جب مذہب گمراہ کرنے لگے۔۔۔
عبد المعید ازہری
خدا نے انسان کی تخلیق کے بعد اسے انسانی سماج میں رہنے دیا۔ اس انسانی سماج کو مذہب اختیار کرنے کی آزادی دی۔ کسی پر کوئی مذہب جبرا مسلط نہیں کیا۔ البتہ اپنا پسندیدہ دین واضح کر دیا۔ اس دین کی نشر واشاعت اور تبلیغ کے لئے با قاعدہ نظم و نسق بھی کیا۔ انبیا و رسولوں کا ایک سلسلہ شروع ہوا جو ایک وقفے کے بعد آتے رہے اور خدا کے پسندیدہ دین کی تبلیغ کرتے رہے۔ انسانی سماج کے لئے وہ دین کتنا معتدل، جامع اور منافع بخش ہے اس کی بھی وضاحت اور تبلیغ کرتے رہے۔ جن کے دلوں پر اس دین کی منفعت واضح ہوئی اور اس دین کی ہدایت کا نور ان کے دلوں میں روشن ہوا وہ اس دین کو اختیار کرتے چلے گئے۔ یہ سلسلہ نبوت و رسالت آخری نبی پیغمبر اسلام حضرت محمد علیہ السلام تک آکر ختم ہوا۔ اس کے بعد یہ سلسلہ آخری نبی کے پیروکاروں کے ذریعہ آج تک جاری ہے۔ اس پوری نبوی تحریک کی تبلیغ میں پہلے نبی حضرت آدم سے لیکر آخری نبی تک ہر ایک نے لوگوں کو خدا کے پسندیدہ دین کی طرف دعوت دی۔ یعنی ایمان کی تبلیغ کی۔ کسی کے کفر پر لعن طعن اور ملامت کے ذریعہ ایمان میں داخل ہونے کے دروازے کو بند نہیں کیا۔ بلکہ کفر کی شدید گہری تاریکی پر بھی ایمان کے امکانی دروازے کو خوش مزاجی کے ساتھ کھولے رکھا۔ دوسری اہم بات یہ تھی کہ مختلف ادیان و مذاہب والے کثیر ثقافتی اور مذہبی ماحول میں جینے کی نہ صرف راہیں نکالیں بلکہ دوسروں کے لئے مثالی اور متاثر کن زندگی جینے کی ترغیب دی۔ہمیشہ میل جو کو بڑھاوا دیا اور انسانیت کو دین کا سب سے مضبوط معیار بنایا۔
آج مسلمانوں کی معاشرتی زندگی ان کے دین کے برخلاف جاتی نظر آ رہی ہے۔ دین کو خود پر برتنے کی شدت اپنی حدوں کو توڑتے ہوئے دوسروں کی پسند و نا پسند کا فیصلہ کرنے لگی۔ کسی کے دل یا دماغ میں کیا ہے اس کا فیصلہ دوسرے لوگ کرنے لگے۔کسے مؤمن یا کافر ہونا ہے اس کافیصلہ اس کا اپنا یقین و اعتقاد نہیں بلکہ ادارے اور دوسرے افراد کرنے لگے۔ایک کثیر تہذیبی اور مذہبی ملک و معاشرے میں مساوی راستے (کلمۃ سواء) کی تلاش کرنے والے پر مذہب کا پھندا کستا چلا جا رہاہے جہاں اسے گھٹن کا احساس بھی شروع ہو گیا ہے۔
پیغمبراسلام کی قابل تقلد کتاب زندگی میں کچھ ایسے بھی ابواب ہیں جو ہماری معاشرتی زندگی پر بڑی وضاحتی روشنی ڈالتے ہیں جن پر آج کا نام نہاد مذہبی گروہ گمرہی کے پردے ڈالتا نظر آ رہا ہے۔ ایک منافق کے جنازے پر کھڑا ہونا ہو یا پھر اس کی میت پر اپنی چادر رکھنا یا پھر اہل مکہ کے ساتھ اس گروہ میں شامل ہونے کی خواہش کا اظہار ہو جو اعلان نبوت سے قبل مکہ میں آنے والے زائرین (کافر و مشرک)کی حفاظت کرتا تھا۔ اس طرح کے عمل ان کے بعد ان کے سب سے معتمد اور اہل اسلام کے لئے سب سے معتبر نمونہ عمل اصحاب کرام نے بھی کیا۔کسی بھی غیر مسلم کے ساتھ اس کے سکھ دکھ میں ساتھ دینا، اس کے ساتھ تجارت و کاروبار کرنا، اس کے ساتھ معاشرتی معاملات رکھنا، خوشی میں شامل ہونا اور کسی کے ٹوٹنے پر اس کی ڈھارس بندھانا کبھی اسلام کے خلاف نہیں تھا۔انسانی رشتوں اور جذبات کا اظہار کبھی اسلام کے راستے کی رکاوت نہیں تھا۔پھر آخر یہ سب خلاف شرع کیسے ہو گیا؟
تشدد کا مقابلہ اور اس کی مخالفت کرتے کرتے آج کا مسلمان خود کتنا متشدد ہو گیا اسے پتہ ہی نہیں چلا۔ مذہبی زندگی تو دور کی بات اسے تو معاشرتی زندگی جینے کی عادت نہیں رہی۔شدت پسندی اور انتہا پسندی کے مقابلے میں شدت اور انتہا پسندی کبھی بھی اسلام کا شیوا نہیں تھا لیکن آج کی مذہبی ٹھیکیداری نے اسلام کی امن و سلامتی کی بنیادی تعلیم کو غلبہ اسلام کی جھوٹی اشاعت کے نام پر شدت پسندی کے قید خانے میں پابند سلاسل کر دیا۔مسلمانوں کے خلاف اٹھنے والی طوفان بد تمیزی میں صرف اسلام دشمن عناصر کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ ناکام، بزدل، فریبی، جھوٹے، کاروباری،منافق نما دھوکہ باز مذہبی و سیاسی قیادت ان کا آلہ کار ہے۔اپنی ہر جہالت، لاعلمی اور کم اور کج علمی کو یہود و نصاری یا یہود و ہنو د کی سازش کا نام دے کر نئی نسل کے مسلمانوں میں مذہب کی افیم کا نشہ بھر دیا ہے۔آج جس طرح سے آر ایس ایس جیسی شدت پسند تنظیمیں مذہب کے نام پر نوجوانوں کو گمراہ کر رہی ہیں کیا ایسی فکر و تحریک قوم مسلم میں نہیں ہے؟ تو کوڑے کے ڈھیر پر بیٹھ کر صفائی کی تحریک کی بے وقوفانہ تبلیغ کو اسلام کا نام دینا کیا اسلام دشمنی نہیں ہے۔
اسلام کی آمد کا جو دور تھا اس میں انسان کے دل میں ایمان کا نور تلاش کیا جاتا تھا۔ اسی کی بنیاد پر اسے دعوت ایمان و اسلام دی جاتی تھی۔ آج کفر کی تاریکی ڈھونڈھنے کو مذہب و شریعت کی خدمت تصور کیا جاتا ہے۔گمرہی کی یہ تاریک روایت پوری قوم کے مستقبل کو ایک زبردست تاریکی میں لے جانے کے لئے کافی ہے۔آج اسلام کو مسلمانوں کی بڑی یاد آ رہی ہے۔جو اسلام کے نام پر مہذب معاشرت کی پیروی کی تعلیم و ترغیب دے سکیں۔کفر کی تبلیغ کو اسلام، مذہب و شریعت کی خدمت کا نام دے کر دین کو بدنام کرنے والوں سے دین کی حفاظت کر سکیں۔جو کثیر تہذیبی اور مذہبی معاشرے میں ایک مثالی زندگی کی بنیاد ڈال سکیں۔جو انسانی رشتوں اور جذبوں کو دین سے جوڑ سکیں۔
اپنے غیر مسلم پڑوسی کے سکھ دکھ میں شامل ہونے، خوشی میں ساتھ دینے اور غم میں کندھا دینے میں کوئی شریعت آڑے نہ آئے ایسی معاشرت کی دوبارہ تشکیل وقت کی اہم ضرورت ہے۔بہترین دین کے پیروکاروں کا بدترین اخلاق اس پوری قوم کے زوال کا سب سے نمایاں سبب ہے۔ جس کی بھرپائی کسی ضد و جارحیت،مخالفت و مخاصمت سے نہیں بلکہ حکمت، حسن عمل اور اعلیٰ اخلاق و کردار سے ممکن ہے۔ ساتھ ہی نام نہادکاروباری سیاسی و مذہبی قیادت سے چھٹکارا کامیابی کی طرف تیزی سے بڑھنے میں مددگار ہوگا۔اگر اس قید سے آزادی میسر نہ ہوئی تو مذہبی افیم کا نشہ اس قوم کو کبھی بیدار نہیں ہونے دے گااور اس قوم کو مذہب کے نام پر بس گمرہی ملے گی۔
جب مذہب گمراہ کرنے لگے۔۔ عبد المعید ازہری
جب مذہب گمراہ کرنے لگے۔۔ عبد المعید ازہری
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@



No comments:
Post a Comment