Sunday, October 9, 2016

فلسفہ شہادت : نقطہ آغاز سے کمال عروج تک Philosophy behind the sacrifice of the holy family of our prophe PBUH


فلسفہ شہادت : نقطہ آغاز سے کمال عروج تک 

عبدالمعید ازہری

تاریخ اسلام میں ماہ محرم الحرام کو ایک نمایاں خصوصیت اور اہمیت حاصل ہے ۔ تاریخ اسلام کا آخری مہینہ ایثار و قربانی پر ختم ہوتا ہے۔ اس اسلامی سال کا آغاز ایک عظیم شہادت کی یاد اور اس کے تذکرے سے شروع ہوتا ہے ۔ از ابتداء تا انتہا یا آغاز سے انجام تک قربانی و شہادت کی تاریخ مسلمانوں کی تاریخ ان کی ذمہ داریوں اور ان کے شان نزول و ورود کو بیا ن کرتا ہے ۔ شہادت ایک عظیم مقام ومرتبہ ہے ۔لیکن اس کے لئے خود کشی کے راستے کو اپنانا اتنا ہی عظیم گناہ ہے۔ کیونکہ شہادت بارگاہ خدا وندی میں نہایت کی پاک و پاکیزہ عبادت ہے ۔ اسکی بڑی قدر و اہمیت ہے ۔ماہ محرم کو شہادت کا مہینہ بھی مانا جاتا ہے ۔ ظلم و جبر ، انتہا پسندی اور تشدد کے خلاف کھڑے ہوکر عدل و انصاف قائم کرنے کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ ماہ محرام ایک ساتھ پوری شریعت اور دین اسلام کی عملی وضاحت کرتاہے ۔ بہادری ، دلیری کے ساتھ حق گوئی و بے باکی بھی ہمیں کربلا سے ملتا ہے ۔ ظلم کے خلاف کھڑے ہونے کا جوش و جذبہ بھی محرم کی تاریخ کا یادگار حصہ ہے ۔راہ حق میں اپنی تنہائی اور کمزوری کی پرواہ کئے بغیر رب پر یقین و اعتماد کرکے چل دینے کا نام حیسنیت ہے ۔ سچائی کیلئے کسی باطل سے سمجھوتہ کی بجائے حق کی نشر و اشاعت کرنا اسلام ہے ۔ اسلام انسان کے اوپر انسانیت کی ذمہ داری کا نام ہے ۔ کربلا اس کا واضح ثبوت ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا اور ماہ محرم کے ذریعہ پوری دنیا تک پہنچے والا فلسفہ جہاد و شہادت کسی بھی مذہب و ملت کی حدود سے بالا ہوکر حق و باطل ، امن و فساد،کفر و ایمان کی پہچان بن گیا ۔
شہادت وہ مقام ہے جس کی تمنا خود پیغمبر اسلام نے کئی بار کی ہے ۔ چنانچہ احادیث مبارکہ میں آیا ہے کہ آپ نے کئی بار اپنی اس خواہش کا اظہار کیا ہے کہ حق کی راہ میں میں شہید کیا جاؤں پھر زندہ کیا جاؤ ۔ پھر شہید کیا جاؤں ۔ اس جملے کو کئی بار ورد زباں لائے ۔ اس میں اہم نقطہ اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ راہ حق میں خود کو قطار بند کرنا اور حق کی آواز کو بلند کرنا کتنا اہم ہے ۔ کسی باطل کی اتباع کرنے کی بجائے سچ اور حق کی نشر و اشاعت میں جان ومال کی قربانی پیش کرنے میں کسی بھی قدر پیچھے ہٹنا منا سب نہیں۔ شہادت کی تمنا میں اپنے آپ کو ہلاک کر لینا یا ہلاکت میں ڈال دینا قطعی عبادت نہیں اور نہ ہی اس طرح کی کسی عبادت یا عمل کی خواہش پیغمبر اعظم ؑ نے ظاہر فرمائی ۔ آج دہشت گرد جس خود ساختہ فلسفہ کو آڑ بناکر نوجوانوں کو بہکا تے ہیں۔ انہیں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے ۔ اسلام نے خود کشی کو ہر حال میں حرام قرار دیا ہے ۔ اس کی سزا میں جہنم کو بھی لازم قرار دیا ہے ۔ کسی نیک اور صالح مقصدکیلئے بھی اپنی جان لینا جائز نہیں۔ اس کی عملی دیل غزوات سے ملتی ہیں۔ اس لئے جہاد اور فلسفہ شہادت کو صحیح طور پر سمجھنا وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ حضرت امام حسین ؑ جام شہادت کو نوش فرمانے آئے تھے یا حق کیلئے آئے تھے اورراہ حق میں حق کی سربلندی کے لئے انہوں نے جام شہادت کو نوش فرمایا ۔یہ محل بھی قابل غور وفکر ہے۔ جھکتے اور گرتے ہوئے پرچم اسلام اور رسوا ہوتی سنت نبوی کی زندگی کا تقاضہ تھاکہ شہادت کے کئی جام پئے جاتے سو اہل بیت اطہار نے ایسا ہی کیا ۔ مکہ و مدینہ سے اسلئے سفر نہیں تھا کہ کربلا میں جا کر ہمیں یزیدیوں کے ہاتھوں شہید ہونا ہے ۔ نیت اور منزل میں کافی فرق ہے ۔ سب کچھ طے ہونے کے باوجود شرعی نقطہ نظر اسی کا اشارہ کرتی ہے ۔
پیغمبر اسلام ؑ نے شہادت کی دونوں قسم سری و جہری کے نقطہ آغاز کو چکھ لیا تھا۔ اس کے نقطہ انجام اور تکمیل کیلئے آپ کے دونوں نواسوں حضرت حسن ؑ اور حضرت حسین ؑ کا انتخاب ہوا ۔ چنانچہ آپ نے ہمیشہ ان دونوں ہی شہزادوں کو نواسہ کہنے کی بجائے اپنا شہزادا کہا ۔ یہاں تک کہ آپ نے فرمایا کہ حسین ؑ مجھ سے ہیں اور میں حسین سے ہوں ۔ یہیں سے اپنی قربت کا اعلان کردیا تھا ۔ آپ نے دعا بھی فرمائی تھی کہ جو حسین ؑ سے محبت کرے گا رب کریم اس سے محبت فرمائے گا۔آپ کو جب زہر دیا گیاتو آپ نے سری شہادت حاصل کی اس کے بعد جنگ خیبر میں آپ کے دندان مبارک شہید ہوئے تو آپ کو شہادت جہری سے سر فراز کیا گیا ۔ دونوں ہی بار آپ کو محفوظ رکھا گیا ۔ چونکہ اللہ رب العزت نے وعدہ فرمالیا ہے کہ آپ کو محفوظ رکھے گا۔ ورنہ آپ کو دیا جانے والا زہر اتنا تیز اور زود اثر تھا کہ ایک صحابی رسول تو اسی وقت شہید ہو گئے تھے اور آپ ؑ خود بھی تا دم وصاال اس زہر کی شدت کو محسوس کرتے رہے ۔چنانچہ بوقت وصال آپ نے حضرت عائشہؓ سے فرمایا کہ یوں تومیں نے اس زہر کے درد کو ہمیشہ محسوس کیا لیکن اب لگتا ہے کہ اس کا اثر زیادہ کارگر ہو رہا ہے اور رگ جاں کو ضرور منقطع کر دیگا ۔ جب آپ طائف کے میدان میں لہو لہان ہوئے تھے یا جب آپ کا دندان مبارک شہیدہوا تھا تو اللہ تبارک و تعالیٰ نے اس بات کا خیال رکھا کہ آپ کی جان کو کسی بھی انسان کے ہاتھوں محفوظ رکھا اور دندان مبارک کی شہادت کے وقت بھی آپ کے حسن کو برقرار رکھا۔ دانت کا ایک کنارہ شہید ہوا ۔جس سے شہادت بھی ہوگئی اور آپ کے حسن پر کوئی فرق بھی نہیں پڑا۔ بلکہ کنارہ سے دندان مبارک کے شہید ہونے کے بعد ایسا لگتا تھا جیسے کوئی ہیرا کنارے سے تراش دیا گیا ہو ۔ حسن میں چمک دمک مزید پیدا ہو گئی ۔ لھٰذا ان دونوں ہی شہادت کیلئے آپ نے اپنے دونوں نواسوں کا انتخاب فرمایا ۔ ایک کو زہر سے شہادت ملی تو دوسرے کو میدان کربلا میں تیروتلوار سے شہادت کا کمال و عروج ملا ۔
صرف جان دینا ہی شہادت نہیں ہے ۔ جان و مال کی قربانی کے پیچھے مقصد ہی جان کی قربانی کو شہادت تک پہنچاتا ہے ۔شہادت کی چاہت میں جان بوجھ کر بلاضرورت و احتیاج کے اپنی جان کو ہلاکت میں ڈال دینا اور خود کو ہلاک کر لینا شہادت نہیں۔کربلااور امام عالی مقام کی شہادت بڑی وضاحت کے ساتھ اس فلسفہ کو بیان کرتی ہے ۔ ظلم کو مٹا کر انصاف کو قائم کرنے ، باطل کے مقابل حق کی آواز کو بلند کرنے کیلئے پیش کی گئی جان کی قربانی اصل شہادت ہے ۔ دین کی پاسبانی شریعت کی حرمت کی خاطر ، ناموس رسالت کے تئیں اگر جان بھی جاتی ہے تو وہ شہادت ہے ۔ دین اسلام سے الفت و محبت میں اپنے آپ کو قربان کرنا شہادت ہے ۔ اسلام اسی کا تقاضہ کرتا ہے ۔ ورنہ اسلام میں اپنی جان بچانے کو فرض قرار دیا گیا ہے ۔ اسی وجہ سے جان بچانے کی غرض سے کئی حرام کاموں میں بھی رخصت دی گئی ہے ۔ خود کے ساتھ دوسروں کے جان کی بھی حفاظت کا اسلام تقاضہ کرتا ہے چنانچہ قرآن کہتا ہے کہ کسی ایک بے گناہ کا خون پوری انسانیت کا قتل ہے اور کسی بھی جان کی حفاظت پوری انسانیت کی حفاظت ہے ۔ 
اس تناظر میں شہادت کو دیکھیں تو ہم پر واضح ہوتا ہے کہ شہادت ایک عظیم عبادت ہے ۔ جس کے لئے خلوص نیت ، نیک خواہش ،دینی و انسانی ضرورت اور صحیح طریقے کا پایا جانا ضروی ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ کربلا کی شہادت کو ایک خاص اور نمایاں حیثیت حاصل ہے ۔ ورنہ تاریخ اسلام میں کئی ابواب سرخ صفحات پر مبنی ہیں۔بے شک دین آسان ہے ۔ اسلام آسانی کا مذہب ہے کیونکہ یہ افراط و تفریط کے درمیان اعتدال اور انسانیت کا مذہب ہے ۔ آ ج کے حالات مگر یہ کہتے ہیں کہ لوگ مسلمان تو ہیں لیکن ان کے سینوں سے اسلام نکل چکا ہے ۔ محض نام کا اسلام لیکر گھومنے والے یہ مسلمان اگر پوری دنیا میں ذلیل و خوار ہو رہے ہیں اس کی وجہ یہی ہے کہ ان کا خود کا بھروسہ دین پر سے اٹھ چکا ہے ۔مسلمان ہونا انہیں آسان لگنے لگا ہے ۔ اس کے پیچھے کے مقاصد اور ان مقاصد کے حصول اور اسے ہم تک پہنچانے کے لئے دی گئی قربانیوں کو محسوس تک نہیں کر رہا ہے ۔کسی نے جذبہ شہادت کو سرے سے ہی دل و دماغ سے خارج کر دیا تو کسی نے اسے اپنے ذاتی مفاد کے لئے استعمال کرنا شروع کر دیا ۔ پوری دنیا میں نفرت، دہشت و وحشت کیلئے اس عبادت کو بدنام کردیا ۔
اہل بیت اطہار کی شہادت پیغبمر اسلام کی خواہش وچاہت ہم سے بہت کچھ سیکھنے کا تقاضہ کرتی ہے ۔پوری تاریخ کربلا اور واقعات کربلا ہمارے لئے درس عبر ت ہے اگر ہم اس پر غور کریں تو ہماری دنیا اور آخرت دونوں ہی میں سرخروئی کے راستے نظر آئیں گے ۔ سچ کہا گیا ہے : یہ شہادت گہہ الفت میں قدم رکھنا ہے ، لوگ آسان سمجھتے ہیں مسلماں ہونا ۔ماہ محرم الحرام کے ہر پہلو اور واقعات کربلا کے ہر لمحے ہمیں اسلام سکھاتے ہیں۔جہاد، شہادت ، یقین، اعتماد، وفاداری، دین داری،ظلم و جفا اور صبر و وفا کی عملی تصویر کا نام ہے کربلا۔ جو تاریخ شہادت میں عظیم شہادت کی گواہ ہے ۔ نقطہ آغاز سے لیکر عروج کمال کا سفر کربلا میں نظر آتا ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385







@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

No comments:

Post a Comment