Monday, November 25, 2019

چلو اچھا ہوا چہرے بے نقاب ہو گئےअच्छा हुआ चेहरे बे नक़ाब हो गएIts good as faces exposed

چلو اچھا ہوا چہرے بے نقاب ہو گئے

عبد المعید ازہری
ایودھیا میں متنازع زمین پر بابری مسجد کے ایک طویل مدتی جھگڑے کو آخر کار عدالت عظمیٰ نے حل کر دیا۔ تین ججوں کے مشترکہ اور متفقہ فیصلے پر قانونی اور تکنیکی بحث جاری ہے۔ مسلمانوں کے اکثریتی طبقہ نے ہندوستانی عدلیہ پر یقین جتاتے ہوئے فیصلے کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ جس طرح سے فیصلہ سے پہلے عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اس پر عمل پیرا ہو کر ہندوستان کے بہترین شہری ہونے کی مثال قائم کی ہے۔
فیصلہ سے پہلے بھی عدالت کے فیصلے کی پیشین گوئی نہیں کی اور نہ ہی اپنی کوئی منشاء ظاہر کی۔ یہ کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے عدلیہ پر آنکھ بند کر کے یقین رکھنے کی اعلی مثال ہے۔ اب یہ عدالتوں کے اوپر ہے کہ فیصلہ کس طرح کریں۔ کم از کم اس حل کے بعد اس کی توقع کی جا رہی ہے کہ انسانی جان و مال کے مزید ضیاع کو بچا لیا گیا ہے۔ورنہ کسی اور صورت میں نتیجے کافی نقصان دہ ہو سکتے تھے۔وہیں اس حل نے مسلم قیادتوں پر بھی ایک گہرا اور تشویس ناک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ جس پر آواز کی امید پچھلی دو دہائیوں سے محسوس کی جا رہی تھی، عوام و خواص نے اس پر کھل کر بات کرنا شروع کر دیا ہے۔خود ساختہ مسلم قیادت کے حساب کتاب وقت آ گیا ہے۔ کبھی بھی کسی سے بھی کسی بھی قیمت پر قوم مسلم کا سودا کرنے والی سیاسی، سماجی و مذہبی مسلم قیادت کو اب
حساب دینا ہوگا۔ قیادت کے اعلان سے پہلے انہیں سو بار سوچنے کے علاوہ قوم کے تئیں جواب دہی کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔
ایودھیا تنازع کے بعد جس طرح سیکڑوں برسوں کی نام نہاد اور خودمختار مسلم قیادت کی دعوے دار مسلم تنظیموں جمیعت علماء ہند، جمیعت اہل حدیث اور جماعت اسلامی ہند کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈاور صوفی ڈیلیگیشن پر عوامی احتجاجی رد عمل کا اظہار ہوا ہے وہ قابل غور ہے۔ تین طلاق، کشمیر اور ایودھیا کے معاملوں نے مسلم قیادت کی ناکامی، نا اہلی اور خود غرضی کے ساتھ ساتھ سودے بازی
کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔مسلم قیادت کے نام پر دین اور ضمیر بیچنے والے ہر سفید چہرے کے کالے کارنامے لوگوں کے سامنے آ گئے۔ ملک گیر سطح پر ایسے میر جعفروں پر قد غن لگانے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔اب سے کسی بھی ریاکار قوم فروش قائد کی زبان عوام کی رائے نہیں ہوگی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ معاملوں میں کی جانے والی کاروائیاں خیر اندیش رہی ہیں۔سیاست کے گلیاروں میں بکنے والی داڑھی، ٹوپی، کرتا جبہ و دستار کا یہ کاروبار بند ہونے کی کگار پر آ چکا ہے۔وقت و حالات کے لحاظ سے مذہبی ٹھیکیداری کے بدلتے

چہروں کی رو نمائی ہو چکی ہے۔
تین طلاق بل کے وقت بھی کم و بیش یہی حالات رہے ہیں۔بل سے پہلے ہی ان نام نہاد تنظیموں کی جانب سے سودا ہو چکا تھا۔ ایسے ہی کشمیر کے معاملوں میں کالے کارناموں کی طویل فہرست اور نفس پرستی پر خود غرضی نے جبہ و دستار کو بیچ دیا۔بابری مسجد کا سودا تو برسوں پرانا ہے۔ مقدمہ کی پیروی سے لے کر عدالت کے باہر آپسی صلح سمجھوتہ کی کوشش اور اس کے بعد عقیدت کے نام پر زمین وقف کردینے کی گزارشات نے مل کر ایودھیا تنازعہ کا یہ حل نکالا ہے۔اس پہلے بھی ندوہ اور ندوی کردار مسجد سے دست برداری کا رہا
ہے اور آج بھی وہی ہے۔مدنی خاندان کی مذہبی ٹھیکیداری نے بھی طلاق، کشمیر اور بابری مسجد معاملے اپنا رخ واضح کر دیا۔
یوروپین ممالک کے پارلیامانی اراکین کے وفد میں سے کم سے کم کسی ایک میں تو ہمت ہوئی جس نے حق و انصاف کی بات کی ورنہ اندرون ملک کے صوفی ڈیلیگیشن نے تو آنکھوں پر پٹی ہی باندھ لی تھی جہاں روشن اندھیرے کے سوا کچھ دکھا ہی نہیں۔
ہماری بحث اس سے نہین ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم مسائل پر حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے۔ طلاق، کشمیر اور ایودھیا کا جو حل نکلا وہ کتنا درست یا غلط ہے۔
ہماری گفتگو تو ان تمام مسائل میں مسلم قیادت کی حصہ داری سے ہے۔تینوں ہی مسئلوں میں آنے والے نتیجوں کے لئے مثبت زمین ہموار کرنے میں اس کلرجی کا کتنا رول رہا ہے۔حالانکہ کی بکی ہوئی زبانوں کی زہریلی بیان بازی ابھی جاری ہے جس سے تفریق و تقسیم کی دیوار مزید مضبوط ہورہی ہے اور سیکولر افکار و نظریات کو چوٹ لگا رہی ہیں۔لیکن شاید یہ بجھتے ہوئے چراغوں کی آخری لو ہیں۔
اس طرح کے عوامی رد عمل کی توقع تو شاید مدنی فیملی ندوی برادری اہلی حدیث اور جماعت اسلامی کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ کے نمائندہ ٹھیکیداروں نے
نہ کی ہوگی۔اس میں بڑی بات یہ ہوئی کہ کسی بھی گروپ کی نقاب کشائی کا فریضہ اسی گروہ سے وابستہ غیرت مند افراد نے کیا ہے۔ اگر
ایسا نہ ہوتا تو شاید شرم و حیا، غیرت و حمیت سے عاری یہ بے ضمیر رہزن اسے مسلکی افتراق و اختلاف کی نذر کر دیتے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ و القاب عوامی رد عمل میں اظہار کئے جانے والے لہجوں سے کہیں کم ہیں۔مزید یہ کہ یہ ذاتی نہیں ہیں۔کسی فرد واحد کی مخالفت نہیں بلکہ ان اقدامات سے اختلاف ہے جس نے قوم کو بے
   بسی اور بے چارگی کے اس دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
اب جب کہ حالات و ضروریات کے چہرے سے بناوٹی گرد چھٹ چکی ہے۔یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آج کی مذہبی، سیاسی اور سماجی نام نہاد مسلم قیادت کے خلاف بلند ہونے والی ان غیرت مند آوازوں کو ایک تحریک کی شکل دی جائے۔جہاں لوگوں کو پیچھے کھڑا رکھنے کی بجائے ان کو ساتھ رکھ کر چلنے پر زور ہو۔کسی بھی نمائندہ آواز کو اس وقت تک عوامی رائے بننے سے روکا جائے جب تک عوام سے رجوع نہ کر لیا جائے۔سیاست کے بازار میں کاروبار کرنے والی مذہبی ٹھیکیداری پرمکمل لگام لگائی جائے۔جواب دہی کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ٹوپی اور ٹائی کی مشترکہ کوششوں سے عوام بیداری کی مہم چلائی جائے۔اپنی ناکامی کا ٹھیکرا کسی ایک فرد یا جماعت پر پھوڑنے چلن بند ہو۔

Friday, November 15, 2019

مسلمانوں میں فرقہ بندی मुसलमानों में बढती गिरोह बंदीincreasing divisions among muslims

مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بڑھتا رجحان


عبد المعید ازہری

قوم مسلم کا آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسلام کے مبلغ آج کفر کی تبلیغ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ایمان کی روشنی سے انسانی حیات کی تاریکی دور کرنے کی بجائے روشن حیات انسان کو جبرا کفر و شرک کے اندھیرے میں قید کرنے کی مذموم کوشش میں لگے ہئے ہیں۔امن اتحا د کے پیغام بر انتشار و افتراق کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں۔
اس بات سے انحراف ممکن نہیں کہ جھگڑا، فساد، اختلاف اور انتشار انسانی فطرت کا حصہ ہے۔اسی لئے انسانی سماج میں توازن قائم رکھنے کے لئے ترغیب و ترہیب کے قوانین وضع کئے گئے اور ان کے نفاذ سے معاشرے میں امن و امان، سلم سلامتی اور حقوق اور انصاف کا نظام قائل کیا گیا۔انسانی سماج کو دین کی ضرورت بھی اسی لئے آن پڑی کہ اس سے نظام عدل و مساوات قائم و دائم رہے۔کسی بھی مذہب کی بنیادی افادیت میں معاشرے میں سکون و توازن کا فروغ لازمی طور پر موجودہ ہے۔اسلام کے دونوں بنیادی مآخذ قرآنی آیات اور نبوی ارشادات میں اس بات کا خلاصہ موجود ہے۔ قرآن نے ایک درجن سے زائد جگہوں پر اس بات پر زور دیا کہ آپس میں گروہ بندی نہ کرو۔خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں منقسم نہ ہو۔ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن میں خدا نے فرمایا کہ جو لوگ فرقہ بندی میں ملوث ہوتے ہیں اور اسے بڑھاوا دیتے ہیں وہ بڑے گناہ میں شامل۔ تو آپ سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کئی جگہ پر تفریق و تقسیم پر خدا نے واضح روک لگائی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج اسلام کے نمائندے مسلمانوں کی تقسیم کو خدا کی سنت سمجھ کر فروغ دے رہے ہیں۔ یا تو وہ کسی نئی خدائی کا دعوی کر رہے ہیں یا پھر اس خدا کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں جو فرقہ بندی کو پسند نہیں فرماتا۔
آج کے نام نہاد مسلم نمائندے جو مسلکی اور مذہبی اختلاف کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں اور اس اختلاف کو خدا و رسول کی مشیئت و مرضی تصور کرتے ہیں وہ خدا اور رسول پر بہتان لگاتے ہیں۔تکفیر و تفسیق، شرک و بدعت، حرام و حلال کے یہ تاجر اپنی خدائی کا کاروبار چلانے کے لئے قرآن و حدیث من مانی توضیح اور خدا و رسول کے فرمودات کی بے جا تاویل کی مجرمانہ حرکت سے بھی گریز نہیں کرتے۔خدا نے جنہیں اسلام و ایمان کا مبلغ بنایا وہ کفر و شرک کے داعی بن گئے۔ایمان و اسلام کی دولت تقسیم کرنے کی بجائے کفر و شرک، فسق و بدعت کا زہر قوم کے اندر ہی گھولنے لگے۔ ایک دوسرے میں الفت انسیت کا فروغ دینا تھا لیکن انہوں نے مسلک و مشرب اور مذہب ملت کے نام پر ایسی تقسیم شروع کر دی کہ ایک دین اور ملت کے پیروکار ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
ان جاہل علماء و مشائخ نے اپنے کاروباری دین کی نشر و اشاعت کے لئے خدا اور پیغمبر تک کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا۔فرقوں کی تقسیم کے لئے خدا کے رسول سے منسوب ایک روایت ذکر کی جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ بنی اسرائیل میں 72 فرقے ہوئے تھے لیکن ہماری امت میں 73 فرقے ہوں گے جن میں ایک حق پر ہوگا۔دوسری دلیل قرآن کی ہے کہ خدا نے جب حضرت آدم کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں کو اس بابت آگاہ کیا تو فرشتوں نے کہا کہ خدا کریم کیا تو ایسے کو اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد اور قتل خوں ریزی کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم کی فطرت میں جھگڑا و فساد ہے۔ لہٰذا فرقہ بندی، انتشار و اختلاف اور جھگڑا فساد تو خدا و رسول کے فرمودات کے حساب سے ہی ہے۔
جب کبھی بھی اور کسی بھی قوم کو اس طرح کے نمونے قیادت کی شکل میں ملے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ قوم کی تباہی کوئی نہیں روک پایا ہے۔اس قوم کی بربادی کے لئے کسی دوسرے کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔یہ قوم مسلم کی شومئے قسمت ہے کہ اس طرح کے جاہل اس کی قوم کی دین قیادت کر رہے ہیں۔
جب خداکے سامنے فرشتوں نے ابن آدم کی خصلت کا ذکر کیا تو خدا نے فرمایا تھا کہ ائے فرشتوں میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور علم و حکمت کی خوبی نسل آدم میں بطور فطرت ڈال دی کہ اب یہ علم اس فساد اور فتنہ سے بنی آدم کی حفاظت کرے گا۔دنیا کا کوئی بھی مصلح اور محسن ہو یہاں تک کہ عام باپ ہو وہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ میرے بچوں میرے بعد تمہارے درمیاں زر زمین، دولت و شہرت یا اقتدار افتخار کے نام پر جھگڑے ہو سکتے ہیں لیکن تم آپس میں صلح سمجھوتہ کے ساتھ رہنا۔ کچھ بھی ہو جائے آپسی رشتے کو مضبوط رکھنا اور اس اتحاد کو بکھرنے مت دینا۔جب اس طرح کی توقع ایک عام انسان سے کی جاتی ہے تو کیا پیغمبر اسلام سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے تقسیم امت کی نشان دہی کرتے ہوئے اس سے باز رہنے کی نصیحت نہیں دی ہے۔
سیکڑوں ایسی روایتیں ہے اور درجن بھر ایسی آیتیں ہیں جو امت کی فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتی ہیں۔ لیکن یہ اس قوم کے مذہبی رہنماوں کا قرآن و حدیث پر ظلم ہے کہ قوم کو خدا و رسول کے نام پر بانٹ رہے ہیں۔فرقہ بندی کے جواز کی راہیں تلاش کرنا سراسر ظلم ہے۔حق تو یہ تھا کہ انتشار کے سد باب کے راستے تلاش کئے جاتے۔
آج اتحاد ملت کی ریاکارانہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ جہاں پہلے یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ہم جس گروہ یا مسلک سے جڑے ہیں اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے۔یہ مضبوطی کسی دوسرے کی بات سننے ہی نہیں دیتی۔اپنے علاوہ سب بے کار لگتا ہے۔جو خود سمجھے وہی قرآن واسلام باقی سب خلاف۔دانش مندی و دور اندیشی، حکمت و فلسہ اور علم و ادراک سے پرے کتابوں کے بوجھ تلے دبے نام نہاد رہبران قوم و ملت آج صرف قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔خود ساختہ تحقیق پر مبنی کتابوں کے علم کی روشنی اس قوم کو منزل سے کوسوں دور لے جاتی نظر آرہی ہے۔اگر اس قوم کو وقت رہے اس مجرم قیادت سے آزاد نہ کرا لیا گیا تو وہ دن دور رنہیں جب یہ کاروباری دین رسول کا مکمل بائکاٹ کر دے گا۔ایسے رہنماؤں سے آزادی میں ہی عافیت ہے جو خدا اور رسول کا استعمال کر کے لوگوں کو خدا اور رسول سے دور کرتے ہیں۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے، روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں۔


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Thursday, November 7, 2019

اسلام کے مبلغ کفر کی تبلیغ کرنے لگےइस्लाम के प्रचारक कुफ्र फैलाने लगेIslamic preachers on the way of anti Islam

اسلام کے مبلغ کفر کی تبلیغ کرنے لگے

عبد المعید ازہری
قوم مسلم میں تکفیر کا بڑھتا چلن قوم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی سوالوں کے کٹگھرے میں کھڑا کر رہا ہے۔جس طرح سے خدائی فیصلے لینے کا رجحان اس قوم کا مقدر بنتا جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب دین و مذہب سے بیزاری کی شرح میں بڑا ضافہ نظر آنے لگے گا۔دیگر قوموں کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کا بھی تعلیم یافتہ طبقہ خود کو مسلم مذہبی نمائندوں سے دور رکھنے میں ہی عافیت محسوس کر رہا ہے کیونکہ ذرا سی انا کو چوٹ لگتے ہیں ایمان کے دروازے بند کر او ر ساتھ ہی کفر و الحاد کے دو چار دروازے کھول دئے جاتے۔کیونکہ ایمان و کفر کے دروازوں کی چابی آج کل انہیں کے پاس معلوم پڑتی ہے۔آج اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسانی معاشرے میں دو دین نفاذ پا چکے ہیں ایک خدائی دین جوخاموش ہے ایک ملائی دین جو حشر بپا کئے ہوئے ہے۔خدائی دین کا ماخذ اسلام اور اسلامی تاریخ ہے جس کا مرکز رسول کریم کی ذات و صفات، بیانات و ارشادات اور فرمودات و احکامات ہیں۔اس ملائی دین کا انتساب مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ جس میں جنگ و جدال، قتل و قتال، اقتدار و افتخار، خانہ جنگی، رسہ کشی، حکومت و سلطنت، خواہشات و نفسانیات پر مبنی جنگی کارنامے وغیرہ ہیں۔یہی اس دین کا مرکز بھی ہے۔ اس میں اتنی وسعت ہے کہ اپنے اپنے مزاج و موافقت کی سیکڑوں راہیں نکل سکتی ہیں۔اس ملائی دین کا بنیادی جرم یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بتا کر خدا کے دین میں نفسانی تجارت کی راہیں نکالنے کا ظلم عظیم کیا۔اب اس کے بعد اپنے ہر سیاہ و سفید کی نسبت اسلام، خدا اور اس کے پیغمبر سے کرنا آسان ہو گیا۔یہیں سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا۔ اسلام کی تبلیغ کفر کی نشر و اشاعت میں بدل گئی۔
مسلم حکمرانوں کی تاریخ سیکڑوں سیاہ و سفید مضامین پر مبنی ہے۔خلافت و ملوکیت کی داستان کے بعد بنو امیہ، بنو عباس اور فاطمی دور اقتدار سے ہوتے ہوئے خلافت عثمانیہ کی دردناک تاریخی تباہی کے منظر انسانی روح کو جھنجھوڑتے ہیں۔اگر یہ اسلام ہے تو نہایت ہی خوف ناک ہے۔
اس پورے تاریخی سفر میں ایمان ابو طالب اور کفر یزید بحث و مباحثہ اور مذاکرہ و مناظرہ کا مرکزی موضوع رہا۔بیشتر افراد نے اس پر زبان درازی سے خود کو روک کر خاموشی کو بہتر جانا۔ حالانکہ آگے چل کر اس خاموشی کو بھی استعمال کیا گیا۔اس مسئلہ میں مشترک بات یہ ہے کہ جو لوگ ابو طالب کے ایمان پر زور دیتے ہیں وہی یزید کے کفر پر بھی بضد ہیں۔ اور جو ابو طالب کو کافر ماننے پر مصر ہیں وہی یزید کومومن ہی تسلیم کرتے ہیں۔ابو طالب اور یزید مسلمانوں کی تاریخ کے دوایسے کردار ہیں جو منفرد ہیں۔
اعلان نبوت سے قبل اور اس کے بعد پیغمبر کی ذاتی حفاظت سے لے اسلام کی حفاظت تک کی تاریخ میں ابوطالب کا نام سنہرے لفظوں میں موجود ہے۔ایک طرف کردار ابو طالب ہے جہاں کلمہ شہادت کا بظاہر اعلان نہیں ہے لیکن کلمہ اور صاحب کلمہ کی حفاظت میں اپنی پوری توانائی صرد کر دی۔ قبیلے کے بڑے بڑے سرداروں سے جھگڑے کئے۔زبان،مال اور تلوار ہر چیز سے اسلام کے پیغمبر کی حفاظت کی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ قبیلہ کے دین کے خلاف نئے دین کی تبلیغ ان کے بھتیجے کر رہے ہیں۔دوسری طرف یزید ہے جس نے کلمے کا ظاہری اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اسلام نے جس بھی عمل کو گناہ،حرام اور غیر انسانی قرار دیا تھا یزید نے وہ سارے عمل کئے تھے۔یزید کے کالے کارناموں کی فہرست میں کچھ ایسی کرتوتیں بھی ہیں جن پر عمل آوری سے ایک عام انسان ہزار بار سوچے گا۔
دوسرا مسئلہ صحابہ کی زمرہ بندی کا ہے۔ فتح مکہ سے قبل اور اس کے بعد کے صحابہ میں تفریق کا۔ رسول خدا نے فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کرنے کا عام اعلان کر دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔ حالانکہ ایک عرصہ دراز تک خاندانی مزاج نظر آتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے ایسے سردار ایمان لائے تھے جو اسلام اور صاحب اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ سردار تھے۔ خاندانی رئیس اور بااثر و صاحب رسوخ تھے۔ وہیں فتح مکہ سے قبل ایمان لانے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا رتبہ قبیلہ و خاندان کے اعتبار سے قدرے کم تھا لیکن پیغمبر کی نظر میں ان کا مقام کافی بلند تھا۔ اس لئے کبھی بھی ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوتا تھا تو وہ خاندانی رعب و دبدبہ دم بھرنے لگتا تھا۔اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔یہ عرب کی نسلی خصوصیت تھی کہ خاندانی جاہ جلال اورافتخار اعزاز ان کے خون میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی جنگوں کا سلسلہ کئی نسلوں تک طویل ہو جاتا تھا۔
آج کا ملائی دین اور اس کے ٹھیکیدار اسی کا شکار ہو گئے ہیں۔صوفیا اور بزرگوں نے ان معاملات میں خاموشی اختیار کی تھی اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس پر مذاکرہ اور مناظرہ کرنے سے انتشار کی راہیں مزید وسعت اختیار کر لیں گی۔کسی کے ایمان اور کفر کو تلاش کر کے اس پر چرچا کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اعمال کی فکر کرو۔ ایمان و فکر کا فیصلہ خدا کو کرنے دو۔کسی کو جبرا مومن یا کافر کرنے کی مجرمانہ ضد ترک کریں۔ تاریخ کے ادنی مطالعے سے کسی بھی آدمی کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ایمان و کفر کی علامتوں کو پہچان جائے گا۔رہی بات خاموشی اختیار کرنے والے بزرگوں کے موقف کی تو انہوں نے موقف پر سکوت اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے اظہار و اعلان اور چرچا و تذکرہ پر خاموشی اختیار کی تھی تاکہ امت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ ابو طالب کے کفر اور یزید کے ایمان پر زور دینے جیسے عمل کو دین کا حصہ سمجھنے والے ملائی دین کے ٹھیکیداروں کو یہ بات سمجھنی چاہئے۔جو دین قوم کو منتشر کرتا ہو وہ خدا و رسول کا دین نہیں ہو سکتا۔
دین تو انسانی عظمتوں کی بلندی کی تبلیغ کے لئے تھا۔ امن و سلامتی کی نشر و اشاعت کا پیروکار تھا۔ کب سے یہ دین تکفیر و تذلیل کا ایک پلیٹ فارم بن گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس ملائی دین نے خدائی دین کو خود تو پس پشت ڈال ہی دیا ہے اس کے ساتھ ہی عام مسلمانوں کو بھی اس سے دور رکھنے کے انتظامات کر لئے ہیں۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@