Friday, October 30, 2015

देश की राजनीति, कानून व्यवस्था, और अखलाक की रोज़ होती मौत Dying Law, System, Politics and ''Akhlaq'' in the Country ملک کے مرتے قانون ،اخلاق ا ور سیاست

देश की राजनीति, कानून व्यवस्था, और अखलाक की रोज़ होती मौत
Dying Law, System, Politics and ''Akhlaq'' in the Country
ملک کے مرتے قانون ،اخلاق ا ور سیاست
عبد المعید ازہری


کسی بھی ملک کے لئے سب سے مشکل کی گھڑی وہ ہوتی ہے جب کہ اس ملک کا نظام اور قانون خطرہ میں پڑ جاتا ہے ۔ اس عوام میں بے چینی پیدا ہونے لگتی ہے ۔ دھیرے دھیرے ایسا ماحول بن جاتا ہے جہاں یہ تصور عام ہو جاتا ہے کہ اب عدلیہ بے بس اور قانون کسی کی گرفت اور شکنجہ میں ہے ۔ یہاں یہ اندازہ لگانا دشوار ہے کہ قانون کمزور ہے یا اسکا نفاذ کرنے والے نا اہل اور کمزور یا مجبور ہیں ۔ مجبوری خو د ایک نا اہلی اور کمزور ی ہے ۔ آج کے ملک نفرت وتشدد کی ایسی آگ میں جھلس رہا ہے جس کی کبھی توقع نہیں کی گئی تھی ۔ تہذیب کا گلہ گھونٹ کر تمدن کو پھانسی دی جا رہی ہے۔کردار کے دامن کو داغدار کر کے اخلاق کو گھر میں گھس کر کچلا جا رہا ہے ۔ قانون بے بس اور لاچار ہے ۔ اس ملک کے سربراہوں کی آنکھوں میں غفلت و توہم کی ایسی گرد پڑ گئی ہے جنہیں یہ نظرہی نہیں آتا کہ ایک ہندوستانی اخلاق کا جنازہ دوسرے ہندوستانی کے ہاتھوں میں نکالا جا رہا ہے ۔ 
یہ غلط فہمی ہے کہ کسی خاص قوم کے اخلاق کو موت آ گئی ہے۔ اخلاق ہر قوم کے مر رہے ہیں۔کہیں جان لے کر تو کہیں جان گنوا کر ۔ اگر ایسے ہی اخلاق مرتے رہے تو ایک دن ایسا آ ئے گا جب اس ملک کا شمار غیر اخلاق ممالک میں ہوگا اور انسا نوں کی دنیا میں غیر اخلاق ملک کا تصور نہیں پایا جا تا ہے ۔ اس ملک کی شناخت پوری دنیا میں آ ج بھی اس کی تہذیب و تمدن کی وجہ سے قائم ہے ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس ملک کو غیر اخلاق بنا نے میں کسی غیر کا نہیں بلکہ خود ہندوستانی کاہاتھ ہے ۔اس کے باوجود ہم فخر سے کہتے ہیں کہ ہم ہندوستانی ہے ۔ ملک کے وفادارہیں۔ یہ کیسی وفاداری ہے جہاں ملک کے وقار کو مجروح کر کے اس کے مقام کو پست کیا جاتا ہو۔ اس سے بڑا المیہ کیا ہوگا کہ ماں کی محبت کو عام کر نے کی بجا ئے دو بھائی ایک دوسرے کی جان کے پیچھے پڑ گئے ہیں ۔ یہ وہ ہندوستان تو نہیں ہو سکتا جس کے بارے میں شاعر مشرق علامہ اقبال نے دعویٰ کیا تھا کہ ہندوستان سارے جہاں سے اچھا ملک ہے ۔ اقبال کے اس رنگین ترانے کو منہ سے چھین لینے کا من کرتا ہے کیونکہ اب ہندوستان پر گاندھی کی پکڑ ڈھیلی ہو تی جا رہی ہے ۔ اس پر ناتھو کا رنگ صاف چڑھتا نظر آ رہا ہے ۔ تاتھو کے ہندوستان میں کھنڈر اور ویرانی کے سوا کچھ نہیں ملے گا ۔ ہندوستان کو اپنے جا ن و مال کی قربانی پیش کر نے والے ہندوستانی آ ج نہ جا نے کیوں اپنی ماں کو رسوا کرنے پر تلے ہو ئے ہیں ۔ ایک انگریز کی غلامی سے مل کر آزاد کرانے والے ہندوستانی آج اس ملک کو کئی طریقے سے غلام بنا رہے ہیں ۔ اگر اسے نفرت و تشدد کی آ گ میں جلا کر فرقوں میں تقسیم کرنا تھا تو خان عبد الغفار خان اور گاندھی جی نے مل کر آندو لن کیوں کیا تھا ؟اشفاق اللہ خان اور بھگت سنگھ نے اپنی جانوں کی قربانی کیا اس لئے دی تھی کہ آ ج کا ہندوستان پریم اور اخلاق کو قربان کر کے سیا سی کھیل کا مزہ لے ۔ ملک کے اخلاق کی ہو تی اموات ملک کے تمام پرستاروں سے سوال کرتی ہے کہ جس ملک کے اخلاق کو پوری دنیا سراہتی ہے خود اسی ملک میں اس اخلاق کی اتنی قیمت ہے کہ اسے افواہوں کی بھینٹ چڑھا دیا جا ئے ۔ کیا اس ملک میں انسان کی قیمت جانور سے بڑھ کر ہے ؟
در اصل یہ ملک کے قانون کی موت ہے کہ دن بدن ملک کے اخلاق مرتے جا رہے ہیں ۔ یہ تو اس ملک کے اخلاق کی مضبوطی اورپریم کی گہری جڑوں کی دین ہے کہ فرقہ پرستی کے قدم جمنے نہیں پاتے ۔ چوں کہ فرقہ پرستی کو نہ تو پریم سے مطلب ہے اور نہ ہی کسی اخلاق سے کوئی لینا دینا ہے ۔ لہٰذا دونوں کو نت نئے بہانے سے کمزور کر نے کی کوشش کر رہے ہیں ۔ سیا سی نا اہلی اور قانونی کمزوری کا نتیجہ ہے کہ دونوں کے قدم ڈگمگا رہے ہیں اور نفرت و تشدد فرقہ پرستی کو مضبوط کر کے بار بار زور آ زمانے پر اکسا رہے ہیں ۔ اب دیکھتے ہیں کہ اخلاق کے قدم کتنے مضبوط ہیں اور پریم کی جڑ یں کتنی گہری ہیں ۔ وہ اس لڑائی کو ایک ساتھ کب تک لڑ پائیں گے ۔ 
آ ج کے حالات یہ ہیں کہ ملک میں لا علمی ، بے روزگاری اور معاشی تنگی جہاں ایک طرف انسان کو ذہنی طور پر کمزورکر رہی ہے وہیں دوسری طرف معاشرے سے بیزار و متنفر بنا رہی ہے ۔ اس پر سیاسی بد عنوانی اور قانونی کمزوری اسے مجرم بنا رہی ہے۔
فرقہ واریت ایک بیماری ہے۔ اس میں چند افراد ہی مبتلا ہیں ۔ لیکن ا س سے متاثر پورا معاشرہ بلکہ پورا ملک ہے۔ کیونکہ ملک کی سیاست و اقتدار میں چند مریض شامل ہو گئے اور وہ پورے نظام کو یا تو مریض بنا رہے ہیں یا کم سے کم متاثر ضرور کر رہے ہیں ۔ اس مرض سے متاثر ہو کر جو لوگ بھی اس کی حمایت پر آ مادہ ہیں انہیں یہ معلوم ہو نا چا ہئے کہ پریم جب افواہوں کی زد میں آ کر اپنے اخلاق کو قتل کر سکتا ہے تو اپنے سنگی ساتھیوں کو کب چھوڑے گا ۔ فرقہ پرست مریضوں کو یہ بات کون سمجھا ئے کہ پڑوس میں آ گے لگا کر خود کا گھر محفوظ نہیں ہو تا ۔کیونکہ لگائی ہو ئی آ گ فرقہ پرست نہیں ہے۔ وہ سب کے ساتھ یکساں سلوک کر ے گی ۔ ملک کے ایک حصہ میں بے چینی اور بے اعتمادی پیدا کر کے دوسرے حصہ سے امن کی آشا کرنا عقلمندی نہیں ہے ۔ 
یہ اس ملک کا سیاسی زوال ہے کہ ملک ایک طرف ترقی یافتہ ہو نے کی کو ششیں کر رہا ہے لیکن جیسے ہی ترقی کے دہانے پر پہنچتاہے ملک کی داخلی سیاست پیروں میں زنجیریں ڈال دیتی ہے اور واپس ہونے پر مجبور کر دیتی ہے ۔ ایک طرف ملک بین الاقوامی سر گرمی کا حصہ بنتا ہے تو دوسری طرف اسی ملک کا کو ئی حصہ نفرت و تشدت کی آ گ میں جل اٹھتا ہے ۔ اس ملک کا ہر با شندہ اس سے خوف زدہ اور پریشان ہے ۔ افواہوں پر قتل ، چودھراہٹ میں کسی کو عریاں اور ذلیل کرنا ، رعب ظاہر کر نے کے لئے بستیوں کو نظر آ تش کرنا ، کسی کو زیر کرنے کے لئے اسے زندہ جلا دینا جیسے واقعات اس ملک کی تقدیر بنتے جا رہے ہیں ۔ ملک کے دانشور سیمناروں میں مصروف ہیں ۔سیا سی رہنما موقعہ بھنا رہے ہیں ۔ مسیحا تماشا دیکھ رہے ہیں ۔ قانون اپنی موت مر رہا ہے ۔ اخلاق اپنی موت مر رہا ہے ۔ ملک جل رہا ہے اور ہمیں فخر ہے کہ ہم ہندوستانی ہیں ۔ نفرت و شدت کی یہ چھوٹی چھوٹی چنگا ریاں جس دن شعلہ بن گئے تو کسی کا بھی نشیمن محفوظ نہیں ہو گا ۔ 
ٌأ*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email; abdulmoid07@gmail.com

Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

आपसी झगड़े हमें मंजिल से भटका देते हैं The Destination goes far away by misconducting غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے

आपसी झगड़े हमें मंजिल से भटका देते हैं
The Destination goes far away by misconducting
غلط روی سے منازل کا بعد بڑھتا ہے 
عبد المعید ازہر

اکیسویں صدی مسلمانوں کیلئے سخت ابتلا و آزمائش لیکر آئی ہے ۔ طرح طرح کے فتنے وجود میں آ ئے ۔ہر فتنہ کے مختلف دروازے ہیں ۔ہر دروازہ ذاتی خودنمائی اور انا پرستی کی وجہ سے وسیع سے وسیع تر ہوتا جا رہا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ عرب کا دور جاہلیت واپس آگیا ہو۔ ذرا سی بات کیلئے دست و گریباں کے خونریزی کے واقعات دیکھنے کو ملتے ہیں۔مسائل شرعیہ میں علماء و فقہاء کا اختلاف نیا نہیں ہے۔لیکن وہ اختلاف دین اور اس کی تعلیمات کو فروغ دینے کیلئے ہوا کرتا تھا۔مزارات ،امام بارگاہ یا دیگر مقدس مقامات کو لیکر اختلاف ابھی نیا ہے لیکن اس کیلئے جنگ پر آمادگی دینی وشرعی اختلاف نہیں لگتا۔وسیلہ تعظیم و شفاعت جیسے مسائل میں بہت لوگوں نے اختلاف کئے ہیں۔ اس پر باقاعدگی سے مناظرے بھی منعقد ہوئے ۔ جنہوں نے طلب علم کے لئے اختلاف کیا تھا انہیں سیر حاصل تشفی ہوگئی۔جنہیں صرف اختلاف سے ہی غرض تھا وہ اس میں لگے رہے ۔ سیکڑوں کتابیں آج مکاتب و لائبریری میں موجود ہیں جو ان مسائل کا خلاصہ کرتی ہیں۔اختلاف جب تک دین کے لئے تھا ، شرعی مسائل کی توجیہ و توضیح کے لئے تھا کہیں کوئی فتنہ وجود میں نہ آیا ۔ لیکن جب سے مسائل میں اختلاف شریعت میں ذاتی طبیعت کا عمل دخل ہوگیا ،طرح طرح کے فتنے پید ہونے لگے ۔ ہر گلی محلہ میں ایک مکتبہ فکر کا بورڈ نظر آنے لگا۔واعتصموا بحبل اللہ جمیعا کا پیغام دینے والا مذہب خود سیکڑوں فرقوں کا مذہب ہو کر رہ گیا۔دور حاضر میں رونما ہونے والے فتنوں میں زیادہ تر ذاتی طبیعت اور انا نیت داخل ہے۔ورنہ ان مسائل کو لیکر جنگیں بعید از قیاس ہے ۔ آج اسلام کا نام لیکر مسجدوں ، درگاہوں، امام بارگاہوں اور دیگر مقامات مقدسہ کا انہدام اسلام کی شبیہ بگاڑ رہی ہے۔اس سے بھی زیادہ تعجب اور حیر ت کی بات یہ ہے کہ کچھ لوگ تو وہ ہیں جو ایسے گھنونے کام انجام دے رہے ہیں۔دوسرے وہ جو محض اپنے عقیدہ کے رشتے کو برقرار رکھنے کے لئے ایسے لوگوں کو صحیح گردان رہے ہیں اور اس کا الزام کسی اور پر لگا رہے ہیں۔آج ایک نام بہت آسان ہے ۔امریکہ! ہمیں ہمارے گریبان میں جھانکنے سے پہلے امریکہ کا نام ہمیں شہہ دیتا ہے ۔یہ سچ ہے کہ امریکہ و اسرائیل جیسی یہودی اسلام دشمن طاقتیں ہمیشہ سے اسلام کے خلاف سازشیں کر رہی ہیں۔روز اول ہی سے یہ طاقتیں اس تاک میں لگی ہیں کہ اسلا م کا یہ اگتا سورج کہیں کسی مغرب میں غروب ہوجائے ۔اس کے لئے وہ ایڑی چوٹی کا زور لگا رہے ہیں۔موجودہ دور کی روش کو دیکھتے ہوئے اس بات کا اندازہ لگانا قطعی مشکل نہیں کہ دشمن طاقتیں اپنے ہدف میں قدرے کامیاب ہوتی نظر آرہی ہیں۔جس مذہب نے عرب کے سنگریزوں میں بھی چمن آباد کیا اور دنیا کی بد تر قوم کو قائد اور رہنما بنا دیا۔آج اسلام کے نام پر نام نہاد چند دولت و شہرت پسند اسی دور جاہلیت کو واپس لانے پر اڑے ہیں۔ہم بھی اس بات کو سمجھنے سے انکار کر رہے ہیں۔
جب قرآن میں تحریف تبدیل پر بس نہ چلا تو احادیث میں وضع شروع کر دی گئی ۔طرح طرح کے سوالات قائم کئے گئے ۔جو بھی معمولات اہل سنت ہیں اور شروع ہی سے جن روایات ہر عمل رہا انہیں کو نشانہ بنایا گیا۔ تاکہ ان روایات کو مشکوک کردیا جائے۔یہ وہ روایات ہیں جو آپسی اتحاد ، خدمت خلق، انسان دوستی اور انسانی اقدار کی پاسداری کا سبق دیتی ہیں۔مذہب کے نام پر نفرت و کدورت کو مٹاتی ہیں۔ایسی روایات اور معمولات کو شک و شبہات کے گھیرے میں لا کھڑا کرنے کے پیچھے مقصد صرف اتنا ہے کہ ایسی شخصیات کی ذات کو مشکوک کردیا جائے۔چند ایسے افراد باقاعدہ تیار کئے گئے ہیں جن کا کام ہی سوال کرنا ہے انہیں اسی بات کی ٹریننگ دی جاتی ہے۔ یہ اور بات ہے کہ خود انہیں بھی ان مسائل سے آگہی نہیں ہوتی۔یہ زور قلم اور زعم علم کبھی اپنی انا کو ثابت کرنے کے لئے استعمال نہیں ہوا۔چند افراد نے اپنے تحریری وجو د کا مقصد ہی شاید یہ بنا لیا ہے کہ سارا زور قلم اسی میں صرف کیا جائے ۔چند قلم کار، پیشہ ور مقرر اور پڑھے لکھے ہونے کا ڈھونگ کرنے والے چند جاہل علماء اس کام میں بڑی پیشہ وری سے حصہ لے رہے ہیں۔انہیں بس موقعہ کا انتظار رہتاہے۔جیسے ہی اسلامی تقریبات آتی ہے یا کوئی ایسا دن آتا ہے جو کسی خاص اور اللہ کے نیک بندے صحابی ، اہل بیت سے منسوب ہوتاہے ۔سوالوں کی بارش شروع ہو جاتی ہے۔اگر چہ ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا ہے ۔ابھی چند روز قبل ایک صاحب کو لگا کہ علماء کو سخت مغالطہ ہو گیا ہے ۔ صدیوں سے بیان ہونے والی روایت غلط ہے مسلمانوں کے اس سے پرہیز کرنا چاہئے ۔حدیث شریف ہے کہ ’’حسن اور حسین جنتی نوجوانوں کے سردار ہیں‘‘ان صاحب نے کہا چونکہ اس حدیث کی روایت میں ایک راوی مشکوک اور غیر ثقہ ہیں۔ لہٰذا یہ روایت موضوع ہے۔یقیناًیہ ایک مستحسن عمل ہوسکتا ہے لیکن اگر اس کا حقیقت سے کچھ تعلق ہو، تب ۔کیونکہ یہ ایک حقیقت ہے کی کئی روایتیں جان بوجھ کر وضع کی گئی ہیں۔موضوع حدیث کی روایت عظیم گناہ ہے۔ پیغمبر اعظم نے فرمایا جو شخص میری جانب جھوٹ کو منسوب کرتا ہے تو وہ اپنا ٹھکانا جہنم جان لے۔ لیکن یہ معاملہ کسی بات کو ثابت کرنے کیلئے نہیں بلکہ گمراہ کرنے کے لئے تھا۔جب تحقیق کی تو پتہ چلا کہ اس حدیث کو دس سے زیادہ طریقے سے روایت کی گئی ہے اور حدیث کی کئی کتابوں میں اس روایت کا ذکر ہے۔ دس سے زیادہ راوی عادل اور ثقہ ہیں جنہوں نے بڑی ذمہ داری کے ساتھ اس حدیث کی روایت کی ہے ۔یہ ان مشہور حدیثو ں میں سے ایک ہے جسے اکثر بیان کیا جاتاہے ۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے خواجہ اجمیر ی حضرت غریب نوازؓ کے بارے میں کہا جاتا ہے۔ لفظ خواجہ کے معنیٰ کو لیکر بھی اسی طرح کا معاملہ ہے ۔ لفظ خواجہ
کے ۲۵ سے زیادہ معانی ہے ان میں سے کسی ایک خاص لفظ کا انتخاب اس کے فکر کی عکاسی کرتی ہے بالخصوص جب اچھائی کی جگہ پر تنقیص کا معنیٰ اختیار کرکے اسی کو عام کیا جائے تو نفاق ظاہر ہو جاتاہے ۔
ایسے ہی ایک اور مسئلہ زیر بحث ہے ۔کئی دنوں سے یہ معاملہ موضوع گفتگو ہوتا آ رہا ہے ۔اہل بیت اطہار کے اسماء کے آگے علیہ السلام کا لاحقہ لگانے کے تعلق سے مواقف میں اختلاف ہے ۔بعض کہتے ہیں کہ رضی اللہ عنہ لگانا چاہئے بعض کہتے ہیں کہ علیہ السلام کہنا چاہئے ۔دونوں اپنے اپنے اعتبار سے جو مناسب سمجھتے ہیں استعمال کرتے ہیں۔مسئلہ پرپیج اس وقت ہو جاتا ہے جب علیہ السلام کے موقف کو غلط کہنے کا موقف شدت کے ساتھ سامنے آتا ہے ۔چونکہ رضی اللہ عنہ کے بارے میں تو قرآن نے پہلے ہی فیصلہ کردیا ۔’’اللہ ان سے راضی ہوگیا اور وہ اللہ سے راضی ہو گئے ‘‘ (القرآن )۔تو اس لفظ کے استعمال میں کوئی دقت نہیں۔مسئلہ علیہ السلام کے استعمال کرنے میں ہے۔ کہ یہ لفظ انبیاء علیہم السلام کے لئے خاص ہے لہٰذا انہیں کے لئے خاص ہے غیر انبیاء کے ساتھ استعمال درست نہیں۔
استعمال نہ کرنا ایک الگ امر ہے لیکن اسے غلط و ناجائز ٹھہرانا مقام افسوس و حیر ت ہے ۔اس ہر اعتراض قابل اعتراض امر ہے ۔اور اگر اعتراض کرنے والا مسلمان ہو تو حیرت اور تعجب اور مزید ہو جاتا ہے ۔
علیہ السلام کا لفظی معنیٰ ’ ان پر سلام و سلامتی ہو ‘ہے ۔شرعی نقطہء نظر سے دیکھا جائے تو بظاہر اسمیں کوئی قباحت اور حرج نظر نہیں آتا ہے ۔اس لفظ کا استعمال متعدد علماء کرام ، ائمہ ،فقہاء محدثین مفسرین نے اپنی سیکڑوں کتب تفسیر و حدیث میں کیا ہے ۔تفسیر مظہری ، تفسیر رازی،امام سیوطی،امام عسقلانی ، علامہ نبہانی شیخ ولی اللہ محدث دہلوی نے اپنی کتابوں میں کئی بار اہل بیت پاک کے اسماء کے بعد علیہ السلام کالاحقہ لگایا ہے ۔
یہ اسلام کا اعجا ز ہے کہ اس نے مسلمانوں کو سلام کا تحفہ دیا ہے۔ایک مؤمن دوسرے مؤمن پر ہر ملاقات پر سلام و سلامتی پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔ایک عام مسلمان ہر ملاقات میں علیہ السلام ہو سکتا ہے لیکن اہل بیت اطہار جن کی پاکی کے بارے میں قرآن میں آیت تطہیر نازل ہوئی ان کے آگے علیہ السلام لگانے سے اعتراض ہو تا ہے۔ واقعی حیرت افسوس اور تعجب ہے۔
ایک مؤمن کسی دوسرے مؤمن کا سلام لیکر جب پہنچتا ہے تو اس کے جواب میں یہی کہا جاتا ہے وعلیکم و علیہ السلام ۔ اس جواب میں کسی کا کوئی اختلاف نہیں ہر مکتب فکر کا یہی جواب ہوتا ہے ۔ آن کی آن میں ایک مؤمن علیہ السلام ہوگیا۔جس کے گھر کا عالم یہ ہے کہ بغیر اجازت حضرت جبرئیل بھی گھر نہیں آتے اگر اس خاندان کے مبارک ناموں کے آگے علیہ السلام کا لاحقہ لگایا تو اعتراض ہوتاہے ۔ ایک مسلمان اعتراض کرتا ہے تعجب ہے ۔
ایک محفل میں پہنچا ۔منظر یہ ہے کہ اس محفل میں مسلم اور غیر مسلم سبھی موجود ہیں ۔ سلام بھی کرنا ہے ۔ ایسے میں علما کہتے ہیں کہ سلام کے الفاظ تھوڑا بدل جائیں گے ۔ اب کہا جائے گا۔ السلام علی من اتبع الہدی۔اس پر سلام و سلامتی ہو جس نے ہدایت کو پا لیا۔ہدایت کی پیر وی کرنے والا ، اسے پالینے والا علیہ السلام ہو جاتا ہے ۔لیکن جو سر چشمہ ہدایت ہے ، منبع رشد و نور ہے ، جن کے بارے میں پیغمبر اعظم نے ارشاد فرمایا ان کے دامن کو تھامے رہنا گمراہ نہیں ہوگے ۔ان کو علیہ السلام کہنے پر اعتراض ہوتا ہے تعجب ہے ۔
ہر نمازی پر قعدہ میں التحیات پڑھتے وقت یہ دہراتا ہے ۔السلام علیک ایھا النبی اس کے جواب میں رسول گرامی وقار نے فرمایا السلام علینا و علی عباد اللہ الصالحین۔ خود نبی کی زبانی ہر صالح بندہ علیہ السلام ہو گیا۔ وہ بھی عین نماز کے دوران ہر نمازی ایک دوسرے مؤمن صالح بندوں کو علیہ السلام کا تحفہ پیش کرتا ہوا نظر آتا ہے ۔اسلامی روایت و تاریخ ، قرآنی انداز و اصول نے توہمیں یہی ادب سکھایا ہے ۔ جن پر خود اسلام اور نمازفخر کرے اس کے ساتھ علیہ السلام لگانے پر اعتراض تعجب ہے ۔
ہماری خود کی حالت یہ ہے کہ ہمیں خود ہمارے عقائد اعمال کی فکر نہیں۔ نظریات و خیالات کی پاکیزگی کا خیال نہیں۔توجہ الی اللہ پر نظر نہیں۔خدمت خلق کی جستجو نہیں۔سجدوں کا ذوق و شوق نہیں۔اخلاص و ایثار کا نام و نشان نہیں۔نہ حقوق اللہ کی ادائگی کی فکر ہے نہ حقوق العبادکی چاہت ہے ۔ہم ہماری ذمہ داری تو کما حقہ ادا کرنے سے قاصر ہیں۔لیکن ہماری بحث کا موضوع وہ ہوتے ہیں جن کے بارے میں پہلے سے ارشاد فرمایا جا چکا ہے کہ ان میں سے کسی کا بھی دامن تھام لوگے ہدایت پا جاؤگے۔شہرت کا یہ شوق کہیں ہمارے لئے جہنم کا ایندھن تو نہیں تیار کر رہا ہے ۔
خدارا اپنی تقریر و تحریر کو صحیح رخ دو ۔ اس طرح کی مجرمانہ غلط فہمی پیدا کرنا اور غلط بیانی سے کام لینا خود کی ہلاکت کا سبب ہے ۔ اس سے خود بھی بچو اور دوسروں کو بھی بچاؤ۔اپنے آپ کو اور اہل و عیال کو جہنم کی آگ سے بچاؤ!(القرآن)
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 email: abdulmoid07@gmail.com

Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

आग कर सकती है अंदाज़ ए गुलिस्तां पैदा Even fire can become cold آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

आग कर सकती है अंदाज़ ए गुलिस्तां पैदा 
Even fire can become cold
آگ کر سکتی ہے انداز گلستاں پیدا

عبد المعید ازہری

مسلمان دنیا کی وہ واحد قوم ہے جو مال و دولت کے خرچ کرنے ،جذبہ ایثارکے اظہار ا ور قربانی پیش کرنے جیسے اعمال پر خوشیاں منا تی ہے ۔ مذہب اسلام کی یہ انفرادی اور اعجازی شان سے کہ وہ راہ خدا میں اپنی کمائی کی جمع پو نجی کو اللہ کے حکم سے خرچ کر دینے کا نہ صرف حکم دیتا ہے بلکہ اس کی ترغیب بھی کرتا ہے ۔ ذی الحجہ اسلامی دن تاریخ کے اعتبار سے سال کا آخر مہینہ ہے جس کی ۱۰،۱۱،۱۲ تاریخ کو لوگ قربانی پیش کرتے ہیں ۔ ان تین تاریخوں میں حج ہوتا ہے ۔ حج و قربانی بارگاہ خداوندی میں بے حد عزیز عمل ہے۔ یہ عمل مالک نصاب ،صاحب ثروت پر فرض ہے ۔ ترک کرنے پر گناہ کا مرتکب ہوگا ۔ حج کے ایام میں پوری دنیا کے ہر رنگ و نسل کا مسلمان ایک مرکز پر ایک ہی لباس میں ایک صف ہو کر خدا کی بارگاہ میں حاضر ہو تا ہے ۔ ہر سال حج کے ایام کا ایک لباس اور ایک تکبیر ہونا مسلمانوں میں اتحاد قائم کر نے کا پیغام دیتا ہے ۔ محنت کی کمائی سے لاکھوں روپئے خرچ کر کے، آل و اولاد کو چھوڑ کر، وطن کو خیرآباد کہہ کر وہ مکہ و مدینہ کے وادیوں کا طواف کر تا ہے ۔ رب کی قدرت کے جلووں کو کبھی عرفات میں تو کبھی منی و مزدلفہ میں تلاش کر تا ہے ۔ صفا و مروہ کی سعی کے دوران سنت ہاجرہ کو زندہ کر کے رب کے خاص فضل واحسان کے ذرائع تلاش کرتا ہے ۔ شیطان کے مجسمہ کو کنکری ما ر کر حضرت ابراہیم و اسمٰعیل علیمھا السلام کے جزبہ ایثار وایمان کو یاد کرتا ہے ۔ حجر اسود کوبوسہ دیتے وقت حضرت عمر کی بات یاد آئی ہے جو آپ نے فرمایا تھا کہ اے حجر اسود میں تجھے اسلئے بوسہ دیتا ہوں کیونکہ تجھے ہمارے آقا نے چوما تھا ۔ مقام ابراہیم پر سجدہ ریز ہونے کے بعد رب کے کر شمائی قدرت کا قائل ہو تا یہ کہ اے رب ایک دن وہ تھا جب تونے اپنے گھر ،خانہ کعبہ کو پتھر وں سے آزادکرنے کا حکم دیا تھا اور ایک دن آج ہے کہ پتھرں میں اپنی نشانی پنہا کر رکھی ہے ۔ مقام ابراہیم سے لے کر صفا و مروہ اور حجر اسود سے لے کر شیطان کو کنکری مارنے تک پتھروں سے اپنی عبادت کو گھیر رکھا ہے ۔انہیں اپنی تجلیات کا مرکز و محور بنا رکھا ہے ۔ اسے عقل کا جواب ملتا ہو گا ان پتھروں کو کعبہ سے خالی کرایا گیا تھا جنہوں نے برابری کا دعویٰ کیا تھا ۔ ان کو بھی معبود تصور کیا گیا تھا ۔اور جن پتھروں کو قریب رکھا گیا ، تجلیا ت کا مظہر بنایا گیا یہ وہ پتھر ہیں جو اللہ کی نشانیاں ہیں۔ خدا پر یقین ،جزبہ ایثار،خدمت نبی پر انعام اور بوسہ رسول کی ضامن ہیں ۔ اب یہ عام پتھر نہیں ۔ یہ رب کی عطا، اس کی رحمت و کرامت ہے جسے جتنی عزت چاہے بخش دے ۔ وہ خالق کل ،مالک کل ہے جسے جو چاہے عطا کر دے ۔ یہی وجہ ہے کہ لاکھوں خرچ کر کے، مشکل کا سامنا کر کے ،مصائب کو برداشت کر کے وہ پتھروں میں رب کے جلوے تلاش کرتا ہے اور فخر محسوس کرتا ہے ۔ حج کے تعلق سے علماء کرام اور صوفیا ئے عظام نے اپنے اپنے فقہی و روحانی خیالات کا اظہار فرمایا ہے ۔ علماء کرام نے حج و قربا نی کے اصراف اور خرچ کی توجیہہ اس طرح فرمائی ہے کہ یہ خرچ اور اجتماع اسلئے ہے کہ خدا کی راہ میں اس کے حکم سے خرچ کر نے کے عادی ہو جا ؤ ۔ جب ضرورت پڑے تو مال و دولت خرچ کر کے ،متحد ہو کر قوم مسلم کے مسائل کا حل تلاش کرو ۔ اپنے آپ کو ہمیشہ دین کے لئے تیار رکھو۔ 
صوفیا ء کا خیال یہ ہے کہ حج میں خرچ واجتماع کا مقصد یہ ہے کہ بندہ عاجزی و انکساری کا عادی ہو جا ئے ۔ اپنے اپنے گھروں میں چاہے جتنے قیمتی لباس زیب کرتا رہا ہو یہاںآکر ایک ہی لباس پر اکفتا کرنا ہو گا ۔ ہر رنگ و نسل قوم و ذات کے ساتھ یکساں رویہ ہوگا ۔ حدو د حرم میں بندے کا سارا اختیار ختم ہو جا تا ہے ۔ عاجز محض بن جاتا ہے ۔ ایک چینٹی تک کو نقصان نہیں پہنچا سکتا ۔ یہاں تک کہ خود کے سر کے بال بھی نہ ٹوٹنے پائے اس کا خیال رکھنا پڑتا ہے ۔ اس کے لئے غسل کے وقت آہستہ سے سر کی مالش کر نیکی تلقین کی گئی ہے ۔ سر میں جوں پڑ جا ئے تو اسے بھی نہیں مار سکتے ۔ خلاف ورزی کر نے پر اس کا ہر جا نہ اور جرمانہ دینا پڑے گا ۔اس عجز و انکساری کا انعام بھی عظیم ہے ۔ جب بندہ عاجز ہو جا تا ہے تو پتھروں میں خدا کے جلوں اور نشانیوں کو تلاش کر تا ہے ، اسے ہر شئی میں خدا کا جلوہ نظر آ تا ہے۔ جو ان جلوں کو جزب کر لیتا ہے تو اس پر یہ حقیقت منکشف ہو جا تی ہے کہ یہ تو وہ جگہیں ہیں جہاں اللہ نے ا پنے کچھ خاص بندوں سے اپنی رضا کا اظہا ر کیا تھا ۔جب رضائے الٰہی کے اظہار کی جگہیں اتنی متبرک ہوگئیں تو ان بندوں کا کیامقام ہو گا جن اپنی رضا کا اظہار کیا ۔ پھر اس کا کیا مقام ہو گا جس کی بشارت ہر نبی نے دی ہے ۔ پھر تو دیوا نگی کا یہ عالم ہو تا ہے کہ حج مکہ میں ہوتا ہے اور شکرانہ مدینہ میں ادا کیا جا تا ہے ۔ تیسرا یہ بھی مقصد ہے کہ کچھ دن دنیا اور اس کی ضرورتوں سے بے نیا ز ہو کر صرف رب کے ہو جا ؤ ۔ ایسی جگہ قیام کرو جہاں صرف عبادت ہو ئی اور رب کی خاص رحمت کے ساتھ جلوں کا ظہور ہوتا ہے ۔ اسی میں کھو جا ؤ ۔ کسی غیر شئی کے فکر و خیال کودل ودماغ سے نکا ل دو ۔ بس اللہ ہی اللہ کی کیفیت طاری کر لو ۔ پھر دیکھو رب ایسے واپس بھیجے گا جیسے تم ابھی پیدا ہو ئے ہو۔ سارے گناہ ایسے معاف جیسے کبھی کئے ہی نہ ہوں ۔ یہ رب کا ایک خاص فضل ہے جو صرف حاجیوں پر ہوتا ہے ۔صوفیاء نے حاجیوں کی کیفیت یوں بیان کی ہے ۔ جب حج کا ارادہ کر لیا جائے اور سفر پر روانہ ہونے کی نیت کر لی جائے تو اس بات کا بھی ارادہ کر لیا جائے اب دنیا کی خواہشوں سے بھی منہ موڑ رہا ہوں ۔ اب سے ہماری زندگی کا مقصد آخرت اور رضائے الٰہی کی تلا ش و جستجو ہے ۔جب صفا و مروۃ کی سعی کرے تو اس بات کا عزم کر لے کہ آج سے ہمارا ہر اٹھنے والا قدم راہ خدا میں ہوگا ۔ منیٰ میں قربانی پیش کرتے وقت یہ احساس ہوکہ آج سے ہم تما م نفسانی خواہشات ، حرص و ہوس،جھوٹ فریب، ریاء و مکر کو بھی قربان کر رہے ہیں۔شیطان کو کنکری مارتے وقت ہم اپنے دلوں سے بھی شیطان کو نکال دیں گے ۔اگر ایسی کیفیت بندے کے دل میں داخل ہو جاتی ہے تو یقیناًاسے ان جلووں کا دیدار نصیب ہوتا ہے جس کے لئے رب کریم نے سفر کرنے کا حکم دیا ۔
اس ماہ کی یہ بھی ایک خصوصیت ہے کہ اس ماہ کی دس سے لے کر تیرہ تک چار دنوں کو اللہ نے اپنے بندوں کی مہمان نوازی کے لئے منتخب فرمالیا ۔ ان دنوں میں بندہ کو روزہ رکھنے سے منع کر دیا ۔ روزہ خود ایک عبادت ہے ۔ اللہ نے خود ایک عبادت سے منع فرمایا ہے ۔ اس کی شان کریمی ہے کہ جب کسی چیز سے منع فرماتا ہے تو بدلے میں اس سے اچھا عطا فرما تا ہے ۔ ان چار دنوں میں خود کھانا اور دوسروں کو کھلانا عبادت ہے اور ایسی عبادت ہے جو ان دنوں روزہ سے بھی افضل ہے ۔ حج و قربانی کے احکام و اعمال ، فرائض ، واجبات ، سنت و مستحبات ہمارے ایمان و یقین اور رب کی ذات پر مکمل توکل اور اعتماد کی تلقین کر تے ہیں ۔ شہادت کے ذریعہ توحید کے گہوارہ میں قدم رکھنے سے قبل خوب غورو فکر کر لو ۔ کیونکہ یہ ایسا دین ہے جس میں کسی طرح کی کراہت اور جبر کی گنجا ئش نہیں ہے ۔ایمان میں داخل ہونے کے بعد بالخصوص جلووں کا مشاہدہ کر نے کے بعد مکمل اعتماد لازمی ہے ۔ صفا و مروہ کی سعی میں اگر اللہ کی نشانی ہے تو یقین ہے ۔ مقام ابراہیم اگر چہ وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہوکر حضرت ابراہیم ؑ نے کعبہ کی تعمیر کی تھی۔لیکن اس پتھر کو قدر و منزلت حاصل ہے تو تسلیم ہے ۔ وقوف عرفہ ،منی مزدلفہ ، طواف اور حجر اسود کا بوسہ اگر رب کو راضی کرتا ہے تو اس کی عظمت ہمارے سر آنکھوں پر ہے ۔ جہاں تعظیم مقام و مرتبت تک پہنچاتی ہے وہیں توہین تمام اعمال کو ایک لمحہ میں مٹا دیتی ہے اور اس کا احساس تک نہیں ہو پاتا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ اس یقین کی تبلیغ حدود حرم سے باہر کی جا ئے ۔جو پیغام ہمیں سر زمین حجاز سے ملا اسے پوری دنیا میں عام کیا جا ئے ۔ مکہ و مدینہ میں جن جلووں کا مشاہدہ ہوا ہے ان کی نورانیت سے تمام عالم کو منور کیا جا ئے ۔ جذبہ ایثار کا جو عزم منی ،مزدلفہ میں کیا تھا اسے تا حیات قائم رکھا جا ئے ۔ خود سپردگی اور اللہ پر یقین و اعتماد کا جو سبق صفا مروہ کی سعی ، مقام ابراہیم پر سجدے کر دوران پڑھا یا گیا ،اسے اپنے معاشرے میں پڑھا یا جا ئے ۔ عاجزی و انکساری کی جو کیفیت حدود حرم میں طاری تھی اسے پامال ورسویٰ نہ ہونے دیں ۔ 
حج پر جا نے سے پہلے جن فکر و نظر اور فعل و عمل کو ترک کیا تھا ،حج کے بعد حجاز مقدس کے جلوے تمام اعمال و افکار سے جھلکیں۔ حج کی بدولت رب کریم نے ایک بار قلب کو گناہوں کی سیا ہی سے پاک کر دیا ہے ۔ دوبارہ اسے سیا ہ نہ ہونے دیں ۔ کفر و نفاق ،حسد و کینہ ، جھوٹ فریب، دھوکہ ،عیاشی ،نفرت ،کدورت سے اپنے آپ کو دور رکھے ۔ محبت، اخوت، انسان دوستی،خلق خدا کی خدمت کے سانچے میں ڈھل جا ئیں ۔ حج کا فریضہ انجام دیا ہے ،حاجی کا لقب پایا ہے ، اس کی بے قدری نہ ہو نے پا ئے ۔ 
*****

Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com , Mob: 09582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@






दिशा हीन होते आज के मदारिस Today's Madaris moving towards misguided path صراط مستقیم سے دور ہوتے مدارس

दिशा हीन होते आज के मदारिस 
Today's Madaris moving towards misguided path
صراط مستقیم سے دور ہوتے مدارس 
عبد المعید ازہری


ہر فکر و عمل کے کئی اچھے برے طریقے ہوتے ہیں۔منز ل تک وہی راستہ پہنچتا ہے جوسیدھا اور مستقیم ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ صراط مستقیم پر گامزن رہنے کی دعا مانگنے کی تلقین کی گئی ہے۔صراط مستقیم یعنی سیدھا ، مستقل اور استقامت والا راستہ۔
ہندوستان کی تحریک آزادی سے لے کر دور حاضر کے جدید تقاضوں تک قوم مسلم کی اصلاح میں علماء مدارس کا اہم کردار رہا ہے۔1857کی تحریک جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جہاد کا فتویٰ دینے والے علامہ فضل حق خیرآبادی ایک صوفی عالم دین اور چشتی سلسلے کے شیخ تھے ۔ہندوستان کی آزادی میں ہزاروں علماء کرام نے علامہ فضل حق خیرآبادی کی قیادت میں گراں قدر قربانیاں پیش کیں۔درختوں پر لٹکے ہو ئے ہزاروں علماء کرام کے سر ان علماء کی جا نب سے پیش کی گئی قربانیوں کا واضع ثبوت ہیں ۔ مدارس اسلامیہ نے ہمیشہ اپنے طلباء کو وطن سے محبت کا درس دیا ۔ غلامی کی زندگی پر عزت کی موت کو ترجیح دینے کا سبق پڑھایا ۔ معاشرتی اور سیاسی فتنوں کے سد باب کے لئے بھی مدارس اسلامیہ ہمیشہ پیش پیش رہے ۔ اسلام کے ساتھ ساتھ ہندوستان کی تہذیب اور اس کی ثقافت کو ہاتھوں سے نہ جا نے دیا ۔ آج پورا ملک جس گنگا جمنی تہذیب پر ناز کرتا ہے اور پوری دنیا جس مذہبی ہم آہنگی پر رشک کرتی ہے وہ علمائے دین و صوفیائے کرام کی دین ہے ۔ ہر دور میں معاشرتی تہذیب کو پراگندہ کرنے کے لئے مختلف قسم کے فتنوں نے سر اٹھایا لیکن ہر دور میں ایسے ذمہ دار علماء رہے ہیں جنہوں نے بر وقت ان تمام فتنوں کا پر زور سد باب کیا ۔ ہندوستان کی اسلامی تاریخ میں ایسے ہزاروں علماء و مدارس کے نام سنہرے الفاظ میں موجود ہیں جنہوں نے اپنی بے لوث اور ذمہ دار انہ خدمات کی بنا ء پر تاریخ میں اپنے آپ کو زندہ و جاوید کر رکھا ہے ۔انہوں نے زندگی کے ہر شعبوں میں نمایا خدمات انجام دیں ۔ یہ علمائے اسلام و مدارس اسلامیہ کا شاندار قابل فخر اور رشک آفریں ماضی ہے جس کے نقوش آج تک اپنے اثرات مرتب کر تے ہو ئے نظر آ رہے ہیں اور قوم و ملت کی اصلاح میں اپنی اہمیت کو درج کرا رہے ہیں ۔ قوم و ملت آ ج بھی ان کے علمی و روحانی ورثے سے فیض حاصل کر رہی ہے لیکن افسوس دور حاضر میں مدارس اور علمائے مدارس کا کردار اس کھنڈر کی مانند ہو گیا ہے جن کے آثار شیش محلوں کا پتہ دیتے ہیں ۔مدارس کے قیام کے اولین مقاصد میں یہ تھا کہ قرب وجوار کے لوگ ایک جگہ اکٹھا ہو کر تعلیم حاصل کر سکیں اور ان کی تربیت بھی کی جا سکے ۔ دور حاضر کے مدارس میں روزانہ تعلیم و تربیت اور ضروری مسائل سے واقفیت کے علاوہ با قاعدہ طلبہ کو مدرسہ میں مقیم رکھ کر ان کی مکمل تربیت ہو تی ہے ، انہیں داعی مبلغ ،امام خطیب بنا کر فارغ کیا جا تا ہے ۔ مکتب سے لے کر مدرسہ دارالعلوم ، جامعہ تک ہندوستان میں آج کئی ہزار مدارس ہیں جن میں کثیر تعداد میں طلبہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں ۔ اس شاندار ماضی کا بگڑا ہوا حال آج تاریک مستقبل سے خوف زدہ کر رہا ہے اور دعوت غور وفکر دے رہا ہے ۔ 
دور حاضر کے مدارس کا حال یہ ہے کہ جس علاقہ میں مدرسہ واقع ہے ، ہونا تو یہ چاہئے تھا کہ مدرسہ کی تعمیر و ترقی میں اس علاقہ کے لوگ پیش پیش رہتے ۔ معاون و مددگار رہتے ، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس علاقہ کے لوگ ہی اس سے بیزار ،غیر مطمئن بلکہ متنفر نظر آتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ مدرسہ کے قیام میں انہوں نے کوئی حصہ نہیں لیا ۔ انہوں نے اپنی زمین دی ، سرمایہ دیا ، جسمانی محنت و کاوش سے امداد کی ۔ جب پودے فصل بہاربن کر چھانے لگے تو اس کی پر لطف بہاروں سے مالی اور باغباں ہی محروم نظر آتے ہیں ۔ آئے دن کمیٹی کا جھگڑا، علاقہ کے سرمایہ دار اور مدرسہ کے اساتذہ کے درمیان نا اتفاقیوں کے واقعات سے اہل علاقہ چائے خانہ پر بیٹھ کر چسکیوں میں لطف لیتے ہیں اور سگریٹ کے دھوئیں میں اڑا دیتے ہیں یہ سوچ کر کہ اگلے دن کچھ اور ٹائم پاس مسالہ ملے گا ۔ اب چراغ تلے اندھیرے کو کون دور کر سکتا ہے لیکن ایسے چراغ تلے اندھیرا کی توقع لوگ کم کرتے ہیں ۔ 
ماضی کی تاریخ میں ایسے بہت سارے علماء کرام ہیں جنہوں نے اپنے مادر علمی کو اپنے نام کے ساتھ جوڑ کر اپنی شہر ت و قابلیت کا حصہ دار بنایا ۔ آج مدارس کے اساتذہ اور طلبہ میں کہیں نہ کہیں اس ربط باہم کی کمی نظر آتی ہے ۔ طالب علم فراغت کے بعد ایسی آزادی محسوس کرتا ہے مانو کسی قید با مشقت سے رہائی حاصل ہوئی ہے۔ اپنے اساتذہ اور مدرسہ سے بیزار نظر آتا ہے ۔ اساتذہ کی قربانیاں ضائع ہو تی ہیں ۔ آج کے دور میں بھی ہمارے اساتذہ کی تنخواہ یومیہ محنت کرنے والے مزدور سے بھی کم ہوتی ہیں ۔ دوسرے دفتروں میں کام کرنے والوں کی نسبت ان کے لئے سہولیات بھی مہیا نہیں ہوتی ۔
پانچ سے دس سال تک جن اساتذہ کی سرپرستی میں تعلیم حاصل کرتا ہے فارغ ہونے کے بعد کبھی بھی پلٹ کر اپنے اساتذہ سے ملاقات کی خواہش نہیں رکھتا ہے ۔ میں نے تو نظریں چراتے ہو ئے دیکھا ہے کہ کہیں ملاقات نہ کر نی پڑ جا ئے ۔ مدارس اور اساتذہ کے تئیں اتنی بیزاری باعث افسوس ہے ۔ رواں صدی کے مدارس کی جو صورت حال ہے اس سے اس بات کا اندازہ لگا نا قطعی مشکل نہیں ہے ۔ ۔ آج کے مدارس ایسے امام و خطیب ، داعی ومبلغ دینے سے قاصر ہیں جو قوم و ملت کے لئے مصلح اور مفید ہوں بلکہ ان سے نقصان زیادہ ہو رہے ہیں ۔ 
مقاصد سے دور ہونے کے اسباب و وجوہات:
مدارس کے گرتے معیار کے کئی اسباب ہیں ، عام طور پر مدارس کا رخ ایسے طلبہ کرتے ہیں جو ذہنی طور پر کمزور ہو تے ہیں ۔ والدین اپنے ان بچوں کو مدارس میں مقیم کر دیتے ہیں جن پر ان کا اختیار نہیں ہوتا ۔پڑھائی لکھائی میں ان کا جی نہیں لگتا ہے۔ ان کی شرارتوں سے اہل خانہ کے ساتھ پاس پڑوس بھی پریشان ہوجاتے ہیں۔ ایسے طلبہ کی تربیت ایک چلینج ہے ۔ ایسے میں اگر ذی صلاحیت عالم فارغ ہو کر نکلتا ہے تو یہ واقعی قابل تحسین خدمت ہے ۔ 
مدارس کاموجودہ نظام دور حاضر کے تقاضوں کو پورا کرنے کے لئے ناکا فی ہے۔ رواں صدی کی پچھلی دہائی اس کمی کے تدارک کے لئے تیار ہو ئی ہے ورنہ آج بھی سو سال قدیم منطق ، فلسفہ ہماری درسگاہوں کے موضوع اورموا د ہیں ۔ مدارس کے نظام میں تقابلی ذوق وشوق کافقدان نظر آتا ہے ۔ تقابل ادیان ومذاہب ہو یا تقابل تہذیب وثقافت، عصری ضرورتوں کو پورا کرنے والے مواد ہمارے تعلیمی نظام سے غائب ہیں ۔ نئی نسل میں نئے دور کے شبہات کے ازالہ کے تئیں ان کی ذہنیت کے مطابق جواب نہیں ہے ۔ آج کا سامع قدیم انداز بیاں سے نا آشنا ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی نسل ہمارے مدارس اور قدیم طرز کے علماء وخطباء سے اجتناب کرتی نظر آ تی ہے ۔ ایسے میں ا ن کو بہکانا اور گمراہ کرنا آسان ہو جا تا ہے ۔ آج ہماری قوم مسلم کے دس فیصد سے بھی کم لوگ مدارس ومساجد ،امام و خطیب سے منسوب و مربوط ہیں ۔ تو علماء مدارس وخطباء مساجد کی تمام تر محنتیں اور کا وشیں قوم کے صرف دس فیصد لوگوں پر صرف ہو تی ہیں تو باقی کی اصلاح کو ن کرے گا ؟ یہ بڑا سوال ہے ۔ 
مدارس کے نظام کی یہ بھی کمی ہے کہ فراغت کے بعد امامت اور خطابت اور تدریس کے فرائض انجام دینے کے لئے یکساں تعلیم اور مواد ہیں۔ ایسے میں کتنے لوگ ہیں جو صحیح طور پر امامت کی اہلیت اور صلاحیت رکھتے ۔ اس دور میں امامت ایک ایسا منصب ہے جس کا سب سے زیا دہ غلط استعمال ہو تا ہے ۔ دیگر شعبوں میں ناکام لوگ آخر میں امامت کو اختیار کرلیتے ہیں جو کہ سب سے اہم اور نازک شعبہ ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ امامت مسجد میں پانچ وقت کی نماز وں میں سمٹ کر رہ گئی ہے ۔ مسجد کے باہرقوم کے معاملات کیسے ہوں ،کس سے ہوں، ان کی معاشرت ،گھر کا ماحول ،باہر کا معاملہ کیسا ہو، اس کا امام صاحب سے کو ئی تعلق نہیں ۔ تیمار داری ،مزاج پرسی جیسی روایتیں ختم ہو گئیں ۔ امامت کے انتخابات کا بھی برا حال ہے۔ ایک صاحب کا فون آیا کہ ہمارے یہاں مسجد میں ایک امام کی ضرورت ہے ۔ اس کی صلاحیت اور درکار اوصاف کا ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آواز اچھی ہو ،نعت پڑھتا ہو اور تقریر اچھی کرتا ہو ، دیکھنے میں اچھا، قابل اور پڑھا لکھا ہو اور تنخواہ کی فکر نہ کریں ہم اسے دو ہزار روپئے تک دینے کو تیار ہیں ۔ اس بات سے آئمہ حضرات کے تعلق سے ان کی ذہنیت کا اندازہ لگا یا جا سکتا ہے ۔ اس کے بعد وہ مسجد کا امام کم پرسنل سکریٹری زیادہ ہو جا تا ہے ۔ یہ کس کی کمی اور نا اہلی ہے اس پر بحث مشکل ہے لیکن قوم مشکلات کا سامنا کر رہی ہے اس پر غور و فکر کی ضرورت ہے ۔
آج کے تقریر فروش خطبا کا بھی یہی حال ہے ، تقریر اور خطبات کے نام پر کاروبار ہو تا ہے۔ تعلیم کے نام پر صفر ہیں ۔ دوران تعلیم اسے ایسی تربیت نہیں ملتی ۔ذمہ داریوں سے دور آسانیوں کی تلاش میں ایسے بن جاتے ہیں اس کے بعد آنے والی نسل کی نمایاں کامیابی دیکھ کر ان کی راہ پکڑ لیتے ہیں ۔ آج حالت یہ ہے کہ اچھے علماء کی تقریروں سے لوگ اجتناب کرتے ہیں ۔ مدارس میں کتابی تعلیم توکافی ہوتی ہے لیکن اس کا عملی تجربہ نہیں ہوتاہے ۔داخلہ سے لے کر فراغت تک وہ قوانین پڑھتا ۔تھیوری میں مہارت تک حاصل کرلیتا ہے لیکن ؤ آخر تک عملی تجربہ سے محروم و ناواقف رہتاہے ۔ ان تمام علوم و فنون ،لیاقت وصلاحیت کا استعمال کیسے کیا جا ئے اس کی عملی تربیت ہمارے مدرسوں سے ندارد ہے ۔ ایک کے بعد دوسری اس کے بعد تیسری نسل یکے بعد دیگر ے ایسے ہی بنا پریکٹکل کے گذر رہی ہے ۔بڑی تعدا د میں علما ء فارغ تو ہوتے ہیں لیکن ان کا عملی کردار قوم کے سامنے نہیں آ پا تا ہے ۔ 
آج مدارس چندے کے نام پر ہر زیب و نازیب حرکت کرنے پر آمادہ ہیں۔ہر طرح کے عطیات،خیرات ،زکوٰۃ، فطرات سے مدرسوں کے پیٹ بھرے جا تے ہیں ۔ چندہ حاصل کرنے کے نت نئے حربے استعما ل کئے جا تے ہیں ۔ جھوٹ ،فریب ،دھوکہ سے بھی گریز نہیں ہو تا ہے ۔ اسی چکر میں تائید کرنے والوں کی بے جا قصیدہ خوانی اور مخالف کی بے مخالفت ہمارے خطابات کے موضوع ہو گئے ۔ حرام میں تاویل ،حلال کیلئے گنجائش کے ذریعہ شرعی معاملات میں بھی چھیڑ چھاڑ سے پرہیز نہیں کیا جا تا ہے ۔
حل و تدارک کے وسائل وذرائع۔
مذکورہ بالا نقوص وعیوب میں کمی لائی جا سکتی ہے۔طلبہ اپنے اہداف کا تعین کر لیں ۔ اپنے اندر کی صلاحیتوں اور ذوق و شوق سے آگاہ ہو کر فن کا انتخاب کریں ۔ اور اپنی پوری توانائی اسے حاصل کرنے پر صرف کر دیں ۔
دور حاضر کے تناظر میں تعلیم و تربیت کا سمت متعین کریں ۔ اسلام ایسا آفاقی نظام ہے جو ہر دور کے تقاضوں کو پورا کرتا ہے ۔ ترقی یافتہ تکنیکی دورجدید میں اسلام کو صحیح طریقے سے پیش کرنے کا خاص ہنر حاصل کریں۔ہر علم سیکھنے کے بعد اس پر عملی تجربہ کی ضرورت ہوتی ہے ، عام طور پر مدرسوں میں دو بڑی چھٹیاں ہوتی ہیں ۔ایک ریع الاول اوردوسری شعبان کے بعد ۔ ایسے موقعوں کا فائدہ اٹھایا جا سکتا ہے۔ طلبہ کے اندر دلچسپی پیدا کی جا ئے۔ چھٹیوں کے اوقات کو تجربہ کے طور پر اپنے اپنے علاقوں میں استعمال کر سکتے ہیں ۔ اس سے دو بڑے فائدے ہو ں گے ۔ عملی تجربہ ہو گا اور جس علاقہ میں تجربہ ہوگا لوگ مستفید ہوں گے ۔ طلبہ کی قدر و منزلت میں اضافہ کے ساتھ ان کی ذاتی اعتماد میں بھی اضافہ ہوگا۔
تقریباً ہر مدرسے کا نظام ہے کہ جمعرات کو آدھا دن پڑھا کر ایک چھوٹی سی بزم کا انعقاد کرتے ہیں ۔ ان میں طلبہ اپنی علمی صلاحیتوں کا عملی تجربہ کرتے ہیں ۔ اس دن کو اس علاقہ میں بھی استعمال کر سکتے ہیں جس میں مدرسہ واقع ہو ۔ دعوت و تبلیغ کے لئے ہر ہفتہ یا پندرہ دن میں یا مہینہ میں ایک بار ایک محلہ کا انتخاب ہو جا ئے ، وہاں دعوت و تبلیغ اور اصلاح کے فرائض انجام دئے جا ئیں ۔ طلبہ میں عملی تجربہ کے ساتھ علاقہ کے لوگ مستفید ہوں گے ، مدرسہ ، طلبہ اور اساتذہ سے انسیت ہوگی۔ اور چراغ تلے روشنی بھی باقی رہے گی ۔ 
طلبہ اپنے اساتذہ سے اس لئے بیزار ہو جا تے ہیں کہ فن اور مادہ کو منتخب کرنے کا حق انہیں نہیں دیا جا تا ۔ جس میدان میں طلبہ کی ذاتی دلچسپی ہے اس کو وہ اختیار نہیں کرپاتے ۔ زیر درس ایسے مواد پڑھتے ہیں جس میں ان کی قطعی دلچسپی نہیں ہو تی ہے ۔ ایسے میں اساتذہ لاکھ کوششوں کے باوجود طلبہ کے دلوں میں جگہ نہیں بنا پاتے ۔ اور آخر میں ان کی بیزاری کا شکار ہو جا تے ہیں ۔ اساتذہ کو چاہئے کہ طلبہ کو ان کے پسندیدہ فن اور میدان کو اختیار کرنے دیں۔ اس سے طلبہ میں دلچسپی پیدا ہو گی ، محنت کریں گے ، اساتذہ کو کم محنت کرنی پڑے گی ۔ نتیجہ میں کم محنت کے باوجود طلبہ زندگی بھر اپنے اساتذہ کے احسان مند رہیں گے ۔ اور یہ بھی ایک سچائی ہے کہ آج جو استاذ ہے وہ بھی کبھی طالب علم تھے ۔ ان کے ساتھ بھی ایسا ہی ہوا ہوگا ۔ ان کے اختیار ی مضمون سے ان کو الگ رکھاگیا ہوگا۔ آج موقعہ ہے ۔ اپنے طلبہ کو ان کے پسندیدہ میدان میں جینے دیں ۔ اس کے پیچھے آج آپ بھی بیس سال پرانی خواہش کو زندہ کریں ۔ اپنے طلبہ میں اس زندگی کو محسوس کریں کیونکہ ایسا ہوتا ہے کہ والداگر کوئی کام بچپن میں کسی وجہ سے نہیں کرپاتا تو اس کام کو اپنی اولاد کے ذریعہ کرتا ہے ۔وہ اپنے کھوئے ہو ئے ماضی کو مستقبل میں جیتے ہیں ۔ پھر استاذ کو تو باپ کے اوپر درجہ دیا گیا ہے ۔ ذریعہ معاش کی پریشانی کا حل بھی انہیں طریقوں میں موجود ہے ۔ کیونکہ تدریس وتربیت ،دعوت وتبلیغ عبادت ہے۔ کار عظیم ہے۔ ان کے لئے اخلاص اورجہدمسلسل درکار ہے ۔ در پیش مشکلات میں صبر کا مظاہرہ رضائے الٰہی کے دروازے کھولتا ہے ۔ 
آج ان فارغین مدارس پر دہری ذمہ داری عائد ہو تی ہے جو مدرسے کے بعد عصری درس گاہ کالج یا یونیورسٹی میں زیر تعلیم ہیں یا تعلیم حاصل کر کے کہیں کو ئی خدمات انجام دے رہے ہیں ۔ کیونکہ یہ دریا کا وہ پانی ہے جو دونوں کناروں سے جا ملتا ہے ۔ انہیں دور حاضر کی سمجھ ہے ۔ اس کے تقاضوں سے بخوبی واقف ہیں ۔ روزانہ رواں دور کے مسائل سے دوچار ہوتے ہیں ۔ لہٰذا مدارس کے طلبہ کی ذہن سازی کے ساتھ ساتھ ان کی مستقبل کے منازل کے تئیں راستے ہموار کر نا انہیں کا کام ہے ۔ اپنے اکابرین کی باتوں کو اور ان کی خدمات کو دور حاضر کے تناظر میں پیش کرنا ان کی ذمہ داری ہے۔ ایسے افراد تیار کرنا بھی ان کی ذمہ داری ہے جو اسلام کے آفاقی پیغام محدود کرنے کے بجائے اسے اور وسعت دیں اور فراخ دلی سے پیغام عام ا ورآسان کریں ۔ ورنہ اکابرین کی جن خاموشیوں کو ہم ادب سے کو ستے ہیں ۔ آنے والی نسل ہمیں معزرت کا موقعہ نہیں دے گی اور کسی بھی طرح کے ادب کاپاس ولحاظ نہیں ہوگا۔غور و فکر کریں اسی میں ہر مشکل کا حل ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Mob. N.: 09582859385

Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

मौत की सजा देश और धर्म की द्रष्टि में Death penalty in the light of Law Religion and the Nation سزائے موت :ملک و مذہب کے آئینے میں

मौत की सजा देश और धर्म की द्रष्टि में 
Death penalty in the light of Law Religion and the Nation
سزائے موت :ملک و مذہب کے آئینے میں
عبد المعید ازہری

یعقوب میمن کی پھانسی دنیا میں پہلی پھانسی نہیں اور نہ ہی کسی مسلمان کو دی جا نے والی پہلی سزا ئے موت ہے ۔یعقوب میمن سے پہلے بھی کئی لو گوں کو پھانسی کی سزا ہو ئی لیکن اس سزا نے ایک ہنگامہ کھڑا کر دیا،جس کا رخ طے کرنا مشکل ہے ۔ عام آدمی سے لے کر عدلیہ کے اعلیٰ حکام تک اس موضوع پر بحث کر رہے ہیں ۔استعفا سے لیکر سخت تنقید تک کا ملا جلا اثر دیکھنے کو ملا۔ اس سزا میں ایسا کیا ہے جس کی وجہ سے پورے ہندوستان میں شور مچا ہوا ہے ۔کوئی سزا کو سیاسی جماعتوں کا انتخابی مہرہ بتا رہا ہے تو کوئی اسے مذہبی تعصب کا رنگ دے رہا ہے ۔ اگر یہ سزا مذہبی تعصب کی بنیاد پرہو ئی تو اس کے خلاف دوسرے مذہب کے لو گ آواز کیوں بلند کر رہے ہیں اور اگر یہ کسی خاص سیاسی جماعت کی گھناؤنی سازش ہے تو پھر ایک ہی جماعت میں دو الگ الگ نظرئے کیوں ہیں۔اگر یہ موجودہ حکومت کی کارستانی ہے تو یعقوب میمن کو خود سپرد گی کئے بائیس سال ہوگئے۔ کس نے اس سے وعدہ کیا تھا؟۔ معاہدہ کے وہ کاغذات کہا ں ہیں؟۔ ان باتوں کو مد نظر رکھتے ہو ئے معاملہ زیادہ باعث فکر ہوجا تا ہے ۔ اس مسئلہ کو مذہب اور سیاست سے تھوڑا اٹھ کر کسی اور زاوئے سے دیکھنا ہو گا ۔ عدالت عظمی سے دئے گئے فیصلہ اور صدر جمہوریہ کے سامنے رحم کی عرضی مسترد ہونے کے بعد پھانسی تو ہو گئی ۔ یعقوب میمن کی جانب سے عدالت میں بحث کرنے والا وکیل کیس ہار گیا لیکن اس کے بعد ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ۔ اب تک تو یہ بات ہو رہی تھی کہ یعقوب میمن کے مجرم ہو نے اور اسے سزائے موت دینے کے معاملے سے کسی کو انکار نہیں کیونکہ اگر اس نے جانیں لی ہیں تو اسے اس کی سزا ملنی ہی چا ہئے ۔عدالت عظمی کے سابق جج مارکنڈ ے کاٹجونے ایک بڑا بیان دیا جس نے ایک نئی بحث کا آغاز کردیاہے جس پر اہل علم و دانش غور کرنے پر مجبور ہیں۔ صدر جمہوریہ کی جانب سیرحم کی درخواست مستر د ہونے کے فورا بعد عدالت کے فیصلے کو لیکر کاٹجو نے کہا کہ عدالت کے پاس ایسے ٹھوس ثبوت نہیں تھے جس کی بنیاد پر یعقوب میمن کو پھانسی دی جا تی ۔یہ فیصلہ مضحکہ خیز ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مسئلہ نے کئی سوال کھڑے کر دئے ہیں۔یہ بیانات اس لئے اہم ہیں کہ بیان دینے والے سڑک پر چلتے عام آدمی نہیں۔ انہیں قانون ،نظام اور سیاست کی خوب سمجھ ہے۔بلا تفریق مذہب و سیاست کئی اہم لوگوں نے یعقو ب میمن کی پھانسی کی سزا کو معاف کرانے کیلئے صدر جمہوریہ کو خط لکھا۔کے چندرو ، پانا چندر جین سمیت ہائی کورٹ کے 8ریٹایرڈجج ،رام جیٹھ ملانی ، شتروگھن سنہا ، منی شنکر ایر ،سمیت8اراکین پارلیمنٹ ،مہیش بھٹ ، نصیر الدین شاہ ،آنند پٹوردھن سمیت 10سے زائد فلمی دنیا کے اداکار اور فلم ساز،وکیل،پروفیسر،ڈاکٹر،بزنس مین،جرنلسٹ،سوشل اکٹویسٹ اور اسد الدین اویسی، اروند کیجریوال، ڈی راجہ ،سیتارام ییجوری،تشار گاندھی، ممتا بنرجی سمیت کئی سیاسی جماعتوں کے اہم ذمہ دار اس جاں بخشی کی عرضی پر دستخط کرنے والوں میں شامل ہیں۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ اس سزا کو معاف کرانے کیلئے دہل ، ممبئی گجرات اور جنوب ہند سمیت پورے ہندوستان سے لوگوں نے آواز اٹھائی ۔یہ اپنے آپ اس سزا کو کئی سوالوں کے کٹہرے میں لا کر کھڑا کر دیتا ہے ۔
سزائے موت سب سے بڑی سزا ہے ۔ یہ سزا کسی ایسے بڑے جرم کے بدلے دی جا تی ہے جس کی معافی ممکن نہ ہو۔ موت کی سزا ہر آسمانی وغیر آسمانی مذہب نے جائز کی ۔وقت وحالات کے پیش نظر کچھ نظریات میں تبدیلی بھی آئی ہے ۔ ہندوستان کے دو بڑے مذہب سنا تن(ہندو) اور اسلام دونوں میں اس سزا کے ثبوت ملتے ہیں۔ ہندو دھرم کے اعتبار سے مہا بھارت کو اس مذہب میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے کیونکہ اس سے ان کے بھگوان کرشن کا سندیش لوگوں تک پہنچتا ہے۔ جب ارجن نے جنگ سے انکار کر دیا تو کرشن نے جنگ اور قتل کی وکالت کی، پھر جنگ ہو ئی ۔ اس کے علاوہ بھی اور کئی واقعات ہیں۔ مذہب اسلام میں بھی سزائے موت کا تصور موجود ہے۔کسی شخص کو جان بوجھ کر بغیر کسی جرم کے قتل کرنا سزائے موت کا باعث ہے ۔ زانی اور آبرو ریزی کے مجرم کی سزا موت ہے۔ دین سے پھر جانے کی سزا موت ہے اور زمین میں فساد پھیلانے کی سزاموت ہے ۔ یہ چار اہم حالات ہیں جن میں مجرم کو سزائے موت دی جا تی ہے ۔ قصاص کی صورت میں کسی شخص کے قتل پر مقتول کے اہل خانہ کی جانب سے معافی کی گنجائش بھی رکھی گئی ہے بلکہ معاف کر دینے کی ترغیب دی گئی ۔ باقی حالات میں ایسا معاملہ نہیں ہے ۔دونوں میں فرق یہ ہے کہ پہلے میں قتل کا اثر ایک ذات یا پھر ایک خاندان پر ہو تا ہے باقی میں اس کا اثر پوری قوم پر ہو تا ہے ۔ ایک معاشرہ اس کا شکارہوتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جس جرم کا اثر انفرادی ہو اس کیلئے معافی کی گنجائش تو نکل آتی ہے لیکن جس جرم کا اثر اجتماعی ہو اس کی معافی نا ممکن ہے ۔
سزائیں اس لئے دی جا تی ہیں تاکہ اس سے جرم کی بیماری کا علاج کیا جا سکے لیکن اگر کوئی سزا جرم کا باعث بن جا ئے تو وہ سزا بھی جرم ہے ۔ یعقوب میمن کی سزا کے ساتھ بھی شاید یہی معاملہ ہے ۔ سزاؤں سے جرم کو روکا جا سکتا ہے کئی لوگوں کی جان بھی بچا ئی جا سکتی ہے ۔ جیسا کہ قرآن پاک نے بھی اس بات کا واضح اشارہ دیا ہے کہ اگر کوئی شخص قتل نا حق کے بدلے موت کی سزا طلب کرنا ہے تو اس موت سے ہزاروں قتل کا ارادہ رکھنے والے لوگ خوف کی وجہ سے قتل کا ارادہ ترک کر دیں گے۔ تو خود بھی بچیں گے اور جن کے قتل کا ارادہ تھا ان کی جا نیں بھی محفوظ ہو جا ئیں گی ۔ یہ ایک المیہ ہے کہ تحقیق و تفتیش کی سیکڑوں ائجنسیاں ہونے کے باوجود مجرم کی شناخت نہیں ہو پاتی۔پولس کی اتنی بڑی تعداد اور اس کیلئے تمام سہولیات مہیا ہونے کے باوجود مجرم ہماری گرفت سے آزاد کھلے عام گھوم رہے ہیں۔ اس سے جرم کوشہ ملتی ہے۔ مجرم کو حوصلہ ملتا ہے۔ دھیرے دھیرے اس کی طاقت بڑھتی جا تی ہے اور ہمارا نظام کمزور ہو جاتا ہے۔ کوئی ایسا دن نہیں جا تا جب کسی عورت کا استحصال نہ ہوتا ہو۔ اس کی عصمت لٹتی ہے۔ ہمارا قانون سزا دینا تو چاہتا ہے مگر دے نہیں پاتا۔یعقوب میمن کی پھانسی کے بعدآوازیں اس لئے نہیں اٹھی ہیں کہ وہ بے گناہ تھا۔ اپنے خلاف سارے ثبوب تو خود اسی نے مہیا کرا ئے تھے۔ ممبئی کے مسلسل تیرہ بم دھماکوں کی منصوبہ بندی اور اس پر عمل درآمد کے ثبوت بائیس سال پہلے وہ خود لے کر پاکستان سے آیاتھا اورثبوتوں کے ساتھ خود سپردگی کی تھی ۔یہ ایک مزید حیران کن بات ہے کہ ایک مجرم خود واردات کے ثبوت دیتا ہے ۔ظاہر ہے اس کیلئے اسے مائل کیا گیا۔ خود تحقیقات سے تعلق رکھنے والے ایک افسر نے اس عمل کیلئے inducement بہلانے پھسلانے کا استعمال کیا ہے ۔
انصاف پسند ہندوستانی برادری کی ناراضگی اس واسطے ہے کہ اس کے ساتھ وعدہ خلافی کی گئی ۔ اس نے حکومت، قانون اور عدلیہ کی مدد کی ۔تحقیقات و تفتیش کو تکمیل تک پہنچانے کے اسباب مہیا کئے ۔اگر اسٹیٹ یا ایجنسی نے اس سے سزا میں نرمی برتنے کا وعدہ کیا تھا تو وعدہ پورا ہونا چاہئے تھا۔ بدیہی لگتا ہے کہ میمن نے اپنا مقدمہ اس بنیاد پر بائیس سال کی قید و بند کی زندگی میں بھی مضبوطی سے نہیں لڑا اور نہ ہی کسی نے اس کی رہا ئی کی اپیل کی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اس کے ساتھ نرمی برتی جا ئے گی ۔اس نے سارا وقت اسی امید میں گزار دیا کہ ایجنسی اس کی سزا کم کرا دیگی یا کم سے کم سزا میں نرمی برتی جائے گی۔ سی بی آئی کے سابق چیف اور را کے سابق چیف نے اس کا اعتراف کیا ہے کہ اس کو بہلایا گیا تھا ۔ اس نے اپنی جان پر کھیل کر آڈیو ویڈیو ثبوت فراہم کئے جن کی بدولت اس بات ثابت ہو سکی کہ اس میں پاکستان کا ہاتھ تھا۔
مدعا یہ نہیں کہ یعقوب میمن گنہ گار تھا یا بے قصور ۔ مدعا یہ ہے کہ اس سزا میں عجلت کے مظاہرہ کیلئے قانونی ضابطوں کو توڑا گیا ۔کسی کو یہ حق کہا ں سے حاصل ہو گیا کہ وہ قانون شکنی کرنے پر آمادہ ہو جائے ۔اگر کوئی قانون کی خلاف ورزی کرتا ہے تو اس کی سزا کیا ہے اور وہ کون دے گا؟سوال اور بھی ہیں۔یعقوب میمن کو گرفتار نہیں کیا گیا بلکہ اس نے اپنے خود سپرد ی کی تھی ۔عدالت سے پھانسی دلانے میں ایجنسی نے عجلت سے کام لیا ۔ اس عجلت میں اصولوں اور ضابطوں کو بڑی بے باکی سے توڑا گیا ۔ بلا تفریق مذہب و ملت ہر میدان فکر و عمل سے پورے ہندوستان بھر سے معافی کی آواز اٹھائی گئی ۔ اسے نہ صرف نظر انداز کیا گیا بلکہ بعض لوگوں نے تو اسے غداری سے جوڑ دیا ۔صدر جمہوریہ کے پاس سے عرضی رحم کے مسترد ہونے کے بعد مجرم کو چودہ ۱۴ دن کی قانونی مہلت ملتی ہے ۔ اس قانون کی لا پروائی سے دھجیاں اڑائی گئیں۔بائیس سال(عمر قید کے برابر یا اس سے زیادہ) کی سزا قیدکاٹ لینے کے بعد پھر پھانسی دی گئی ۔کیوں؟افضل گرو کو پھانسی د ے کر تب کی حکمران جماعت نے اپنی سیاسی کمزوری کا ثبوت دیا تھا تو یعقوب میمن کو پھانسی دیکر موجودہ حکومت اپنا ہندوتوا متعصب اور فرقہ پرست چہرہ سخت ہوتا دکھانا چاہتی ہے ۔یہ سراسر سیاسی دہشت گردی ہے ۔راجیو گاندی کے قاتل اب تک زندہ ہیں۔ بے انت سنگھ کے قاتل سانسیں لے رہے ہیں۔انہیں سزا کب ملے گی؟کیا حکومت پھانسی کی سزا دے کر ہندوستان کے تمام پشیمان مجرموں کو یہ پیغام دینا چاہتی تھی کی ایجنسی کے ساتھ عدلیہ پر بھی اجارہ داری ممکن ہے ۔
عدالت نے یعقوب میمن کو مجرم قرار دیا، سب نے اسے مجرم تسلیم کر لیا۔بائیس سال تک سلاخوں کے پیچھے رہا ۔کسی نے کبھی اس کی رہائی کی اپیل نہیں کی۔جرم کسی مذہب قوم یا ذات برادری کی خصوصیت نہیں ۔ کسی سے بھی ہوسکتا ہے ۔ مجرم کوئی بھی ہو سکتا ہے ۔ جرم ایک بیماری ہے ۔ بیماری نام ، مذہب یا ذات پوچھ کر نہیں آتی۔ جرم کسی اقلیت یا اکثریت کا بھی خاصہ نہیں۔ اسی طرح سزا بھی کسی قوم ، مذہب یا ذات ، اقلیت یا اکثریت کے ساتھ خاص نہیں کہ جرم اقلیت کرے اور اس کی سزا اکثریت کو ملے یا اکثریت طبقہ کا جرم اس کا حق ہے ۔ اقلیت طبقہ کی سزا اس کا حق ہے۔جب جرم کسی کے ساتھ نہیں تو سزا کسی کے ساتھ خاص کرنا بڑا جرم ہے ۔انصاف پسندوں اور جمہوریت نوازوں کوتکلیف اور احتجاج تو صرف اس بات پرہے کہ ہندوستان کا عدل کا نظام کسی بھی طرح کے تعصب کی نذر نہ ہو پا ئے کیونکہ مجرم صرف مجرم ہو تا ہے ۔ نہ ہندو نہ مسلمان ،نہ ہی کسی ذات اور برادری کا ۔ ۔یہی وجہ ہے کہ مجرم وہ بھی ہیں جنہوں نے ہندوستانی قانون اور عدلیہ کے ساتھ کھلواڑ کرنے کی کوشش کی، نظام عدل و انصاف کے تقدس کو پامال کرنے کیا،اس کی صداقت اور بھروسے کو توڑا ۔قانون کے نام پر جھوٹا وعدہ کیا پھر وعدہ خلافی کر کے پوری دنیا و خاص طور سے جرم کی دنیا میں بسنے والوں کو یہ پیغام دے دیا کہ پھر سے ہمارے جھانسے میں مت آنا ،ہماری مدد کرنے کی غلطی نہ کرنا ۔ مجرم ہو ایک بار جرم کر لیا ہے تو اب جرم کرتے رہو ۔ سدھرنے یا پشیمان ہونے یا قومی دھارے میں لوٹ کر آنے کیلئے خود سپردگی کی کو شش کروگے تو تختہ دار پر لٹکا دئے جا ؤ گے ۔احتجاج اس بات پر ہے کہ گجرات فسادات کو گودھرا کا ری ایکشن کہہ کر ممبئی بلاسٹ کو بابری مسجد کی شہادت کا تاثر نہ بننے دیا جائے ۔ایک ری ایکشن پر سزائے مو ت تو دوسرے پر رتبہ اور عہدہ کا انعام ملک کے مفاد میں نہیں۔ یہ ہندوستان کی روایت کے خلاف ہے ۔ اسکے آئین کے تقدس کے خلاف ہے ۔
سزا ایک علاج ہے ۔ لیکن افسوس آج سزا خود بیمار ہو تی جا رہی ہے ۔ جب عدل وانصاف پر کسی کی ذاتی سرمایہ داری ہونے لگتی ہے تو فیصلے متعصب ہو جا تے ہیں ۔ سزا ومعافی کو نفع ونقصان کے ترازو میں تولا جا تا ہے ۔ یہ ہماری سیاست کی ناکامی ہے یا عدلیہ کی مجبوری ،عوام کا بھروسہ بہر حال ٹوٹ رہا ہے اور جس ملک کے باشندے اس ملک میں نافذ عدل وانصاف پر اعتماد کھو دیتے ہیں تو اس ملک کا مستقبل تاریک ہو نے لگتا ہے ۔۱۹۹۳میں یہ خوفناک دھماکے ہوئے جن کی ہولناکی کا احساس اب تک ہے ۔بیسوں سال گزر جانے کے بعد فیصلہ اپنے آپ میں ایک سوال پیدا کر دیتا ہے کہ ایک جرم کی کھوج بین، تحقیق و تفتیش میں کتنا وقت لگتا ہے ۔ ایسے میں مجرم کیلئے بھی آسانی ہو جا تی ہے ۔ غور کرنے کی بات یہ ہے کہ ۱۹۴۷ سے لے کر ۱۹۹۲ تک کے گنہ گاروں کو سزا کم ملی ۔ ۱۹۹۳ کے بعد کے کسی مجرم کو سزا ملتی ہے اور کوئی کھلے عام گھوم رہا ہے ۔ اس کا ذمہ دار کون ہے ؟کہیں یہ سیاست اور قانون کے ساتھ عدلیہ کو بھی مذہبی تعصب کا شکار بنانے کی کوشش تو نہیں ۔اب تو اکثر مظلوم اس دنیا سے بھی جا چکے اور بہت سے مجرم بھی گذر گئے لیکن ایک سوال چھوڑ کر گئے کہ ہمیں انصاف کب ملے گا۔ راجیو گاندھی کے قاتلوں کو سزا کب ملے گی ؟۔
دوسروں کے علاوہ سابق یونین منسٹر ششی تھرور،ورون گاندھی اور کنی موزی سمیت کئی اہم افراد نے پھانسی کی سزا کے خلاف آواز بلند کی ہے ۔ شسی تھرور کا کہنا ہے کہ پھانسی کی سزا کو مطلقاََ بند کر دینا چاہئے خواہ مجر م دہشت گرد ہی کیوں نہ ہو۔ اسے آخری سانس تک سلاخوں کے پیچھے ڈال دیا جائے۔
ٌٌ*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com

बे लगाम विज्ञापन से बिगड़ता समाज uncensored advertisement making the society spoiled بے لگام اشتہار کی تباہ کاریاں

बे लगाम विज्ञापन से बिगड़ता समाज 
uncensored advertisement making the society spoiled
بے لگام اشتہار کی تباہ کاریاں
عبدالمعید ازہر


اکیسویں صدی ترقی کی راہ پر تیزی سے گامزن ہے ۔ نئے نئے ایجادات ہو رہے ہیں ۔ نقل وحرکت کے نئے وسائل وذرائع ماضی کو حیرت زدہ کر رہے ہیں ۔ برسوں کا سفر چند دنوں میں سمٹ گیا ۔ سات سمندر پار کی دوری اب محاورہ نہ رہی۔ پوری دنیا نے ایک گاؤں کی مشکل اختیار کر لی ہے ۔ اس تکنیکی دور میں پردیش اور ودیش دور نہ رہا ۔ شہر کے ساتھ گاؤں بھی اس ترقی کے اثرات کو قبول کرتے ہوئے نظر آ رہے ہیں ۔ موبائل فون نے جہاں دوریاں ختم کر دیں وہیں ٹیلی ویژن ،کمپیوٹر،انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا نے لوگوں کو قریب کرنے کے ساتھ ضروری سامان تک کی رسانی کو آسان بنا دیا ۔ ہر چیز کے نفع ونقصان کی خبر اب گھر بیٹھے مل ہو جا تی ہے ۔ اشیاء کی قیمتوں میں اضافے اور کمی کے بارے میں قبل از وقت پتہ چل جا تا ہے ۔ اب تو یہاں تک بھی سہولت ہے کہ گھر بیٹھے آ پ کا سامان پہنچ جا تا ہے۔ یہ جدید دور کی تکنیکی ترقی کی دین ہے ۔ آئے دن اشتہارات کے ذریعہ ہمیں نئی نئی چیزوں کے بارے میں معلومات حاصل ہو تی رہتی ہیں ۔ ان اشتہارات کے ذیعہ ایک سے زائد متبادل ہمارے سامنے ہوتے ہیں۔ جن میں سے ہمارے لئے زیادہ مفید اور مناسب کا انتخاب کرنا آسان ہوتا ہے۔ان اشتہارات میں تمام تر معلومات موجود ہوتی ہیں ۔کاروبار میں آئے اتار چڑھاؤ کی خبروں سے صنعت کاروں اور کاروباریوں کے رویوں میں تبدیلی محسوس ہوتی رہتی ہے ۔ لیکن شاید اشتہار ایک ایسا کاروبار ہے جس میں گھاٹا اور نقصان کے امکانات قدرے کم ہو تے ہیں ۔ اشتہار نے کاروباری اور خریدار دونوں کے لئے آسانیاں فراہم کر دیں ۔اس دور میں لوگوں کے پاس پیسہ ہے لیکن وقت نہیں ۔ایک سامان کو گلی گلی گھوم کر دکھانے سے ایک جگہ سب لوگوں کے دیکھنے کا انتظام ہو گیا۔ ا س لئے اشتہار ایک بہتر ذریعہ ابلاغ ہے۔ وقت کے ساتھ اشتہار نے بھی ترقی کی ہے ۔ پہلے ریڈیو یا دور درشن پر مخصوص انداز میں اشتہار نشر ہو تا تھا ۔ اب تو اس کی ہزاروں شکلیں بازار میں آ گئی ہیں ۔ پمفلیٹ ،پوسٹر، اسٹیکر ،فلیکس،اسکرین، بینر، وال پینٹنگ وغیرہ۔اور ایک سے ایک نئے نرالے انداز میں رنگ برنگے پوسٹر اور بینر بازار میں نظر آتے ہیں ۔ ایک سے ایک قیمتی، دیدہ زیب اور دلکش اشتہارات دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پہلے اکثر فلموں کے پوسٹر یا چناؤ کے پوسٹر نظر آتے تھے۔ایک ایک پوسٹر پورے سال لگا رہتا تھا ۔ سنیما ہال سے فلم نکل بھی جا تی تھی پھر پوسٹر دیوار سے اعلان عام کر رہا ہوتا ہے۔ اور لوگ چلتے پھرتے تبصرہ کرتے تھے جب دیوار کی پوسٹر سے سنیما ہال کے اندر کی فلم میچ نہیں کرتی تھی۔ اب حال یہ ہے کہ ایک رات کا پوسٹر دوسری رات کو نظر نہیں آتا ۔ بلکہ ایک ہی رات میں ہر دو گھنٹے کے بعد ایک پوسٹر کے سینے پر دوسرا پوسٹر سوار ہو کر اپنی دلیری کا اظہار کر رہا ہوتا ۔ اس کے بعد دو گھنٹے کے بعد ہی اس کے سینے پر دوسرے پوسٹر کا پردہ لگا دیا جا تا ہے بینر، پوسٹر،ہورڈنگ اور فلیکسی لگوانے کی اب تو با قاعدہ پر میشن لینی ہو تی ہے ۔ سرکاری کھمبوں پر باقاعدہ ہورڈنگ کی قیمت وصول کی جا تی ہے ۔ ابھی حال کے لوک سبھاالیکشن میں کئی ایسے کیس عدالت پہنچے جس میں شکایت کی گئی کہ ہمارے پوسٹر کے لئے پورے شہر میں کہیں کوئی جگہ نہیں ۔ مالک مکان نے بھی اپنی دیوار پرStick no billsلکھنا شروع کر دیا ہے ۔
ان اشتہاروں میں الفاظ اور تصویر دونوں ہی باتوں کی اہمیت ہو تی ہیں ۔ جتنا اچھا ڈائلاگ ہو گا اور جتنی دلکش تصویر ہوگی اتناہی اچھا اشتہار سمجھا جا ئے گا ۔اسی اعتبار سے اس کی قیمت کا اندازہ لگایا جاتاہے ۔ اس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا کہ سامان اور تصویر میں مطابقت ہے کہ نہیں ۔ بڑے عجیب و غریب اشتہار ہوتے ہیں ۔ان میں بڑے نادر اور شاطر کھیل ہوتے ہیں۔کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ آدمی حیرت میں پڑ جا تا ہے کہ یہ اشتہار کسی عورت کے جسم کا ہے یا اس کے کان میں پڑے چھوٹے چھوٹے بندوں،بالیوں کا ہے ۔ افسوس ! تقریبات کی نمائش سے لے کر ہوٹل ، کرکٹ، آئی پی ایل اور اشتہار تک ہر جگہ ایک عورت کے جسم کا سہارا لیا جا تا ہے ۔ اشتہارات نے جہاں ایک طرف آسانیاں پیدا کی ہیں وہی دوسری طرف تہذیب ،اخلاق کے ساتھ حقیقت اور سچائی کا گلہ گھونٹ کر دھوکہ ، جال سازی اور مکر و فریب کو عام کیا ہے ۔ چیزوں کے زیادہ فروخت کرنے کے لئے بھاری سیل،سنہرا موقعہ، خاص آفر ،فری سیل ،ایک کے ساتھ ایک مفت جیسے ہزاروں جملوں کے ساتھ عام آدمی کو بے وقوف بنایا جا تا ہے۔ کیونکہ یہ سارے جملے بڑے اور سنہرے حرفوں میں لکھے ہوتے ہیں ۔ وہیں بالکل نا قابل دید ،چھوٹے حروف میں لکھا ہوتا ہے ’’ شرطیں لا گو‘‘ یہ لفظ اس وقت دکھا یا جا تا ہے جب سودا طے ہو جا تا ہے اور سامان کا عیب ظاہر ہوجاتا ہے ۔ یہ دھوکہ سب سے زیادہ عورتوں کے میک اپ کے سامان میں ہوتا ہے ۔ آج تک دنیا کی کوئی ایسی کریم ،پاؤڈر یا دوسری زیبائش کے سامان نہیں بنے جن کے اشتہار میں نارمل اور عام چہرہ ہو۔ دعویٰ ہو تا ہے کہ ایک ہفتہ سے لے کر چار ہفتوں تک میں ایسا خوبصورت چہرہ ہوگا جس کی توقع نہیں کی جا سکتی ۔ یہ بات بھی وثوق سے نہیں کہی جا سکتی کہ اشتہار میں جن کا چہرہ دکھا یا گیا ہے کیا واقعی اس نے کبھی اس سامان کو استعمال کیا ہو۔
اشتہار کے معاملے میں سب سے زیادہ دھوکہ اداکاروں نے دیا ہے ۔ اپنے چاہنے والوں اور مداحوں کو الگ الگ سامان کی خوبیوں کو خوبصورت انداز میں بتاکر ان کے جذبات سے کھیلتے ہیں۔ جبکہ خود ان کا استعمال کتنا کرتے ہیں کوئی نہیں جا نتا ہے ۔ ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جن کے بارے میں ڈاکٹرس نے بڑے وثوق کے ساتھ نقصان دہ قرار دیا لیکن ان اداکاروں نے پیسے کی خاطر اس اشتہار میں کام کیا ۔ آج کے تقریبا کے زیادہ تر اشتہار میں عریانیت عام بلکہ شرط ہو گئی ہے ۔ اشتہار کے نام پر عریانیت پھیلائی جارہی ہے رواں دور کے اشتہارات میں پرفیوم نے عورتوں کی عزت کو بر سر عام رسوا اور بے عزت کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے ۔ایک عورت کو ذلیل کرکے، اسکی عزت کو فروخت کرکے ،اس کے جسم کی نمائش کرکے لوگ روٹی کمانے میں مصروف ہیں ۔یا تو عورت آج کے سماج میں اتنا مجبور ہو چکی ہے کہ اسے پیٹ کیلئے جسم کو بازار کے حوالے کرنا ہوگا ۔ یا موجودہ سماج نے ایک ایسا ما حول بنا دیا ہے جہاں عریانیت کو ترقی کا نام دیا جاتاہے ۔اس معاشرے کی غیر ت کو کیا ہوگیا ہے ۔ اپنی ہی عزت کو محفل و بازار میں عریاں کرنے پر آمادہ ہے ۔
بدن پر لگانے والا ڈیو ڈرنٹ پرفیوم جو پسینہ کی بدبو کو دور کرنے کے لئے استعمال کیا جا تا تھا ۔ پہلے تو اسے عورتوں کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لئے تیار کیا گیا۔ پھر مرد وعورت دونوں اشتہار میں استعمال کرتے نظر آئے۔ اس بار پرفیوم میں جادو یہ ہے کہ اسے استعمال کرتے ہی ایک دوسرے کو اپنے اختیار میں کر سکتے ہیں ۔ ایک اشتہار میں بے غیرتی کی ساری حدیں پار کر دیں ۔ ایک پرفیوم کے اشتہار میں دکھایا گیا کہ ایک مرد نے اپنے کمرے میں پر فیوم لگایا تو الگ الگ مقامات سے عورتیں کھینچی ہو ئی اس کے پاس چلی آ ئیں ۔ اور اپنے آپ کو اس مرد کے حوالے کر دیا ۔ لو جی اب تو سارے راستے آسان ہو گئے ۔ کسی قانون کی کوئی ضرورت ہی نہیں ۔ ایک پرفیوم لو اور کسی بھی عورت کو اپنے اختیار میں لے لو اور عیش کرو ۔ جس بے غیرتی اور جرأت مندی سے اس اشتہار کو پیش کیا گیا اس سے کہیں زیادہ مردہ ضمیری اور بے حیائی سے اسے پاس کیا گیا اور اس سے کہیں زیادہ وہ لوگ بے حس ہیں جو اسے دیکھنے کے بعدخاموش بیٹھے رہتے ہیں ۔ ایک عورت کے کاروبار کا کاتماشہ بڑے مزے سے دیکھتے ہیں ۔یہ اشتہارات کہیں نہ کہیں یہ بتانا چاہتے ہیں کہ اب عصمت دری آسان ہو گئی ۔جب ایک عورت خود عورت کے دامن عصمت کو جھوٹی اور مصنوعی خوبصورتی کے فریب میں جلا کر خاکستر کرنا چاہتی ہو تو سمجھ لینا چاہئے کہ سماج میں اب تبدیلی کی ضرورت ہے ۔جب انسان اپنے ہاتھوں اپنی عزت کی نیلامی کرتا نظر آئے تو یا تو وہ مجبور ہے یا پا گل۔ دونوں ہی صورتوں میں اس کے علاج کی ضرورت ہے ۔ 
اشتہار کے لئے اداکاروں کو کروڑوں روپئے دئے جا تے ہیں پھر اس کی نشر و اشاعت کے لئے کافی رقم خرچ کی جا تی ہے ۔ ٹیلی ویژن پر پروگرام سے زیادہ اشتہار ہو تا ہے ۔ حتی کہ نیوز چینل پر بھی اس کی کثرت سے بھر مار ہے ۔ خود نمائی کے شوق نے انسان کو انسانیت سے دور کر دیا ۔فحش اور عریا نیت ،لہو ولعب و سامان ذوق ہو گئے ۔ تہذیب کا گلا اجتماعی طور پر گھونٹا جا رہا ہے ۔ اور ہم خاموش ہیں ۔ کسی ترقی کے خواب میں جی رہے ہیں ۔ یہ کون سا جدید دور اور اس کے تقاضے ہیں جہاں ہم اپنی بیٹی ،ماں ، بہن کا تماشہ خود دیکھتے ہیں ا ور دوسروں کو بھی فخر یہ دکھا تے ہیں ۔ بغیر عریانیت اور جسم کی نمائش کے بھی اشتہار ممکن ہے ۔ عورتوں کی حصہ داری اور مساوات کی طلب ان کا تماشہ نہیں بلکہ ان کی عزت و تعظیم ہے۔ جس کا آج بڑی بے دردی سے کاروبار ہو تا ہے اور ہم تالیاں بجا تے ہیں ۔ ترقی کا کھو کھلا نام دے کر انسانیت کو قربان نہ کریں اگر اہلیت اور قابلیت ہے تو محنت اور مشقت سے رزق کمایا جا سکتا ہے ۔ کاروبار بغیر عریانیت کے بھی ممکن ہے ۔ جھوٹ ، دھوکہ ، فریب ،عیاری اور مکاری سے کمائی ہو ئی دولت کا استعمال تو ہم کر لیں گے مگر یاد رہے !پھر اس کا نتیجہ ہمیں کو جھیلنا پڑے گا ۔ خوابوں کی دنیا سے نکل کر حقیقت کی زمین پر قدم رکھو پھر پتہ چلے گا کہ یہ دنیا کتنی حسین ہے ۔
ایک عورت کو اس کا مقام اس کی عزت اچھال کر نہیں بلکہ اسے سہارا دے کر اور اس کی عزت کر کے ہی دیا جا سکتا ہے ۔ ایسے بے ہودہ اور فحش اشتہارات کے ذریعہ انسانی اقدار کی پامالی کے ساتھ عورتوں کی عزت کے ساتھ چھیڑ چھاڑ نہ کی جا ئے ۔ ایسے دھوکہ اور فریب سے ملک و ملت کو بچانے میں لطف اور مزہ ہے نہ کہ ملک اور انسانیت کی عمارت کو کھائی میں گرانے میں کامیابی ہے ۔ وہ انسان کبھی خوش نہیں رہ سکتا جو کسی کی تکلیف کا باعث بنا ہو ۔ جدید دور کی تکنیکی ترقیوں کا استعمال ملک و ملت کی تعمیر و ترقی میں کیا جا نا چاہئے ۔تہذیب و ثقافت اور انسانی رواداری کو ختم کرنے کے لئے نہیں ۔ غور کریں ،سنبھل جا ئیں ورنہ کل خود آپ اس کا شکار ہوں گے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob. 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com







Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

रोज़ा इन्सान को खुदा परस्त बना देता है

रोज़ा इन्सान को खुदा परस्त बना देता है
Observing fast makes person pure and worshiper to Allah

अल्लाह तआला खुद रोज़े का इनाम है

अल्लाह तआला खुद रोज़े का इनाम है 
Allah Himself is the reward of fast prayers


राष्ट्र निर्माण में युवा की भूमिका Youth and the Nation دور حاضر میں نئی نسل کی ذمہ داری

राष्ट्र निर्माण में युवा की भूमिका
Youth and the Nation
دور حاضر میں نئی نسل کی ذمہ داری
عبد المعید ازہری


کسی بھی قوم کے نوجوان اس قوم کے مستقبل کی ضمانت ہو تے ہیں ۔ قوم کی ترقی اور تنزلی کا دارو مدار اور انحصار اسی نوجوان نسل پر ہوتا ہے ۔ یہ نوجوان قوم کا اثاثہ اور سرمایہ ہو تے ہیں۔ان کا رخ اگر صحیح سمت کی جانب ہوجائے تو قوم کا مستقبل روشن و تابناک ہوگا اور اگر اس قوم کو ایسے رہنما مل گئے جنہوں نے ان کو غلط سمت پر ڈال دیا تو اس قوم کو تباہ و برباد ہو نے سے کوئی نہیں روک سکتا ۔ کسی بھی پلان یا تجویز کو عملی انجام دینے کے لئے عمومی طور پر تین چیزوں کی ضرورت ہوتی ہے ۔ پلان ،پروگرام یا خاکہ ، دوسرا وسائل وزرائع اور مالی تعاون اور تیسرا اسے عملی جامہ پہنانے والے افراد ۔ پلاننگ میں عام طور سے اھیڑ عمر کے لوگ ہو تے ہیں ۔ چالیس سے پچاس سال کی درمیانی عمر انسان کی سب سے پختہ اور بہترین عمر ہو تی ہے ۔ علم و تجربہ دور بینی اور دو ر اندیشی بالکل عروج پر ہوتا ہے ۔ صبر و استقامت پائے کا ہو تا ہے ۔ مثال کے طور پر تعلیمی بیدار ی مہم ۔ جب ملک تعلیمی میدان میں پیچھے ہو نے لگا تو قوم کے ذمہ دار طبقہ نے حکومت کے ذریعے تعلیمی بیداری کا پروگرام تیار کیا ۔تعلیمی پسماندگی کے اسباب و وجوہات تلاش کئے۔ان خامیوں اور کمیوں کے تدارک کے لئے ایک مستقل لائحہ عمل تیا کیا ۔ صنعت کاروں نے اپنا مالی تعاون پیش کیا او ر اس لائحہ عمل کو عملی اقدام کی منزل تک پہنچانے کیلئے وسائل و ذرائع کی سہولیات مہیا کرائی تاکہ یہ منصوبہ آسانی سے عام لوگوں تک رسائی حاصل کر سکے۔عوام تک اس پروگرام کو گھر گھر پہونچا نے کے لئے قوم کے نوجوان اپنے گھروں سے باہر نکلے کیونکہ یہ کام انہیں نوجوانوں کا تھا ۔نئی نسل کو نئی نسل ہی آسانی سے بیدار کر سکتی ہے ۔اس تعلیمی اور معاشی پسماندگی کی سب سے بڑ ی وجوہات میں سے ایک بے حسی اور عدم بے داری ہے ۔ لوگ اپنے حقوق تک سے واقف نہیں ۔لہٰذا اس تعلیمی بیداری مہم کے ذریعہ عوام الناس تک ان کے حقوق کے ساتھ تعلیم کی اہمیت ، تعلیم حاصل کرنے کیلئے ان کو دی گئی سہولیات سے اس نئی نسل نے نہ صرف آگاہ کیا بلکہ ان کے اندر ایک نئی روح پھونک دی۔
نوجوان کی ضرورت ہر محکمہ میں ہے کیونکہ نئے زمانے میں نئی نسل کے ذہنوں کے قریب ہونا سب سے بڑی ضرورت ہے ۔ ورنہ تجویز کار اور عمل درآمد عملہ کے درمیان فکر میں ہم آہنگی نہیں ہو پاتی ہے ۔ نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ چالیس سے پچاس برس کا ادھیڑ عمر کا شخص جس کو لا شعوری اور غیر ذمہ دارانہ عمل تصور کرتا ہے نئی نسل اسے نئے زمانے کی کامیابی اور ترقی سمجھتا ہے ۔ قوم کا نوجوان ایک ہوا کی مانند ہو تا ہے اور ہوا کی خصوصیت ہے کہ ہوا جس رخ پر چلے گی اپنے پیچھے اچھے اور برے اثرات مرتب کرتی ہو ئی چلے گی ۔ اس ہوا پر کنٹرول رکھنا بڑوں اور قوم کے ذمہ داروں کا کام ہے کہ ہوا کی سستی میں بھی نقصان ہے اور یہی ہوا اگر طوفان بن جا ئے تو بھی ہلاکت اور بربادی ہے ۔اب قوم کے ذمہ داروں اور رہنماؤں کو یہ طے کرنا ہوگا کہ نئی نسل کی یہ ہوا کس رخ پر اور کس انداز میں چلے ۔ 
نئی نسل اپنے اکابرین کے افکار کے ساتھ پرورش پاتی ہے ۔ آباء واجداد سے جو فکروراثت میں ملتی ہے اس کے اثرات نئی نسل میں موجود ہوتے ہیں ۔ لیکن اسے اپنی زندگی میں عملی جامہ اسی وقت پہنا پاتا ہے جب نیا دور، نئی فکر نئے، وسائل وذرائع اکابرین کی فکر کو اپنے دامن میں جگہ دیتے ہیں یعنی دونوں فکریں میل کھا تی ہیں ۔ اگر افکار میں دور حاضر کے تقاضوں کا خیال نہ رکھا گیا ہو تو اس پر عمل کرنا مشکل ہو جاتا ہے اور اسے نئے دور کی کامیابی سے جوڑنا اور بھی مشکل ترین ہو تا ہے ۔ 
ہر دور میں کامیابی کے معنی بدلتے ہیں ۔ دور حاضر میں بھی کامیابی نے اپنے معانی، اپنے اسباب اور اپنی نشانیاں خود مرتب کی ہیں ۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ دولت و شہرت ہر دور میں کامیابی کی علامت سمجھی گئی ہے ۔ دولت و شہرت کے آسمان کا سفر کرنے والا مسافر اپنے ماضی کے تمام عیوب اور نقوص سے خالی و عاری ہو جا تا ہے ۔ دنیا اس کے ماضی کو بھلا دیتی ہے ۔ یہ اور بات ہے کہ اس کے ماضی کی زندگی سے یہ غفلت وقتی ہوتی ہے ۔ جیسے ہی دولت و شہرت کے بادل حقیقت کے سورج سے چھٹتا ہے اس کی تپش سے لوگوں کو آگہی حاصل ہوتی ہے ۔ ایک دہائی تک مسلسل محنت و مشقت سے کامیابی کی بلندی پر پہونچنے والا شخص لمحوں میں زمیں بوس ہو جا تا ہے ۔سوال یہ ہے کہ انٹر پاس بغیر ڈگری کا ایک شخص بی ٹیک پاس انجینئر کے ساتھ بی پی یو اور کال سینٹر میں نوکری کرتا ہے ۔ دونوں میں کامیاب کون؟ ایک لحاظ سے دونوں کامیاب ہیں کیونکہ دولت بھی ہے ، زندگی کے تمام تر عیش و آرام اور سہولیات بھی مہیا ہیں ۔ لیکن دونوں ناکام بھی ہیں کہ بنا ڈگری ،علم ،تجربہ اور فکرو دور اندیشی سے کمائی گئی دولت کا استعمال ملک و ملت کی ترقی میں ہونا مشکل ہے اورایک تکنیکی ڈگری حاصل کرنے کے بعد صرف دولت کا حصول بے سود ہے ۔ 
ہر قوم کی نئی نسل میں وہ قوت اور جذبہ ہو تا ہے جو کسی بھی تاریخ کو اپنے ہاتھ سے لکھنے کے لئے کافی ہو تا ہے ۔ قوم کے ذمہ دار اگر اپنی ذمہ داریوں کا احساس کر لیں تو یہی قوم اپنے نوجوانوں کے کندھے پر سوار ہو کر ہر آگ کا دریا اور طوفانوں کا سفر طے کر نے میں کامیاب نظر آئے گی ۔ اور اگر قوم کے ذمہ دار نا اہل ہوں ،غیر ذمہ دار ہوں ،بے حس اور مردہ ضمیری سے جیتے ہوں تو پھر وہ قوم اپنے ہی نوجوانوں کے ہاتھ ایسی تباہی دیکھے گی جس کی اس نے کبھی توقع نہ کی ہوگی ۔ یہ نوجوان کی اہمیت اور خصوصیت ہے ۔
جاپان کے ہیرو شیما اور ناگا ساکی پر نیو کلیر بم دھماکہ میں ملوث دو افراد انیس سال کے نوجوان تھے ۔ ان کا استعمال بڑی آسانی سے کیا گیا ۔ بڑی سوچی سمجھی سازش کے ذریعہ ان کے ذہنوں کو ترقی اور کامیابی کے جھوٹے خواب دکھا کر اس کا م کو انجام دیا گیا ۔انہیں اپنی غلطی کا احساس بعد میں ہوا لیکن بہت دیر ہو چکی تھی ۔ پورا ملک آنے والی نسلوں کے ساتھ تباہی و بربادی کی آگ میں کود چکا تھا ۔ 
آج پوری دنیا میں ترقی کے معنیٰ بدل گئے ہیں اور یہ نت نئے بدلاؤ نئی نسل کے دل و دماغ میں ایسا زہر بھر رہے ہیں جس سے یہ نئی نسل ہر قدیم روایت اور تہذیب فکر و عمل سے باغی نظر آتی ہے ۔دور حاضر کی بد عنوان سیاست نے معاشرہ کو تباہی و بربادی کے دہانے پر لا کھڑا کر دیا ۔پیسے اور پاور کی چاہت نے انسان کی عقل کو ماؤف کر دیا۔نفرت و تشدد کے سودا گروں نے نئی نسل کو فکری طور پر مفلوج کر دیا ہے ۔اس فکر نے دولت و شہرت کواتنا آسان کر دیا کہ ہنر مندی او ر عقل و دانشوری از خود ضائع ہونے پر مجبورہو گئی ۔ ملک و ملت کے تئیں فکر اور اسے ترقی سے ہمکنار کرنے کی کوشش و کاوش بے سود اور بے وقوفانہ عمل قرار پاگیا ۔ انسانی ہمدردی اخوت و بھائی چارگی ، رشتوں و اقدار کی پاسداری جیسی روایتیں بے بنیاد ،بے حس اور بے معنی الفاظ محض بن کر رہ گئے ۔یہ نوجوان نسل آج پیسہ اور پاور کے لئے کچھ بھی کرنے کے لئے تیار ہے ۔ فرقہ وارانہ فسادات ،مذہبی منافرت پر مبنی واردات ، قتل وغارت گری ، لوٹ مار ہر جگہ یہ نسل نظر آتی ہے ۔ذات برادری ،فرقہ و مسلک ،مذہب وملت کے نام پر بہکنے کو تیار ہیں ۔ 
اکیسویں صدی بے مقصد اور محض نام نہا د کی آزادانہ زندگی گذارنے والے نو جوانوں کے لئے قہر ہے جس نے ان نوجوانوں کے ساتھ ملک و ملت کو بھی بھاری نقصان پہنچایا ہے۔ دورحاضر کی بدعنوان سیاست ایسے نوجوانوں کو آلۂ کار بنا کر اپنے ذاتی اور سیاسی مفا د کے لئے بے جا استعمال کر رہی ہے ۔ہر انتخاب میں نوجوانوں کے نام پر ایک شور اٹھتا ہے اور پھر نوجوانوں کا استعمال ہی نہیں بلکہ استحصال بھی ہوتا ہے ۔ بغیر منزل کے رواں دواں یہ نئی نسل دولت و شہرت تو حاصل کر لیتی ہے لیکن مستقبل کی روشن حویلی کے سارے چراغ بدلے میں گل کر دئے جا تے ہیں ۔
تاریخ اس بات کا خلاصہ کر تی ہے کہ جس قوم نے جب بھی ترقی اور کامیابی کے منازل طے کئے ہیں ہر دو میں اسے ایسے نوجوان ملے ہیں جنہوں نے اپنی نوجوانی کو صحیح سمت دے کر انقلاب برپا کیا اور آنے والی نسلوں کے لئے عبرت اور مثال بن گئے ۔ بودھ سماج کے مذہبی رہنما مہاتما بدھ ،جین سماج کے مہاویر سوامی ہوں ، سمراٹ اشوک یا پھر سناتن دھر م کے مانے جا نے والے اوتار مریادہ پر شوتم رام یا مہابھارت میں کوروں کے خلاف پانڈو کے ارجن کو جنگ و زندگی کی سیکھ دینے والے کرشن ہوں یا پورے مہابھارت میں اکلوتی حیثیت رکھنے والے ابھی منیو ہوں ۔ ان سب کے پیچھے ایک تاریخ ہے جنہوں نے اپنی جو ش وجذبہ سے پر نوجوان زندگی کو صحیح رخ دیا اور انقلابی شخصیتوں میں ان کا شمار ہوا ۔ 
تاریخ اسلام نے بھی پیغمبر اعظم ﷺ کی نوجوانی کے واقعات دل کھول کر بیان کئے ہیں ۔ پچیس سال کی عمر میں انسانی اقدار ،عادات واطوار کے تمام مراحل طے کر لئے ۔ اخلاقی تہذیب میں بے مثل، محنت وتجارت میں لا ثانی ،کردار و گفتا ر میں بے جوڑ ،سیاسی اور سماجی ذمہ داریوں کا مکمل احسا س اور اس کے تئیں مسلسل کوشش و خدمت ۔،مذہبی رہنمائی میں یکتا ،حقوق انسانی سے بیدار نظر آتے ہیں ۔ پیغمبر اسلام نے قوم کے نوجوانوں کو بے راہ روی سے نکال کر نیک اور صحیح سمت کی جانب گامزن کیا تو نتیجہ یہ ہوا کہ دنیا کی سب سے بدو ،جاہل و ظالم اور غیر مہذب قوم رہنمائی کے جوہر سے آراستہ و پیراستہ ہو گئی اور اسلام جیسے نظام حیات کو پوری دنیا میں پہنچا دیا ۔ چند برسوں ہی میں یہ قوم پیغام حیا ت کو لے کر حجاز کی وادیوں اور عرب کے صحراؤں کو پیچھے چھوڑتے ہو ئے پوری دنیا میں اپنی نمائندگی کا احساس دلا تی ہوئی نظر آئی ۔یہ وہ دور تھا جب پوری دنیا نے اسلام کے فلسفہ حیات کا مطالعہ کیا اور اس سے اپنی زندگی کی سمتوں کا تعین کیا ۔
ہر دور میں ایسے نوجوانوں کی سرداری اور سپہ سالاری رہی جنہوں نے اسلام کے نظام حیات اور پیغام عمل کو ساری انسانیت کے لئے عام کر دیا اور پوری دنیا کو انسانیت ، اخوت،محبت اور مذہبی ہم آہنگی کا ایسا سبق دیا جو آج تک کسی نظام میں نظر نہیں آئی ۔سترہ سال کے محمد بن قاسم کی بہادری اور جاں بازی کے قصے تاریخ نے اپنے سینے میں بڑی ہی قدر اور عزت کے ساتھ محفوظ رکھا ہے ۔وہیں طارق بن زیاد کے جو ش وجذبے کو آج تک تاریخ بھلا نہ سکی ۔ ان جیسے کئی نوجوانوں کے تاریخی کارنامے موجود ہیں جن کو پڑھ کر آج بھی قوم کا نوجوان جوش وجذبہ
سے لبریز ہو جا تا ہے ۔یہ اور بات ہے کہ آج کی نئی نسل تاریخ سے دور ہوتی جا رہی ہے جس سے صحیح سمت میں زندگی کا بہاؤ مشکل سے مشکل تر ہو تا جا رہا ہے کیونکہ ہر نوجوان کے پیچھے خلیفہ ابن عبدالملک،، موسیٰ بن نصیر ،صلاح الدین ایوبی ،خالد بن ولید جیسے لوگوں کی تربیت اور سرپرستی کار فرما رہی ۔ ان نامور، دور اندیش، عاقبت شناس ،ذہن ساز ،سپہ سالاروں نے نئی نسل کو اسلامی تعلیمات کی روشنی میں تربیت دی جس سے ان کی فکر میں وسعت کے ساتھ دلوں میں جذبۂ ایثار واخوت پیدا ہوا اور اپنی زندگی کو ایسے رخ پر ڈال دیا جس کی منزل صرف کامیابی اور ترقی ہے ۔
سناتن دھرم کے سب سے بڑے نمائندے سوامی وویکا نند نے کہا تھا کہ اگر مجھے سو نوجوان مل جا ئیں تو پوری دنیا میں انقلاب برپا کر سکتا ہوں ۔ گاندھی جی کے بارے میں مشہور ہے کہ انہوں نے اپنے ایک بیان میں کہا کہ اگر مجھے امام حسین رضی اللہ عنہ کے ساتھ کربلا میں بہتّر ساتھیوں کا ساتھ مل جا تا تو ہندوستان کو ایک سال میں آزاد کرا دیتا ۔ نئی نسل کے بارے میں پیغمبر اعظم ﷺ کے کئی ارشادات موجودہیں۔آپ نے بتایا کہ قوم کا نوجوان قوم کا مستقبل اور قوم کا قیمتی اثاثہ ہوتا ہے ۔دہلی میں واقع ہونے والا ہیبت ناک واقعہ دور حاضر میں نوجوانوں کے کردار کی مثال ہے ۔جب ایک لڑکی کے ساتھ وحشانہ عصمت دری کا واقعہ پیش آیا تو دہلی کے ساتھ ملک کے تمام نوجوانوں میں بیداری کا احساس پیدا ہوا ۔ دہلی نے اس سے پہلے اپنی تنگ و دراز گلیوں میں نئی نسل کے اس جذبے کو محسوس نہیں کیا تھا ۔ انڈیا گیٹ اور جنتر منتر کے میدان آج بھی ان کے جذبے کی دھمک کو محسوس کرتے ہیں ۔ یہ نوجوان بیداری کا احساس لے کر جب سڑکوں پر نظر آئے تو زمانے نے کروٹ لی اور ایک انقلاب دیکھنے کو ملا ۔ایسے کئی واقعات ہماری نظروں کے سامنے ہے جو ہم سے بار بار ہماری ذمہ داری کے بارے میں سوال کرتے ہیں ۔ ہمارے مردہ ضمیروں میں جان پھونکنے کی کو شش کرتے ہیں ۔ ہمیں خواب غفلت سے جگانے کے لئے نت نئے طریقے استعمال کرتے ہیں اور عبرت ناک واقعات ہمیں بار بارغور وفکر کرنے کے لئے اکساتے ہیں ۔زمانہ انتظار میں ہے ۔ اکیسویں صدی کا نوجوان کب کروٹ لے گا ۔رواں صدی کی دوسری دہائی ظلمت و تاریکی میں ختم ہو نے کو ہے ۔
نوجوانو! ہوش میں آؤ اپنے آپ کو پہچانو ، اپنی اہلیت اور قابلیت کا صحیح استعمال کرو ، ملک و ملت کے تم پر کئی احسان ہے ۔تمام فرائض کو دیانت داری سے ادا کرو ورنہ آنے والی نسل تمہیں معاف نہیں کرے گی ۔

***

Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob:09582859385 E-Mail: abdulmoid07@gmail.com
Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/