Wednesday, November 11, 2015

The revolutionary protest in Egypt "मिस्र का इंकलाबी धरना " مصر کا احتجاجی انقلاب ایک سبق

The revolutionary protest in Egypt 
मिस्र का इंकलाबी धरना
مصر کا احتجاجی انقلاب ایک سبق
عبد المعید ازہری 

مصر وہ ملک ہے جو اس دہائی کی بدلتی سیاسی الٹ پھیر کا شکار ہوا۔تیس سا ل کی طویل مدت کے بعد اس ملک کو جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ مشرق وسطیٰ ممالک میں بنام جمہوریت انقلاب کی ایک ہوا چلی۔ یوں تو سب کچھ خوش گوار تھا کیونکہ یہ ہوا بدلاؤ کی تھی۔ یہ تانا شاہی سے جمہوری نظام کی جانب ایک اقدام تھا۔دیگر جمہوری ممالک کی مانند اس ملک میں بھی جمہوری نظام قائم ہونا چاہئے تھا۔ اس کے لئے کو ششیں کی گئیں۔ احتجاج کا جو ایک جمہوری طریقہ ہے اس پر عمل کیا گیا ۔ آخر کار چند جھڑپوں اور خون کے کچھ چھینٹوں کے بعد جمہوری نظام کی دیرینہ تمنائیں بر آئیں۔ تیس سال کی تانا شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ جمہوری طریقہ سے انتخاب کے ذریعہ ملک کا نیا صدر منتخب ہوا۔لیکن حالات نے پھر کروٹ بدلے اور ایک بار پھر میدان تحریر انسانی سمندر کے سیلاب سے موجیں مارنے لگا ۔پہلی جیسی شدت کے ساتھ بلکہ اس سے کئے گنا زیادہ سختی سے لوگ احتجاج میں شامل ہوئے ۔ باہری ممالک کے لئے وہ ایک معمہ رہا کہ آخر ایسا کیا ہو اکہ ایک بار مصری عوام و خواص کا جم غفیر تحریر میدان میں تاناشاہی کے خلاف کھڑا ہوا ۔اس کے بعد اس سے زیادہ جوش و جزبہ کے ساتھ جمہوری طریقہ سے منتخب صدر مرسی کے خلاف لوگوں کی ناراضگی میدان تحریر میں دیکھنے کو ملی ۔آنکڑوں کی اگر مانیں تو تقریبا ۷۰ لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے صدر مرسی نے لیکن ان کے خلاف جن لوگوں نے اپنے گم و غصہ کا اظہار احتجاج کی شکل میں کیا ان کی تعداد تین گونہ زیادہ تھی ۔ تقریبا ۲ کروڑ ۳۰ لاکھ لوگوں نے دستخط کے ذریعہ صدر مرسی کو ہٹانے کی مانگ کی ۔ ان کے غم و غصہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی اثر رسوخ سے بالا تر دو ایسی شخصیتیں ایسی ہین جن کو لوگ بے حد پسند کرنے کے ساتھ بہت زیادہ عزت دیتے ہیں ۔ جامعۃ الازہر کے شیخ یعنی وائس چانسلر ۔جن کو لو گ ادب احترام سے ’’امام اکبر ‘‘ سب سے بڑا امام کہتے اور مانتے ہیں ۔دوسرے اس ملک کے مفتی ’’ مفتی جمہوریہ ‘‘ جن کی علمی خدمت کی وجہ سے لوگ اپنے اوپر ان کی عزت کو لازم تصور کرتے ہیں۔یہ دونوں شخصیتیں میدان تحریر میں عام آدمی کے ساتھ مل کر احتجاج میں شامل تھیں۔ 
سابق صدر مرسی کی قیادت میں اخوان المسلمین کے ذریعہ مصر میں آئے انقلاب داخلی حقائق سے انکشاف اس وقت ہو سکا جب قطر اور سعودیہ کی دخل اندازی کا خلاصہ سامنے آیا۔در اصل قطر اور سعودیہ کے آپسی اقتدار کی جنگ مصر میں لڑی جا رہی تھی ۔ اس سے بڑی حیرت انگیز فکر یہ ہے کہ یہ صرف مصر ہی نہیں بلکہ ہر اس مسلم ممالک میں یہ کھیل چل رہا ہے جہاں قدرتی خزانہ کے ذرائع پائے گئے ہیں۔ ان ممالک کا بھی یہی حال ہے جو ان ممالک سے براہ راست یا بالواسطہ منسلک ہیں۔قطر نے یو اے ای کے ذریعہ ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرکے مرسی کی حمایت کی ۔وجہ دیر سے معلوم ہو سکی لیکن کہتے ہین کوئی چیز زیادہ دیر تک پردہ میں نہیں رہ سکتی خاص طور پر اگر وہ مکر و فریب ہو۔ اس پر مزید یہ کی لالچ اور تکبر کی چادر ہو تو اس کے چاک ہونے میں زیادہ دیر ویسے بھی نہیں لگتی ۔ آخر کا ر اس امداد کا خلاصہ اور پتہ چلا کہ قطر مصر کو اس لئے مدد کر رہا ہے تاکہ مصر کی لائف لائن اور ساتھ ہی ساتھ یورپ کی لائف لائن سوئس نہر پر اس کا قبضہ ہو جائے ۔ اس کے ذریعہ وہ یورپ کے ممالک کو یہ سمجھانے میں قدرے کامیاب ہوجائے گا کہ اب تمہیں سعودیہ کو ہتھیار بنانے کی ضرورت نہیں میں خود چل کر تمہارے پاس آرہا ہوں ۔ میرے پاس تو سعودیہ سے زیادہ قیمتی خزانہ نیچرل گیس ہے ۔بس اسلام ملک کی شہنشایت کا خطاب میرے نام لکھ دو ۔سعودیہ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا ۔اقتدار کے پایوں کو ہچکولے کھاتا دیکھ وہ اب ایک بار پھر سے مصر کو بحال کرنے کی فراک میں لگ گیا ۔جس کے لئے اس اچھی خاصی رقم خرچ کی ۔ اگر چہ یہ رقم ’حب علی ‘میں نہیں ’بغض معاویہ ‘میں خرچ کی گئی تھی ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تو بین الاقوامی سیاست تھی جو ملکی سطح پر ہو رہی تھی ۔ عام طور پر عوام کو اس کا شعور نہیں ہوپاتا۔آخر انہیں کس بات نے ابھارا کہ میدان میں آؤ اور مرسی کی کرسی یعنی کی ملک کے موجودہ صدر کے خلاف علم بغاوت بلندکرو ۔
اس کی عقدہ کشائی امام اکبر شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب کے ایک بیان سے شروع ہوتی ہے ۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مصر کی تہذیب اور آثار پر اٹھنے والی ہر نگاہ کو بے نو ر کر دینگے ۔اس سے یہ اندازہ لگا یا گیا کہ اس جمہوری نظام اور حکومت کے ذریعہ وہاں کی تہذیب و ثقافت اور آثار و روایثار کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔وہاں دو فکر کے مسلمان رہتے ہیں ایک سنی صوفی دوسرے اخوان المسلمین اور سلفی مسلم دونوں کے عقائد و نظریات میں فرق ہے ۔ محمد مرسی اخوان المسلیمن میں سے تھے اوراخوانیوں کے ذریعہ ہی صدر منتخب ہوئے تھے ۔یہ الگ بات ہے کہ وہاں ان کی تعداد نہ کے برابر ہے ۵ سے ۱۰ فیصد۔لیکن چونکہ اس وقت ایک تانا شاہ کے خلاف اور ایک جمہوری نظام کے تئیں احتجاج ہو رہا تھا لہٰذا سبھی نے مل کر اس احتجاج میں حصہ لیا ۔چونکہ وہاں اس دوسری فکر یعنی اخوان المسلمین کی دلچسپی سیاست میں بھی تھی۔ پھر مزید بیرونی امداد کے ذریعہ اقتدار تک پہوچنے میں کوئی خاص دقت نہیں آئی ۔
ملک مصر کی ایک اور خاص بات ہے کہ اسلامی روایت میں اس ملک کی سب سے پرانی تہذیب ہے جو محفوظ ہے ۔جامعۃ الازہر جو اس ملک ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا سرمایا ہے ۔آج بھی عالم اسلام اپنے دینی معاملات میں اس رجوع کرتا ہے ۔ یہ جامعۃ الازہر جو پوری دنیائے سنیت و تصوف کا مرکز ہے ، اس نے اپنے قانون میں لکھ دیان ہے کہ اس جامعہ میں کسی بھی طرح کی انتہا پسند فکر کی ترویج و اشاعت بلکہ ذکر تک کی پابندی ہے ۔یعنی نہ تو اخوانی فکرکی تعلیم ہوگی اورنہ ہی کسی کو یہ مجاز ہوگا کہ وہ بر سر عام اس طرح کی فکر کو جامعہ کے احاطہ میں ظاہر کرے۔ یہی حال اس ملک کے دیگر مدارس و مساجد کا تھا ۔کوئی امام یا خطیب کسی بھی طرح کی انتہا پسند اخوانی فکر کی تائید یا بو باس کی تقریر نہیں کر سکتا ۔مکمل طریقہ سے ممنوع تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مشہور اخوانی عالم یوسف قرضاوی کئی دنوں تک مصر میں ممنوع الدخول تھے۔اس طرح کے کئی علماء تھے جن پر پابندیاں عائد تھیں۔
اخوان حامی مرسی کے کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی سب سے پہلاکام مذہبی امور میں تبدیلی کا ہو ا ۔ جامعۃ الازہر کے نظام کو بدلنے کی کوشش کی ۔وہاں جو اخوانی فکر پر پابندی تھی اسے ختم کیا ۔ شیخ الازہر کے خلاف ایک گھیرا ڈالا گیا ۔مفتی جمہوریہ کے خلاف قانون بنایا گیا۔ان مساجد کے امام تبدیل کئے جانے لگے جن میں سنی صوفی روایت کے ائمہ منتخب تھے ۔ یہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر وزارت میں بھی اسی طرز پر تبدیلی کی گئی ۔فوجی عملہ میں بھی اخوانی اور سلفی فکر کے لوگوں کو بڑے عہدہ رپر رکھا گیا۔ ان لوگوں کو برخاست کیا گیا جن میں بغاوت کی اہلیت و قابلیت تھی ۔اتنی جلد ان ساری تبدیلیوں کے ذریعہ واضح ہوگیا کہ کس مقصد کے تحت حکومت وجود میں آئی ہے ۔
یہاں پر ایک بات اور واضح کر دینی ضروری ہے جس سے شایدموجودہ حکومت کی فکراور واضح ہو سکے ۔جب تیس سال سے مسلسل تاناشاہ صدر کے خلاف لوگ احتجاج میں نکلے اور استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تو تھوڑی ہی جد جہد کے بعد یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ میں خون خرابا نہیں چاہتا اگر چہ کچھ جانی و مالی نقصان ہوا۔ لیکن یہی مطالبہ جب محمد مرسی سے کیا گیا تو صدر صاحب کا جواب تھا کہ اگر مجھے استعفی کے لئے مجبور کیا گیا تو اتنا خون بہے گا کہ مصر کی گلیا ں سرخ نظر آئیں گی ۔
اس دور ہلاہل سے مصر کی امن پسند عوام کی بھی ذہنیت سامنے آئی جو کسی بھی ملک کے باشندوں کے لئے ایک سبق ہے ۔ جب یہ سارا سیاسی خونی کھیل چل رہا تھا عوامی بے داری کا عالم یہ تھا کہ ہر شخص اس ملک کے آثار کی حفاظت میں لگا ہوا تھا ۔ چونکہ مصر آثار کے اعتبار سے بھی قابل قدر ملک ہے ۔ اھرامات ، اسکرندریہ کا کتب خانہ ، فرعون کے میوزیم کے علاوہ کئی آثار مو جود ہیں ۔ مصر کی عوام نے اس بات کا احساس نہیں ختم ہونے دیا کی یہ آثار اس ملک کا سرمایا ہیں۔ ایسے نازک حالات میں جبکہ لوگ اقتدارکی فکر میںآثار کو بھول گئے تھے ۔ ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری خود لی اور اسے بخوبی نبھایا ۔ ایک افراتفری کا سا ماحول ہے ۔ اس لئے وہ راتوں کو جاگ کر ان آثار کی حفاظت پر خود کو مامور کرتے رہے ۔جب دوسرا آدمی آجاتا تھا تو وہ پہلا والا ہٹتا تھا ۔ یعنی بالکل منظم طریقہ سے حفاظت کی ذمہ دار ی کو محسوس کیا۔ 
جب عوام اس ذہنیت کی ہو تو اہل عقل دانش کا کیا حال ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک نے اپنے آثار و روایات کی تباہی کو محسوس کیا اور یقین ہوگیا کہ مرسی کے اقتدار میں موجودہ حکومت جہموریت کی بجائے ملک کے اندر انتہا پسند فکر کو فروغ دے رہے ہیں۔ باہر ان کی زندگی کا سودا کر رہے ہیں ۔انہوں نے ملک کی عزت اور آثار کی حفاظت اپنی جان و مال سے زیادہ ضروری سمجھا اور ساری طاقت جھونک دی مرسی اور اخوانی فکر کے خلاف ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی بار احتجاج ہوا تو کسی شخص کے خلاف نہیں ہوا تھا ۔ وہ بس نظام کے خلاف تھا کہ تانا شاہی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ایک جمہوری نظام قائم ہونا چاہئے ۔لیکن دوسری دفعہ احتجاج کی نوعیت کچھ الگ تھی اس بات جمہوری نطام کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی انتخاب کے طریقہ سے کسی کو کوئی ناراضگی تھی ۔ کیونکہ جب محمد مرسی صدر بنے ہیں تو اس وقت کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔ لیکن جب اس حکومت نے ایک انتہا پسند فکر کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس فکر کے خلاف لوگ نکل پڑے ۔ اس فکر کے خلاف ایک محاظ کھول دیا ۔ جو بھی اس فکر کو فروغ دیتا پایا جائے گا یا کسی بھی طرح سے اس کی حمایت میں مرتکب ہو گا، نہ تو وہ ملک کا وفادار ہے اورنہ ہی دین کا ۔ان لوگوں نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ آثار و روایت کی خلاف ورزی دین اور ملک دونوں کے خلاف بغاوت ہے۔اور اس بغاوت کے خاتمہ میں ملک مصر کے ذرہ ذرہ نے شرکت کی ۔بچے بوڑھے جوان مرد عورت سبھی ایک ساتھ سڑک پر تھے ۔یہاں اس بات کا ذکر بھی خصوصیت کا حامل ہے کہ اخوانی صدر محمد مرسی کے خلاف صرف اہل سنت کے لوگ ہی نہیں تھے بلکہ سلفی فکر کے لوگوں نے بھی مرسی کے اقتدار کو نا پسند کیا ۔جبکہ اخوان المسلین بھی سلفی عقیدہ کے تھے ۔
مصر کی اپنی ایک حیثیت ہے ۔ بین الاقوامی سیاست کے لئے مصر دنیا کا سب سے زرخیز ملک ہے ۔ اس ملک کے پاس قدرتی خزانہ نہ ہونے کے باوجود وہ پوری دنیا کی توجہ کا مر کز سوئس نہر اور سینائی کا علاقہ بنا ہوا ہے ۔ اسرائیل کی اپنی دوسری دلچسپی گریٹر ازرائیل کی وجہ سے بھی مصر میں ہے ۔کیونکہ مصر ، اسرائیل اور فلسطین ملا ہوا ہے ۔پورے یورپ کی معاشی ترقی میں اس ملک مصر کا بڑا ہاتھ ہے ۔انہیں چند وجوہات کی بنا پر یہ توجہ کامرکز بنا ہو اہے ۔ جب سیاسی دباؤ سے نہ ہوا تو مذہبی سیاست کے ذریعہ اس ملک کے شیرازہ کو بکھیرنے کی کوشش کی گئی ۔ 
یہ مصر ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا۔ دو سال کے عرصہ میں دوبار حکوتیں بدلیں اور اور دونوں بار تاریخی احتجاج ہوا ۔یہ پہلا ملک ہے جو اپنے اثاثہ کو بچانے میں کامیاب ہوا وہ بھی اتنی جلد ۔یہ پہلا ملک اس لحاظ سے بھی ہے کہ اپنے آثارو روایت ، تہذیب و تمدن کی حفاظت کے تئیں پورا ملک یک زبان شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آیا ۔پورے ملک نے اپنے رشتوں اور قرابتوں کی پرواہ کئے بغیر اس ملک کے آثار اور اس کی تہذیب کے مخالفین کو ملک ہی نہیں بلکہ دین و انسانیت کا دشمن قرار دیا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ملک کی عوام نے ملک و انسانیت کے دشمنوں کو سزا دلانے میں حکومت کی مدد ہی نہیں بلکہ اس سے پیش پیش رہی ہے ۔ اس نے اس ملک کی روایت پر اٹھنے والے ہر قدم کو ناپاک جانا اور اس کے خلاف محاظ آرائی کو دینی ، ملی و انسانی فریضہ سمجھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ ملک ماضی کی طرح اپنی منازل طئے کرتا ہوا نظرآ رہا ہے ۔یہ ملک لوگوں کو پیغام دے رہا ہے کہ ملک ، دین اور انسانیت کی پاسداری بیک وقت دیکھنی ہو تو مجھے دیکھ لو ۔جو قوم ، ملک یا حکومت اپنے آثار و روایت کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہتی ۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے حالات پہلی بار کسی ملک کے سامنے آئے ہوں ۔ ایسا دہائیوں سے ہو رہا ہے اور اب تک جاری ہے ۔ جو حساس ہوا،ا س نے اپنی تاریخ اور ملک دونوں کو بچا لیا ۔
آج پوری دنیائے اسلام میں ایسے حالات بنے ہوئے ہیں ۔ تقریبا یکے بعد دیگرے ہر مسلم ملک اس سیاست میں گھرتا نظر آ رہا ہے ۔ صرف اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ جس ملک میں بھی مسلمان رہتے ہیں ان پر یہ حربہ استعمال کیا جا رہا ۔ انہیں سخت آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے ۔
مصر کے احتجاج کا کافی اثر ہندوستان میں بھی دیکھنے کو ملا ۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے یہ سب بین الاقوامی سیاست کا کھیل ہے جس کی زد میں سعودی اور قطر شہنشاہیت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔نتیجہ میں سارے مسلم ممالک تباہ ہورہے ہیں۔اس کا احساس ان نام نہاد مسلم ممالک کو قطعی طور پر نہیں ہو رہا ہے۔ہمارے امن پسند ملک میں بھی اس شہنشاہیت کی جنگ کے آثار نظر آئے ہیں۔ جو کسی بھی صورت میں ملک ، دین اور انسانیت کے لئے اچھا شگو ن نہیں ۔
اس بین الاقوامی سیاست کا ایک ہی حربہ رہا ہے چونکہ خود تو جاتے نہیں، اسلئے ایک جماعت تیار کرتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر کرتے ہیں۔ سیاست کا لالچ دیکر یا مذہب کی ترویج اشاعت اور خلافت کا جال بچھا کر ۔تاریخ میں اس کے انگنت ثبوت موجود ہیں ۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے القائدہ ، طالبان ، النصرہ ، حماس ، اخوان المسلمین اور داعش جیسی ہزاروں تنظیمیں الگ الگ نام ، مقصد اور چہروں کے ساتھ مختلف ممالک میں سر گرم عمل ہیں۔
ہندوستان میں اس کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ اس طرح کے حربہ کا استعمال یہاں بھی ہو چکا ہے ۔ابھی جب مصر میں احتجاج ہوا مصر کی عوام ، اہل فہم و فراست اور دیگر مقتدر لوگوں کی حمایت میں فوجی جنرل عبد الفتاح ال سیسی نے جب مورچہ سنبھالا اور عوام کو انصاف دلانے کی کوشش کی تو یہا ں ہندوستان میں بالخصوص اردو پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اس موقف کا اظہار کیا گیا ۔ اس میڈیا نے فوجی جنرل ال سیسی کی کو کسی ابلیس کا رقص قراردیا تھا ۔اردواخباروں کی سرخی تھی ’’ سی سی کا رقص ابلیسی ‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوانی فکر کے خلاف کھڑے ہونے کا مطلب ابلیسیت ہے ۔دوسرے لفظوں میں انتہا پسند کو فروغ دینا فرشتگی ۔یہی نہیں تھا بلکہ اسی ہمارے ملک میں مصر کے اخوانی صدر مرسی کی حمایت میں احتجاجی جلوس بھی نکلاگیا تھا ۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اس وقت ہمارے ملک کا رخ کیا ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ۔خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ بڑ انازک وقت ہے ۔ جنگ آزادی کے مانندانتہا پسندی کے خلاف اس جنگ میں بھی پیش پیش رہ کر یہ بتانا ہوگا کہ اس ملک کامسلمان ہمیشہ سے ملک کے تئیں وفادار رہا ہے ۔ ایسے چہروں کو بے نقاب کرے گا جو مذہب کے لباس میں اس گھناؤنی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اور ارباب فکر و دانش جو ملک کے وفادرا ہیں ان کا بھی امتحان ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی شناخت کرنے میں کسی طرح کی غلطی کا شکار نہ ہوں ۔اہل سیاست اس نازک مسئلہ کو بڑی باریک بینی سے دیکھیں اور ہر پالیسی میں اس اہم معاملہ کا معائنہ ضرور کر لیں ۔یہ ہم سب کی ملی جلی ذمہ داری جسے ہر حال میں نبھا نا ہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com



No comments:

Post a Comment