب کا ذمہ دار طبقہ انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔برائیوں کے رائج ہو جانے کے بعد اس کی اصلاح کی کوشش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو کوسنا اور اس کی توہین و تضحیک کرنا جرم عظیم اور گناہ کبیر ہے۔
مذہب اور سماج دوالگ چیزیں نہیں ہیں۔عدل و انصاف، اخوت و مروت اور ہمدردی و رواداری پر مبنی کسی بھی سماج کی تشکیل کے لئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے اور مذہب کے لاگو ہونے اور اس کی تعلیمات کا اطلاق ہونے کے لئے قوم او ر سماج کا ہونا ضروری ہے۔اکثر و بیشتر تاریخی روایات کا تعلق کسی حکمت و فلسفہ، تعلیم وتربیت یا پھر موقع و محل، سیاق و سباق اور ضرورت و تقاضے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ثقافتی، تہذیبی اور سماجی رسم ورواج اور کلچر و روایات کے پیچھے کچھ نہ کچھ حکمت و تعلیم ضرور ہوتی ہیں۔موجودہ دور کے کسی بھی رسم و رواج اور ثقافت وروایت کو دیکھ کر یکسر اس کی نہ تو پیروی ضروری ہے اور نہ ہی اس کا انکار واجب ہے۔اس کے پیچھے کے مقاصد جاننے کے بعد یہ فیصلہ لیا جانا چاہئے کہ موجودہ دور میں اس کی ضرورت و اہمیت کتنی ہے۔ آیا اب اس کی ضرورت و اہمیت ختم ہو گئی ہے یا پھر ضرورت تو ہے لیکن طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک مسئلے کی اصل اور اس کی جڑ تک رسائی نہیں ہوتی اس پر کسی بھی طرح کا مثبت و منفی رد عمل نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ٹکراؤ ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کے پیچھے وجہ یہ اور کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے۔جب حلت و حرم کے بیچھے مقاصد درست ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلہ در اصل طریقہ کار میں ہے۔
دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی فرد آج اپنے قول سے پیچھے ہٹنے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ جب کہ اس کا بھی اعتراف ہے کہ کل علم کسی کو نہیں ہے۔کسی فرد کا رد عمل یا موقف اس کے اپنے علم پر مبنی ہوتا ہے۔وہ درست تو ہو سکتا ہے لیکن صرف وہی درست ہو ضروری نہیں کیونکہ اس کے علم سے آگے بھی علم ہو سکتا ہے۔اگر خدائی کے اس دعوے کو ترک کر دیا جائے تب بھی کئی مسائل اپنے آپ حل ہو سکتے ہیں۔ اپنے موقف کو امکان خطا کے ساتھ درست سمجھے اور دوسرے کو موقف کو درست کے امکان کے ساتھ غلط سمجھے تو بھی مسئلے سلجھائے جا سکتے ہیں۔خدائی کا یہ دعوی بھی انہیں تباہ کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ ہر ایک کا زبانی دعوی ہے کہ وہ تو ناچیر، حقیر اور کم علم ہے۔
اصطلاحوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اصلاح و تربیت میں الفاظ و انداز کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں قوم مسلم کی زبوں حالی کسی سے بھی چھپی ڈھکی نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا دعوی ہے کہ اسلام اور مسلمان پوری دنیا میں غلبہ کے لئے ہیں۔ تو ان کی خود یہ بدتر صورتحال کیوں ہے۔جب اس پر غور کیا جانے لگا تو کئی حقیقتیں سامنے آئیں اور اصلاح کی کئی صورتیں دکھائی دیں۔ ان میں سے جو آواز سب سے زیادہ اٹھائی گئی وہ یہ ہے کہ دین و مذہب میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔یہ جائزہ اور تجزیہ ملک کے کچھ سیکولر طبقوں نے کیا۔ کیونکہ اب تو محاسبہ بھی اس قوم کا عملی مقدر نہ رہا۔ لیکن جب کوئی اور ہمیں مشورہ دیتا ہے تو ہمارے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ اور دین خطرے میں آ جاتا ہے۔ دین میں نظر ثانی کی اصطلاح اتنی بھاری پڑ جاتی ہے کہ مسائل کا حل خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔دین کے تین اہم پہلو ہیں۔ عقیدہ، عبادت اور معاملہ۔ عقیدہ و عبادت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود معاملات و مسائل میں تو حالات زمانہ کی رعایت شامل ہوتی ہے۔اس کے بارے میں میں تو خود قرآن اور صاحب قرآن نے جگہ جگہ ارشاد فرمایا کہ غور و فکر کرو۔دوسرا پہلو ہے موقع و محل کی رعایت اور 
معاملات و مسائل کا محل استعمال۔ اس لحاظ سے بھی غور فکر درکار ہے۔
اس لحاظ سے دین میں نظرثانی کے دوپہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں ترمیم و تبدیل پر غور کیا جائے۔جس کے امکانات کا ہر ایک پہلو بند ہے۔
نظر ثانی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآنی آیات و نبوی ارشادات سے جو مسائل و معاملات اور ان کے محل وقوع ہم نے سمجھے ہیں، ان میں ایک بار پھر سے غور کر لیا جائے۔اور اس میں تو کوئی برائی بظاہر نظر نہیں آتی۔ جب قرآن کے بارے میں ہمارا یہ دعوی ہے کہ اس میں قیام قیامت تک کے واقعات کا علم ہے۔مسائل اور ان کا حل ہے۔ تو ان سے واقف ہونے کی کوشش کرنا بھی تو ہمارے لئے ضروری ہے۔دین میں نظر ثانی کا لفظ سن کا یکسر برہم ہونے کی بجائے اس کے امکانی پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے۔اگر اس سے مسائل حل ہو سکتے ہوں تو اس کے لئے کوشش واجب اور کوتاہی حرام ہے۔
یہی حال سماج و سیاست کا ہے۔اپنی تنگ نظری اور محدودذہنیت کی وجہ سے نظر ثانی اور مفید تبدیلیوں کے راستے بند کر رکھے ہیں۔کیونکہ نظر ثانی اور کارآمد تبدیلیوں سے مذہب، سماج اور سیاست کے نام کا کاروبار بند ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com








Friday, July 13, 2018

پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آج کا مسلمان Prophet Teachings and Muslims इस्लामी शिक्षा और मुसलमान

پیغمبر اسلام کی تعلیمات اور آج کا مسلمان
 
عبد المعید ازہری
 
خود احتسابی اور خود شناسی دو ایسے اعمال ہیں جو انسانی عروج و زوال اور اس کے نشیب و فراز طے کر سکتے ہیں۔ آج قوم مسلم میں ان دونوں صفات کی سخت ضرورت ہے۔تعلیمات نبوی کی روشنی میں قوم مسلم کو اپنا محاسبہ کرنا ہوگا۔آخر جس قوم کو خدا کریم نے خیر امت اور دوسروں کے لئے فلاح و بہبود کا ذریعہ بنایا ہو، وہ اپنا وقار اس حد تک کیسے کھو سکتی ہے۔خود پیغمبر اسلام نے اس قوم مسلم کے تعلق سے کئی فضیلتیں اور شرافتیں بیان کی ہیں۔پیغمبر اسلام کی پوری زندگی عبادت و ریاضت سے روحانیت کو مضبوط کرنے کے ساتھ خدمت خلق کے ذریعے ایک مخلوط اور ہم آہنگ معاشرے کی تشکیل و ترویج میں گزری ہے۔آپ نے قومی یکجہتی اور بقائے باہم کی ہمہ جہت صورتوں کو تشکیل دینے اور انسان اور انسانیت پر مبنی معاشرے کو فروغ دینے کے لئے اپنی امت پر نہ صرف زور دیا بلکہ خود بھی اس میں پیش پیش رہے۔آج قوم مسلم کی معاشرتی خستہ حالی دعوت فکر دیتی ہے۔ جس قوم کی بنیاد ہی ایک بہترین معاشرہ تشکیل دیناہو، اس کی خود کی سماجی صورت حال کی ابتری افسوس ناک ہے۔پیغمبر اسلام اور تعلیمات نبوی کے تعلق سے بلا تفریق مذہب و ملت دنیا کے ہر ترقی پسند، انسان دوست اور انسانیت کے ہمدردنے اپنے مثبت خیالات کا اظہار کیا ہے۔ خواہ وہ قوم مسلم اور اسلام کا شدید مد مقابل کیوں نہ رہا ہے اس نے پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو پوری انسانیت کے لئے بہترین تعلیم و تربیت تصور کیا ہے۔
گزشتہ رمضان شریف کی مبارک باد دیتے ہوئے خود ہمارے ملک کے وزری اعظم نے ٹویٹ کیا۔ ہندوستانی مسلمانوں کے اس پاک اور با برکت مہینے کی مبارک باد دی اورپیغمبر اسلام کی تعلیمات کا ذکر کیا۔انہوں نے پیغمبر اسلام کی ان اعلی تعلیمات کا ذکر کیا جو کسی بھی مخلوط معاشرے کی بنیاد ہیں۔پیغمبر اسلام سے پوچھا گیا کہ اسلام میں کون سا عمل سب سے بہتر ہے آپ نے فرمایا ’کسی غریب اور ضرورت مند کی مدد کرنا اور سب سے خوش اخلاقی سے ملنا خواہ انہیں جانتے ہو یا نہیں‘۔ یہاں پیغمبر اسلام نے مذہب و قبیلہ اور ذات و برادری کا ذکر نہیں کیا۔آپ نے یہاں تک واضح کر دیا کہ خواہ آپ سامنے والے سے واقف ہوں یا نہ ہوں، اس سے حسن اخلا ق سے ساتھ پیش آنااسلام میں پسندیدہ عمل ہے۔ یوں ہی آ پ نے فرمایااپنی ضرورت سے زیادہ مال و اسباب کا صدقہ کر دیا کرو۔ اسے لوگوں کی بھلائی میں خرچ کیا کرو۔ پیغمبر اسلام کی زندگی میں تکبر اور حسد کو کبھی بھی جگہ نہیں ملی۔اور سادگی، نرم گفتاری اور مروت کو ہمیشہ اپنے پاس رکھا۔آپ نے فرمایا کہ تکبر انسان کے شعور کو مار دیتا ہے۔ وزیر اعظم نے ایک اور بات کہی وہ یہ کہ ’آج پیغمبر اسلام کی ان تعلیمات کو فروغ دینا ہماری ذمہ داری ہے‘۔وزیر اعظم کے جملوں کے کئی مقاصد ہو سکتے ہیں۔ لیکن اصل مسئلہ یہ ہے کہ کیا یہ بنوی تعلیمات قوم مسلم کے منتشر شیرازے کو سمیٹنے اور کھوئے ہوئے وقار کو واپس دلانے میں کارآمد ہو سکتی ہیں۔ اگر ہاں تو پھر کوتاہی اور دیری جرم عظیم ہوگا۔صرف اس لئے ان تعلیمات سے روگردانی نہیں کی جا سکتی کہ ان کی نشر و اشاعت کرنے والا کون ہے کیونکہ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ یہ تعلیمات خود پیغمبر اسلام کی ہیں۔
آج ہمارا مسلم معاشرہ حالات زمانہ کی ستم ظریفی کا رونا رو کر اپنے آپ کو پس پشت ڈال لیتا ہے۔تعلیمی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو یہ کہہ کر دور کر لیتا ہے کہ ان کے ساتھ تعصب ہوتا ہے۔ یا پھر یہ بہانہ بناتا ہے کہ انہیں نوکری تو ملنی نہیں ہے۔سچ تو یہ ہے کہ یہ قوم خود اس قدر ذہنی پستی کا شکار ہو چکی ہے کہ مثبت اور تعمیری و تخلیقی افکار و نظریات سے یکسر دوری بنا چکی ہے۔آج صحیح معنوں میں اس قوم مسلم کا اصل دشمن اس کی چھوٹی اور اوچھی سوچ ہے۔ اس فکر کو مضبوطی دینے والے سیاسی و مذہبی ٹھیکیدار ہیں۔باقی حالات زمانہ اور سیاسی سازشیں بعد میں آتی ہیں۔جس طرح سے انسا ن کے جسم کے اندر کسی بھی بیماری سے لڑنے کے لئے سب سے بڑی طاقت خود اس کی ہمت اور اس کا حوصلہ ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے جسم کے اندر موجود دفاع کی قوت ہے۔ اس کے بعد ہی دواؤں کا مثبت اثر ہوتا ہے۔ لیکن اگر بیمار اپنی ہمت ہی کھو بیٹھے۔ اور اس کا حوصلہ پست ہو جائے۔ تو اس کی خود کی دفاع کی قوت ختم ہو جاتی ہے۔ اس پر اگر معالج اور ڈاکٹر یہ کہہ دے کہ اب تم ٹھیک نہیں ہو سکتے، تو اسے دنیا کی کوئی طاقت ٹھیک نہیں کر سکتی۔آج ہمارے معاشرے کا یہی حال ہے۔چونکہ ان معالج کی خود کی دور کی بینائی صلب ہو چکی ہے۔حکمت و دانائی سے محروم ہیں اور حالات کو بھاننپے کی صلاحیت سے عاری ہیں۔حکیم اگر نبض شناسی سے محروم جائے تو وہ فائدہ پہنچانے کے بجائے مضر ہو جاتا ہے۔
ہمارے سامنے ہماری اسلامی تاریخ ہے۔ آج سے بدتر حالات تھے۔ خود پیغمبر اسلام کی زمین ان پر تنگ کر دی گئی تھی۔ جن حالات سے اولین دور کے مسلمان گزرے ہیں اس کی توہم پر ابھی تک جھلک بھی نہیں پہنچی۔لیکن انہوں نے اپنے مضبوط ارادوں اور بلند حوصلوں کی مدد سے ظلم کے ہر قعلے کو انصاف کے ہاتھوں تسخیر کیا۔ نفرت کی مضبوط سے مضبوط دیواروں کو محبت سے کرایا۔ انہوں نے پیغمبر اسلام کا راستہ نہیں چھوڑا۔ حکمت و دانائی سے کام لیا۔ دور اندیشی کے حامل ہوئے۔ ہمیشہ خود احتسابی کرتے رہے۔وہم و گمان کے تیر نہیں چلائے بلکہ حقیقت کا اعتراف کیا۔خود کو ایک مثالی نمونہ بنایا۔ تب جا کر دوسروں سے توقع کی۔مروت، رحم دلی اور ہمدردی کی روایتوں کو فروغ دیا۔ انصاف کرنے میں تعصب نہیں برتا۔پیغمبر اسلام کی تعلیمات کو مذہب و ملت سے منسوب نہیں کیا۔ بلکہ عبادتوں سے روح تقویت دینے کے ساتھ خدمت خلق ، ہمدردی و رواداری سے بہترین انسانی معاشرے کو تشکیل دیا اور اس کی ترویج اشاعت میں ایمانداری اور دیانت داری سے کام لیا۔وہ سرخ رو ہوئے۔ہم بھی ہو سکتے ہیں۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@