Tuesday, December 31, 2019

क्या यह पीएम मोदी के खिलाफ़ कोई साज़िश है?Is it any conspiracy against PM Modi?


क्या यह पीएम मोदी के खिलाफ़ कोई साज़िश है?

[अब्दुल मोईद अज़हरी]
NRC, CAA, और NPR को लेकर जिस तरह देश में विरोध देखने को मिल रहा उस से एक बात तो साफ़ और स्पष्ट होती जा रही है कि देश के वर्तमान प्रधानमंत्री से ख़ुद बीजेपी और आरएसएस संगठन के कुछ लोग ख़ुश नहीं हैं। पीएम मोदी की बढ़ती देश विदेश में ख्याति कुछ लोगों की आँखों में खटक रही हैं।
साल 2019 में मोदी 2.0 का आरम्भ था, देश को नई दिशा देने की तैयारी थी, लगा शायद देश की हजारों वर्ष पुरानी सभ्यता और संस्कृति की रक्षा इस नए सत्र में संभव है जिस की संभावनाएं बीते वर्ष में ख़त्म कर दी गयीं थी। पीएम मोदी के दूसरे सत्र की शुरुआत तीन जुमलों से हुई जिसे बाद में समर्थकों के बीच में ही मौजूद मोदी विरोधी विचारधारा ने जुमले बाज़ी में बदल दिया।
“सब का साथ”, “सब का विकास” से एक क़दम आगे बढ़ते हुए मोदी सरकार ने “सब का विश्वास” स्कीम को लांच किया। अभी दिन के उजाले में इस नीति का एलान हुआ ही था कि मोदी के उगते सूरज को उन के समर्थकों ने सूर्यास्त करते हुए उसी संध्या को मोब लिंचिंग द्वारा पीएम मोदी के सपनों पर घातक प्रहार किया। जिन लोगों का विश्वास मोदी सरकार का दूसरा सत्र पाना चाहता था इस मोदी विरोधी दल ने उसे प्रताड़ित करते हुए यह सन्देश देने कि कोशिश की कि प्रधानमंत्री के भाषण पर विश्वास करने की ज़रूरत नहीं है।
पीएम मोदी अपने भाषणों में यह कहते रहे कि बीजेपी पार्टी और सरकार में ऐसे किसी व्यक्ति की जगह नहीं जो राष्ट्र हिट के विरुद्ध हो। उन्हों ने तो अपने एक महिला सांसद से भी नज़रें फेर लीं थी जिन्हों ने महात्मा गाँधी का अपमान किया लेकिन मोदी विरोधी दल ने पीएम मोदी पर फिर प्रहार किया और चुनाव में ऐसे ही अधिक चेहरे उतारे जो अपराधिक मामलों में लिप्त थे।
उधर पीएम मोदी रात दिन मेहनत कर के देश विदेश के दौरे करते रहे इधर पार्टी और संगठन के अन्दर ही मौजूद मोदी विरोधी दल पीएम मोदी के सपनों पर घात पर घात करते रहे। इतने हमले किये कि गुजरात के विकास मॉडल पर पूरे देश में चुनाव में उतरने वाले मोदी को गुजरात के विनाश और दंगे वाले मॉडल में बदल दिया।
आज जब कि पूरा देश क़ानून विशेष को लेकर चिंतित है, विरोध प्रकट कर रहा है, देश जल रहा है, पीएम मोदी बार बार कह रहे हैं कि देश भर में NRC या CAA लागू करने की उन की कोई मंशा नहीं है लेकिन आंतरिक विरोधियों ने एक बार फिर पीएम मोदी पर करारा वार करते हुए खुल कर एलान किया कि NRC देश भर में लागू होगा।
पीएम मोदी के “सब का विश्वास” पर फिर हमला किया गया और कहा गया कि CAA के ज़रिये हम पड़ोसी देशों के करोड़ों हिन्दुओं, बोधों, और अन्य अल्पसंख्यकों को देश की नागरिकता तो देंगे लेकिन NRC के ज़रिये बिना किसी धार्मिक और जातिगत भेदभाव के हर वो व्यक्ति इस क़ानूनी शिकंजे का शिकार होगा जो भारत की नागरिकता साबित करने में असफल होगा। चूँकि अब तक प्रमाणित करने वाले दस्तावेज़ की कोई यकीनी प्रक्रिया स्पष्ट नहीं की गयी लेकिन अभी तक जो भी दस्तावेज़ मांगने की बात कि गयी है उस से असम की तरह हिन्दू मुस्लिम दोनों ही बाहर होंगे सिर्फ इस लिए नहीं कि वो देश के नागरिक नहीं है या घुसपैठिये हैं बल्कि इस्ल लिए भी क्यूंकि उन के पास दस्तावेज़ नहीं हैं।
इस तरह के विवादित बयान देने वाले मोदी विचारधारा के प्रचारक संसद और मंत्रालय में बहुत जो शायद पीएम मोदी इस उड़ान को रोकना चाहते हैं। शायद इस वक़्त पीएम मोदी को सच्चे समर्थकों की सख्त ज़रूरत है जो इस तरह के विचारकों और प्रचारकों से इस का हिसाब मांग सकें।


Monday, November 25, 2019

چلو اچھا ہوا چہرے بے نقاب ہو گئےअच्छा हुआ चेहरे बे नक़ाब हो गएIts good as faces exposed

چلو اچھا ہوا چہرے بے نقاب ہو گئے

عبد المعید ازہری
ایودھیا میں متنازع زمین پر بابری مسجد کے ایک طویل مدتی جھگڑے کو آخر کار عدالت عظمیٰ نے حل کر دیا۔ تین ججوں کے مشترکہ اور متفقہ فیصلے پر قانونی اور تکنیکی بحث جاری ہے۔ مسلمانوں کے اکثریتی طبقہ نے ہندوستانی عدلیہ پر یقین جتاتے ہوئے فیصلے کو نہ صرف قبول کیا ہے بلکہ اس کا احترام بھی کیا ہے۔ جس طرح سے فیصلہ سے پہلے عدالت کے فیصلے کا احترام کرنے کی یقین دہانی کرائی گئی تھی اس پر عمل پیرا ہو کر ہندوستان کے بہترین شہری ہونے کی مثال قائم کی ہے۔
فیصلہ سے پہلے بھی عدالت کے فیصلے کی پیشین گوئی نہیں کی اور نہ ہی اپنی کوئی منشاء ظاہر کی۔ یہ کسی بھی شہری کی طرف سے اپنے عدلیہ پر آنکھ بند کر کے یقین رکھنے کی اعلی مثال ہے۔ اب یہ عدالتوں کے اوپر ہے کہ فیصلہ کس طرح کریں۔ کم از کم اس حل کے بعد اس کی توقع کی جا رہی ہے کہ انسانی جان و مال کے مزید ضیاع کو بچا لیا گیا ہے۔ورنہ کسی اور صورت میں نتیجے کافی نقصان دہ ہو سکتے تھے۔وہیں اس حل نے مسلم قیادتوں پر بھی ایک گہرا اور تشویس ناک سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔ جس پر آواز کی امید پچھلی دو دہائیوں سے محسوس کی جا رہی تھی، عوام و خواص نے اس پر کھل کر بات کرنا شروع کر دیا ہے۔خود ساختہ مسلم قیادت کے حساب کتاب وقت آ گیا ہے۔ کبھی بھی کسی سے بھی کسی بھی قیمت پر قوم مسلم کا سودا کرنے والی سیاسی، سماجی و مذہبی مسلم قیادت کو اب
حساب دینا ہوگا۔ قیادت کے اعلان سے پہلے انہیں سو بار سوچنے کے علاوہ قوم کے تئیں جواب دہی کے لئے بھی تیار رہنا ہوگا۔
ایودھیا تنازع کے بعد جس طرح سیکڑوں برسوں کی نام نہاد اور خودمختار مسلم قیادت کی دعوے دار مسلم تنظیموں جمیعت علماء ہند، جمیعت اہل حدیث اور جماعت اسلامی ہند کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈاور صوفی ڈیلیگیشن پر عوامی احتجاجی رد عمل کا اظہار ہوا ہے وہ قابل غور ہے۔ تین طلاق، کشمیر اور ایودھیا کے معاملوں نے مسلم قیادت کی ناکامی، نا اہلی اور خود غرضی کے ساتھ ساتھ سودے بازی
کو بھی بے نقاب کر دیا ہے۔مسلم قیادت کے نام پر دین اور ضمیر بیچنے والے ہر سفید چہرے کے کالے کارنامے لوگوں کے سامنے آ گئے۔ ملک گیر سطح پر ایسے میر جعفروں پر قد غن لگانے کی آوازیں بلند ہو رہی ہیں۔اب سے کسی بھی ریاکار قوم فروش قائد کی زبان عوام کی رائے نہیں ہوگی۔اس لحاظ سے بھی سابقہ معاملوں میں کی جانے والی کاروائیاں خیر اندیش رہی ہیں۔سیاست کے گلیاروں میں بکنے والی داڑھی، ٹوپی، کرتا جبہ و دستار کا یہ کاروبار بند ہونے کی کگار پر آ چکا ہے۔وقت و حالات کے لحاظ سے مذہبی ٹھیکیداری کے بدلتے

چہروں کی رو نمائی ہو چکی ہے۔
تین طلاق بل کے وقت بھی کم و بیش یہی حالات رہے ہیں۔بل سے پہلے ہی ان نام نہاد تنظیموں کی جانب سے سودا ہو چکا تھا۔ ایسے ہی کشمیر کے معاملوں میں کالے کارناموں کی طویل فہرست اور نفس پرستی پر خود غرضی نے جبہ و دستار کو بیچ دیا۔بابری مسجد کا سودا تو برسوں پرانا ہے۔ مقدمہ کی پیروی سے لے کر عدالت کے باہر آپسی صلح سمجھوتہ کی کوشش اور اس کے بعد عقیدت کے نام پر زمین وقف کردینے کی گزارشات نے مل کر ایودھیا تنازعہ کا یہ حل نکالا ہے۔اس پہلے بھی ندوہ اور ندوی کردار مسجد سے دست برداری کا رہا
ہے اور آج بھی وہی ہے۔مدنی خاندان کی مذہبی ٹھیکیداری نے بھی طلاق، کشمیر اور بابری مسجد معاملے اپنا رخ واضح کر دیا۔
یوروپین ممالک کے پارلیامانی اراکین کے وفد میں سے کم سے کم کسی ایک میں تو ہمت ہوئی جس نے حق و انصاف کی بات کی ورنہ اندرون ملک کے صوفی ڈیلیگیشن نے تو آنکھوں پر پٹی ہی باندھ لی تھی جہاں روشن اندھیرے کے سوا کچھ دکھا ہی نہیں۔
ہماری بحث اس سے نہین ہے کہ گزشتہ پانچ برسوں میں مسلم مسائل پر حکومتوں کا رویہ کیا رہا ہے۔ طلاق، کشمیر اور ایودھیا کا جو حل نکلا وہ کتنا درست یا غلط ہے۔
ہماری گفتگو تو ان تمام مسائل میں مسلم قیادت کی حصہ داری سے ہے۔تینوں ہی مسئلوں میں آنے والے نتیجوں کے لئے مثبت زمین ہموار کرنے میں اس کلرجی کا کتنا رول رہا ہے۔حالانکہ کی بکی ہوئی زبانوں کی زہریلی بیان بازی ابھی جاری ہے جس سے تفریق و تقسیم کی دیوار مزید مضبوط ہورہی ہے اور سیکولر افکار و نظریات کو چوٹ لگا رہی ہیں۔لیکن شاید یہ بجھتے ہوئے چراغوں کی آخری لو ہیں۔
اس طرح کے عوامی رد عمل کی توقع تو شاید مدنی فیملی ندوی برادری اہلی حدیث اور جماعت اسلامی کے علاوہ مسلم پرسنل لا بورڈ وغیرہ کے نمائندہ ٹھیکیداروں نے
نہ کی ہوگی۔اس میں بڑی بات یہ ہوئی کہ کسی بھی گروپ کی نقاب کشائی کا فریضہ اسی گروہ سے وابستہ غیرت مند افراد نے کیا ہے۔ اگر
ایسا نہ ہوتا تو شاید شرم و حیا، غیرت و حمیت سے عاری یہ بے ضمیر رہزن اسے مسلکی افتراق و اختلاف کی نذر کر دیتے۔
یہاں اس بات کی وضاحت ضروری ہے کہ اس مضمون میں استعمال ہونے والے الفاظ و القاب عوامی رد عمل میں اظہار کئے جانے والے لہجوں سے کہیں کم ہیں۔مزید یہ کہ یہ ذاتی نہیں ہیں۔کسی فرد واحد کی مخالفت نہیں بلکہ ان اقدامات سے اختلاف ہے جس نے قوم کو بے
   بسی اور بے چارگی کے اس دہانے پر لا کر کھڑا کر دیا ہے۔
اب جب کہ حالات و ضروریات کے چہرے سے بناوٹی گرد چھٹ چکی ہے۔یہ ضروری ہو گیا ہے کہ آج کی مذہبی، سیاسی اور سماجی نام نہاد مسلم قیادت کے خلاف بلند ہونے والی ان غیرت مند آوازوں کو ایک تحریک کی شکل دی جائے۔جہاں لوگوں کو پیچھے کھڑا رکھنے کی بجائے ان کو ساتھ رکھ کر چلنے پر زور ہو۔کسی بھی نمائندہ آواز کو اس وقت تک عوامی رائے بننے سے روکا جائے جب تک عوام سے رجوع نہ کر لیا جائے۔سیاست کے بازار میں کاروبار کرنے والی مذہبی ٹھیکیداری پرمکمل لگام لگائی جائے۔جواب دہی کے لئے انفرادی اور اجتماعی ذمہ داری اٹھائی جائے۔ٹوپی اور ٹائی کی مشترکہ کوششوں سے عوام بیداری کی مہم چلائی جائے۔اپنی ناکامی کا ٹھیکرا کسی ایک فرد یا جماعت پر پھوڑنے چلن بند ہو۔

Friday, November 15, 2019

مسلمانوں میں فرقہ بندی मुसलमानों में बढती गिरोह बंदीincreasing divisions among muslims

مسلمانوں میں فرقہ بندی کا بڑھتا رجحان


عبد المعید ازہری

قوم مسلم کا آج کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ اسلام کے مبلغ آج کفر کی تبلیغ کرتے نظر آ رہے ہیں۔ایمان کی روشنی سے انسانی حیات کی تاریکی دور کرنے کی بجائے روشن حیات انسان کو جبرا کفر و شرک کے اندھیرے میں قید کرنے کی مذموم کوشش میں لگے ہئے ہیں۔امن اتحا د کے پیغام بر انتشار و افتراق کی نشر و اشاعت کر رہے ہیں۔
اس بات سے انحراف ممکن نہیں کہ جھگڑا، فساد، اختلاف اور انتشار انسانی فطرت کا حصہ ہے۔اسی لئے انسانی سماج میں توازن قائم رکھنے کے لئے ترغیب و ترہیب کے قوانین وضع کئے گئے اور ان کے نفاذ سے معاشرے میں امن و امان، سلم سلامتی اور حقوق اور انصاف کا نظام قائل کیا گیا۔انسانی سماج کو دین کی ضرورت بھی اسی لئے آن پڑی کہ اس سے نظام عدل و مساوات قائم و دائم رہے۔کسی بھی مذہب کی بنیادی افادیت میں معاشرے میں سکون و توازن کا فروغ لازمی طور پر موجودہ ہے۔اسلام کے دونوں بنیادی مآخذ قرآنی آیات اور نبوی ارشادات میں اس بات کا خلاصہ موجود ہے۔ قرآن نے ایک درجن سے زائد جگہوں پر اس بات پر زور دیا کہ آپس میں گروہ بندی نہ کرو۔خدا کی رسی کو مضبوطی سے پکڑو اور آپس میں منقسم نہ ہو۔ پیغمبر اسلام کو مخاطب کرتے ہوئے قرآن میں خدا نے فرمایا کہ جو لوگ فرقہ بندی میں ملوث ہوتے ہیں اور اسے بڑھاوا دیتے ہیں وہ بڑے گناہ میں شامل۔ تو آپ سے ان کا کوئی سروکار نہیں۔ اس طرح کئی جگہ پر تفریق و تقسیم پر خدا نے واضح روک لگائی ہے۔ لیکن کیا وجہ ہے کہ آج اسلام کے نمائندے مسلمانوں کی تقسیم کو خدا کی سنت سمجھ کر فروغ دے رہے ہیں۔ یا تو وہ کسی نئی خدائی کا دعوی کر رہے ہیں یا پھر اس خدا کو ماننے سے انکار کر رہے ہیں جو فرقہ بندی کو پسند نہیں فرماتا۔
آج کے نام نہاد مسلم نمائندے جو مسلکی اور مذہبی اختلاف کو خدا کی رحمت سمجھتے ہیں اور اس اختلاف کو خدا و رسول کی مشیئت و مرضی تصور کرتے ہیں وہ خدا اور رسول پر بہتان لگاتے ہیں۔تکفیر و تفسیق، شرک و بدعت، حرام و حلال کے یہ تاجر اپنی خدائی کا کاروبار چلانے کے لئے قرآن و حدیث من مانی توضیح اور خدا و رسول کے فرمودات کی بے جا تاویل کی مجرمانہ حرکت سے بھی گریز نہیں کرتے۔خدا نے جنہیں اسلام و ایمان کا مبلغ بنایا وہ کفر و شرک کے داعی بن گئے۔ایمان و اسلام کی دولت تقسیم کرنے کی بجائے کفر و شرک، فسق و بدعت کا زہر قوم کے اندر ہی گھولنے لگے۔ ایک دوسرے میں الفت انسیت کا فروغ دینا تھا لیکن انہوں نے مسلک و مشرب اور مذہب ملت کے نام پر ایسی تقسیم شروع کر دی کہ ایک دین اور ملت کے پیروکار ایک دوسرے کے دشمن بن گئے۔
ان جاہل علماء و مشائخ نے اپنے کاروباری دین کی نشر و اشاعت کے لئے خدا اور پیغمبر تک کے استعمال سے پرہیز نہیں کیا۔فرقوں کی تقسیم کے لئے خدا کے رسول سے منسوب ایک روایت ذکر کی جاتی ہے کہ پیغمبر اسلام نے ایک موقعہ پر فرمایا کہ بنی اسرائیل میں 72 فرقے ہوئے تھے لیکن ہماری امت میں 73 فرقے ہوں گے جن میں ایک حق پر ہوگا۔دوسری دلیل قرآن کی ہے کہ خدا نے جب حضرت آدم کو خلیفہ بنانے کا ارادہ فرمایا اور فرشتوں کو اس بابت آگاہ کیا تو فرشتوں نے کہا کہ خدا کریم کیا تو ایسے کو اپنا خلیفہ بنائے گا جو زمین میں فساد اور قتل خوں ریزی کرے گا۔اس کا مطلب یہ ہے کہ ابن آدم کی فطرت میں جھگڑا و فساد ہے۔ لہٰذا فرقہ بندی، انتشار و اختلاف اور جھگڑا فساد تو خدا و رسول کے فرمودات کے حساب سے ہی ہے۔
جب کبھی بھی اور کسی بھی قوم کو اس طرح کے نمونے قیادت کی شکل میں ملے ہیں تو تاریخ گواہ ہے کہ قوم کی تباہی کوئی نہیں روک پایا ہے۔اس قوم کی بربادی کے لئے کسی دوسرے کو کچھ کرنے کی ضرورت نہیں پڑی ہے۔یہ قوم مسلم کی شومئے قسمت ہے کہ اس طرح کے جاہل اس کی قوم کی دین قیادت کر رہے ہیں۔
جب خداکے سامنے فرشتوں نے ابن آدم کی خصلت کا ذکر کیا تو خدا نے فرمایا تھا کہ ائے فرشتوں میں جو جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ اور علم و حکمت کی خوبی نسل آدم میں بطور فطرت ڈال دی کہ اب یہ علم اس فساد اور فتنہ سے بنی آدم کی حفاظت کرے گا۔دنیا کا کوئی بھی مصلح اور محسن ہو یہاں تک کہ عام باپ ہو وہ اپنے بچوں کو نصیحت کرتا ہے کہ میرے بچوں میرے بعد تمہارے درمیاں زر زمین، دولت و شہرت یا اقتدار افتخار کے نام پر جھگڑے ہو سکتے ہیں لیکن تم آپس میں صلح سمجھوتہ کے ساتھ رہنا۔ کچھ بھی ہو جائے آپسی رشتے کو مضبوط رکھنا اور اس اتحاد کو بکھرنے مت دینا۔جب اس طرح کی توقع ایک عام انسان سے کی جاتی ہے تو کیا پیغمبر اسلام سے یہ امید نہیں کی جاسکتی کہ انہوں نے تقسیم امت کی نشان دہی کرتے ہوئے اس سے باز رہنے کی نصیحت نہیں دی ہے۔
سیکڑوں ایسی روایتیں ہے اور درجن بھر ایسی آیتیں ہیں جو امت کی فرقہ وارانہ تقسیم کو مسترد کرتی ہیں۔ لیکن یہ اس قوم کے مذہبی رہنماوں کا قرآن و حدیث پر ظلم ہے کہ قوم کو خدا و رسول کے نام پر بانٹ رہے ہیں۔فرقہ بندی کے جواز کی راہیں تلاش کرنا سراسر ظلم ہے۔حق تو یہ تھا کہ انتشار کے سد باب کے راستے تلاش کئے جاتے۔
آج اتحاد ملت کی ریاکارانہ کوششیں کی جاتی ہیں۔ جہاں پہلے یہ طے کر لیا جاتا ہے کہ ہم جس گروہ یا مسلک سے جڑے ہیں اسی پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہیں گے۔یہ مضبوطی کسی دوسرے کی بات سننے ہی نہیں دیتی۔اپنے علاوہ سب بے کار لگتا ہے۔جو خود سمجھے وہی قرآن واسلام باقی سب خلاف۔دانش مندی و دور اندیشی، حکمت و فلسہ اور علم و ادراک سے پرے کتابوں کے بوجھ تلے دبے نام نہاد رہبران قوم و ملت آج صرف قوم کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔خود ساختہ تحقیق پر مبنی کتابوں کے علم کی روشنی اس قوم کو منزل سے کوسوں دور لے جاتی نظر آرہی ہے۔اگر اس قوم کو وقت رہے اس مجرم قیادت سے آزاد نہ کرا لیا گیا تو وہ دن دور رنہیں جب یہ کاروباری دین رسول کا مکمل بائکاٹ کر دے گا۔ایسے رہنماؤں سے آزادی میں ہی عافیت ہے جو خدا اور رسول کا استعمال کر کے لوگوں کو خدا اور رسول سے دور کرتے ہیں۔
وہ اندھیرا ہی بھلا تھا کہ قدم راہ پے تھے، روشنی لائی ہے منزل سے بہت دور ہمیں۔


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Thursday, November 7, 2019

اسلام کے مبلغ کفر کی تبلیغ کرنے لگےइस्लाम के प्रचारक कुफ्र फैलाने लगेIslamic preachers on the way of anti Islam

اسلام کے مبلغ کفر کی تبلیغ کرنے لگے

عبد المعید ازہری
قوم مسلم میں تکفیر کا بڑھتا چلن قوم کے ساتھ ساتھ اسلام کو بھی سوالوں کے کٹگھرے میں کھڑا کر رہا ہے۔جس طرح سے خدائی فیصلے لینے کا رجحان اس قوم کا مقدر بنتا جا رہا ہے وہ دن دور نہیں جب دین و مذہب سے بیزاری کی شرح میں بڑا ضافہ نظر آنے لگے گا۔دیگر قوموں کے ساتھ ساتھ قوم مسلم کا بھی تعلیم یافتہ طبقہ خود کو مسلم مذہبی نمائندوں سے دور رکھنے میں ہی عافیت محسوس کر رہا ہے کیونکہ ذرا سی انا کو چوٹ لگتے ہیں ایمان کے دروازے بند کر او ر ساتھ ہی کفر و الحاد کے دو چار دروازے کھول دئے جاتے۔کیونکہ ایمان و کفر کے دروازوں کی چابی آج کل انہیں کے پاس معلوم پڑتی ہے۔آج اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ انسانی معاشرے میں دو دین نفاذ پا چکے ہیں ایک خدائی دین جوخاموش ہے ایک ملائی دین جو حشر بپا کئے ہوئے ہے۔خدائی دین کا ماخذ اسلام اور اسلامی تاریخ ہے جس کا مرکز رسول کریم کی ذات و صفات، بیانات و ارشادات اور فرمودات و احکامات ہیں۔اس ملائی دین کا انتساب مسلمانوں کی تاریخ ہے۔ جس میں جنگ و جدال، قتل و قتال، اقتدار و افتخار، خانہ جنگی، رسہ کشی، حکومت و سلطنت، خواہشات و نفسانیات پر مبنی جنگی کارنامے وغیرہ ہیں۔یہی اس دین کا مرکز بھی ہے۔ اس میں اتنی وسعت ہے کہ اپنے اپنے مزاج و موافقت کی سیکڑوں راہیں نکل سکتی ہیں۔اس ملائی دین کا بنیادی جرم یہ ہے کہ اس نے مسلمانوں کی تاریخ کو اسلامی تاریخ بتا کر خدا کے دین میں نفسانی تجارت کی راہیں نکالنے کا ظلم عظیم کیا۔اب اس کے بعد اپنے ہر سیاہ و سفید کی نسبت اسلام، خدا اور اس کے پیغمبر سے کرنا آسان ہو گیا۔یہیں سے مسلمانوں کا زوال شروع ہوا۔ اسلام کی تبلیغ کفر کی نشر و اشاعت میں بدل گئی۔
مسلم حکمرانوں کی تاریخ سیکڑوں سیاہ و سفید مضامین پر مبنی ہے۔خلافت و ملوکیت کی داستان کے بعد بنو امیہ، بنو عباس اور فاطمی دور اقتدار سے ہوتے ہوئے خلافت عثمانیہ کی دردناک تاریخی تباہی کے منظر انسانی روح کو جھنجھوڑتے ہیں۔اگر یہ اسلام ہے تو نہایت ہی خوف ناک ہے۔
اس پورے تاریخی سفر میں ایمان ابو طالب اور کفر یزید بحث و مباحثہ اور مذاکرہ و مناظرہ کا مرکزی موضوع رہا۔بیشتر افراد نے اس پر زبان درازی سے خود کو روک کر خاموشی کو بہتر جانا۔ حالانکہ آگے چل کر اس خاموشی کو بھی استعمال کیا گیا۔اس مسئلہ میں مشترک بات یہ ہے کہ جو لوگ ابو طالب کے ایمان پر زور دیتے ہیں وہی یزید کے کفر پر بھی بضد ہیں۔ اور جو ابو طالب کو کافر ماننے پر مصر ہیں وہی یزید کومومن ہی تسلیم کرتے ہیں۔ابو طالب اور یزید مسلمانوں کی تاریخ کے دوایسے کردار ہیں جو منفرد ہیں۔
اعلان نبوت سے قبل اور اس کے بعد پیغمبر کی ذاتی حفاظت سے لے اسلام کی حفاظت تک کی تاریخ میں ابوطالب کا نام سنہرے لفظوں میں موجود ہے۔ایک طرف کردار ابو طالب ہے جہاں کلمہ شہادت کا بظاہر اعلان نہیں ہے لیکن کلمہ اور صاحب کلمہ کی حفاظت میں اپنی پوری توانائی صرد کر دی۔ قبیلے کے بڑے بڑے سرداروں سے جھگڑے کئے۔زبان،مال اور تلوار ہر چیز سے اسلام کے پیغمبر کی حفاظت کی۔ اس بات کو تسلیم کرتے ہوئے کہ قبیلہ کے دین کے خلاف نئے دین کی تبلیغ ان کے بھتیجے کر رہے ہیں۔دوسری طرف یزید ہے جس نے کلمے کا ظاہری اعلان کر رکھا ہے۔ لیکن اسلام نے جس بھی عمل کو گناہ،حرام اور غیر انسانی قرار دیا تھا یزید نے وہ سارے عمل کئے تھے۔یزید کے کالے کارناموں کی فہرست میں کچھ ایسی کرتوتیں بھی ہیں جن پر عمل آوری سے ایک عام انسان ہزار بار سوچے گا۔
دوسرا مسئلہ صحابہ کی زمرہ بندی کا ہے۔ فتح مکہ سے قبل اور اس کے بعد کے صحابہ میں تفریق کا۔ رسول خدا نے فتح مکہ کے بعد سب کو معاف کرنے کا عام اعلان کر دیا۔ جس کی وجہ سے بہت سارے لوگ ایمان لے آئے۔ حالانکہ ایک عرصہ دراز تک خاندانی مزاج نظر آتا رہا۔ فتح مکہ کے بعد بہت سے ایسے سردار ایمان لائے تھے جو اسلام اور صاحب اسلام کے سخت ترین دشمن تھے۔ سردار تھے۔ خاندانی رئیس اور بااثر و صاحب رسوخ تھے۔ وہیں فتح مکہ سے قبل ایمان لانے والوں میں کچھ ایسے لوگ بھی تھے جن کا رتبہ قبیلہ و خاندان کے اعتبار سے قدرے کم تھا لیکن پیغمبر کی نظر میں ان کا مقام کافی بلند تھا۔ اس لئے کبھی بھی ان کا آپس میں آمنا سامنا ہوتا تھا تو وہ خاندانی رعب و دبدبہ دم بھرنے لگتا تھا۔اس طرح کے واقعات سے مسلمانوں کی تاریخ بھری پڑی ہے۔یہ عرب کی نسلی خصوصیت تھی کہ خاندانی جاہ جلال اورافتخار اعزاز ان کے خون میں تھا۔ یہی وجہ ہے کہ خاندانی جنگوں کا سلسلہ کئی نسلوں تک طویل ہو جاتا تھا۔
آج کا ملائی دین اور اس کے ٹھیکیدار اسی کا شکار ہو گئے ہیں۔صوفیا اور بزرگوں نے ان معاملات میں خاموشی اختیار کی تھی اس کی وجہ صرف اتنی تھی کہ اس پر مذاکرہ اور مناظرہ کرنے سے انتشار کی راہیں مزید وسعت اختیار کر لیں گی۔کسی کے ایمان اور کفر کو تلاش کر کے اس پر چرچا کرنے سے کہیں بہتر ہے کہ اپنے اعمال کی فکر کرو۔ ایمان و فکر کا فیصلہ خدا کو کرنے دو۔کسی کو جبرا مومن یا کافر کرنے کی مجرمانہ ضد ترک کریں۔ تاریخ کے ادنی مطالعے سے کسی بھی آدمی کو یہ فیصلہ کرنے میں آسانی ہوگی اور ایمان و کفر کی علامتوں کو پہچان جائے گا۔رہی بات خاموشی اختیار کرنے والے بزرگوں کے موقف کی تو انہوں نے موقف پر سکوت اختیار نہیں کیا بلکہ اس کے اظہار و اعلان اور چرچا و تذکرہ پر خاموشی اختیار کی تھی تاکہ امت مزید انتشار کا شکار نہ ہو۔ ابو طالب کے کفر اور یزید کے ایمان پر زور دینے جیسے عمل کو دین کا حصہ سمجھنے والے ملائی دین کے ٹھیکیداروں کو یہ بات سمجھنی چاہئے۔جو دین قوم کو منتشر کرتا ہو وہ خدا و رسول کا دین نہیں ہو سکتا۔
دین تو انسانی عظمتوں کی بلندی کی تبلیغ کے لئے تھا۔ امن و سلامتی کی نشر و اشاعت کا پیروکار تھا۔ کب سے یہ دین تکفیر و تذلیل کا ایک پلیٹ فارم بن گیا پتہ ہی نہیں چلا۔ اس ملائی دین نے خدائی دین کو خود تو پس پشت ڈال ہی دیا ہے اس کے ساتھ ہی عام مسلمانوں کو بھی اس سے دور رکھنے کے انتظامات کر لئے ہیں۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@


Friday, October 18, 2019

امام و خطیب نے دین کو کاروبار بنا دیاइमाम और ख़तीब ने दीन को कारोबार बना दिया

امام و خطیب نے مل کر دین کو کاروبار بنا دیا


عبد ا لمعید ازہری
اسلامی نظام حیات و نظم و نسق میں امامت اور خطابت دو سب سے اہم منصب ہیں۔ تبلیغ دین اور قرآنی و نبوی اسلوب زندگی کی تبلیغ کے یہ دو اہم مبلغ ہیں۔محلے کی چھوٹی سی مسجد سے لے کر جامع مسجد اور ملکی سطح کی مرکزی مسجد تک کے اماموں کا انتخاب نہایت ہی ایمانداری و دیانت داری طلب امرہے۔حالات حاضرہ پر باریک نظر، دور اندیشی اور حکمت عملی کے ساتھ زبان و بیان پر مضبوط پکڑ،وقتی تقاضوں سے واقفیت،سیاسی و سماجی آزمائشوں سے نمٹنے کا ہنر، خوش اخلاقی و خوش الہانی سے دلوں پر اثر اندازی کی قوت اور دین کی صحیح سوجھ بوجھ رکھنے والا فرد ہی کسی مسجد کا امام ہو سکتا ہے۔ ورنہ دنیا داری کا سمندر جدید مسائل کے طوفان کی آڑ میں دین کی کشتی کو بڑی آسانی سے غرقآب کر دے گا۔آج کی صورت حال یہ ہے کہ سب بڑی نا اہلی کا خطاب انہیں دونوں شعبوں کو جاتا ہے۔ جس مولوی کو کوئی بھی ڈھنک کا کام نہیں ملتا وہ یا تو امام ہو جاتا ہے یا خطیب ہو جاتا ہے۔اپنی کم علمی اور نا اہلی چھپانے کے لئے فریب کاری کرنے کا عادی ہو جاتا ہے۔ عقیدے گڑھے جاتے ہیں۔ شخصیت پرستی ہونے لگتی ہے۔ قوم میں تفریق و تقسیم شروع ہو جاتی ہے۔راز افشاء ہونے پر ندامت و پشیمانی سے بچنے کے لئے پہلے اپنے حامی تیار کئے جاتے ہیں۔ اس کے لئے ان افراد کے ہر کالے سفید کو شریعت کی بے جا تاویل کی ہری جھنڈی دکھاتے ہیں۔ مسجد کے ممبر سے لے جلسے کے ممبر تک؛ جنہیں یہ ممبر رسول کہتے ہیں، قوم کو جھوٹ سننے اور بولنے کا عادی بنایا جاتا ہے۔ گالی گلوچ، دھوکہ فریب، عیاری مکاری کی کھلے عام تعلیم دی جاتی ہے۔سچ بولنے، سمجھنے والے کو گستاخ بنا کر ذلیل یا خاموش کر دیا جاتا ہے۔
انہیں ممبروں سے قوم کی آنکھوں سے رسول کے دین کی پٹی اتار کر زر پرست علما و مشائخ کے دین کا پٹہ ان کے گلے میں ڈال دیا جاتا ہے۔انہیں ممبروں سے کفر کے فارم بھرے جاتے ہیں اور جنت کا ریزرویشن بھی کیا جاتا ہے۔قرآن و حدیث کی من مانی تاویل و بے جا توضیح بڑی بے باکی سے ہوتی ہے۔ کل تک جرح و تعدیل کے محدثین اور تاریخ نویسوں نے اس بات کا خلاصہ کیا کہ مستشرقین نے ہزاروں کی تعداد میں موضوع حدیثیں گڑھیں اور کتب احادیث میں شامل کردیں۔ لیکن آج تو ان مستشرقین کی ضرورت ہی نہیں۔ یہ کام خود آج کے نئے دین کا امام و خطیب کر لیتا ہے۔ جو خود کو نبیوں کا وارث بھی کہتا پھرتا ہے۔ایک تو قوم کے اندر زیادہ تر اختلافات فروعی ہیں۔ دوسرے جہاں علمی اختلاف کے ساتھ مدلل اور سنجیدہ بحث و مکالمہ سے مسائل حل ہو سکتے ہیں یہ نئے دین کا ایجنٹ اسے عقیدے کی طرح پیش کر کے اس کا اتنا چرچا کرتے ہیں اور اپنے نجی قرآن و حدیث سے ایسی بکواس دلیلیں دیتے ہیں کہ کراہیت کا مسئلہ بھی شرک تک پہنچ جاتا ہے۔یہ بیماری کسی ایک فرقے، گروہ یا جماعت کی نہیں ہے۔ یہ ایک اجتماعی صورت حال ہے۔تبلیغ دین کے نام پر آج کی تجارتی تقریروں نے ممبر رسول کی اس قدر توہین کی ہے کہ بعض مقامات پر تو یہود وکفار کو بھی شرم آ جائے۔ با ضابطہ کھلے عام اسٹیج سے یعنی ممبر رسول سے ماں بہن کی گالیاں دی جاتی ہیں اور اس پر نعرہ تکبیر و رسالت زندہ باد پائندہ باد کی صدائیں بلند ہوتی ہیں۔
ان اماموں اور خطیبوں نے جن مدارس سے تعلیم حاصل کی ہے وہاں کا نصاب تعلیم پچھلی نصف صدی سے تبدیل نہیں ہوا ہے۔ اس نصاب میں حالات حاضرہ کے جدید تقاضوں کا مقابلہ کرنے، ان سے نمٹنے یا انہیں سمجھنے بھر کے لئے بھی کوئی مواد نہیں ہے۔ یہ مدارس قوم کے زکوٰۃ پر قائم کئے گئے ایسے ادارے جہاں قوم کے غریب بچوں کے پیٹ یتیموں کی طرح بھرے جاتے ہیں تاکہ زکوٰتی چندے کی آمد کا سلسلہ جاری رہے اور صاحب مدارس کے عمارتیں بلند اور خوبصورت ہوتی رہیں۔برساتی مینڈکوں کی طرح مدارس کی کثرت نے مدارس کے پاکیزہ نظام کو اس قدر پراگندہ کر دیا ہے کہ اب ان سے گھٹن ہوتی ہے۔آج سے تین سے پانچ صدی قبل جب دور دور تک مدرسے نہیں تھے۔ ملک بھر میں گنتی کے مدرسے ہوتے تھے۔ لیکن دین دنیا کے کونے کونے تک پہنچ گیا۔ ملک بھر میں دو چند عالموں نے دین کی تبلیغ کر دی۔ آج کیا وجہ ہے کہ ہر سال لاکھوں علما مدارس سے فارغ ہوتے ہیں اور دین سے بیزاری، نفرت اور دوری بڑھتی جا رہی ہے۔قوم کا اخلاقی معیار بھی گرتا جا رہا ہے۔دینی اعتبار بھی مجروح ہو رہا ہے۔ جتنے زیادہ مدارس، جتنے زیادہ علما اتنے زیادہ فساد اور اتنے ہی زیادہ فتنے۔کسی بھی طرح کے فتنے پر ذمہ داروں کی خاموشی بھی فتنے کو بڑھاتی ہے۔
مدرسوں سے فارغ ہونے کے بعد روزی روٹی کی تلاش میں علمی نااہلی سامنے آئی تو یا کسی مسجد کا امام بن کر دینی تجارت شروع کردی، یا مقرر بن کر قرآن وحدیث کی فروخت میں لگ گیا۔تیسرا کام یہ ہے کہ مدرسہ کھول لیا۔ ایک ہی گاؤں میں چار مدرسے ہو گئے۔ جھگڑا تو ہونا ہی ہے۔ جو گاؤں ایک مدرسہ پال رہا تھا اس پر چار مدرسوں کی ذمہ داری آ گئی۔رقم بٹ گئی۔ زیادہ رقم کی طلب نے ایک دوسرے کا ایسا حریف بنایا کہ تہمت بازی اور الزام تراشی شروع ہو گئی۔ایک گاؤں ایک مدرسے پر متحد تھا۔ چار مدرسوں نے اسے چار خانوں میں تقسیم کر دیا۔ چونکہ علم نہیں تو تعلیم کے نام پر دھوکہ ہی دے سکتے تھے۔ اس کے علاوہ ان جاہل لوگوں نے عالم بنانے شروع کر دئے۔ایسے ہی آج کئی پشتیں قوم کے بچوں کا عالم بنا رہی ہیں۔مسجد کے امام کا نفس اتنا موٹا ہو گیا کہ وہ مسجد میں پانچ وقت کی نماز کی قیمات پاتا ہے اس لیئے مکتب قائم نہیں کرے گا۔ اصلاح و تربیت کی نشستیں قائم نہیں کرے گا۔
مسجدوں سے مکاتب کا غائب ہونا اور کرانہ کی دکانوں کی طرح مدرسوں کا قائم ہونا قوم کے ذہنوں کو مفلوج کر رہے ہیں۔ذہنی، فکری اپاہج پن سے نجات کا ایک ہی ذریعہ ہے کہ اس قیادت کو جہالت کے اسی پرانے تابوت میں قید کرکے مستقل الوداع کی کیل ٹھونک دی جائے۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, October 7, 2019

نبی کا آخری خطبہ بھی مسترد Last Sermon of Prophet is also rejectedनबी के आख़िरी ख़ुतबे का भी इनकार

نبی کا آخری خطبہ بھی مسترد، ایمان و قوم کا سودا ہو گیا، اب کیا بے چوگے؟

عبد المعید ازہری
آزادی کے بعد سے مسلمانوں کے سیکڑوں قائد و رہنما میں سے اگر دس بھی مسلمان ہوتے تو ساید قوم کی موجودہ صورت حال کچھ الگ ہوتی۔عالم و غیر عالم کے عدم مساوات اور تقسیم کی فخریہ اور طنزیہ تشہیر و نشر و اشاعت تو ہوئی لیکن علم کی بدولت ملنے والے خصوصی وقار و احترام کی اہلیت سے نا واقف نا عاقبت اندیشوں نے خواندگی کو علم سمجھ لیا۔قرآن و اسلام نے جس علم و باعث تعظیم تکریم متعارف کرایا وہ ذمہ داری ہے۔ اصلاح و ارشاد کا ایک عملی منصب و فریضہ ہے۔جس کی اہلیت ہر اس فرد میں نہیں ملی جس نے قرآن و حدیث کی خواندگی بھر سے اعزاز اکرام اپنے نام کرنے کی مجرمانہ کوشش میں لگ گیا۔ پیغمبر اسلام کے اوائل دور میں یہود ونصارا کو اسلام اور پیغمبر اسلام کے خلاف اس لئے بتایا گیا اہل توریت و انجیل کے علما ومشائخ کو یہ بات گوارا نہیں تھی کہ آخری کتاب و رسالت کا علمبردار کسی اور قوم سے ہو۔ لوگ روحانی تسکین کے لئے میری چوکھٹ کی بجائے کسی اور کے گھر و دربار میں حاضری دیں۔ چونکہ اہل عرب علم و روحانیت کے معاملے میں انہیں مذہبی رہبروں اور پیروں فقیروں کے پاس جایا کرتے تھے۔ دوکان داری بند ہونے کے خوف نے انہیں خود اپنے ہی دین کا باغی بنا دیا۔اپنے ہی مذہبی رسائل و کتب میں من موافق توضیح و تشریح کرنے لگے۔ اہل توریت و انجیل کو وہی خدائی ارشادات سنانے لگے جس میں لوگوں کو تعظیم و توقیر اور فرماں برداری کا حکم دیا گیا ہو۔ ان کے راستے سے ہٹ کر جانے والے راستے کو گمرہی اور بے دینی کا اندیشہ لاحق ہونے سے ڈرایا گیا ہو۔
یہی کام آج کی مسلم مذہبی قیادت نے کیا ہے۔افضل البشر سے شروع ہونے والی قیادت خدائی کے دعوے کرنے لگی۔ جنت و جہنم کے جعلی ٹکٹ فروخت کرنے لگی۔کسی پر وحی نازل ہونے لگی۔کوئی خدا رازدار بن گیا۔علم تو ملا لیکن توفیق سے خالی و محروم ہو گئے اس لئے اس علم عنکبوتی نے گمرہی اور گمراہ گری کے کارخانے کھولنے شروع کر دئے۔ ہر گروپ کو اپنا ایجنٹ بنا لیا۔اسلام کے نام پر تفریق و تقسیم کی کسی طرح کی قبولیت کو لیاقت کا درجہ دیا گیا۔ گروہ بندی مجبوری بنا دی گئی۔ اب اگر دوسرا گروہ ہوگا نہیں تو اپنے جرائم کا ٹھیکہ کس کے سر ڈالا جائے گا۔ایک نے اپنے آپ کو حق پر مان کر اسلام کی تقسیم قبول کی تو دوسرے کو باطل مان کر دوسری تقسیم بھی قبول کی۔ حق و باطل کا فیصلہ بھی خود کی صواب دید پر رکھا۔اسلام جو اصلاح اخلاص کے لئے تھا اسے ایک ایسے نئے دین کے طور پر پیش کر دیا گیا جو دنیا کے باقی رائج دین کی تردید محض اور توہین انہدام کے لئے آیا تھا۔اس کے ساتھ ہی اندرونی تقسیم در تقسیم نے مسلمانوں کے اتنے قبلے اور کعبے تعمیر کر دئے کہ کعبے بت بھی محو حیرت ہوں گے کہ اسلام کے بانی نے جس تذکیہ و طہارت کے لئے بتوں کے صنم سے آزاد کیا تھا، ان مسلمانوں نے اپنے خدا کو ہی بتوں میں تقسیم کر دیا۔جس پیغمبر کی بات کو یہود و نصاری اور کفار و مشرکین مکہ بھی تسلیم کرتے تھے، ان مسلمانوں نے ان باتوں کو عمل کے لائق سمجھا ہی نہیں۔ اس پر علمیہ یہ ہے کہ ایمان و ضمیر کے سودے بازی اور قوم کو فروخت کرنے کے مذموم اقدامات کو اسلام و قرآن اور صاحب قرآن و اسلام کی خدمت اور ان کے ناموس کی حفاظت کا نام دیا جاتا ہے۔
آج علم و ارشاد کے دونوں ہی مراکز اپنا دینی اعتبار کھو چکے ہیں۔ البتہ تجارتی شان شوکت زندہ و پائندہ ہے۔جن مدارس کو قال اللہ و قال الرسول کی تعلیم دینا تھا وہ قال الامام اور الفرق پڑھا رہے ہیں۔ جو درگاہیں روحانی تقویت اور تزکیہ کے مرکز تھے انہیں مجاورانہ کردار نے گھیر لیا ہے۔ رات دن لوٹ گھسوٹ، دھوکہ و فریب ہوتا ہے۔
پیغمبر اسلام نے اپنے آخری خطبے میں جن چیزوں کو کرنے کا حکم دیا تھا اسے مسلمانوں نے اپنے اوپر حرام کر لیا ہے۔ اور جن چیزوں سے منع کیا تھا اسے خود پر لازم کر لیا تھا۔جس دن سے تعلیم اور رشد و ہدایت رنگ و نسل، امیر و غریب، اونچ نیچ میں فرق کرنے لگی، رسول کا دین تو اسی دن رخصت ہو گیا۔ باقی تجارتی دین جس کے بھاؤ شیئر مارکیٹ کے حساب سے بڑھتے گرتے رہتے ہیں۔تعلیم و تربیت، رشد ہدایت، دعوت و تبلیغ، خطابت و تدریس اور حمد و نعت و منقبت سب کی قیمتیں طے ہو گئیں۔مدارس کی تجارت اور خانقاہوں کی مجاورت کا کوئی بھی تصور رسول کے اسلام میں نہیں تھا، ہاں آج کے تجارتی اسلام میں ضرور ہے۔
سماجی جرائم سے بھی ہمارے تجارتی دین صفحہ آخر تک بھرا ہے۔ بچوں کی درست تعلیم و تربیت سے لے کر شادی بیاہ اور روزی روزگار ہر جگہ جرم کی کالی سیاہی سے ہمارے کردار رنگے ہوئے ہیں۔پیغمبر اسلام نے اپنی پوری زندگی میں سب سے زیادہ برادرانہ مساوات پر زور دیا۔ ایک طویل لڑائی لڑی۔ رنگ و دولت، نسل و مقام کی بنیاد پر کوئی افضال ابتر نہیں ہے۔ لیکن آج کے اسلام کی تاریخ ایسی ہزاروں کتابوں اور فتووں سے بھری پڑی ہے جس میں مذہب کے آئینے میں ذات برادری کی تفریق کی گئی ہے۔اہل علم نے ایسا کیا ہے۔ جہیز جیسی عام برائی نے ایک سے ایک دیندار کو اپنا گرویدہ بنا رکھا ہے۔ممبر رسول پر چیخ چیخ کر پیغمبر کی حرمت کی قسمیں کھانے والا دیندار رسول کی سنتوں کو ایسے سر عام رسوا کرتا جس کی ہمت ایک عام آدمی نہین کر پاتا، جب ایک پھٹے ہاتھ مزدور مگر آدمی مصافحہ سے محروم ہو جاتا ہے اور حرام اور کالی کرتوں سے کمائی ہوئی دولت مالک برابرمیں صاحب مسند ہوتا ہے۔مدرسے کو رسول کا گھر بنا دیا اس کے بعد اسی گھر کو اسی رسول کے دین کو قتل کرنے کی سازشوں کا مرکز بھی بنا دیا۔رسول کی سنتوں کو زندہ در گور کرنے کا قبرستان بھی بنا دیا۔پیغمبر سے نسبت کی دہائی دے کر تعظیم طلبی کے پیشے نے رسول کی نسبتوں کا سر عام قتل کیا ہے۔
ابن آدم کی حرمت کے صدقے بچی ہوئی انسانی غیر ت کا تقاضہ ہے کہ اب اس مجرمانہ قیادت سے خود کو آزاد کر لیا جائے۔

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Wednesday, October 2, 2019

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

اسلام اور قرآن کو اصل خطرہ آج کے رہبروں سے ہےMuslim Leadership failed to guide Muslims

عبد المعید ازہری

کسی بھی قوم کی تاریخ انسان کے ڈگمگاتے قدم، بہکتی زبان اور بد مست فکری زوال کو آئینہ دکھانے کے لئے کافی ہے۔ آج عالم اسلام جن فکری مسائل سے دو چار ہے اس کے ماضی کے تاریخ میں جھانک کر وجوہات و اسباب تلاش کرنے اور اسی کے مطابق سد باب کے لئے لائحہ عمل طے کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ جب تک ہم مرض اور سبب کی درست شناخت نہیں کر لیتے علاج مشکل سے مشکل تر ہوتا چلا جاتا ہے۔قوم مسلم کی سب سے بڑی ناکامی یہ ہے کہ پچھلے 50 برسوں میں مسلمانوں کے تو ہزاروں قائد ہوئے لیکن کوئی بھی مسلم قائد نہیں ہوا۔ مسلمانوں کی قیادت کا ایک تاریخی تسلسل ہے لیکن کوئی بھی قائد مسلمان ہونے کو تیار نہیں۔موجودہ سیاسی، سماجی اور سیاسی صورت حال یہ ہے کہ ہر محاظ پر مسلم قیادت ناکام ثابت ہو رہے ہی ہے۔موجودہ مول تول، خرید فروخت کی افسوس ناک سیاست سے مسلم قیادت بھی محفوظ نہیں ہو سکی۔ آج کی سیاست میں ڈر، جذبات،فکری معزوری، عملی تساہلی اور تانا شاہی جیسے اثرات نظر آتے ہیں۔ لوگوں میں اتنا ڈر ہے کہ سچ بولنے، سننے اور سمجھنے سے کتراتے ہیں۔ دھرم کے نام پر مذہبی جذبات میں اس قدر اشتعال ہے کہ انسانی نقصان،باہمی ربط و ضبط کا زوال، حقوق کا کھلا استحصال،اور کھلم کھلا بد عنوانی کسی کو نظر نہیں آ رہی ہے۔ ہر کوئی مذہب بچانے کے جھوٹے خواب کو سچ کرنے میں زندگی کی ساری توانائی صرف کر رہا ہے اور روشنی سے دور ہوتا جا رہا ہے۔فکری طور پر عوام بالکل معزور ہو چکی ہے۔ خود اپنے حقوق کے لئے کسی بھی طرح کے عمل سے اپنے آپ کو دور کرنے پر آمادہ ہے۔ جمہوریت بادشاہت کی شکل میں بدلتی جا رہے۔
اب تک کے مسلم سیاسی رہنماؤں نے صرف قوم کا سودا کیا ہے۔ یا تو ان کے پاس قوم کو بیچنے کے علاوہ کوئی اور آپشن نہیں تھا یا اس کے سوا کچھ جانتے نہیں تھے۔ قیادت کی ہوڑ میں ایمان اور ضمیر بیچ دینے کے بعدکالے کارناموں میں خود کو دھکیل دیا۔ بعد میں انہیں کالے کارناموں کی فائلوں نے قوم کی سودے بازی کے علاوہ کوئی اور اختیار نہیں چھوڑا۔اس کے علاوہ سماجی اور مذہبی قیادت نے بھی اسلام کی جمہوری اور اجتماعی فکری نظام کو انفرادی ملوکیت میں تبدیل کر دیا۔آج کا موجودہ اسلام پہلے تو سیکڑوخانوں میں تقسیم ہوا اس کے بعد ہر ایک نے اس میں اپنے موافق ترمیم، حذف و اضافہ کیا۔کسی نے جواز کے تسلسل کو اتنا طویل کیا جواز بے لگام ہو گیا۔صاحب دین جس سے بھی خوش ہوں وہ جائز ہو گیا۔ کسی نے حرام و کفر وشرک کی دکان کو اتنا فروغ دیا کہ اس صاحب شریعت کی محدود فکر و نظر میں جو سما نہیں سکتا اسے حرام، کفر اور شرک ہونا ہی پڑے گا۔اس کے بعد نئے دین کے ان ٹھیکیداروں نے عوام کو مناظر اور مفتی بنا دیا۔چائے خانوں میں، سیلون اور ہوٹلوں میں فتوے فروغ پانے لگے۔ نئے دین کے نئے مولویوں نے بھی اپنی روزی روٹی کا مالک انہیں فتوی باز ٹھیکیداروں کو بنا لیا۔ جس سے فائدہ منسلک ہو اس کے فتوے پر اپنے خود ساختہ شریعت کی مہر لگا دی۔ اس طرح موجودہ مذہبی قیادت قوم مسلم کی فکری، نظریاتی، عملی اور تحریکی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ ہے۔ ورنہ جس قوم اور دین کو وقت کی سب سے بڑی طاقتوں نے مرعوب اور زیر نہ کیا ہو اسے آج اپنے جھوٹے خداؤں نے غرق آب کر دیا ہے۔
مسلم مذہبی قیادت کے اس فکری زوال میں صرف ان خدائی کے دعوے دار مولویوں کا ہاتھ نہیں ہے بلکہ ان اہل علم و دانش، انٹل ایکچوئل اور صاحب و فن و ادب اور اثر ورسوخ کا بھی اہم کردار ہے جنہوں نے اپنی سہولت، عیش و آرام اور عوامی ربط و ضبط کی تگ و دو سے آزاد پر سکون زندگی کو چنا۔ عوامی مسائل کو ان مولویوں کے حوالے کر دیا جو قوم کی نباضی سے بالکل بے خبر ہیں۔آج ان دانشوروں نے اپنا پلا جھاڑنے کے لئے سارا الزام اور قصور انہیں مولویوں کے سر ڈال دیا اور اپنے آپ کو جوابدہی سے بچانے کی مجرمانہ کوشش کرتے پھر رہے ہیں۔ قوم کی موجودہ صورت حال کے لئے سبھی لوگ برابر کے شریک جرم ہیں۔مسلم سیاسی قیادت نے اگر قوم کو بیچا اور مذہبی قیادت نے مذہب کو افیم بناکر خوف اورلالچ کا ذریعہ بناکر خود خدا بننے کی کوشش کی ہے تو ان اہل علم و دانش نے بھی اپنے آپ کو جواب دہی سے بچا کر قوم کے ذلت و تنزلی کی آگ میں پوری طاقت سے جھونکا ہے۔
موجودہ سیاست کی واضح مسلم دشمنی نے انہیں ناکامیوں کا سہارا لیا۔ مزید یہ کہ اگر یہ قیادت مزید برقرار رہی تو بے بسی اور کس مپرسی ایک خطرناک تاریخ موجودہ مسلم قوم سے منسوب کئے جانے میں دیر نہیں لگے گی۔سب سے پہلے موجودہ قیادت کے سرے سے خارج کرنا ہوگا۔ کسی بھی مذہبی اور سیاسی قائد کو یہ حق نہیں ملنا چاہئے کہ وہ قوم کا کسی کے بھی ہاتھوں سودا کرے۔ ایک نئی مخلوط قیادت کو ابھارنا ہوگا جس میں ہر شعبہ کی نماندگی ہو۔نئی نسل کو نئی قیاد ت کے لئے آگے کرنا ہوگا۔سرپرست جنریشن کو درست رہنمائی کے لئے خود کو تیار رکھنا ہوگا۔ سبھی کو کچھ قربانیوں سے گذرنا ہوگا۔ کچھ مسلمات توڑنے ہوگے۔ مذہب اور سیاست کے تانا شاہی تابوط کو توڑنا ہوگا۔ سب کی جواب دہی طے کرنی ہوگی۔سیاست مذہب اور سماج کو کسی بھی بھی ملکیت سے آزاد رکھنا ہوگا۔
ماضی کی تاریخ سے جرموں کا آئینہ سامنے رکھنا ہوگا۔ خدا کے کسی بھی بندے کو خدا بننے کی اجازت پھر سے نہیں ملنی چاہئے۔ خدا کی مخلوق توہین کو خدا کی توہین سمجھنے سے انسانی مساوات کی کھلے عام پامالی روکی جا سکتی ہے ورنہ خدا کا ایک بندہ خدا کے دوسرے بندے کے قدموں میں اپنے سر کو رکھ کر خدا کا حکم اور اس کی عبادت تصور کرے گا۔
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Saturday, February 9, 2019

मोदी अगर क़ातिल है तो मसीहा कौन है?If Modi is Murdere, who is saviour?


मोदी अगर क़ातिल है तो मसीहा कौन है?

अब्दुल मोईदअज़हरी
2019 का लोकसभा चुनाव क़रीब है। लोभ लुभावन कार्यक्रम शीर्ष पर है। आरोप प्रत्यारोप की प्रकिया भी चरम सीमा पर है। व्हाट्स एप कॉलेज और फेसबुक यूनिवर्सिटी विचारों के आदान प्रदान में व्यस्त हैं। इन तीन महीनों में हर गली कूचे में बैठा हुआ बेरोज़गार युवा घर के किसी कोने में बैठ कर मोबाइल की स्क्रीन पर देश की दिशा और दशा पलट रहा होगा। जीत और हार के फैसलों के साथ सियासी रणनीतियों का गहरा अध्ययन करने के पश्चात वफादारी और ग़द्दारी के सर्टिफिकेट भी बाँट रहा होगा। इन तमाम कुलेखनों के सोर्स और माध्यम इस वक़्त देश के दो सब से बड़े विश्व विख्यात और प्रचलित खोज ख़बर के संस्थान व्हाट्स एप और फेसबुक होंगे। देश, समुदाय, भाषा और संस्कृति के अलावा संविधान की रक्षा भी इन्हीं दोनों संस्थानों से सुनिश्चित कराने की जंग होगी। जिस के ताज़ा नमूने हम और आप देख रहे हैं।
हालाँकि धर्म, जाति और समुदाय के नाम पर राजनीति अपने आप में एक कुरीति जिसे बंद होना चाहिए लेकिन अब देश की राजनीति इस की जकड़ में है। यूपी और बिहार इस मामले में उच्च स्थान पर हैं।
मुसलिम समुदाय में आज का गरम मुद्दा यह है कि अगर बीजेपी वापस सत्ता में आ गई तो मुसलमानों को पाकिस्तान भेज दिया जायेगा। संविधान बदल दिया जायेगा और देश को हिन्दू राष्ट्र में बदल दिया जायेगा। इस लिए किसी भी सूरत में देश से भाजपा को हटाने के लिए एकजुट होने की आवश्यकता है। इन सब की ज़िम्मेदारी सब से ज़्यादा मुसलमानों पर है।
बीजेपी, मोदी, और आरएसएस के मुसलमानों के क़ातिल होने की जितनी चर्चा देश में हुई है उतनी चर्चा कभी मुज़फ्फर नगर, केराना, बाबरी मस्जिद, 1984 के सिख नर संहार जैसे अनेकों सांप्रदायिक दंगों की नहीं होती जिन में पिछले 4 सालों में मोब लिंचिंग में क़त्ल किये गए पचासों बे गुनाहों से कहीं ज़्यादा लोग, घर और परिवार जला दिए गए भगा दिया गए। क्यूँ?
हर बेगुनाह का क़त्ल क़त्ल है और हर क़ातिल क़ातिल है इस विचार पर चर्चा क्यूँ नहीं होती?
हर इलेक्शन में मुसलमानों का वोट उन्हें डरा कर लिया जाता है। डर कर डाले गए वोट की कोई कीमत नहीं होती। क्यूँ कि जब किसी पार्टी को यह एहसास हो जाये की उसे वोट देना मुसलमानों की मजबूरी है तो उस के विकास और भागीदारी की बात क्यूँ होगी।
हर चुनाव में इस्लाम ख़तरे में होता और यह ख़तरा पिछले कई दशकों से है। अन्दर की जंग पर तो कोई लगाम नहीं है। एक कलमा, एक खुदा, एक क़ुरान और एक रसूल के मानने वालों का इत्तेहाद किसी भी समाजी व सियासी मामलों में अब तक नहीं हो सका लेकिन इलेक्शन के टाइम पर ज़बानी इस्लाम की हिफाज़त का ज़िम्मा सर पर होता है। अक़ीदा तो यह है कि इज्ज़त, ज़िल्लत, ज़िन्दगी और मौत ख़ुदा के अख्तियार में है लेकिन ….
देश का छोटा से छोटा वर्ग और समुदाय राजनीती में अपनी भागीदारी सुनिश्चित कराने के लिए लड़ाई लड़ रहा है और 20% आबादी वाला समुदाय या तो दीन बचा रहा है ज़बानी जिहाद कर के एक दूसरे का अक़ीदा सही और ग़लत करने में लगा है।
इस वर्चुअल डर से बाहर निकल कर सियासी भागीदारी और सत्ता में हिस्सेदारी के लिए मुसलमान फिक्र मंद कब होगा?
कब तक मोदी क़ातिल नाम पर अपनी वोट की ताक़त को कचरे में डालता रहेगा? अभी तय कर लो। तुम्हें तुम्हारा सियासी अधिकार देने के लिए कौन तैयार है? मोदी अगर क़ातिल है तो मसीहा कौन है?

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@