دین میں نظر ثانی کے امکانات
عبدالمعید ازہری
دینی روایتیں جب سماجی رکاوٹوں کی شکل اختیار کرنے لگتی ہیں تو سوال صرف ان روایتوں پر نہیں اٹھتے ہیں بلکہ انہیں فروغ دینے والی قوم، ان کو فکری مضبوطی دینے والے مذہب کو بھی سوالوں کے گھیرے میں کھڑا کر دیا جاتا ہے۔یہ معاملہ زمین پر رائج ہر مذہب و روایت کے ساتھ ہوا ہے اور ہو رہا ہے۔مذہب پر سیدھے سوال کی اس روایت کو اس وقت مزید تقویت مل گئی جب مذہبی رہنمائی اور سماجی کارکنی کے راستے اورعمل درآمد کرنے والے اہل کار الگ ہونے لگے۔یہ علیحدگی آہستہ آہستہ ٹکراؤ کی صورت اختیار کرنے لگی۔ان کی بولیاں بدلیں۔ان کے لباس الگ ہو گئے۔اسٹیج اور ادارے الگ ہو گئے۔اپنے اپنے طور پر انسانی خدمت کرنے کی بجائے ایک دوسرے کے خلاف ہو گئے۔ پوری طاقت اسی ذاتی تصادم میں صرف کرنے لگے۔نتیجہ یہ ہوا کہ اصلاح کی بجائے انتشار ہونے لگا۔آج کی صورتحال یہ ہے کہ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں میں دس سے زائد گروہ ہو چکے ہیں۔اس کے بعد ہر گروہ کے اندر بھی دسیوں طرح کے نظریاتی اور ذاتی اختلاف پائے جانے لگے۔اس اختلاف نے مذہب و سماج کے ما بین ایسی دوری قائم کر دی اورنفرت و تحقیر کی اتنی روایتیں حائل کر دیں کہ ایسا لگتا ہے کہ سماج کے مخالف اگر کوئی ہے تو وہ مذہب ہے اور مذہب کے آگے سب سے بڑی دیوار سماج و معاشرہ ہے۔ جب کہ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی مذہب کی بنیادی تعلیم ایک اچھے معاشرے کی تشکیل ، انسان کا احترام اور اخوت و رواداری کو فروغ دینا ہے۔
اتنا بڑا تصادم اور فرق امتیاز ایک دن میں نہیں آتا۔ کسی بھی اچھی بری تبدیلی میں ایک عرصہ لگتا ہے۔سماج کے اندر اسے پھیلانے میں سب کا ہاتھ ہوتا ہے۔کسی کا ہاتھ چھپا ہوتا ہے۔ تو کسی کا آستین کے اندر ہوتا ہے۔ کوئی کھل کر معاصیت کو فروغ دیتا ہے، تو کوئی اسے نظر انداز کر کے اور ظلم پر خاموش رہ کر اس میں شرکت کرتا ہے۔ ظلم کو فروغ پانے سے روکنے کے جتنے بھی راستے ہو سکتے ہیں ہر راستے کو بند کرنے کی کوشش نہ کرنا بھی برائی کو بڑھاوا دینے کے مترادف ہے۔ اس کے بعد وہ چلن اور فروغ تب پاتا ہے جب ہر کوئی صفائی دینے کے لئے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہراتا ہے۔ خود کو بچاکر دوسرے کو اس کا ذمہ دار گردانتا ہے۔سماج میں یا مذہبی روایات میں غلط طریقے سے رائج پانے والی روایات یا غلط روایات کے داخل ہو کر رواج پانے کے لئے ہر فرد اجتماعی طور پر اور سماج و مذہب کا ذمہ دار طبقہ انفرادی طور پر ذمہ دار ہے۔برائیوں کے رائج ہو جانے کے بعد اس کی اصلاح کی کوشش کرنے کے بجائے ایک دوسرے کو کوسنا اور اس کی توہین و تضحیک کرنا جرم عظیم اور گناہ کبیر ہے۔
مذہب اور سماج دوالگ چیزیں نہیں ہیں۔عدل و انصاف، اخوت و مروت اور ہمدردی و رواداری پر مبنی کسی بھی سماج کی تشکیل کے لئے مذہب کی ضرورت ہوتی ہے اور مذہب کے لاگو ہونے اور اس کی تعلیمات کا اطلاق ہونے کے لئے قوم او ر سماج کا ہونا ضروری ہے۔اکثر و بیشتر تاریخی روایات کا تعلق کسی حکمت و فلسفہ، تعلیم وتربیت یا پھر موقع و محل، سیاق و سباق اور ضرورت و تقاضے کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ثقافتی، تہذیبی اور سماجی رسم ورواج اور کلچر و روایات کے پیچھے کچھ نہ کچھ حکمت و تعلیم ضرور ہوتی ہیں۔موجودہ دور کے کسی بھی رسم و رواج اور ثقافت وروایت کو دیکھ کر یکسر اس کی نہ تو پیروی ضروری ہے اور نہ ہی اس کا انکار واجب ہے۔اس کے پیچھے کے مقاصد جاننے کے بعد یہ فیصلہ لیا جانا چاہئے کہ موجودہ دور میں اس کی ضرورت و اہمیت کتنی ہے۔ آیا اب اس کی ضرورت و اہمیت ختم ہو گئی ہے یا پھر ضرورت تو ہے لیکن طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت ہے۔جب تک مسئلے کی اصل اور اس کی جڑ تک رسائی نہیں ہوتی اس پر کسی بھی طرح کا مثبت و منفی رد عمل نقصان دہ ہی ہوتا ہے۔ یہ ٹکراؤ ہمیشہ بنا رہتا ہے کہ کرنا صحیح ہے کیونکہ اس کے پیچھے وجہ یہ اور کرنا غلط ہے کیونکہ اس سے یہ نقصان ہوتا ہے۔جب حلت و حرم کے بیچھے مقاصد درست ہوں تو سمجھ لینا چاہئے کہ مسئلہ در اصل طریقہ کار میں ہے۔
دوسری بڑی مشکل یہ ہے کہ کوئی بھی فرد آج اپنے قول سے پیچھے ہٹنے کو اپنی توہین سمجھتا ہے۔ جب کہ اس کا بھی اعتراف ہے کہ کل علم کسی کو نہیں ہے۔کسی فرد کا رد عمل یا موقف اس کے اپنے علم پر مبنی ہوتا ہے۔وہ درست تو ہو سکتا ہے لیکن صرف وہی درست ہو ضروری نہیں کیونکہ اس کے علم سے آگے بھی علم ہو سکتا ہے۔اگر خدائی کے اس دعوے کو ترک کر دیا جائے تب بھی کئی مسائل اپنے آپ حل ہو سکتے ہیں۔ اپنے موقف کو امکان خطا کے ساتھ درست سمجھے اور دوسرے کو موقف کو درست کے امکان کے ساتھ غلط سمجھے تو بھی مسئلے سلجھائے جا سکتے ہیں۔خدائی کا یہ دعوی بھی انہیں تباہ کئے ہوئے ہے۔ حالانکہ ہر ایک کا زبانی دعوی ہے کہ وہ تو ناچیر، حقیر اور کم علم ہے۔
اصطلاحوں کا بھی بڑا عمل دخل ہوتا ہے۔ اصلاح و تربیت میں الفاظ و انداز کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کی ایک مثال یہ ہے کہ آج پوری دنیا میں قوم مسلم کی زبوں حالی کسی سے بھی چھپی ڈھکی نہیں ہے۔ اسلام اور مسلمانوں کا دعوی ہے کہ اسلام اور مسلمان پوری دنیا میں غلبہ کے لئے ہیں۔ تو ان کی خود یہ بدتر صورتحال کیوں ہے۔جب اس پر غور کیا جانے لگا تو کئی حقیقتیں سامنے آئیں اور اصلاح کی کئی صورتیں دکھائی دیں۔ ان میں سے جو آواز سب سے زیادہ اٹھائی گئی وہ یہ ہے کہ دین و مذہب میں نظر ثانی کی ضرورت ہے۔یہ جائزہ اور تجزیہ ملک کے کچھ سیکولر طبقوں نے کیا۔ کیونکہ اب تو محاسبہ بھی اس قوم کا عملی مقدر نہ رہا۔ لیکن جب کوئی اور ہمیں مشورہ دیتا ہے تو ہمارے جذبات مشتعل ہو جاتے ہیں۔ اور دین خطرے میں آ جاتا ہے۔ دین میں نظر ثانی کی اصطلاح اتنی بھاری پڑ جاتی ہے کہ مسائل کا حل خود ایک مسئلہ بن جاتا ہے۔دین کے تین اہم پہلو ہیں۔ عقیدہ، عبادت اور معاملہ۔ عقیدہ و عبادت میں کسی بھی طرح کی تبدیلی کی گنجائش نہ ہونے کے باوجود معاملات و مسائل میں تو حالات زمانہ کی رعایت شامل ہوتی ہے۔اس کے بارے میں میں تو خود قرآن اور صاحب قرآن نے جگہ جگہ ارشاد فرمایا کہ غور و فکر کرو۔دوسرا پہلو ہے موقع و محل کی رعایت اور
معاملات و مسائل کا محل استعمال۔ اس لحاظ سے بھی غور فکر درکار ہے۔
اس لحاظ سے دین میں نظرثانی کے دوپہلو ہیں۔ ایک تو یہ کہ اس میں ترمیم و تبدیل پر غور کیا جائے۔جس کے امکانات کا ہر ایک پہلو بند ہے۔
نظر ثانی کا دوسرا پہلو یہ بھی ہو سکتا ہے کہ قرآنی آیات و نبوی ارشادات سے جو مسائل و معاملات اور ان کے محل وقوع ہم نے سمجھے ہیں، ان میں ایک بار پھر سے غور کر لیا جائے۔اور اس میں تو کوئی برائی بظاہر نظر نہیں آتی۔ جب قرآن کے بارے میں ہمارا یہ دعوی ہے کہ اس میں قیام قیامت تک کے واقعات کا علم ہے۔مسائل اور ان کا حل ہے۔ تو ان سے واقف ہونے کی کوشش کرنا بھی تو ہمارے لئے ضروری ہے۔دین میں نظر ثانی کا لفظ سن کا یکسر برہم ہونے کی بجائے اس کے امکانی پہلوؤں پر غور کرنا چاہئے۔اگر اس سے مسائل حل ہو سکتے ہوں تو اس کے لئے کوشش واجب اور کوتاہی حرام ہے۔
یہی حال سماج و سیاست کا ہے۔اپنی تنگ نظری اور محدودذہنیت کی وجہ سے نظر ثانی اور مفید تبدیلیوں کے راستے بند کر رکھے ہیں۔کیونکہ نظر ثانی اور کارآمد تبدیلیوں سے مذہب، سماج اور سیاست کے نام کا کاروبار بند ہونے کا خطرہ بھی ہوتا ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com








ماشاء الله، جزاك الله خيرا
ReplyDelete