Thursday, November 26, 2015

Who is next after Usama bin Ladin and Abu Bakr Bagdadi अबू बकर बगदादी और उसामा बिन लादिन के बाद अगला कौन? سامہ بن لادن ،ابو بکر بغدادی : اگلا کون؟


Who is next after Usama bin Ladin and Abu Bakr Bagdadi 
अबू बकर बगदादी और उसामा बिन लादिन के बाद अगला कौन?
اسامہ بن لادن ،ابو بکر بغدادی : اگلا کون؟
عبد المعید ازہری

پیرس پر ہوا حملہ یقیناًانسانیت کا قتل ہے ۔ہر انسان نے مذہب و ملت سے بالا تر ہوکر اس کی مذمت کی ۔ آج تک اس کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے ۔ مذمت اور احتجاج کے جو بھی راستے ہو سکتے تھے استعمال کئے گئے ۔ فرانس کی عوام سے اپنی بھر پور ہمدردی کااظہار کیا ۔پیرس میں ہلاک ہونے والے انسانوں اور فرانس کی عوام سے ان لوگوں سے کیا رشتہ ہے جو احتجاج درج کر کے اپنی ہمدردی کا اظہار کر رہے ہیں۔ایک انسانیت کے رشتہ کے سوا اورکیا رشتہ ہو سکتا ہے ۔اس حملہ کے بعد احتجاج میں آئی شدت سے بعض لوگوں کو غلط فہمی بھی پید ہو گئی اور کہنے لگے کہ آخر فرانس کے انسانوں کا قتل ہی کیوں لوگوں کو نظر آیا۔ پچھلی ایک دہائی سے عرب اور افریقہ کے ممالک اس قتل و غارت گری کا نشانہ بن رہے ہیں۔ فلسطین تو اس خونی کھیل کا ایساعادی بن گیا مانو قتل ہونا ،تباہ ہونا اس کی تقیدیر بن گیا ہو۔ان ممالک میں ہوئے حملوں کے خلاف کسی نے اس شدت کے ساتھ احتجا ج نہ کیا ۔یہ بات تو سچ ہے کہ اس وقت بھی ایسے احتجاج درج ہونا چاہئے لیکن اگر آج لوگ کوشش کر رہے ہیں تو بھی اچھا اقدام ہے۔ کچھ لوگ تو یہ کہنے پر مجبور ہو گئے کہ یہ مغرب کی جانب سے ہوئی مسلمانوں کے ساتھ مسلسل زیادتیوں کا بدلہ یا نتیجہ ہے ۔ اب کون سمجھائے اور کسے سمجھائے کہ یہ بدلہ مزید تباہی اور ظلم کو دعوت دینے والا ہے ۔جب سے پیر میں حملہ ہوا ہے اس کے بعد سے مسلسل وہاں اور اس کے قرب و جوار میں مسلمانوں کے ساتھ ہونے والی زیادتیوں کی خبریں آنی شروع ہوگئیں۔ سیریا سے بے گھر پناہ گزینوں پر مزیدمصائب آن پڑے ہیں۔انہیں ایک بار پھر سے بے گھر ہونے کی ذلت کا سامنا کرنا پڑ رہاہے ۔مسلمانوں نے اس حملے کی مذمت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی ۔ اتنی شدت کے ساتھ تو خود اسلامی ممالک میں ہونے والے فسادات اور قتل و غارت گری کے خلاف بھی زبان نہیں کھولی تھی۔یہی وجہ ہے کہ ان احتجاج کرنے والوں کے ایسے طعنے بھی سننے پڑ رہے ہیں کہ جب کسی مسلمان کو سر عام قتل کیا جارہا تھا تب کسی کی زبان نہ کھلی۔ایک طرف تو مسلمان اپنی اسلامی اور انسانی ذمہ داری کا مظاہر کر رہا ہے دوسری طرف ایسے بیان جاری کر کے ان کی عقیدتوں کو قتل کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کو جتنا احتجاج کرنا چاہئے تھا اتنا احتجاج نہیں کیا ۔ایک سوال اور بھی عوام کی طرف سے چند مخصوص احتجاج کرنے والوں سے کیا گیاہے کہ جب ٹیونیشیا سے لیکر مصر اور لیبیا ہوتے ہوئے عراق اور سیریا یکے بعد دیگرے تباہ ہورہا تھا تو یہ موقعہ پرست تنظیمیں کہا ں تھیں؟ آج جب خود امریکہ اور سعودیہ ملزم اور مجرم نظر آ رہا ہے تو یہ تنظیمیں سامنے آکر پورے ملک میں احتجاج کی بات کر رہی ہیں۔
فرانس کی راجدھانی میں ہوئے متواتر بم دھماکے ایک ساتھ کئی مسائل کا منہ کھولتے ہیں۔ اس تصویر کے کئی رخ ہیں ۔دولت اسلامیہ کی بنیاد پڑے کئی برس گزر گئے ۔ لیکن اس شدت کے ساتھ اس کی مخالفت نہیں کی گئی جتنی مخالفت فرانس میں ہوئے حملہ کے بعد کی گئی ۔ خود ان ممالک نے اس تنظیم کو غلط ٹھہرایا جن کے بارے یہ کہا جاتا ہے کہ وہ خود اس دہشت گرد تنظیم کو مدد فراہم کرتے ہیں۔افریقہ ،عرب ، ایشیا سے لیکر ہندوستان تک اس کی سخت مخالفت کی گئی اور اس کو دہشت گرد تنظیم قرار دیا گیا ۔یہ اور بات ہے کہ ابھی بھی چند لوگوں کوشک اور تردد ہے ۔ وہ فرانس میں ہوئے حملے کو تو دہشت گردانہ حملہ تصور کرتے ہیں لیکن اس تنظیم کو دہشت گرد ماننے میں ابھی بھی انہیں پس و پیش ہے۔ایک بڑا سوال ابھر کر سامنے آتا ہے کہ کیا فرانس سے پہلے اس کے حملے جائز تھے ۔یا پھر فرانس پر حملہ کر کے اس گروہ نے کسی خاص اصول ،ضابطہ یا معاہدہ کی خلاف ورزی کر دی ہے۔کہ جن پہ تکہ تھا وہی پتے ہوا دینے لگے۔ایک بار اسامہ بن لادن کو پیدا کیا ، پالا، پرورش کی، استعمال اور مار دیا۔ اسی طرح ابو بکر بغدادی کو بھی پیدا کیا ،استعمال کیا اور اب مارنے کی تیا ری چل رہی ہے۔
سیریا کے بے گھر مسلمانوں کے ساتھ ویسے بھی اچھا رویا اختیا نہیں کیا جارہا تھا۔اب ان پر ظلم بالائے ستم ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا۔فرانس کے علاوہ دوسری یوروپین ممالک میں مسلمانوں کے ساتھ ہورہی بد سلوکیوں میں اضافہ ہوگا ۔ پھر اس کا ری ایکشن ہوگا ۔ فائدہ کس کا ہوگا ؟اگر یہ مان لیا جائے کہ فرانس میں ہوا حملہ کسی عمل کا رد عمل تھا تو اس رد عمل کے بعد ہو رہے سلوک کا ذمہ دارکون ہوگا؟کیونکہ وہ عمل بھی تو کسی عمل کا رد عمل ہے ۔یہ وہ حالات ہیں جن میں عام انسان اپنا آپا کھو کر مشتعل ہو جاتا ہے ۔پھر اسے بدلے اور رد عمل کے علاوہ کچھ نظر نہیں آتا ۔ایسے میں اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں کے لئے آسان ہوجاتاہے کہ وہ اس طرح کے نوجوانوں اور مشتعل لوگوں کا بھر پور استعمال کریں۔یہ ایک سچائی ہے کہ داعش پچھلے دو برسوں سے مسلسل جنگ لڑ رہا ہے ۔دوسروں کے ساتھ اس گروہ کے بھی تو افراد ہلا ک ہوئے ہونگے ۔ایسے میں اسے بھی مزید افراد کی ضرورت ہے۔ایسا کیا طریقہ کار ہے جس سے اس گروہ کو فوجی افراد فراہم ہو سکیں۔اس طرح کے دہشت گردانہ حملے کافی مددگار ثابت ہوتے ہیں۔
جس ملک میں بھی دہشت گردانہ حملہ ہوتے ہیں کیا اس ملک میں پہلے سے ایسے حکومت مخالف لیڈر ہوتے ہیں جو تختہ پلٹ کیلئے اس طرح کے حملوں میں ساتھ دے سکیں؟ یا پھر کیا خود گرتی ہوئی حکومت اس طرح کے واقعات کے بعد ہمدردی حاصل کرکے پھر سے اقتدار حاصل کر سکتی ہے ؟اسلام مخالف تنظیموں کے ساتھ اس دولت اسلامیہ کا کیا تعلق اور کس طرح کا تعلق ہوسکتا ہے جبکہ وہ خود اپنے آ پ کو مسلم کہتے ہیں؟اس گروہ کا عمل تو اسلام کا پتہ نہیں دیتا ہے ۔جس طرح اس گروہ کے ہاتھوں غیر مسلموں کا قتل ہوتاہے اسی طرح مسلمانوں کا بھی قتل عام اس دہشت گرد گروہ کے ہاتھوں ہوتا ہے ۔اسلام مخالف گروہ اور دہشت گرد تنظیموں کے درمیان رشتہ یہ ہے کہ اس دہشت گرد گروہ کی اپنی ایک فکر ہے ۔ جو اس فکر کو مانتاہے وہی ان کے اعتبار سے مسلم ہیں اور انہیں ہی جینے کا حق ہے۔ ایسے میں تو اسلام مخالف تنظیموں کیلئے آسان ہوجاتاہے کہ وہ اس دہشت گرد گروہ کا استعمال عام مسلمانوں کے خلاف کرسکیں۔ اس دہشت گرد گروہ کیلئے بھی امکانات پید ہو جاتے ہیں کہ اپنے مفادیعنی افراد اور وسائل کے حصول کی خاطر ان کا ساتھ دیں۔
جہاں ایک طرف یہ کہا جاتاہے کہ اس طرح کی دہشت گرد تنظیموں کا کوئی وجود نہیں ہوتاہے۔ یہ سب امریکہ اور اسرائیل کی سازش ہے ۔ دولت اسلامیہ کے نام پر جو لوگ بھی اس کام کو انجام دے رہے ہیں وہ مسلمان نہیں ہیں۔ایک حقیقت تو واضح ہے کہ اس دولت اسلامیہ کی بنیاد اسلامی خلافت کے نام پر ہی پڑی تھی۔سیریا اور عراق میں لوگوں نے اس کا ساتھ بھی اسی بنیاد پردیا تھا۔پورے عرب اور افریقہ کی انتہا پسند فکریں اس کی حمایت کرتی نظر آئیں۔سوال یہ ہے کہ اگر دولت اسلامیہ کے نام پر وجود میں آئی تنظیم مسلمان نہیں ہے تو اس پر تمام مسلم ممالک نے شروع ہی میں پابندی کیوں نہ لگا دی جبکہ وہ خود مسلم ملک میں پید ا شدہ تنظیم ہے ؟ وہیں پلی بڑھی جوان ہوئی اور اب وہیں اپنے پر و بازو پھیلا رہی ہے۔اتنے روز سے تنظیم صرف مسلم ممالک اور مسلمانوں کا قتل عام کر رہی تھی اور کسی بھی مسلم ملک کو اس بات کا خیال نہ آیا کہ اس کی روک تھام کا انتظام کرتا ۔ سیریا کے لاکھوں مسلمانوں کو بے گھر کر دیا گیا ۔پور اعرب خاموش تماشائی بنا دیکھتا رہا۔پورا ملک اقتدار کی ہوس اور مفاد پرستی کی آگ میں جھلس گیا یہ مسلم ممالک اپنے محلوں میں آرام کرتے رہے ۔عراق انسانوں کے خون سے لال ہوگیا۔ پھربھی ان ممالک کو ہوش نہ آیاکہ یہودی مسلمانوں کا قتل عام کررہے ہیں ۔ انہیں روکا جائے۔ٹیونیشیا سے اٹھی چنگاری لیبیا کے راستے مصر ہوتے ہوئے سیریا اور عراق کو جلاتی رہی تھی اوریہ انتظار کر رہے تھے کہ کب یہ فرانس پر حملہ کریں اورہم اعلانیہ کہیں کہ یہ مسلمان نہیں۔
اس دولت اسلامیہ کی کرتوت پر صرف خاموش حمایت کا پردہ ہی نہیں ڈالا گیا بلکہ اس کی کھل کر حمایت بھی کی گئی ہے۔ ہمیں نہیں بھولنا چاہئے کہ ہمارے ملک ہندوستان سے بھی ایک خط لکھ انہیں کچھ خاص وعظ و نصیحت کی گئی تھی ۔خط کی شروعات’’ امیر المؤمنین ‘‘کے لفظ سے کر کے اس کی خلافت کا اعلان بھی کیا گیا۔ہندوستان سے ہی کچھ طلبہ کے داعش میں شامل ہونے کی بھی خبر آئی تھی اور یہی نہیں ان کی جانب سے ایک ویڈیوں بھی جاری ہوا تھا جس میں انہوں نے ہندوستانی مسلمانوں سے اس گروہ میں شامل ہونے کی گذارش کی تھی۔ اسی ملک میں داعش کے جھنڈے بھی نظر آئے ۔جب یہ سب کچھ ہو رہا تھا تو کیا ہمیں ان میں کفر و نفاق نظر نہیں آرہا تھا ۔اس وقت جس نے بھی داعش کی مخالفت کی اسے ان چند نام نہاد مسلم رہنماؤ نے اسلام مخالف قرار دیا تھا۔دار الافتاء کے دروازے اس گروہ کی خدمت کر رہے تھے شاہی فرمان کی طرح فتوے جاری کئے جارہے تھے۔مصر پہلا وہ ملک رہا جس نے اس طرح کی دہشت گردی پر سب سے پہلے قابو حاصل کیا اس طرح کے فتوی فروشوں کو گمراہ قرار دیا ۔
عراق کے وزیر اعظم نے اس گروہ کے بارے میں بڑی وضاحت کے ساتھ بیان جاری کیا ہے کہ یہ گروہ وہابیت کی فوجی شاخ ہے۔داعش کے ذریعہ پیرس میں ہوئے حملے پر خصوصی گفتگو کے لئے ایک ٹی وی چینل پر مدعو معروف دانشور قمر آغا نے بیا ن دیا کہ وہایبت جڑ سعودی سے ہندوستان کے دار العلوم دیوبند تک پہنچتی ہے۔اس طرح کے کئی ایسے بیان ہیں جو اس بات کا واضح اشارہ ہیں کہ داعش میں موجود لوگ نماز و روزہ اور جہاد کے نام پر ہی لوگوں کا استعمال کر رہے ہیں۔جس دن داعش سرغنہ ابو بکر البغدادی نے اپنی خود ساختہ خلافت کی اعلان کیا تھا اسی کے بعد اسے ایک مسجد میں خطبہ دیتے ہوئے دکھایا گیا۔داعش اور وہابیت کے درمیان تعلق پر کئی قلم کاروں نے متعدد تحقیقی مقالے لکھے ہیں۔ہندوستان کا اکثریتی طبقہ شروع سے ہی اس فکر کی مخالفت کرتا رہا ہے ۔علماء مشائخ اور دانشوروں نے کھل کر اس کے خلاف بیا دیاہے۔
اگر مان بھی لیا جائے کہ القاعدہ ، طالبان اور اخوان المسلمین جیسی تمام تنظیمیں مسلمانوں کی تنظیمیں نہیں ہیں۔ ان کے پیچھے یہودیوں اور صہیونیوں کا ہاتھ ہے ۔ تو کیا اس بات سے بھی انکار کیا جا سکتا ہے کہ اس سازش کا شکار اور آلہ کار مسلمان نہیں تھا۔ پچھلی ایک دہائی میں پورے اسلامی ممالک میں خونی کھیل میں کس کے ہاتھ رنگے ہوئے ہیں۔دس برس سے زیادہ کا عرصہ گزر جانے کے بعد بھی ہوش نہیں آیا کہ اس خونریزی سے قوم مسلم کو بچایا جائے۔آج جب اسلام مخالف جماعتوں کا مقصد پورا ہو گیا تو انہیں اچانک سے اس دہشت گرد تنظیم کے سد باب کی فکر ستانے لگی ۔اب تو یہ بات کھل کر سامنے آگئی کہ دولت اسلامیہ جیسی دہشت گرد تنظیم کو خود امریکہ اور اسرائیل نے بنایا ہے۔جس طرح سے القاعدہ جب روس پر حملہ آور تھا تو وہ مجاہد تھے اور جب ان کا رخ بدل گیا تو وہی دہشت گرد ہو گئے۔یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ جنگ و جدال کیلئے افراد اجرت پر لئے جاتے رہے ہیں۔یہی معاملہ ان دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ بھی ہے کہ ان سے اجرت پر کام لیا جاتا ہے ۔قابل غور بات یہ ہے کہ آخر جنگ میں کام آنے والا ہر لڑاکا تواجرت پر نہیں ہوتا تو ان کس طرح سے ورغلایا جاتا ہے ۔یہی فکر دہشت کی جڑ بھی ہے اور اس کا حل بھی ہے ۔ تمام طرح کے دہشت گرد گروہ اسلام مخالف تنظیموں اور ممالک کے بنائے ہوئے ہیں لیکن کیا اس میں خود مسلمان شامل نہیں ہوتا۔انہیں پناہ دیتا ہے۔ ان سے فائدہ حاصل کرتا ہے ۔سیاسی اقتدار میں ان کی مدد حاصل کرتا ہے ۔
یہ سچ ہے کہ داعش کا اسلام سے کوئی لینا دینا نہیں۔داعش ایک خاص فکر کی پیدا وار ہے یا پھر اسے ایک خاص فکر پر پید کیا گیا ہے ۔ اس خاص فکر ہی کی وجہ سے ان کی تلواروں اور دھماکوں کی زد میں وہ مسلمان بھی آتے ہیں جو اس فکر کو نہیں مانتے ہیں۔ اس گروہ نے کھلے عام مسجدوں ، درگاہوں اور امام بارگاہوں پر بلڈوزر چلائے اور انہیں بم سے اڑایا ۔ مسلمان اس عمل کے خلاف ہے ۔اسلام نے تو اسلامی آثار و باقیات کی حفاظت کا حکم دیا ہے ۔ خالق کائنا کی جانب سے قرار شدہ نشانیوں کو محفوظ رکھنا ۔ ان سے عقیدت رکھنا مسلمانوں کی ذمہ داری ۔ مسلمان اس ذمہ داری کو پچھلی ایک صدی سے ادا کرتا آ رہا ہے ۔تیرہویں صدی میں ایک فکر آئی جس نے ان تما م چیزوں کو شرک اور بت پرستی کا اڈہا کہہ کر ان کے مسمار کرنے کا عمل شروع کر کے اسلامی آثار کے انہدام کی بنیاد ڈالی ۔انہیں آج بھی اسلامی آثار و تاریخ سے کوئی لگاؤ نہیں۔ پورے عرب ممالک میں موجود آثار کو بیچ کر یہ ثابت کر دیا کہ ہم اسلام کی قدیم تاریخ میں یقین نہیں رکھتے ہیں آنے والی صدیاں اسلام کو ہمارے تاریخ سے جانیں گی۔اسلام کی چودہ سوسالہ تاریخ اور اس امن و محبت کی روایت مسمار کر کے رکھ دیا ۔داعش ، القاعدہ ، طالبان اور اخوان المسلمین ہم ایک گروہ کے نام سے جانتے ہیں جبکہ حقیقت یہ ہے یہ کوئی گروہ نہیں بلکہ ایک فکر ہے جو اس طرح کو گروہ پید ا کر رہی ہے ۔ایک گروہ ختم ہوگا تو اس کی جگہ دوسرا آجائے گا۔ اسامہ بن لادن کی جگہ ابو بکر بغدادی اس کے بعد کوئی اور آئے گا۔
اگر ہم واقعی اس طرح کے انسان مخالف دہشت گردانہ حملوں کے مخالف ہیں تو گروہ کی بجائے یا گروہ کے ساتھ ساتھ ایسی فکر کے خلاف آواز اٹھائیں ۔ان تما آوازوں کو ایک ساتھ کریں جو جہاں سے بھی جس انداز سے بھی اس طرح کی آواز بلند کر رہا ہے ۔سوچئے ابھی وقت ہے ۔ شاید کہ کوئی بات تیرے دل میں اتر جائے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com , Mob: 09582859385



Like me on:
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Blogg: http://abdulmoidazhari.blogspot.in/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Google+: https://www.instagram.com/moid_abdul/

Monday, November 23, 2015

Stop leading a duel standered life. either be like wax or stone "दो कश्ती पर सवार इंसानी समाज" دو کشتی پر سوار انسانی معاشرہ

My New Article:
"Do Kashti Par Sawaar Insani Muashra"
"दो कश्ती पर सवार इंसानी समाज"
दो रंगी छोड़ कर एक रंग हो जा, सरासर मोम या फिर संग हो जा !
Stop leading a duel standered life. either be like wax or stone
دو کشتی پر سوار انسانی معاشرہ
عبد المعید ازہر

دور حاضر کی دو رخی زندگی انسان کو انسانی رشتوں سے ایسے دور کرنے پر آ مادہ نظر آتی ہے مانو نسل انسانی کی تجدید کاری ہو رہی ہو ۔ آج کا فلسفہ یہ فکر پیدا کر رہا ہے کہ انسان پر لازم ہو گیا ہے کہ وہ اپنے مسلمات کو توڑ کر آ گے بڑھے ۔ یہ دو رخی رویہ انسان کی زندگی کو بڑی تیزی سے متاثر کر رہا ہے ۔ موجودہ وقت میں ایک معاشرہ تشکیل پا چکا ہے جو اس دورخی نظریئے پر زندگی بسر کر رہا ہے ۔ انسانی زندگی کے چھوٹے شعبوں سے لے کر بڑ ے اوراہم شعبوں میں اثر انداز ہوتا جا رہا ہے ۔ پہلے لوگ دو نام رکھتے تھے ۔ اصل نام کے علاوہ ایک عرفی نام کی روایت پیدا ہو ئی اور یہ خوب چلی ، تاریخی اعتبار سے دیکھا جا ئے تو یہ روایت ملتی ہے ۔ ایک شخص کے دو سے زائد نام ہو تے تھے لیکن در اصل وہ نام نہیں بلکہ القاب اور کنیت ہو تے تھے ۔ یعنی کسی شخص کے فرزند کا نام نواز ہوا تو اس شخص کی کنیت ابو نواز ہو گئی ۔ اسی طریقے سے اس شخص کی خدمات کو دیکھتے ہو ئے لوگوں نے القاب و آداب کا استعمال شروع کر دیا ۔ تو نام کے ساتھ اشرف اور اعلیٰ جیسے الفاظ انکی خدمات کو ظاہر کرنے کے لئے استعمال کئے جا نے لگے ۔ یا پھر کسی خاندان کا ایک موروثی نام ہو تا ہے جو کہ اس خاندان کے ہر فرد کے آ گے لگتا ہے جس سے ان خاندان کی شناخت بر قرار رہے ۔ اس طرح ایک نام کے ساتھ موقعہ، محل اور ضرورت کے مطابق کئی الفاظ کا لا حقہ شامل ہو گیا جو بظاہر کئی ناموں کی شکل میں نظر آ تا ہے ۔ بسا اوقات ان لاحقوں کا بڑی بے دردی سے استعمال ہوتا ہے ۔ ایسا مبالغہ ہوتا ہے کہ پوسٹر میں دو سے زائد لائنیں صرف آداب والقاب کی ہو تی ہیں ۔ قاری تشویس میں پڑ جا تا ہے کہ اس میں نام کہاں ہے یا پھر یہ کہ یہ کسی کا نام ہے یا کسی خطاب کی تمہید ہے ۔ اس بری روایت کا عادی شخص یا افراد ہر میدان میں ملیں گے۔ انتخابی امید وار کے پوسٹر پر نظر ڈالو تو اس بات کا بخوبی اندازہ ہوتا ہے ۔ بسا اوقات الفاظ اپنے آ پ کو کو س رہے ہو تے ہیں کہ اس بے استعمال سے تو اچھا تھا کہ ہمیں بھلا دیا گیا ہو تا ۔ پانچ برس میں ایک بار انتخاب کے وقت نظر آنے والا شخص جسے خود اس کے خاندان کے لوگ نہیں جا نتے ،اس کے بارے میں لکھا ہوتا ہے ’’ہر دل عزیز ، معروف سما جی کا رکن ‘‘ اسی طرح زندگی کا ہر چھوٹا بڑا عمل خواہ اہمیت کا حامل ہو نہ ہو ، موقعہ و محل کی مناسبت کا خیال رکھا گیا ہو یا نہ ہو، ایک بار سعودیہ کا سفر کر لیا تو فاتح عرب سے کم لقب میں کام نہیں چلے گا اگر چہ وہ خادم الحجاج کے نام پر نو کری ڈھونڈھنے گئے تھے ،واپس کر دئے گئے ۔ بہر حال ناموں کے ساتھ کنیت اور القاب کے جو لاحقے ہیں ان کی تاریخی حیثیت ہے لیکن پیدا ہونے کے ساتھ ہی دو نام رکھنے کی روایت شاذونادر ہے ۔ کہیں کہیں تو حالات ایسے ہیں کہ عرفی نام کے چکر میں اصل نام ختم ہی ہو جا تا ہے اور کبھی اصل ناموں کو اتنا چھپایا جاتا ہے کہ خاندان اور پڑوس کو بھی خبر نہیں ہو پا تی ۔ آ ج اس عرفی نام پر بڑے مظالم ڈھا ئے جا ر ہے ہیں ۔ اس پر اتنی قینچیاں چل رہی ہیں کہ لگتا ہے کہ چھوٹا کر تے کرتے اگر بس چلے تو منہ کھولے بھر سے نام لے لیا جا ئے ۔ناموں کو چھوٹا کرنے کا شارٹ کٹ رواج کبھی کبھی مضحکہ خیز کے ساتھ تو ہین آمیز کی حد تک چلا جا تا ہے ۔ ان عرفی ناموں میں آ ج تو ایسی کوشش ہو رہی ہے کہ ایسے الفاظ ہوں جس سے اس کا مذہب ، ذات یا خاندان کا پتہ نہ چلتا ہو۔آج ہم کس سماج میں جی رہے ہیں جہاں ہم سے ہماری مذہبی اور قومی آزادی چھینی جا رہی ہو۔ ایسا خوف کا ماحول بن گیا ہے کہ لوگ اپنے مذہب اور اپنی برادری کوچھپانے پر مجبور ہو گئے ہیں۔ہمار ا معاشرہ ایسا تو نہیں تھا اور نہ ہی ہمارے بڑے نے اس معاشرے کی بنیاد ڈالی تھی۔ آج کے معاشرے میں ایسے کئی نام لانچ ہیں جو ہر مذہب اور برادری میں یکساں چلتے ہیں ۔ اس کے پیچھے لوگوں کو گمراہ کرنا مقصد ہے یا مذہب وذات کی تفریق ختم کرنا ہے یہ تو نام رکھنے والے ہی جانتے ہیں ۔ عرفی ناموں میں سیکو لر الفاظ کی روایت جب پڑھ لکھ کر کام کرنے والی ہو گئی تو اس کا رواج دو کانوں اور کمپنیوں میں بھی ہونے لگا ۔ فلمی دنیا کا معاشرہ تو اس کا عادی ہو چکا ہے۔ اکثر کو اصل نام سے نہیں جانا جا تا ہے۔ ایک مسلمان ہندو نام سے شہرت و مقبولیت آسمان کو چھو رہا ہے اور ایک ہندو مسلمان کے نام سے مشہور و مقبول ہے ۔ اس دو رخی روایت کو قبول کرنے کے پیچھے موثر وجوہات کی تلاش اشد ضروری ہے ۔ آخر یہ فکر ہمارے معاشرے پر کیسے غالب ہوتی جا رہی ہے کہ انسان کی اہمیت انسان کی ذات اس کے اپنے وجود و کردار سے نہیں بلکہ اس نام سے ہے ۔خود انسان کے ہاتھوں انسانیت کا گرتا ہوا یہ وقار ومعیارنسل انسانی کی توہین ہے ۔ یہ روایت انسان کی ذات اور اس کے وجود پر حملہ ہے ۔ نسل انسانی کی ابتدا سے لے کر اب تک یہ فکر ہر دور اور معاشرے میں مضبوطی سے قائم رہی کہ انسان بحیثیت انسان برا بر ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ اس فکر کو ہر دور میں انسانی راہ سے بھٹکے ہو ئے انسان نے چیلنج کیا ۔ اور اب تک کر رہے ہیں لیکن یہ قدیم تصور اب تک باقی ہے۔ ہم یہ کیسے بھول سکتے ہیں کہ کسی بھی ذات ، خاندان یا مذہب کی شناخت سے پہلے انسان ہوناضروری و لازمی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ انسا نیت کو ہر مذہب نے فوقیت دی ہے ۔ اور واضح کیا کہ جو انسان انسانیت کا حامل نہیں وہ مذہب کا وفادار نہیں ہے ۔ مذہب کے نام پر ہو رہے تمام فسادات کا تجزیہ کرنے والوں پر یہ بات روز روشن کی طرح واضح رہنی چا ہئے ۔ تاریخ انسانی میں ایسے کئی دور آ ئے جب اس قدیم فکر سے سیدھا تصادم ہوا ۔ انسان نے خدا بننے کی کوشش کی ۔ تاریخ شاہد ہے وہ غرق آب ہوا۔ وہ فکر مٹی میں مل گئی ۔ نسل نیست و نابود ہو گئی ۔ یہ فکر ایک سچائی ہے ۔ اور حقیقت کبھی مٹتی نہیں ہے ۔ ہاں کبھی کبھی حقائق پر پردے پڑ جاتے ہیں لیکن یہ حجابات اٹھتے ہیں۔ کفر ٹوٹتا ہے پتھر بولتے ہیں ۔ 
اس دو رخی رویہ کا تعلق صرف ناموں تک محدود نہیں بلکہ یہ تو انسانی خونی رشتوں میں داخل ہو گیا اور آج کے دور میں ایک اصطلاح بھی قائم ہو گئی ۔ دوسرے مذہب میں شادی سیکو لر ہو نے کا ثبوت اور سرٹیفکٹ ہے ۔ یہ ایک ایسی سیاسی اور معاشرتی محرومی ہے جو انسانی اقدار کی جڑوں میں مٹھا ڈالنے کا کام کر رہا ہے ۔ سوال یہ ہے کہ کیا انسانی رشتہ کافی نہیں جس کے لئے سیکو لر ہونے کا ثبوت مہیا کرنا پڑے ۔ اس ثبوت کی ضرورت کیوں ہے اور کسے ہے ۔کیا کسی انسان معاشرے میں جینے کے لئے سیکولر ہونا ضروری ہے ؟کیا سیکولر ہونے کے لئے غیر مذہب میں شادی لازمی ہے ؟ یا پھر یہ روایت اس فکر انسانی سے ایک شو قیہ تصادم ہیجو اپنے پختہ اصولوں کی وجہ سے زندہ ہے ۔ جب ایک مذہب خود دوسرے مذہب کو روپوش نہیں کرتا اور نہ ہی ہماری قانون ہم سے ہماری مذہبی آزادی چھینتا ہے تو آخر ہمارے معاشرے میں یہ مذہبی پابندی جیسے ماحول کیوں بنتے جارہے ہیں؟ کون بناتے ہیں اور کون اس ماحول کو توڑے گا ۔کیا ہم کسی خدا پیغمبر کا انتظار کر رہے ہیں یا پھر پیغمبرانہ تعلیم کے ذریعے ہمیں خود ہی معاشرے کو اس بیماری سے نجات دلا نا ہو گا ورنہ پوری نسل انسانی بیمار پڑ جائے گی ۔
شادی صرف دو انسانوں کے مل جانے کا نام نہیں ہے ۔ نسل انسانی کی دو جنسوں کے ساتھ دو الگ الگ تہذیب،ماحول ،رہن سہن، عادات اور طبیعت ملتے ہیں ۔ انسان ہو نے کے علاوہ سب کچھ جدا ہوتا ہے ۔ اور یہ تو جگ ظاہر ہے کہ دو الگ الگ تہذیبیں ایک نئی تہذیب کو جنم دیتی ہے ۔ ان تمامر تفریقات کے باوجودجو فکر ایک دوسرے سے قریب کرتی ہے
اسے مذہب کہتے ہیں۔ ویسے لا دینیت بھی ایک مذہب ہے۔اب اگر دو مخالف جنسوں کو ایک کرنے والی فکر ہی میں مغایرت ہو تو نئی تہذیب میں نیا فرقہ اور نیا فتنہ جنم لیتا ہے ۔ 
جب انسان کے مرکزی مذہب سے اعتماد اٹھتا ہے تو اس طرح کی بے چینیاں معاشرے میں پیدا ہو نے لگتی ہیں ۔ ساری انسانیت کے پیشوا ، پیغمبر اعظم نے بھی اس بات کی وضاحت کی کہ شادی میں ’’کفو‘‘یعنی برابری کا خیال رکھنا ضروری ہے ۔ رنگ میں ، نسل میں ، قدو قامت میں ، عمر و عادت میں ، حیثیت اور مرتبہ میں اور خصوصیت کے ساتھ مذہب میں برابری لازمی ہے تاکہ دو جنسوں کا فطری تصادم نہ ہو نے پا ئے ۔ مذہبی برابری کی پابندی اسلئے بھی ہے کیونکہ رنگ ونسل ، امیر و غریب ، عرب وعجم اور تمام تفریق کو ختم کرکے محمود و عیاز کو ایک صف میں کھڑا کرنے کا کام مذہب ہی کرتا ہے ۔ 
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Mob: 09582859385

Wednesday, November 11, 2015

The revolutionary protest in Egypt "मिस्र का इंकलाबी धरना " مصر کا احتجاجی انقلاب ایک سبق

The revolutionary protest in Egypt 
मिस्र का इंकलाबी धरना
مصر کا احتجاجی انقلاب ایک سبق
عبد المعید ازہری 

مصر وہ ملک ہے جو اس دہائی کی بدلتی سیاسی الٹ پھیر کا شکار ہوا۔تیس سا ل کی طویل مدت کے بعد اس ملک کو جمہوری ملک ہونے کا اعزاز حاصل ہوا ۔ مشرق وسطیٰ ممالک میں بنام جمہوریت انقلاب کی ایک ہوا چلی۔ یوں تو سب کچھ خوش گوار تھا کیونکہ یہ ہوا بدلاؤ کی تھی۔ یہ تانا شاہی سے جمہوری نظام کی جانب ایک اقدام تھا۔دیگر جمہوری ممالک کی مانند اس ملک میں بھی جمہوری نظام قائم ہونا چاہئے تھا۔ اس کے لئے کو ششیں کی گئیں۔ احتجاج کا جو ایک جمہوری طریقہ ہے اس پر عمل کیا گیا ۔ آخر کار چند جھڑپوں اور خون کے کچھ چھینٹوں کے بعد جمہوری نظام کی دیرینہ تمنائیں بر آئیں۔ تیس سال کی تانا شاہی حکومت کا خاتمہ ہوا ۔ جمہوری طریقہ سے انتخاب کے ذریعہ ملک کا نیا صدر منتخب ہوا۔لیکن حالات نے پھر کروٹ بدلے اور ایک بار پھر میدان تحریر انسانی سمندر کے سیلاب سے موجیں مارنے لگا ۔پہلی جیسی شدت کے ساتھ بلکہ اس سے کئے گنا زیادہ سختی سے لوگ احتجاج میں شامل ہوئے ۔ باہری ممالک کے لئے وہ ایک معمہ رہا کہ آخر ایسا کیا ہو اکہ ایک بار مصری عوام و خواص کا جم غفیر تحریر میدان میں تاناشاہی کے خلاف کھڑا ہوا ۔اس کے بعد اس سے زیادہ جوش و جزبہ کے ساتھ جمہوری طریقہ سے منتخب صدر مرسی کے خلاف لوگوں کی ناراضگی میدان تحریر میں دیکھنے کو ملی ۔آنکڑوں کی اگر مانیں تو تقریبا ۷۰ لاکھ ووٹ حاصل کئے تھے صدر مرسی نے لیکن ان کے خلاف جن لوگوں نے اپنے گم و غصہ کا اظہار احتجاج کی شکل میں کیا ان کی تعداد تین گونہ زیادہ تھی ۔ تقریبا ۲ کروڑ ۳۰ لاکھ لوگوں نے دستخط کے ذریعہ صدر مرسی کو ہٹانے کی مانگ کی ۔ ان کے غم و غصہ کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگا یا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں سیاسی اثر رسوخ سے بالا تر دو ایسی شخصیتیں ایسی ہین جن کو لوگ بے حد پسند کرنے کے ساتھ بہت زیادہ عزت دیتے ہیں ۔ جامعۃ الازہر کے شیخ یعنی وائس چانسلر ۔جن کو لو گ ادب احترام سے ’’امام اکبر ‘‘ سب سے بڑا امام کہتے اور مانتے ہیں ۔دوسرے اس ملک کے مفتی ’’ مفتی جمہوریہ ‘‘ جن کی علمی خدمت کی وجہ سے لوگ اپنے اوپر ان کی عزت کو لازم تصور کرتے ہیں۔یہ دونوں شخصیتیں میدان تحریر میں عام آدمی کے ساتھ مل کر احتجاج میں شامل تھیں۔ 
سابق صدر مرسی کی قیادت میں اخوان المسلمین کے ذریعہ مصر میں آئے انقلاب داخلی حقائق سے انکشاف اس وقت ہو سکا جب قطر اور سعودیہ کی دخل اندازی کا خلاصہ سامنے آیا۔در اصل قطر اور سعودیہ کے آپسی اقتدار کی جنگ مصر میں لڑی جا رہی تھی ۔ اس سے بڑی حیرت انگیز فکر یہ ہے کہ یہ صرف مصر ہی نہیں بلکہ ہر اس مسلم ممالک میں یہ کھیل چل رہا ہے جہاں قدرتی خزانہ کے ذرائع پائے گئے ہیں۔ ان ممالک کا بھی یہی حال ہے جو ان ممالک سے براہ راست یا بالواسطہ منسلک ہیں۔قطر نے یو اے ای کے ذریعہ ایک اچھی خاصی رقم خرچ کرکے مرسی کی حمایت کی ۔وجہ دیر سے معلوم ہو سکی لیکن کہتے ہین کوئی چیز زیادہ دیر تک پردہ میں نہیں رہ سکتی خاص طور پر اگر وہ مکر و فریب ہو۔ اس پر مزید یہ کی لالچ اور تکبر کی چادر ہو تو اس کے چاک ہونے میں زیادہ دیر ویسے بھی نہیں لگتی ۔ آخر کا ر اس امداد کا خلاصہ اور پتہ چلا کہ قطر مصر کو اس لئے مدد کر رہا ہے تاکہ مصر کی لائف لائن اور ساتھ ہی ساتھ یورپ کی لائف لائن سوئس نہر پر اس کا قبضہ ہو جائے ۔ اس کے ذریعہ وہ یورپ کے ممالک کو یہ سمجھانے میں قدرے کامیاب ہوجائے گا کہ اب تمہیں سعودیہ کو ہتھیار بنانے کی ضرورت نہیں میں خود چل کر تمہارے پاس آرہا ہوں ۔ میرے پاس تو سعودیہ سے زیادہ قیمتی خزانہ نیچرل گیس ہے ۔بس اسلام ملک کی شہنشایت کا خطاب میرے نام لکھ دو ۔سعودیہ کو جلد ہی اس بات کا احساس ہو گیا ۔اقتدار کے پایوں کو ہچکولے کھاتا دیکھ وہ اب ایک بار پھر سے مصر کو بحال کرنے کی فراک میں لگ گیا ۔جس کے لئے اس اچھی خاصی رقم خرچ کی ۔ اگر چہ یہ رقم ’حب علی ‘میں نہیں ’بغض معاویہ ‘میں خرچ کی گئی تھی ۔
سوال یہ اٹھتا ہے کہ یہ تو بین الاقوامی سیاست تھی جو ملکی سطح پر ہو رہی تھی ۔ عام طور پر عوام کو اس کا شعور نہیں ہوپاتا۔آخر انہیں کس بات نے ابھارا کہ میدان میں آؤ اور مرسی کی کرسی یعنی کی ملک کے موجودہ صدر کے خلاف علم بغاوت بلندکرو ۔
اس کی عقدہ کشائی امام اکبر شیخ الازہر ڈاکٹر احمد طیب کے ایک بیان سے شروع ہوتی ہے ۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا تھا کہ مصر کی تہذیب اور آثار پر اٹھنے والی ہر نگاہ کو بے نو ر کر دینگے ۔اس سے یہ اندازہ لگا یا گیا کہ اس جمہوری نظام اور حکومت کے ذریعہ وہاں کی تہذیب و ثقافت اور آثار و روایثار کو مٹانے کی کوشش کی جا رہی تھی ۔وہاں دو فکر کے مسلمان رہتے ہیں ایک سنی صوفی دوسرے اخوان المسلمین اور سلفی مسلم دونوں کے عقائد و نظریات میں فرق ہے ۔ محمد مرسی اخوان المسلیمن میں سے تھے اوراخوانیوں کے ذریعہ ہی صدر منتخب ہوئے تھے ۔یہ الگ بات ہے کہ وہاں ان کی تعداد نہ کے برابر ہے ۵ سے ۱۰ فیصد۔لیکن چونکہ اس وقت ایک تانا شاہ کے خلاف اور ایک جمہوری نظام کے تئیں احتجاج ہو رہا تھا لہٰذا سبھی نے مل کر اس احتجاج میں حصہ لیا ۔چونکہ وہاں اس دوسری فکر یعنی اخوان المسلمین کی دلچسپی سیاست میں بھی تھی۔ پھر مزید بیرونی امداد کے ذریعہ اقتدار تک پہوچنے میں کوئی خاص دقت نہیں آئی ۔
ملک مصر کی ایک اور خاص بات ہے کہ اسلامی روایت میں اس ملک کی سب سے پرانی تہذیب ہے جو محفوظ ہے ۔جامعۃ الازہر جو اس ملک ہی نہیں بلکہ عالم اسلام کا سرمایا ہے ۔آج بھی عالم اسلام اپنے دینی معاملات میں اس رجوع کرتا ہے ۔ یہ جامعۃ الازہر جو پوری دنیائے سنیت و تصوف کا مرکز ہے ، اس نے اپنے قانون میں لکھ دیان ہے کہ اس جامعہ میں کسی بھی طرح کی انتہا پسند فکر کی ترویج و اشاعت بلکہ ذکر تک کی پابندی ہے ۔یعنی نہ تو اخوانی فکرکی تعلیم ہوگی اورنہ ہی کسی کو یہ مجاز ہوگا کہ وہ بر سر عام اس طرح کی فکر کو جامعہ کے احاطہ میں ظاہر کرے۔ یہی حال اس ملک کے دیگر مدارس و مساجد کا تھا ۔کوئی امام یا خطیب کسی بھی طرح کی انتہا پسند اخوانی فکر کی تائید یا بو باس کی تقریر نہیں کر سکتا ۔مکمل طریقہ سے ممنوع تھا ۔یہی وجہ ہے کہ مشہور اخوانی عالم یوسف قرضاوی کئی دنوں تک مصر میں ممنوع الدخول تھے۔اس طرح کے کئی علماء تھے جن پر پابندیاں عائد تھیں۔
اخوان حامی مرسی کے کرسی اقتدار پر بیٹھتے ہی سب سے پہلاکام مذہبی امور میں تبدیلی کا ہو ا ۔ جامعۃ الازہر کے نظام کو بدلنے کی کوشش کی ۔وہاں جو اخوانی فکر پر پابندی تھی اسے ختم کیا ۔ شیخ الازہر کے خلاف ایک گھیرا ڈالا گیا ۔مفتی جمہوریہ کے خلاف قانون بنایا گیا۔ان مساجد کے امام تبدیل کئے جانے لگے جن میں سنی صوفی روایت کے ائمہ منتخب تھے ۔ یہی نہیں بلکہ حکومتی سطح پر وزارت میں بھی اسی طرز پر تبدیلی کی گئی ۔فوجی عملہ میں بھی اخوانی اور سلفی فکر کے لوگوں کو بڑے عہدہ رپر رکھا گیا۔ ان لوگوں کو برخاست کیا گیا جن میں بغاوت کی اہلیت و قابلیت تھی ۔اتنی جلد ان ساری تبدیلیوں کے ذریعہ واضح ہوگیا کہ کس مقصد کے تحت حکومت وجود میں آئی ہے ۔
یہاں پر ایک بات اور واضح کر دینی ضروری ہے جس سے شایدموجودہ حکومت کی فکراور واضح ہو سکے ۔جب تیس سال سے مسلسل تاناشاہ صدر کے خلاف لوگ احتجاج میں نکلے اور استعفیٰ کا مطالبہ کیا گیا تو تھوڑی ہی جد جہد کے بعد یہ کہتے ہوئے استعفی دے دیا کہ میں خون خرابا نہیں چاہتا اگر چہ کچھ جانی و مالی نقصان ہوا۔ لیکن یہی مطالبہ جب محمد مرسی سے کیا گیا تو صدر صاحب کا جواب تھا کہ اگر مجھے استعفی کے لئے مجبور کیا گیا تو اتنا خون بہے گا کہ مصر کی گلیا ں سرخ نظر آئیں گی ۔
اس دور ہلاہل سے مصر کی امن پسند عوام کی بھی ذہنیت سامنے آئی جو کسی بھی ملک کے باشندوں کے لئے ایک سبق ہے ۔ جب یہ سارا سیاسی خونی کھیل چل رہا تھا عوامی بے داری کا عالم یہ تھا کہ ہر شخص اس ملک کے آثار کی حفاظت میں لگا ہوا تھا ۔ چونکہ مصر آثار کے اعتبار سے بھی قابل قدر ملک ہے ۔ اھرامات ، اسکرندریہ کا کتب خانہ ، فرعون کے میوزیم کے علاوہ کئی آثار مو جود ہیں ۔ مصر کی عوام نے اس بات کا احساس نہیں ختم ہونے دیا کی یہ آثار اس ملک کا سرمایا ہیں۔ ایسے نازک حالات میں جبکہ لوگ اقتدارکی فکر میںآثار کو بھول گئے تھے ۔ ان کی حفاظت ہماری ذمہ داری خود لی اور اسے بخوبی نبھایا ۔ ایک افراتفری کا سا ماحول ہے ۔ اس لئے وہ راتوں کو جاگ کر ان آثار کی حفاظت پر خود کو مامور کرتے رہے ۔جب دوسرا آدمی آجاتا تھا تو وہ پہلا والا ہٹتا تھا ۔ یعنی بالکل منظم طریقہ سے حفاظت کی ذمہ دار ی کو محسوس کیا۔ 
جب عوام اس ذہنیت کی ہو تو اہل عقل دانش کا کیا حال ہوگا ۔ یہی وجہ ہے کہ اس ملک نے اپنے آثار و روایات کی تباہی کو محسوس کیا اور یقین ہوگیا کہ مرسی کے اقتدار میں موجودہ حکومت جہموریت کی بجائے ملک کے اندر انتہا پسند فکر کو فروغ دے رہے ہیں۔ باہر ان کی زندگی کا سودا کر رہے ہیں ۔انہوں نے ملک کی عزت اور آثار کی حفاظت اپنی جان و مال سے زیادہ ضروری سمجھا اور ساری طاقت جھونک دی مرسی اور اخوانی فکر کے خلاف ۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ جب پہلی بار احتجاج ہوا تو کسی شخص کے خلاف نہیں ہوا تھا ۔ وہ بس نظام کے خلاف تھا کہ تانا شاہی کا خاتمہ ہونا چاہئے اور ایک جمہوری نظام قائم ہونا چاہئے ۔لیکن دوسری دفعہ احتجاج کی نوعیت کچھ الگ تھی اس بات جمہوری نطام کے خلاف نہیں تھا اور نہ ہی انتخاب کے طریقہ سے کسی کو کوئی ناراضگی تھی ۔ کیونکہ جب محمد مرسی صدر بنے ہیں تو اس وقت کسی کو کوئی اعتراض نہیں ہوا ۔ لیکن جب اس حکومت نے ایک انتہا پسند فکر کو تھوپنے کی کوشش کی تو اس فکر کے خلاف لوگ نکل پڑے ۔ اس فکر کے خلاف ایک محاظ کھول دیا ۔ جو بھی اس فکر کو فروغ دیتا پایا جائے گا یا کسی بھی طرح سے اس کی حمایت میں مرتکب ہو گا، نہ تو وہ ملک کا وفادار ہے اورنہ ہی دین کا ۔ان لوگوں نے پوری دنیا کو پیغام دیا کہ آثار و روایت کی خلاف ورزی دین اور ملک دونوں کے خلاف بغاوت ہے۔اور اس بغاوت کے خاتمہ میں ملک مصر کے ذرہ ذرہ نے شرکت کی ۔بچے بوڑھے جوان مرد عورت سبھی ایک ساتھ سڑک پر تھے ۔یہاں اس بات کا ذکر بھی خصوصیت کا حامل ہے کہ اخوانی صدر محمد مرسی کے خلاف صرف اہل سنت کے لوگ ہی نہیں تھے بلکہ سلفی فکر کے لوگوں نے بھی مرسی کے اقتدار کو نا پسند کیا ۔جبکہ اخوان المسلین بھی سلفی عقیدہ کے تھے ۔
مصر کی اپنی ایک حیثیت ہے ۔ بین الاقوامی سیاست کے لئے مصر دنیا کا سب سے زرخیز ملک ہے ۔ اس ملک کے پاس قدرتی خزانہ نہ ہونے کے باوجود وہ پوری دنیا کی توجہ کا مر کز سوئس نہر اور سینائی کا علاقہ بنا ہوا ہے ۔ اسرائیل کی اپنی دوسری دلچسپی گریٹر ازرائیل کی وجہ سے بھی مصر میں ہے ۔کیونکہ مصر ، اسرائیل اور فلسطین ملا ہوا ہے ۔پورے یورپ کی معاشی ترقی میں اس ملک مصر کا بڑا ہاتھ ہے ۔انہیں چند وجوہات کی بنا پر یہ توجہ کامرکز بنا ہو اہے ۔ جب سیاسی دباؤ سے نہ ہوا تو مذہبی سیاست کے ذریعہ اس ملک کے شیرازہ کو بکھیرنے کی کوشش کی گئی ۔ 
یہ مصر ہی نہیں بلکہ دنیا کی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا۔ دو سال کے عرصہ میں دوبار حکوتیں بدلیں اور اور دونوں بار تاریخی احتجاج ہوا ۔یہ پہلا ملک ہے جو اپنے اثاثہ کو بچانے میں کامیاب ہوا وہ بھی اتنی جلد ۔یہ پہلا ملک اس لحاظ سے بھی ہے کہ اپنے آثارو روایت ، تہذیب و تمدن کی حفاظت کے تئیں پورا ملک یک زبان شانہ بہ شانہ کھڑا نظر آیا ۔پورے ملک نے اپنے رشتوں اور قرابتوں کی پرواہ کئے بغیر اس ملک کے آثار اور اس کی تہذیب کے مخالفین کو ملک ہی نہیں بلکہ دین و انسانیت کا دشمن قرار دیا۔ یہ بھی پہلی بار ہوا ہے کہ کسی ملک کی عوام نے ملک و انسانیت کے دشمنوں کو سزا دلانے میں حکومت کی مدد ہی نہیں بلکہ اس سے پیش پیش رہی ہے ۔ اس نے اس ملک کی روایت پر اٹھنے والے ہر قدم کو ناپاک جانا اور اس کے خلاف محاظ آرائی کو دینی ، ملی و انسانی فریضہ سمجھا ۔ یہی وجہ ہے کہ آج یہ ملک ماضی کی طرح اپنی منازل طئے کرتا ہوا نظرآ رہا ہے ۔یہ ملک لوگوں کو پیغام دے رہا ہے کہ ملک ، دین اور انسانیت کی پاسداری بیک وقت دیکھنی ہو تو مجھے دیکھ لو ۔جو قوم ، ملک یا حکومت اپنے آثار و روایت کی حفاظت نہیں کر سکتی وہ زیادہ دنوں تک زندہ نہیں رہتی ۔
ایسا نہیں ہے کہ اس طرح کے حالات پہلی بار کسی ملک کے سامنے آئے ہوں ۔ ایسا دہائیوں سے ہو رہا ہے اور اب تک جاری ہے ۔ جو حساس ہوا،ا س نے اپنی تاریخ اور ملک دونوں کو بچا لیا ۔
آج پوری دنیائے اسلام میں ایسے حالات بنے ہوئے ہیں ۔ تقریبا یکے بعد دیگرے ہر مسلم ملک اس سیاست میں گھرتا نظر آ رہا ہے ۔ صرف اسلامی ممالک ہی نہیں بلکہ جس ملک میں بھی مسلمان رہتے ہیں ان پر یہ حربہ استعمال کیا جا رہا ۔ انہیں سخت آزمائش میں ڈالا جا رہا ہے ۔
مصر کے احتجاج کا کافی اثر ہندوستان میں بھی دیکھنے کو ملا ۔ جیسا کہ پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے یہ سب بین الاقوامی سیاست کا کھیل ہے جس کی زد میں سعودی اور قطر شہنشاہیت کی جنگ لڑ رہے ہیں ۔نتیجہ میں سارے مسلم ممالک تباہ ہورہے ہیں۔اس کا احساس ان نام نہاد مسلم ممالک کو قطعی طور پر نہیں ہو رہا ہے۔ہمارے امن پسند ملک میں بھی اس شہنشاہیت کی جنگ کے آثار نظر آئے ہیں۔ جو کسی بھی صورت میں ملک ، دین اور انسانیت کے لئے اچھا شگو ن نہیں ۔
اس بین الاقوامی سیاست کا ایک ہی حربہ رہا ہے چونکہ خود تو جاتے نہیں، اسلئے ایک جماعت تیار کرتے ہیں اور کسی بھی قیمت پر کرتے ہیں۔ سیاست کا لالچ دیکر یا مذہب کی ترویج اشاعت اور خلافت کا جال بچھا کر ۔تاریخ میں اس کے انگنت ثبوت موجود ہیں ۔موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے القائدہ ، طالبان ، النصرہ ، حماس ، اخوان المسلمین اور داعش جیسی ہزاروں تنظیمیں الگ الگ نام ، مقصد اور چہروں کے ساتھ مختلف ممالک میں سر گرم عمل ہیں۔
ہندوستان میں اس کے واضح ثبوت ملے ہیں کہ اس طرح کے حربہ کا استعمال یہاں بھی ہو چکا ہے ۔ابھی جب مصر میں احتجاج ہوا مصر کی عوام ، اہل فہم و فراست اور دیگر مقتدر لوگوں کی حمایت میں فوجی جنرل عبد الفتاح ال سیسی نے جب مورچہ سنبھالا اور عوام کو انصاف دلانے کی کوشش کی تو یہا ں ہندوستان میں بالخصوص اردو پرنٹ میڈیا کے ذریعہ اس موقف کا اظہار کیا گیا ۔ اس میڈیا نے فوجی جنرل ال سیسی کی کو کسی ابلیس کا رقص قراردیا تھا ۔اردواخباروں کی سرخی تھی ’’ سی سی کا رقص ابلیسی ‘‘ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اخوانی فکر کے خلاف کھڑے ہونے کا مطلب ابلیسیت ہے ۔دوسرے لفظوں میں انتہا پسند کو فروغ دینا فرشتگی ۔یہی نہیں تھا بلکہ اسی ہمارے ملک میں مصر کے اخوانی صدر مرسی کی حمایت میں احتجاجی جلوس بھی نکلاگیا تھا ۔
ہمیں غور کرنا ہوگا کہ اس وقت ہمارے ملک کا رخ کیا ہے اور ہماری ذمہ داری کیا ۔خاص طور پر ہندوستانی مسلمانوں کے لئے یہ بڑ انازک وقت ہے ۔ جنگ آزادی کے مانندانتہا پسندی کے خلاف اس جنگ میں بھی پیش پیش رہ کر یہ بتانا ہوگا کہ اس ملک کامسلمان ہمیشہ سے ملک کے تئیں وفادار رہا ہے ۔ ایسے چہروں کو بے نقاب کرے گا جو مذہب کے لباس میں اس گھناؤنی سیاست کا حصہ بن چکے ہیں ۔ اور ارباب فکر و دانش جو ملک کے وفادرا ہیں ان کا بھی امتحان ہے کہ وہ ایسے لوگوں کی شناخت کرنے میں کسی طرح کی غلطی کا شکار نہ ہوں ۔اہل سیاست اس نازک مسئلہ کو بڑی باریک بینی سے دیکھیں اور ہر پالیسی میں اس اہم معاملہ کا معائنہ ضرور کر لیں ۔یہ ہم سب کی ملی جلی ذمہ داری جسے ہر حال میں نبھا نا ہے ۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Mob: 09582859385 Email: abdulmoid07@gmail.com