کربلا سے پیغامِ امام حسین علیہ السلام
عبدالمعید ازہری
دین اسلام کی شروعات انکارِ باطل سے ہوتی ہے ۔ معبودان باطل کی پرستش اور ان پر یقین سے انکار کے بعد دخول اسلام کا پروانہ ملتا ہے ۔ جیسا کہ کلمۂ توحید ’’لا الٰہ الا اللہ محمد الرسول اللہ ‘‘(نہیں ہے کوئی معبود سوائے اللہ کے )سے اس امر کی وضاحت ہو تی ہے ۔ ایک خدا کا اقرار کر کے سلطنت اسلام میں داخلہ منظور ہو تا ہے ۔ پھر اسلام کے دیگر فرائض و واجبات کی ادائیگی سے معیارو مقام پہچانا جا تا ہے ۔ جنت و دوزخ کا نتیجہ بھی اسی کے مطابق ہوتا ہے ۔ رب پر یقین و ایمان کے بعد محبت ، عشق ، جنون اور صبر و رضا کے درجات ہو تے ہیں ۔ یہ سارے درجات جہاں اکٹھا ہو تے ہیں اسے کربلا کہتے ہیں اور جس پر جمع ہو تے ہیں اسے امام حسین کہتے ہیں ۔ ایسا نہیں ہے کہ کربلا سے پہلے کسی کو شہید نہیں کیا گیا ۔ تاریخ اسلام میں احد، بدر وحنین سے لے کر خلافت عثمانیہ تک کئی جنگیں اور غزوات ہوئیں ہیں ۔ بہت سارے صحابہ شہید ہو ئے ہیں ۔ اور ایسا بھی نہیں ہے کہ اس سے پہلے ظلم نہیں ہو ا ہے ۔ ابتدائے اسلام میں کفار و مشرکین عرب کی جانب سے نو مسلم صحابہ پر ایسے ظلم کی بارش ہو ئی کی تاریخ کے صفحات اشکبار ہیں ۔ بچے اس سے پہلے بھی یتیم ہو ئے ہیں ، عورتیں بیوہ ، ماں کی گود ممتا سے محروم اور باپ کا سہارا ختم ہوا ہے ۔ اور لاشوں کی بے حرمتی بھی ہو ئی ہے ۔ان سب میں کربلا خاص اس لئے ہے کیوں کہ کربلا سے پہلے جو بھی واقعات اور حادثات رونما ہو ئے وہ الگ الگ لوگوں کیساتھ جدا گانہ حالات میں ہو ئے لیکن جو کربلا میں ہوا وہ تمام ظلم بیک وقت جمع ہو ئے ، ظلم کی انتہا ہو گئی ، شاید یہ کہنا غیر منا سب نہ ہوکہ ظلم خود ظالموں کے ہاتھوں مظلوم نظر آیا ۔ اس سے پہلے اس طرح سے لاشیں بے گور و کفن نہیں ہو ئیں ۔ انبیاء ورسل کے بعد کسی اور مخلوق کو اتنے بڑے امتحان سے نہیں گزرنا پڑا ۔ بھائی عباس کے چھلنی بازو ، بھائی حسن کی نشانی قاسم ، بہن زینب کے نو نہال عون و احمد ، بیٹی صغریٰ کی دامن گیر امید ، بے بی سکینہ کی سسکیاں ، جوان علی اکبر کی لٹتی جوانی ، معصوم علی اصغر کے خشک گلے میں پیوست تیر ، بہن زینب کی مایوس آنکھیں ، ایران کی شہزادی کا لٹتا سہاگ ، بیمار عابد کا کانپتا جسم ، بیک وقت اتنے امتحانوں سے کوئی نہیں گزرا ۔ اس کے بعد خود امام کا پورا جسم زخموں سے چور ہے اور رب کی بارگاہ میں سجدۂ شکر ادا کر رہے ہیں ۔ اے رب شکر ہے تیرا کہ تو نے مجھے اپنے امتحان گاہ میں کھڑے ہو نے کی قوت بخشی ۔ یہ وہ سجدہ تھا جس نے دنیا کو حیرت و استعجاب میں ڈال دیا ۔ سجدے تو سب نے کئے پر اس کا نیا انداز ہے اس نے وہ سجدہ کیا جس پر خدا کو ناز ہے ۔یہ وہ صبر عظیم تھا جس کے بارے میں خدا نے فرمایا ’’بیشک اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے ‘‘۔کربلا اس لئے بھی خاص ہے کہ سرزمین کربلا پر جہاں ایک طرف ظلم کی انتہا ہو ئی تو دوسری طرف صبر کی بھی انتہا ہو گئی ۔ آبائی وطن مکہ و مدینہ چھوٹا ، صبر کیا ۔ نانا کے روضے کی جدائی کا غم برداشت کیا ، ماں کے مزار کی فرقت میں آنکھیں اشک بار ہوئیں ، اعزا ء واقربا سے دوری کی تکلیف کو برداشت کیا ، بیٹی صغریٰ کی اشک بارسوالی آنکھیں امیدو یاس کے ما بین چھوڑ دی ،اہل وعیال اور سارا کنبہ قربان کیا اور صبر کرتے رہے ۔ تین دن تک پیاسے رہے ۔ ہر مخلوق پر پانی کھلا تھا بس نبی کے نواسوں پر بند کیا گیا ،پھر بھی صبر کیا ، خیمے جلائے گئے ، وہ مقدس شہزادیاں جن کے گھر جبرئیل بھی بے اجازت داخل نہیں ہو ئے انہیں بھی بے ردا کیا گیا ، ان کی چادرِ تطہیر چھینی گئی ، معصوم بلکتے بچوں کو پیاسا تڑپایا گیا جن کے دادا کی ایڑیوں سے نکلا آبِ زمزم سب نے پیا تھا اور جن کے نانا کے ہاتھوں سے جامِ کوثر کی تمنا سب کے دلوں میں تھی لیکن آج ان کے نواسوں پر پانی کا ایک ایک قطرہ بند تھا ۔ ایسے ستم ظریفی کے حالات میں بھی نبی کا یہ عظیم نواسہ صبر کا مظاہرہ کر رہا ہے ۔ سب کچھ لٹ گیا تباہی و بربادی کی ویرانی چھا گئی ، اہل وعیال اور اولاد کی مقدس لاشیں خاک و خون میں تڑپ کرکبھی بازوکبھی زانوپر ٹھنڈی ہو گئیں پھر بھی صبر و رضا کا یہ پیکر فوج یزید سے کہتا ہے ’’اے لو گوں اس ظلم و بر بریت کے بعد اب بھی باز آ جا ؤ ۔ علی اصغر کی جوانی معصوم علی اکبر کا خون ، عون و محمد کی قربانی ، بھائی حسن کی نشانی ، بھائی عباس کے قلم بازو اور اسلام کی مقدس شہزادیوں کے ساتھ ہو ئی بد سلوکی کو اب بھی معاف کر دوں گا‘‘یہ وہ جملے تھے جنہیں سن کر تاریخ کا سینہ دہل گیا ۔تمام مخلوق خدا کانپ اٹھی ۔کلیجہ منھ کو آگیا ، اشکبار آنکھوں سے یہ سوچنے لگی کہ آخر کس مٹی کا بنا ہے یہ نواسا ، اتنے مظالم کے بعد بھی معاف کر نے کو راضی ہے ۔ حیرت کی انتہا اس وقت ہو ئی جب معصوم علی اصغر سے لے کر بھائی عباس کی لاش اٹھائی ۔ تجہیز و تکفین اور تدفین کے بعد آنکھوں میں آنسو نہ تھے ۔ یہ فیضان نظر تھا یا کہ مکتب کی کرامت تھی ۔۔۔۔
یہ امام کوئی معمولی انسان نہ تھے یہ بارگاہِ نبوی کے تربیت یافتہ با ب العلم بہادر شیرِ خدا اور خاتون جنت حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے نور نظر تھے ۔ انہوں نے دیکھا کہ جب نبی کے چچا سید الشہداء حضرت امام حمزہ کو شہید کیا گیا اور ان کی لاش کے ساتھ غیر انسانی سلوک کیا گیا پھر بھی آہ و بکا نہ کی بلکہ ہندہ کو معاف کر دیا ۔ اس امام نے یہ بھی دیکھا کہ وہ لوگ جنہوں نے نبی اور اصحاب نبی کا مکہ میں رہنا اور جینا مشکل کر دیا جب مکہ فتح ہوا تو سب کو معاف کر دیا گیا ۔انہوں نے وہ وقت بھی دیکھا کہ جس امت نے احدمیں جان لیوا حملہ کیا۔شعب ابی طالب میں کھجور کی پتیاں اور چھالیاں تک کھانے پر مجبور کیا۔ اور پھر طائف میں پتھر مار مار کر اپنے نبی کے جسم کو لہو لہان کیا اس نبی نے نہ بد دعا دی نہ ہی انہیں نفرت کی نگاہوں سے دیکھا بلکہ راتوں کو جاگ کر بارگاہِ خدا میں اشکبار ہو کر اس گنہگار امت کی بخشش اور مغفرت کے لئے دعائیں کیں اور رب ھب لی امتی کا ورد ہمیشہ اپنی زبان پر رکھا ۔ یہ امام بھی اسی گلشن کے پھول ہیں تو یہ ایسا کیوں نہ کرتے ۔ تمام مظالم اپنے سینے میں ضبط کر کے صبر ورضا کے ساتھ برداشت کیا پر آنکھوں کو رونے نہ دیا ۔ زبان پر ظالموں کے لئے بد دعاکو آنے کی اجازت نہ دی اور دل میں بھی کسی قسم کی نفرت کو جگہ نہ دی ۔ وہ کہتے رہے کہ اے لوگو ں اب بھی وقت ہے باز آ جا ؤ! پھر تمہیں کوئی نہیں بچا ئے گا ۔ ابھی میں ہوں تمہارے سارے ظلم و ستم کو بھلا کر میں معاف کر دوں گا لیکن میری شہادت کے بعد تمہیں خدا کے قہر وغضب سے بچانے والا کوئی نہیں آئے گا ۔ یہ ہیں حسین اور یہ ہے عظمت حسین اور پیغام حسین۔
حسین تیری نسبت کو سلام ، حسین تیری عظمت کو سلام ، حسین تیری شہادت کو سلام ۔
Abdul Moid Azhari 09582859385 abdulmoid07@gmail.com
Facebook: https://www.facebook.com/raebarely
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@





No comments:
Post a Comment