Thursday, November 2, 2017

The Community Between TOPI and TIEٹائی اور ٹوپی کے تنازع میں پھنسی قوم टोपी और टाई के बिच फँसी क़ौम


ٹائی اور ٹوپی کے تنازع میں پھنسی قوم
عبد المعید ازہری

مسلمانوں کے سیاسی، سماجی و معاشی زوال میں اغیار کی سازش کے علاوہ داخلی انتشار کا بڑا اہم رول ہے۔ اس اندرونی منافرت نے اس قوم کا اخلاقی،زبانی، ادبی اور علمی معیار بھی زمین سے ملا دیا۔داخلی شیرازوں کے شعبوں میں صرف مذہبی خانہ جنگی نہیں ہے۔ شیعہ سنی اور وہابی گروہ میں بٹی یہ قوم آگے اور دس سے زائد جماعتوں میں منقسم ہوجاتی ہے۔ پھر اس کی سماج تقسیم ہوتی ہے۔ذات اور برادری کی تقسیم الگ سے ہے۔ ان سبھی خانوں میں مالی مضبوطی اور سیاسی طاقت کی لکیریں بھی کھیچی جاتی ہیں۔اب ایسے میں جب کہ اس قوم کے پاس دانشوری کے نام پر محض آٹے میں نمک کے برابر افراد ہوں اور وہ بھی اس اندرونی تقسیم حصہ ہونے کے ساتھ ساتھ اس میں برابر کے کارکن بھی ہوں، تو اب اس قوم کی نگہبانی کون کر سکتا ہے۔قوم کی صورت حال یہ ہے کہ وہ ابھی بھی صرف اپنے امام کی سنتی ہے۔ مانتی کتنا ہے یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن چونکہ اسی سے ڈرتی ہے اس لئے اسی کی سنتی ہے۔ دور حاضر میں قوم کے ذمہ دار عہدوں میں سب سے اہم، نازک اور ہمہ جہت ذمہ داریوں پر مشتمل شعبہ امامت کا ہے۔ افسوس کہ یہ شعبہ آج کی تاریخ میں دیگر اہم شعبوں کی طرح وجدان اور حکمت و دانشوری سے خالی ہے۔دوسرا بڑاشعبہ دانشوروں کا ہے۔ جس کے پاس وجدان بھی ہے اور حکمت بھی ہے۔ دنیا اور اس کی سیاست کو دیکھنے، پرکھنے اور اس کے لئے لائحہ عمل تیار کرنے کی صلاحیت بھی ہے۔علم اور تجربہ سب کچھ ہے لیکن اس کے پاس قوم نہیں ہے۔نہ یہ عوام کو جانتے ہیں اور نہ ہی عام آدمی انہیں جانتا ہے۔یعنی جو عوام سے جڑا ہے، اس کے پاس وژن نہیں ہے اور جن کے پاس وژن ہے، ان کے پاس عوام نہیں ہے۔ ان دونوں کی آپسی حالت یہ ہے کہ دونوں ہی ایک دوسرے کے خلاف کفرو ایمان کے نظریے لئے بیٹھے ہیں۔
اہل علم و دانش کے مطابق قوم کا سب سے بگڑا ہوا ذمہ دارطبقہ آج کی مذہبی برادری ہے۔ ان کے پاس جو علم اور تجربہ ہے، ا س کی روشنی میں وہ صحیح ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے سیکڑوں ایسے چندہ خوروں کو ضرور دیکھا ہوگا جو بغیر مسجد و مدرسہ کے چندے کا دھندہ کرتے ہوں۔ یا ۵۰،۶۰، یا ۷۰ فیصد پر چندہ کرتے ہوں۔ ایسے سیکڑوں مدارس دیکھیں ہوں گے جہاں کا علمی معیار اور رویہ نہایت ہی قدیم ہواور آج کے دور کے مطانق وہاں کی قدامت پرستی موافق حال نہ ہو۔اس سے بڑھ کر بھی چیزیں تسلیم کی جاسکتی ہیں۔یقیناًاس طبقہ کے اکثریتی افراد فکری طور پر معزور ہوئے ہیں۔ اس کے پیچھے مختلف و متعدد وجوہات ہو سکتی ہیں۔کچھ مناسب تو کچھ غیر مناسب ہو سکتی ہیں۔لیکن وجدان کا بحران ہے، یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے۔ کیوں کہ یہ سچ ہے کہ کئی مدارس و مساجد ذاتی انانیت اور کم علمی کی وجہ سے جہالت کا مرکز بن چکے ہیں۔اس کے علاوہ اور بھی بہت ساری کمیوں کے باوجود یہ لوگ قوم سے جڑے ہیں۔ ان کے پاس جتنا علم ہے اور جتنی سوچ ہے، اس کے مطابق کام کر رہے ہیں۔کم از کم اتنا تو ہے کہ قوم کو کسی موہوم سی ہی صحیح لیکن امید تو دئے ہوئے ہیں۔ اسی امید کے سہارے قوم آہستہ آہستہ آگے کھسک رہی ہے۔ایک مولوی اگر آسائشیں لیتا ہے۔ چندے کا کاروبار بھی کرتا ہے لیکن ایک وہی ہے جو قوم کی ضرورت پر اس کے ساتھ ہوتا ہے۔لاکھوں روپئے خرچ کرنے کی حالت میں اگر چہ نہیں ہے۔لیکن رات کو بارہ بجے بھی اگر کوئی بیمار پڑتا ہے، تو مولوی صاحب کا دروازہ کھٹکھٹا کر پانی دم کراتا ہے اور مطمئن ہو جاتا ہے کہ وہ شفایاب ہو جائے گا۔بچے کی پیدائش سے لے کر نکاح اور موت تک ایک مولوی کہیں نہ کہیں لگا رہتاہے۔ایک امید قائم کئے رہتا ہے۔
وہیں دوسری طرف دانش ور طبقہ بھی قربانیوں کے معاملے میں پیچھے نہیں رہتا۔ دسیوں برس تک دنیا اور اس کی آسائشوں سے بے نیاز ہوکر کتابوں اور لائبریریوں کو ہی اپنی دنیا بنا لیتاہے۔سارے تعلقات سے رشتے ختم کر کے بس علم ہی اسکی دنیا، رشتہ اور تعلق ہوتا ہے۔بیس برس کے اس مجاہدے کے بعد اسے دنیا کو دیکھنے اور اسے سمجھنے کا نظریہ ملتا ہے۔ان برسوں میں چونکہ سارے رشتے منقطع ہوگئے ہیں۔اس ضروری فکر تک آگہی اور شعوری بے داری کے
لئے یہ سب ضروری تھا۔ اب اس کی عملی نمائش کے لئے ضروری ہے کہ اسی معیار کا انسان ہو جس سے اس طرح کی گفتگو کر سکے۔اس لئے وہ سیمینار کی دنیاسے بندھ گیا۔وہاں کا تو بادشاہ ہے لیکن باہر نکلتے ہی اسے کوئی نہیں جانتا۔قوم کے مزاج کی سمجھ ہے۔ اس کے در پیش مسائل سے آگاہ ہے۔ اس سے نپٹنے کے لئے اس کے پاس حل بھی ہے لیکن معذور ہے۔ قوم تک پہنچانے کے لئے اس کے پاس آواز نہیں ہے۔ وہ آواز مسجد کے امام کے پاس ہے اور دونوں کی ایک دوسرے سے بنتی نہیں ہے۔
حالانکہ اس طرح کی دوریاں اکثر ہر دور میں رہی ہیں۔ لیکن اسے ختم کرنے کے لئے خدا نے قوم مسلم کو ایک اور طبقہ عطا کر رکھا ہے۔ جسے ہم صسوفی، سنت ،فقیر یا درویش کتہے ہیں۔جس کے توکل کا عالم یہ ہوتا تھا کہ رات کو گھڑے کا پانی ختم کر کے سوتے تھے کہ رزق دینے والنے کو ہماری ضرورتوں کی خبرہے۔یہ طبقہ سب کے لئے خاص اور سب میں سب سے مقبول طبقہ تھا۔ اس کاکام ہی یہی تھا کہ مختلف شعبوں کے درمیان بڑھی ہوئی دوریوں کو حکمت و دانائی سے کم کر دینا۔مال داروں کے مال کو غریبوں اور ضرورت مندوں تک پہنچانا اور اہل علم و فکر کے افکار و نظریا ت کو قوم کے مستعد ذمہ داروں تک پہنچانا۔اس سے ہر شعبے میں ہم آہنگی بنی رہتی تھی۔ سارا کام ہوتا تھا۔اس طبقہ پر بھی کسی کی بری نظر پڑ گئی اور یہ بھی ذمہ داریوں سے بھٹک گیا۔
اب صورت ایسی ہے کہ گھر کے سارے افراد، گھر میں کھانے کا سارا سامان ہونے کے باجود بھوک سے مر رہے ہیں کیونکہ سارا سامان بکھرا ہوا ہے۔ کوئی سمیٹنا نہیں چاہتا۔ سب ایک دوسرے پر الزام عائد کرنے پر لگے ہوئے ہیں یہ سب کچھ تمہاری وجہ سے ہے۔ اب یہ سب تسلیم کر لیا جائے کہ یہ سب ہماری طرف سے ہے، تو بھی کیا کیا جائے؟
ہم پلٹ کر پھر وہیںآتے ہیں۔ کسی بھی شعبہ کی اچھائی اور برائی میں اس شعبہ کے سبھی افراد کو شامل مان کر، ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرائے بغیر ہر ایک کو اقدامات کرنا چاہئے۔سبھی شعبوں میں سے کچھ تو ایسے افراد ضرور ہوں گے جنہیں اپنی ذمہ داریوں کا احساس ہو۔ یقیناًابھی بھی اسیے لوگ ہیں۔ بس ان کی نشان دہی کرنے کے بعد انہیں کام شروع کردینے کی ضرورت ہے۔ہر آدمی اگر یہ سوچنے لگے کہ ہمیں ساری دنیا کو بدل کر رکھ دینا ہے تو یہ اس کی بھول ہے۔ اپنی ذمہ داریوں کو اپنے دائرے ادا کرنا اور دوسروں کو متاثر کرتے رہنا یہی بدلاؤ کی شروعات اور اس کی منزل ہے۔شروعات خود سے کرنی ہوگی۔ اگر اپنے آپ کو ذمہ دار مان کر زمینی سطح سے کام شروع کر دیا جائے تو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔اب اگر آج پیڑ لگا کر کل پھل کھانے کی تمناہو تو ایسے خوابوں کا دیکھنا جرم عظیم ہے۔
سیدھا سا فارمولہ ہے۔کسی کے لگائے ہوئے درختوں کے سائے اور اس کے پھلوں کامزہ لینے کے بعد ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کے بدلے میں باغ لگایا جائے تاکہ اس سائے اور پھلوں سے آنے والی نسل مستفید ہو سکے۔اس تنازع کو ختم کرنے کا یہ آسان طریقہ قوم کو مزید بھیانک تباہیوں سے بچا سکتا ہے۔
ایک دوسرے کو طعن و تشنیع کا شکار کرنے کی بجائے ایک دوسرے کی صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر ایک مضبوط لائحہ عمل تیار کرنے کی ضرورت ہے ورنہ اندیشہ تو یہ ہے کہ دونوں ہی طبقے اپنی بساط اور وقار و اہمیت کھو دیں گے۔ جس دن ایسا ہوگا قوم کو اس کی مکمل بربادی سے کوئی نہیں روک سکتا۔ان حالات کے باوجود امیدیں نہ صرف زندہ ہیں بلکہ مدھم مدھم کشاں کشاں روشن بھی ہو رہی ہیں۔مدرسوں سے فارغ ہو کر یونیورسٹی کا رخ کرنے والی نسل پر رواں دور میں بڑی ذمہ داری عائد ہوتی ہے۔ وہ اپنی روایت اور اسلاف کی وراثت سے بھی واقف ہیں اور جدید دور کے تقاضوں سے روزانہ رو بہ رو بھی ہوتے ہیں۔ ایسے میں دونوں ہی شعبوں کو اس نئی نسل کو بڑھا وا دینا چاہئے تاکہ امید کے ان ستاروں کو چاند سورج میں تبدیل کیا جا سکے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com






@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, October 9, 2017

!उर्दू भाषा/पत्रकारिताऔर हमारा कर्तव्यاردو زبان اور صحافت کا گرتا معیار! ذمہ دار کون؟Urud Lanuguage/Media and Our Responsibility


اردو زبان اور صحافت کا گرتا معیار! ذمہ دار کون؟

عبد المعید ازہری




اس بات سے انکار ممکن نہیں کہ کسی بھی زبان کا فروغ در اصل تہذیب و تمدن تاریخ و روایات کا فروغ ہے۔ کسی کے دل و دماغ تک رسائی حاصل کرنے کیلئے زبان ایک ذریعہ اور وسیلہ ہے۔ کسی کے دل تک رسائی کیلئے مہذب انداز، پاکیزہ گفتگو، شیریں اور معنی خیز الفاظ، لہجے میں نرمی اور شائستگی، کے ساتھ حسن اخلاق اور دل کی صفائی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ان اوصاف و آداب کے مجموعہ کو اردو زبان کہتے ہیں۔اردو کی شیریں بیانی اور دل فریبی کے سبھی قائل ہیں۔ اس زبان کے حسن کیلئے یہ کافی ہے کہ اس زبان نے انسانیت اور تہذیب مخالف الفاظ کو اپنے مجموعے میں جگہ نہیں دی یعنی اس میں گالی گلوچ کی گنجائش نہیں ہے۔ یہ اس زبان کی انفرادی حیثیت بھی ہے۔ یہ واحد زبان ہے جس نے گالی دینا نہیں سکھایا۔ دوسری بڑی بات اس زبان کی یہ ہے کہ اس کی تاثیر کا حلقہ مذہب و ملک کی قید سے آزاد رہا ہے۔ ایک صوفی درویش کے گھر کی پروردہ اور تربیت یافتہ زبان انسان اور انسانیت سے محبت کرنے والے ہر شخص کی آواز بن گئی۔ مذہب و برادری کی پرواہ کئے گئے ہر ایک نے اس زبان کو گلے لگایا۔
آج اس زبان کی زبوں حالی نے اس زبان کی تاریخ کو شرم سار کیا ہے۔ کبھی اسے مذہبی تعصب کا نشانہ بنایا گیا تو کبھی علاقائی کم ظرفی کا شکار کیا گیا۔ افسوس اس بات کا نہیں کہ لوگوں نے اس زبان کو نظر انداز کر دیا۔ زبانیں آتی ہیں جاتی ہیں۔ یوں ہی آتی جاتی رہیں گی۔ لوگوں نے زبان کی روح کو مجروح کر دیا۔ زبان کے نام پر تہذیب فنا ہو گئی۔ تمدن لٹ گیا۔ تاریخ و روایات کی روشنی میں تعلیم و تربیت کا سرمایا وراثت سے جاتا رہا۔ اردو زبان کیلئے زبانی جنگ لڑنے والے اور گھڑیالی آنسو بہانے والوں نے زمین و آسمان ایک کردئے۔ سیکڑوں، ہزاروں مظاہرے اور احتجاج ہوئے۔ سودے ہوئے۔ زبان کو نفع و نقصان کے ترازو میں سیاست کے نذر کیا گیا۔ وہی لوگ اس زبان کی آبرو ریزی کرتے رہے، جن کے ہاتھوں میں ریا کاری کے احتجاجی تختے اور زبان پر مکر و فریب سے پر الفاظ تھے۔ اردو زبان کے فروغ کے نام پر ہر ایک فرد اس کی سودے بازی کرتا رہا۔ اس کا واضح ثبوت یہ ہے کہ خود اردو زبان کے کیلئے جہاد کا نام دینے والے دہشت گردوں نے زبانی جمع خرچ کے ذریعے صرف زبان کی بات کہی اس کی تہذیب و تاریخ اور ثقافت و روایت کی بات کوئی بھی نہیں کر رہا ہے۔ اس کی ایک شرم ناک وجہ یہ بھی ہے خود ان خود نما مجاہدوں کو اس کے بارے میں علم نہیں۔ وہ خود اس زبان کی شیرینی اور شائستگی سے نا واقف ہیں۔ جتنے لوگوں کو اس زبان کی زبوں حالی کا درد ہے، اگر وہ خود ہی اپنے محدود حلقوں میں اس زبان کی اہمیت و افادیت پر یقین کرتے ہوئے خود ہی اس کی زندگی کو پروان چڑھاتے تو آج اس زبان کے ہاتھ میں فریادی کشکول نہیں ہوتا۔
دور حاضر میں مسلمانوں کی ذہنی وفکری معذوری میں اس بات کا بھی بڑا رول ہے کہ مسلمان بھی اس زبان سے دور ہو گیا۔ اگر چہ ہم یہ نہیں کہتے کہ اردو مسلمانوں کی زبان ہے لیکن اس حقیقت سے بھی انحراف ممکن نہیں کہ اس زبان اور کی شیرینی نے اسلام سے قربت کے بعد اپنی مقبولیت ، افادیت اور تاثیرمیں اضافہ کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی تہذیب و تعلیم کو بڑی خوبی سے فروغ دینے لگے۔لیکن اس تہذیب کی اسلام سے دوری نے اس قوم کو ذہنی و فکر طور پر لا شعوری کی منزل میں پہنچا دیا۔ کیونکہ اس ترک تہذیب کے بعد اس کا کوئی متبادل تلاش کر سکی۔گزشتہ برس کے 2014 اور 2016کے انتخابات نے اس بات کا واضح ثبوت دے دیا ہے۔ یہ نتیجہ صرف اردو کی وجہ سے یہ تو کہنا مشکل ہے لیکن اس میں اردو کو نظر انداز کرنا بھی شامل ہے یہ بات یقینی ہے۔کیونکہ اردو کو ایک مربی کی حیثیت حاصل ہے۔ ذہن و فکر کی بالیدگی اور شعور کی وارفتگی دوراندیشی اور حکمت عملی کی تعبیروں سے وابستہ ہیں۔ زبان اور ادب انسان کی فکر کے آئینہ دار ہیں۔ ’’نہ تھا دل میں تو آیا کیوں زباں پر‘‘کا مصرعہ بڑے ہی پر تباک انداز میں اس ضابطے کی وضاحت کرتے ہیں۔
اب ایک بڑا سوال یہ ہے کہ مسلمان کیا کرے؟
حالانکہ کہ یہ ایک مستقل موضوع ہے جو وقت طلب کے ساتھ ساتھ فکر طلب بھی ہے۔پچھلے اسمبلی اور پارلیامانی انتخابات کے نتیجے دیکھنے کے دو نظریے ہیں۔ ایک یہ کہ جمہوری نظام کو چیلنج دینے والی طاقت 31فیصد ہندوستانیوں کے ساتھ ملک پر قابض ہیں اور اپنے خوابوں کے شرمندہ تعبیر کر رہے ہیں۔اس کے بر عکس 69فیصد رائے دہندگان اگر چہ اس قابض فکر کے مخالف تھے لیکن وہ اس قدر بکھرے اور الجھے ہوئے تھے کہ ریت کی طرح بکھر گئے۔اس پر تفصیلی گفتگو اور تحریر درکار ہے جو پھر کبھی ہوگی۔
فی الحال اردو کے فروغ میں کوشش کرنے والوں کے دو گروہ ہیں۔ ایک وہ جو احتجاج کے ذریعے کوشش کر رہے ہیں دوسرے وہ اپنے آپ کو مٹا کر اس پر کام کر رہے ہیں۔ یہ وقت کی مار ہی ہے کہ آج اردو جن مسیحاؤں کی وجہ سے زندہ ہے ان کا نام و نشان تک نہیں ہے۔بلکہ انہیں بے وقوف بھی سمجھا جاتا ہے۔اس وقت دو جگہوں اور وجہوں سے اردو نام زندہے۔ایک مدرسہ دوسرا اخبار۔اردو اخباروں نے اپنا وقار اور معیار کھو دیا۔ مدرسوں میں اردو تو لیکن زبان نہیں ہے۔اردو اخباروں میں بس اردو رسم الخط باقی ہے۔ اس زبان کا معیار اس کا اپنا بیانیہ اس کے اصول اس کی اپنی تاثیر سب کچھ تقریبا ختم ہے۔ اردو اخباروں میں صحافتی اخلاقیات تو شاید ڈھونڈنے سے بھی نہ ملے۔ایک اندازے کے مطابق صرف دہلی ہی میں 150 سے زائد اخبار RNIمیں مندرج ہیں۔ جن میں سے بمشکل تمام 20اخبار نکلتے ہیں۔ان میں سے 15سے زیادہ اخباری اپنی غیر جانب داری اور سچ گوئی کھو چکے ہیں۔ کچھ اخبار مذہبی اور مسلکی تعصب کا شکار ہوگئے۔ یہ ان کی مجبوری ہے یا تجارت، کہنامشکل ہے۔ایک اخبار ایسا ہے جو کبھی کبھی یہ احساس دلاتا ہے کہ اردو زندہ ہے۔ صحافت باقی ہے۔ اس تک پہنچے کی کوشش کی۔ اس کا مدیر کوئی نامعلوم شخص نہیں۔ 35برسوں کا صحافتی اور اردو ادب کا تجربہ رکھتا ہے۔اخبار کے معیار اور صحافتی اخلاقیات کی تحفظ کے تئیں اس نے بہت کچھ گنوا دیا ہے۔ اردو دنیا میں اس کا نام دونوں ہی طریقے سے لیا جاتا ہے۔ لیکن شدت سے لوگ ان کا نام لیتے ہیں۔ جنہیں اردو زبان اور صحافت کی پرکھ ہے وہ اس کا نام احترام سے لیتے ہیں۔ جنہیں بس تجارت کر کے پیٹ پالنا ہے وہ تھوڑا تکلیف سے لیتے ہیں۔ ان سے ہوئی گفتگو کے دوران یہ واضح ہوا کہ ان کا یہ اخبار واحد ایسا اخبار ہے جس میں روزانہ 180خبریں چھپتی ہیں۔ پہلے یہ 6صفحات پر مشتمل تھا۔ پر صفحہ پر خبریں۔ اب یہ 8 صفحات کا رنگین اخبار ہے کہ جس کے خبروں کی تعداد 200سے زیادہ ہے۔ اس کی ایک خاص بات یہ بھی ہے کہ اس کا پہلا صفحہ خود 6 سے 8صوبوں کی اہم خبروں پر مشتمل ہونے کے ساتھ اس کی سرخیوں کا جواب نہیں۔ چار لائن کی لیڈ خبر اسی طرح اس کے بعد کی سرخی بھی چار لائنوں پر مشتمل ہوتی ہے۔8صفحات پر مشتمل ہر صفحہ کا نام ق سے شروع ہوتا ہے کیوں کہ اخبار کا نام ’’قاصد‘‘ ہے۔اس کے مدیر جناب اشہر ہاشمی ہیں۔
اس اخبار کی حالت بھی بالکل اردو کی طرح ہے۔ کیونکہ جب اردو بکی نہیں تو اسے توڑ دیا گیا۔ یہ اخبار بکا نہیں تو مفلوک اور مظلوم بنانے کی اپنی ہی اردو برادری نے کوشش کی۔
یہ حال ہے اردو اور اردوبازوں کا۔
اردو صرف زبان نہیں بلکہ حق کی آواز رہی ہے۔ انگریزوں کو اس کی تاثیر کا کافی علم تھا۔ دستی صحافت کی ایک ایک تحریر دل اور کلیجے پر ایسے وار کرتی تھی کہ راتوں کی نیدیں حرام ہو جاتی تھیں۔ آزاد، موہانی اور باقر جیسے اردو کے مسیحاؤں نے اس کی تاثیر کو پہچانا اور اس کا استعمال کیا۔ انہیں اس کی قیمت چکانی پڑی۔ لیکن یہ آواز کبھی دبی نہیں کبھی بکی نہیں۔ اردو کو صرف اردو ہی زندہ کر سکتی۔ یعنی تہذیب، رواداری، محبت اور یکجہتی کی فضائیں جہاں قائم ہوگی، اردووہاں پائی جائے گی۔یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں کے اخلاق و کردا ر کا فطری اور طبعی بیانیہ اسی زبان میں رہا۔اردو، ہندوستان اور تصوف ملک کی اس وراثت کے امین ہیں جس کے لئے ملک پر ساری دنیا رشک کرتی ہوئی نظر آرہی ہے۔ 
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@Gmail.com, Contact: 9582859385



@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@









Tuesday, September 26, 2017

برما کی آگ اور ہمارے ملک کی سیاست،خدا خیر کرے!बर्मा की आग और हमारे देश की राजनीति! खुदा खैर करे Burma & our Politics! God save us all!


برما کی آگ اور ہمارے ملک کی سیاست،خدا خیر کرے!

عبد المعید ازہری

دن ڈھل چکا تھا۔ میں دفتر سے گھر کی طرف واپس آ رہا تھا۔سورج غروب ہو نے کے بعد شفق کی آخری مدھم سی روشنی بکھری ہوئی تھی۔ میں اتنا تھکا ہوا تھا کہ کہیں دور کا شور، چیخ اور آہ فریاد کی صدائیں بھی سن کے کچھ بھی سمجھنے سے قاصر تھا۔جیسے جیسے میں گھر کے قریب ہو رہا تھا آواز بلند ہو رہی تھی۔ قریب کی بستی سے اٹھتا دھواں اور اس میں جلنے کی عجیب سی بدبو سے طبیعت مضطرب ہونے لگی تھی۔ ایک وقت تو ایسا بھی لگا شاید پڑوس ہی میں کہیں آگ لگی ہو۔ اچانک سے میری دل کی دھڑکنین تیز ہو گئیں۔ پچھلے 20دنوں کے منظر ایک ایک کر کے سامنے آنے لگے۔یہ اور بات ہے کہ اکثر حادثات کی منظر کشی موبائل سے ہوئی تھی۔ سوشل میڈیا کے ذریعے آئی لوٹ مار اور قتل و غارت گری نے ایک سے زائد بار جذباتی بنا کر ہلاکت میں اضافہ کر چکے تھے۔ اس کے بعد اس میڈیا نے آج ہمیں اتنا ہراساں کر دیا ہے کہ میں اپنی موت کا انتظار کر رہا ہوں۔اب تک نذر آتش ہونے والے محلوں ، قصبات اور علاقوں کی تعداد بیس سے اوپر ہو چکی ہے۔ یہ وہ فہرست ہے جو اس بار کی قیامت کے ہیں۔ اس سے پہلے کی قیامت کو ہم بھول چکے ہیں۔ان جلی ہوئی بستیوں میں بچوں کے سلگتے جسم، برہنہ عورتوں کے لہولہان بدن، مردوں کے کٹے ہوئے اعضاء اور بزرگوں کا خاک و خون میں مٹتا وجود ہے۔وہ منظر بھی خون بن کر آنکھوں سے بہنے لگا جب ہتھیار بند جتھا قریب کی بستی میں گھسا تھا۔گھر کو بند کر کے اس میں آگ لگا دی گئی۔ زندہ انسان چیختے رہے۔ آگ کے شعلے ان کی چیخوں سے اور بھڑکتے رہے۔جس نے گھر سے بھاگنے کی کوشش کی اسے واپس کاٹ کر اس میں پھینک دیا گیا۔اب میں سمچھ گیا تھا کہ اب تک میں جس حادثے کا انتظار کر رہا تھا شاید وہ وقت قریب آگیا ہے۔ہمت جواب دے چکی تھی۔ہاتھ پاؤں شل ہو گئے تھے۔ایسا لگا سامنے سے بھڑکتے ہوئے شعلے میری طرف لپک رہے ہیں۔ ان شعلوں کے درمیان برچھیاں تلوارویں اور ترشول نظر آرہے تھے۔ ایک سرد سی لہر پورے وجود میں کسی بجلی کی مانند کوند گئی۔ لڑکھڑاکر شاہراہ سے نیچے گر گیا۔
ارد گرد کالی رات کے کسی سنسان علاقے کی مانند خاموش سناٹا تھا۔ پرندوں کی چہچہاہٹ اور کتوں کے بھونکنے کی آوازیں شور کر رہی تھیں۔ انسانی لاشوں کے جلنے کی وجہ سے پوری فضاآلودہ اور پراگندہ ہو چکی تھی۔ صبح نمودار ہونے کو تھی۔پورا جسم کمزرو لگ رہا تھا۔ذرا ساآنکھ کھولنے کی ہمت کی تو ایک بزرگ بغل والی درخت سے ٹیک لگائے ملے۔ ان آنکھوں کے اشک خوشک ہوچکے تھے۔ پتلیوں میں ویرانی صاف جھلک رہی تھی۔میں نے نڈھال سی آواز میں کہادادا یہ سب کیا ہو رہا؟ یہ لوگ ہمارے اور ہمارے مذہب کے پیچھے کیوں پڑے ہوئے ہیں؟ کیا اب سمجھ لیا جائے کہ مسلمانوں کے جینے کاحق نہیں ہے؟یہ بدھسٹ مسلمانوں کے دشمن نہیں کیوں ہیں؟ آخرم ہم نے کیا بگاڑا ہے؟ ہمارا جرم کیا ہے؟ بزرگ کی بیزار آنکھیں یک لخت میری طرف اٹھیں اور کچھ کہتے کہتے رک گئیں۔میرے بارہا جھنجھلاتے ہوئے سوال سے تنک آکر انہوں نے کہا۔یہ بدھسٹ نہیں ہیں۔ میں سنبھل کر بیٹھ گیا۔میں کچھ جواب دینے ہی والا تھا کہ انہوں نے کہا کہ یہ سب کالے سائے ہیں ۔ ان کا کوئی دھرم اور مسلک نہیں ہے۔یہ باغی ہیں۔ یہ باغیانہ فکر صرف اسی قوم میں نہیں ہے بلکہ آج تقریبا ہر مذہب کے پیروکاروں میں یہ فکر تیزی سے پھیل رہی ہے۔یہ وہ فکر ہے جو پوری دنیا کے مذہب کے خلاف کھڑی ہے۔نفس، ہوس، دولت،طاقت،عیش وعشرت اور آزادی کے نشے میں چور یہ فکرپوری دنیامیں ایک مذہب مخالف فکر کو کھڑی کر رہی ہے۔ان سب کے دین اور اس کی فکر کا سب بڑا ذریعہ آج کی سوشل میڈیا ہے۔ آج اس ذرائع سے جڑاہوا ۸۰ فیصد انسان اس ذرائع سے نشر کی جانے والی خبروں کی تصدیق نہیں کرتا۔ یہاں سب کچھ موجود ہوتا ہے۔ دین بھی لوگ یہیں سیکھنے لگے ہیں اور اس سے بغاوت بھی۔اس جال میں آج کا نوجوان پوری طرح گھر چکا ہے۔ وہ ایک ریموٹ کنٹرول کے سہارے ہے۔مجھے اس کی باتیں بور کر رہی تھیں۔ لیکن دل اتنا اچاٹ اور طبیعت اتنی چور ہو چکی تھی کہ تاریک وحشت سے بچنے کیلئے بس کسی کا ساتھ درکار تھا اور وہ بولتا ہوا ساتھ ہو تو زیادہ سکون بخش ہوتا۔انہوں نے کہا یہی فکر پورے عرب کو کھارہی ہے۔پچھلے دس برسوں میں بیس لاکھ سے زیادہ بے گناہ انسان مارا جا چکا ہے۔یہی حال تمہارے ملک ہندوستان پاکستان اور افغانستان کا بھی ہے۔ ایک لمبی اکھڑتی اور کپکپاتی ہوئی سانس لیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ہم نے دیکھا ہے ان بدھسٹوں کو انسانی خدمات کی مثالیں قائم کرتے ہوئے۔انسان تو انسان کسی جانور کو بھی کوئی تکلیف پہنچ جائے تو چیخ اٹھتے تھے۔ لیکن آج وہ سب خاموش ہیں۔ ہو سکتا ہے مجبور ہوں جیسے ہم اس وقت خاموش اور مجبور تھے جب طالبان نے بدھسٹوں کے مذہبی مجسمے گرائے تھے۔ہم کچھ نہ کر سکے اور نہ ہو کچھ کہہ سکے۔پوری دنیا میں دہشت گرد مذہب کے نام پر دشہت گردی پھیلاتے رہے۔سارے مسلم ممالک خاموش رہے۔ ایک ایک کر کے جب وہ خود اس کا شکار ہونے لگے تو پڑوسی خاموش رہا۔ دعوت وتبلیغ کی ساری تنظیمیں خاموش رہیں۔یہاں بھی آئے تھے ہمیں دین سکھانے کے لئے۔ لیکن وہ تو ہمیں کچھ اور ہی سکھا گئے ۔ کچھ نوجوانوں کوبندوق دے گئے۔ آج پوری قوم مظلوم ہے۔مجھ سے رہا نہ گیا میں نے پوچھ لیا کہ آخر یہ سب ہے کیا؟ کس کی کیا دل چسپی ہے؟ عالمی برادری کیوں خاموش ہے؟ میرے ملک کے وزیر اعظم کا دورا بھی ہوا۔ یہ سب کچھ دیکھ کر وہ بھی خاموش رہے۔ ایسا کیا ہے؟ انہوں نے کہا کہ اب صحیح علم تو خدا ہی کو ہے البتہ اتنا تو طے ہے کہ اس برما سے سب کی اپنی اپنی سیاسی دلچسپیاں وابستہ ہیں۔یہاں تک کہ مارنے والوں کو بھی اب مذہبی جذبہ متاثر کئے ہوئے نہیں ہے بلکہ انہیں بھی سیاست استعمال کر رہی ہے۔انہوں نے بڑی گہری نظر میری آنکھوں میں ڈالتے ہوئے کہا کہ آپ کو خلافت عثمانیہ کے زوال کی تاریخ اور ہینفرے کے اقرار نامے کے متعلق کچھ معلومات ہے؟ میں نے غیر یقینی طورپر سر اوپر نیچے کر کے دائیں بائیں بھی ہلادیا۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ ، نے یا یہودیوں نے بانٹو راج کرو کی سیاست کو سب سے پہلے مسلمانوں پر آزمایا۔ کافی محنت کے بعد وہ اس میں کامیاب ہوئے۔ اس کا ایک کامیاب تجربہ افغانستان میں طالبان بنا کر کر چکے ہیں۔ اب جہاں کہیں بھی امریکہ کو جانا ہوتا ہے۔ وہاں دہشت گردی کے حملے اور فرقہ وارانہ فسادات اس محبوب ترین ذریعہ ہے۔ اس کے لئے ماحول سازی میں دعوت و تبلیغ کا بڑھیا استعمال ہوتا ہے۔
اطمئنان سے بیٹھ کر وہ اپنی ہی روانی میں کھو گئے اور لگا کہ کوئی کہانی سنا رہے ہوں۔ انہوں نے کہا کہ کہیں سے کوئی خبر آئی کہ برما میں بھی تیل ملا ہے۔برما کی جگہ ایشیا میں بالکل ایسے ہی ہے جیسے عرب ممالک میں سیریا اور ترکی ہے۔ہر آدمی اپنی جگہ بنانا چاہتا ہے۔کیونکہ برما یعنی میانمار ASEANمتحدہ ممالک میں بڑی اہمیت کا حامل ہے۔ چین اس کا سب سے بڑا حامی اور پیشوا بھی ہے۔ ملیشیا اور تھائی لینڈ سمیت اس اتحاد میں شامل ممالک کی مجموعی آبادی میں بدھ مت کے ماننے والے اکثریت میں ہیں۔اسی بیچ چین کی طرف سے ایک پروجکٹ لانچ ہونے کی خبر بھی سامنے آئی کہ ان ممالک کو جوڑنے کیلئے وہ سمندر سے ایک راستہ بنائے گا۔ اب تو روس اور اسرائیل کے ساتھ امریکہ کی دلچسپی ہونا لازمی ہے۔اس مدعے پر گفتگو پھر کبھی۔
میں جھٹ سے پوچھا کہ یہ سب تو ٹھیک ہے ہمارے ملک ہندوستان کا اس کے کیا تعلق ہے۔ انہوں برجستہ کہا کہ جس ملک میں بھی مذہب کے خلاف باغیانہ فکر موجود ہے،ہر اس ملک کی دلچسپی ہے۔ انہوں نے کہاکہ میں نے سنا ہے کہ مسلمانوں کے ساتھ دلتوں کو بھی وہاں ظلم کا شکار کیا گیا ہے۔ بدھ مت کا آج کے نام نہاد ہندوتو سے بہت پرانا بیر اور دشمنی ہے۔یہ ملک ہند مخالف رہا ہے۔ اب ایسا بھی سننے میں آیا ہے کہ تم لوگ دلت مسلم اتحاد کی بھی باتیں کرنے لگے ہواور کچھ جگہوں پر اس کی طاقت کا مظاہرہ بھی کیا ہے۔یہاں کے دورے اور بدھسٹوں کو ہندوستان میں ملنے والی سہولتیں سب ایک دوسرے سے منسلک ہیں۔چونکہ ہندوستان خود ASEANکا حصہ نہیں ہے۔اس لئے اس نے SAARC بنایا۔اب اگر مسلمان پلٹ کر وار کرتے ہیں، تو دونوں میں کشیدگی پھیلتی ہے۔ تو اس کا سیاسی اثر سب سے پہلے تو یہی ہوگا کہ ان دونوں کے درمیان اتحاد کے امکانات فوری طورپر ختم ہو جائیں گے۔دسرا یہ کہ ہندی چینی بھائی بھائی کا ایک اور راستہ نکل آئے گا۔ انہوں نے ذرا لہجہ بدلتے ہوئے کہا کہ ویسے یوگی جی بھی یہاں آ چکے ہیں۔میں نے ایک گہری سانس لی۔ ابھی سانس پوری طرح چھوڑی بھی نہیں تھی کہ انہوں نے برجستہ کہا کہ اس طرح کے حادثات کے لئے تیار رہو۔ بلکہ اس سے بھی بدتر حالات کا سامنا کرنا ہوگا۔ ہم نے کہا کوئی حل؟ ہنسنے لگے۔ اچانک سنجیدہ ہو کر کہنے لگے حل تو ہے لیکن ذرا مشکل ہے۔ جب تک لوگ سوشل میڈیا سے دین سیکھ کر سوشل میڈیا پر ہی دین کی حفاظت کرتے رہیں گے، جب تک مذہبی نااہلوں کی قیادت تشدد اور انتہا پسندی کے فروغ کا حصہ بنتی رہے گی اور جب تک ہم اپنے پڑوسیوں کے ساتھ بیٹھے اور بین المذاہب گفتگو سے دور ہوتے رہیں گے، ایسی تباہیوں سے کوئی نہیں روک سکتا۔ابھی اس پر میں کسی رد عمل کا اظہار کر پاتا کہ ایک تیز شور قریب ہی سے سنائی دیا ایسا لگا بس سر پر کوئی وار کرنے والا ہے۔ میں نے بزرگ کی طرف دیکھا وہ مسکرا رہے تھے۔ دل کی تیز دھڑکنیں مجھے سنائی دے رہی تھیں۔دھیرے دھیرے ان بزرگ کا چہرہ آنھوں سے دھندلہ ہو رہا تھا لیکن ان کی کہی ہوئی ایک ایک بات کسی نشتر کی طرح چبھ رہی تھیں۔ ایسا لگا میں کسی گھنے اور تاریک جنگل میں پھنس گیا ہوں۔ چاروں طرف سے انجان اور غیر مرئی طاقتیں مجھے اندر سے ڈرا رہی تھیں۔ پسینہ سے پورا جسم طر ہو گیا تھا۔ایک عجیب سے بھنور میں قید ہو گیا۔ وہا ں سے نکلنے کی کوئی سبیل نکلتی نظر نہیں آرہی تھی۔ کسی مدد یا اس طرف سے گزرنے والے شخص کا بے صبری اور شدت سے انتظار کر رہا تھا۔ دوڑتے دوڑتے پر جواب دے گئے۔ ہر بار میں اپنے آپ کو اسی جگہ پاتا۔ تھک ہار کر غش کھاکر اسی درخت سے ٹکراکر اسی بزرگ کی گود میں گر گیا۔آنکھ کھلی تو دیکھا میری باہوں میں ان کا ہاتھ اور اس کی کمر ہے۔ جسم سے دونوں پیر الگ ہیں۔کرتا پورا سرخ ہے۔ آنکھیں بالکل دھنسی ہوئی ہیں۔ خون سوکھ کر کالا پڑ چکا تھا۔ مجھے یہ سمجھنے میں دیر نہ لگی کہ میں عالم بے ہوشی میں اس سے باتیں کر رہا تھا۔کیونکہ ان کا خون ہوئے تو کافی عرصہ ہوئے معلوم ہوتا ہے۔ ذرا سا سنبھالا لے کر گھر کی طرف بے تہاشا بھاگا۔ پوری قوت سے بھاگا۔ لیکن پانچ سو میٹر کا راستہ ختم ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ ایسا لگ رہا تھا کوئی راستہ طویل کر رہا ہے کہ مجھے پکڑے ہوئے ہے اور آگے بڑھنے نہیں دے رہا ہے۔میں زور زور سے چلانے لگا۔پانی کے چھینٹیں منہ پر پڑے تو چاروں طرف میرے دوست مجھے نیم کھلی آنکوں سے مجھے گھور رہے تھے۔ میرا پورا جسم تپ رہا تھا اور پسینے سے تر بتر تھا۔
آنکھیں کھلی تھیں لیکن ابھی بھی پوری طرح ہوش میں نہیں تھا۔مجھے ابھی بھی یاد آ رہا تھا کہ بزرگ کے ساتھ ہوئی گفتگو کے بعد میں آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کے بانی و قومی صدر سید محمد اشرف کے کئی بیانوں کو کھنگال رہا تھا۔ جہاں انہوں نے کہا تھا کہ دوسروں کے گھر کی صفائی کی مہم سے پہلے اپنے گھر کی صفائی ضروری ہے۔ ہمارے مذہب کے نام پر بھی کچھ چند ایک سرپھرے اس مذہب مخالف فکر اور نظریے کا شکار ہو رہے ہیں۔جو فکر تبلیغ کے نام پر اٹھتی ہے اور ایک ظالم طاقت بن کر درگاہوں، خانقاہوں اور امام بارگاہوں تو توڑنے اور مسلمانوں ہی کو قتل کرنے لگتی ہے۔پوری دنیا میں دہشت و وحشت کا کاروبار کرتی ہے۔ جس کی وجہ سے اس کے مخالف ایک فضا قائم کی جاتی ہے۔ یہ فکر مذہبی تشدد پر آمادہ کرنے کے ساتھ رواداری ختم کرنے پر زور دیتے ہیں۔دھیرے دھیرے ایک طویل عرصے سے ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں ساتھ رہنے والوں کے بیچ نفرت یا کم از کم بے زاری کی دیوار کھڑی ہو جاتی ہے۔میرے دوست مسلسل مجھے دیکھے جا رہے تھے۔ انہوں نے مجھے جنجھوڑا۔ میری آنکھیں پوری طرح سے کھل چکی تھیں۔ پورا جسم پسیے سے بھیگا ہوا تھا۔ سب کی سوالیہ نگاہیں میری طرف تھیں۔ میں نے کہا کہ بھائی ایک برا سپنا تھا۔ خدا کرے سچ نہ ہو۔
صبح کے اخبار میں روہنگیا سے جان بچا کر بھاگے مظلوم پناہ گزینوں کے متعلق حکومت وقت کا موقف دیکھ کر حیرانی تو نہیں ہوئی لیکن افسوس ضرور ہوا۔ یہ ہمارے گاندھی، آزاد، نیتا جی اور سردار کے خوابوں کا ملک تو نہیں ہے۔ ہمارے سوامی وویکا نند اور بابا بھیم راؤ کی فکر کے مخالف یہ بیان تھا کہ ان مظلوموں سء ملک کو خطرہ ہے۔انسان کے دل رکھنے والے انسان کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج ہے۔ ملک کے ان مجاہدوں کے خوابوں کا ہندوستان بنائیں یا ملک کو اس ظالم فکر کے حوالے کر دیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Friday, September 15, 2017

برما کی سلگتی آگ اور عالمی سیاست کی دلچسپیاں बर्मा की सुलगती आग पर विश्व की राजनीति Geo Politics on Burma Killing


برما کی سلگتی آگ اور عالمی سیاست کی دلچسپیاں
عبدالمعید ازہری

مذہب کے نام پر ہونے والے مظاہم پر مذہبی نمائندوں اور رہنماؤں کی خاموشی سے مزید انتہا پسندی اور دہشت گردی کے واقعات پیدا ہوتے ہیں۔کیونکہ مذہب کے نام پر تشدد خود اس مذہب سے بغاوت ہے جو اس مذہب کی بنیادی تعلیمات کو چیلنج کرتی ہے۔تعلیمات کی توہین اور روایات کا مزاق اڑاتی ہے۔ ایسے میں اس کے لئے خود اسی مذہب کے ذمہ داروں کو آگے بڑھ کر مذہی افکار ونظریات کے تقدس کی حفاظت کرنی ہوتی ہے۔مذہب کے نام پر مضحکہ خیز بیانات کا سد بات کرنا ہوتا ہے۔اس کے بعد ہی دیگر قومیں یا کوئی دوسرا معاشرہ اس بیماری کے علاج میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔دور حاضر میں مذہب کے نام پر انسانوں کی تباہی ہر مذہب کے ذمہ داروں پران کی اہلیت اور قابلیت کو لے کر ایک بڑا سوال ہے۔دنیا مین نازل یا رائج تما م مذاہب کا بنیادی اور مرکزی تصور انسان کی خدمت اور انسانیت کی حفاظت ہے۔یا تو اس کی تعلیمات کے فروغ میں کہیں کچھ کمی ہے۔ اس کی تبلیغ میں کچھ کجی اور کوتاہی ہے، یا دین سے دور کرنے والے محرکات دین کی طرف راغب کرنے والے کردار سے زیادہ دلچسپ اور دل فریب ہیں۔یہ بھی ممکن ہیکہ دین کے محافظوں نے باغیوں سے سوداکر لیا ہو۔نتیجہ یہ ہے کہ انسان قتل ہو رہا ہے، انسانیت دم توڑ رہی ہے اور خود کو انسان کہنے والا سماج خاموش ہے۔
پاکستان، افغانستان، سیریا،عراق اور شام کی طرح نہ جانے کتنے ممالک اور وہاں کے لاکھوں انسانوں کا مذہب کے نام پر بہا دیا گیا۔ ایک ہی مذہب کے ماننے والوں نے مذہب کی حفاظت کے نام پر دوسرے ہم مذہب کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔یہ سازش بھی ہو سکتی ہے کہ انہیں ورغلایا گیا ہو، ان کے اہل خانہ کو اغوا کیا گیا ہو یا جرم پر آمادہ کرنے والے دیگر اسباب و ذرائع کا استعمال کیا گیا ہو۔ یہاں بھی نتیجہ تو یہی ہے کہ نشانہ لگانے والے اور اس کا ہدف بننے والے کا مذہب ایک ہے۔ پھر تو سوال ہر اس مذہبی اور تبلیغی تنظیم پر ہے کہ آخر ان کی تعلیمات کا اثر کہاں ہو رہا ہے۔ محنت کس پر ہو رہی ہے۔ اس کے کیا نتائج مرتب ہو رہے ہیں۔تبلیغ کا دعوی تو بندوق چلانے والا اور خود کو بم سے اڑانے والا بھی کر رہا ہے۔دنیا کے درجنوں ممالک کی مانند ہمارا ملک بھی مذہبی تشدد زد سے نہیں بچ سکا۔ یا اس ملک میں بھی مذہبی منافرت کی سازش کی گئی اور وہ قدرے کامیاب بھی ہے۔پچھلی دو دہائیوں سے جس قدر مذہبی تشدد کو فروغ ملا ہے۔اس میں عجیب بات یہ رہی ہے کہ تقریبا ہر مذہب کے پیروکاروں میں یکساں طور پر نفرت کو بڑھاوا ملا ہے۔انہیں دہائیوں میں ہندو آتنکواد اور مسلم انتہا پسندی کی اصطلاحوں کو نکسل واد اوار دہشت گردی سے زیادہ فروغ ملا۔ان تمام چیزوں کے پیچھے ایک ہی فکر کار فرما ہو تی ہے۔ وہ ہے جانے انجانے میں خدائی کا دعویٰ کرنا۔ اپنے اپنے خداؤں کی مملک اور ان کی بادشاہی کا انکار کرنا۔ اپنی تکنیکی ترقیوں کے آگے فطرت کی قدرت کا طابع کرنا۔تلخ پر حقیقت ہے۔
1984,92,93,2002 سے لے کر 2017تک کے خونی حادثات پر نظر دوڑائیں تو ایک بات صاف نظر آئی ہے کہ سیاسی اقتدار حاصل کرنے کی ہوڑ میں انسان اپنی فطرت اور دائرے کو بھول گیا۔ ایک دوسرے پر حکومت کرنے کے لئے ایک دوسرے کو قتل کرنا ہی ایک راستہ بنا لیا۔ کسی انجمن کی قیادت کرنا مذہبی تصور تھا۔ اس کے خلاف ان پر حکومت کرنا اس کے خلاف ایک تصور پیدا کیا گیا۔اس کے لئے مذہب کو ٹھکرایا گیا۔ بلکہ اس کا بے استعمال اور استحصال کیا گیا۔ ایسے ایمان فروشوں کی ٹولیاں تیار کی گئیں جن کے دل کبھی بھی مذہبی نہ تھے۔ مادیت کی چکا چوند کے آگے انسانی اقدار کو گھٹیا کرنا ان کا کام ہو گیا۔ ایسا کسی ایک مذہب کے ساتھ نہیں ہوا۔ یہ ایک آفاقی فکر تھی جو ہر معاشرے میں پائی گئی۔ تبھی کہیں ترشول اور کہیں تلوار نے مقابلے کئے۔ ٹوپی اور تلک آمنے سامنے ہوئے۔امن و محبت کی تعلیم دینے والے مذہبی رہنما نفرت پیدا کرنے لگے۔ رواداری کی بجائے معاشرے میں زہر گھولنے لگے۔ حکومت کے سائے میں اس فکر کو پناہ ملتی رہی۔ مذہبی قدار کا زوال ہوتا رہا۔اسلام کی جائے پیدائش عرب اپنی بنیادی مذہبی تعلیمات کا باغی بنا تو سناتن شکشا کا سب سے قدیم گہوارہندوستان اپنے سناتنی اصولوں کی دھجیاں اڑانے لگا۔ جب صحیح علم سے معاشرہ دور کر دیا گیا تو ان کی اپنی مفاد پرست باتیں ہی مذہبی فرمان ہو گئیں۔ایک طرف قرآن کی حفاظت او ر پیغمبر کی عصمت کے بدلے میں خون بہا تو دوسری طرف دیوی دیوتاؤں کے مجسموں پر انسانوں کی بلی دی گئی۔ گائے کے نام پر انسان ذبح کئے جانے لگے۔ ذبح کرنے والے میں سے 99% لوگوں کے بارے میں یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ انہیں خود کو اپنے مذہب کی تعلیمات معلوم نہیں۔ گائے میں عقیدت تو ہے کہ اس کی تاریخ سے نابلد ہیں۔
برما(میانمار) میں انسانیت سوز مظالب کے پیچھے کارفرما مذہبی تشدد کیا اپنی تعلیمات کو بھلا بیٹھی ہے؟ وہاں تو چرند و پرند اور کیڑوں مکوڑوں کو بھی مارنے کی اجازت نہیں۔ مہاتما بدھ کی زندگی کا کوئی بھی گوشہ ایسی کسی بھی سرگرمی کا حصہ کبھی نہیں رہا۔ خیراس میں مذہب کا استعمال ہے۔ اس کا اپنا کوئی کردار نہیں ہے۔میری یہ تحریر بھی شاید کسی بدھ پرست تک نہ پہنچے۔ لیکن آ ج کی ٹکنالوجی کے زمانے امید تو کی جا سکتی ہے۔ حالات برما میں بھی دگرگوں نہیں ہیں۔ طالبان کے ذریعے توڑے گئے بدھ کے مجسموں کا یہ رد عمل تو ہو سکتا ہے۔ لیکن اس رد عمل کو کب تک دہرایا جائے جائے گا۔ کس پر غصہ نکالا جائے گا۔ یوں تو ہر دہشت گردی کو جواز مل جائے گا۔ نکسل وادی ااپنی جگہ درست ہوں گے۔ دہشت گرد بھی غلط نہیں ہوں گے۔ یوں ہی آر ایس ایس، VHP اور گؤ رکشک دل سمیت دیگر انتہا پسند تحریکوں کو بھی جواز ملنا جانا غیر مناسب نہیں ہوگا۔مسئلہ یہ ہے کہ مذہب کے نام پر ہونے والی انتہا پسندی خواہ کسی بھی ملک میں ہو اورکوئی قوم یا مذہب کے پیروکار اس میں ملوث ہوں، باپ کا بدلہ بیٹے سے نہیں لے سکتے۔برما میں ہونے والے مظالم کے پیچھے کوئی چھوٹے موٹے حادثے ذمہ دار نہیں ہیں۔ وہاں جس طرح بدھ بھکشکوں کی اپنے مذہب سے بغاوت ہے وہیں تبلیغی کارستانیاں بھی ہیں۔لیکن یہ سب تو ایک دکھاوا ہے اس کے پیچھے کا بین الاقوامی کھیل کچھ اور ہی ہے۔ ورنہ عراق، افغانستان ، سیریا اور ترکی میں انسانی حقوق کی پاسداری اور حفاظت کے نام پر اقوام متحدہ یا بہ لفظ دیگر امریکہ اور اسرائیل کی دخل اندازی ہو جاتی ہے۔ UNO میں ایک ریژولیوشن یا قرارداد پاس ہے کہ کسی بھی ملک میں انسانی حقوق اور انسانیت کی حفاظت کے تئیں عالمی برادری دخل اندازی کرے گی۔جسے R2P کہتے ہیں۔ یعنی حفاظت کی ذمہ داری۔
ویسے سوال تو یہ بھی ہے کہ امریکہ برما میں کیوں پہنچنا چاہتا ہے؟ چین اور روس کی کیا دلچسپی ہے؟ ہندوستان کا اپنا سیاسی موقف کیا ہے۔ ASEAN میں شامل ممالک میں بدھ مت کی اکثریت ہے۔ چین اس کا سرفہرست حصہ دار ہے۔اس میں ہندوستان نہیں ہے۔ ہندوستان کے پاس اس کے مقابلے میں SAARC ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک کے وزیر اعظم مودی جی اور یو پی کے وزیر اعلی یوگی جی کا دورا اور دونوں ملکوں کے مابین مضبوط رشتوں کے لئے بات چیت ہوئی ہے۔ اس کی کوشش پاکستا ن بھی کر چکا ہے۔ برما کی سو چی کے گلے میں امن کا ہار پہنا کر ان کی خوشامد کی جا چکی ہے۔ امریکہ نے افغانستا ن میں طالبان کا تجربہ کے کسی بھی مسلم ملک یا مسلم بشند ممالک میں داخلہ کا راستا طے کر لیا ہے۔اس کا ایک اور کامیاب تجربہ خلافت عثمانیہ کے زوال میں کیا جا چکا ہے۔برما میں اس کے اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔
یہاں بھی نتیجہ یہی ہے کہ سب کے اپنے اپنے سیاسی مفاد ہیں۔ لیکن مارے جانے والے انسان ہیں۔ مسلمان ہیں۔انسانوں سے ہمدردی رکھنے والے تمام تنظیموں اور انفرادی ذمہ داروں کی تباہ کن خاموشی اس تباہی کی آگ میں گھی ڈالنے سے کم نہیں ہے۔اپنے سیاسی مفاد کے چلتے کسی بھی ملک کے بنیادی اصول انسان او انسانیت کی حفاظت سے روگردانی بھی کسی دہشت گردی سے کم نہیں۔ اس کے ساتھ ہی یہ بھی اہم ہے کہ بدھ مت کے لوگ اپنے مت کے باغیوں نے ہاتھوں سے مذہبی تلوار چھینیں۔ کیونکہ وہ تلوں سرحد پار کچھ سیاہ سفید تلواروں کو مدعو کر رہی ہیں۔کئی دہشت گرد تنظیموں کو برما کی حفاظت کا خیال آرہا ہے۔ اس خیال محض سے روح کانب رہی ہے۔ خدایا کہیں داخلی خانہ جنگی کے آثار تو نہیں ہیں۔ یاپھر برما کا قتم عام کسی جنگ کی تیاری اور یا ورک شاپ تو نہیں۔ جس کے شرارے ملک کے نہ جانے کتنے گوشوں کے جلانے کی طاق میں ہیں۔مدھم ہوا میں مسلسل مہکنے والی ان چنگاریوں کا ارادا نیک معلوم نہیں ہوتا۔ کئی آشیانے شعلوں کی زد میں ہیں۔ اس کے لئے کیا کرنا ہے، اس پر سب کو سوچنا ہوگا، مذہبی منافرت کے خلاف مذہبی ہم آہنگی کو کھڑا ہونا ہوگا۔ سوشل میڈیا کے ذریعے جہاد یا پھر قوم کی کسمپرسی کی ذمہ ادا کرنے والوں کو بھی غور کرنے کی ضرورت ہے کہ اس جانب سے شیئر کیا جانے والی کوئی بھی ویڈیو یا تصویر کتنی سچ ہے اور اس سے کتنا فائدہ یا نقصان ہو سکتا ہے۔ اس کشمکش کے ماحول میں پہلی فرصت میں احتیاط کو لازم پکڑنا اولین ذمہ داری ہوگی۔بچا سکو تو بچا لو ورنہ راکھ میں چنگاریاں سرد ہونے کو بے تاب ہیں۔ خدا کرے یہ خیال محض ہو۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Wednesday, August 30, 2017

The stand of Supreme Court on Triple Talaq तीन तलाक़ पर सुप्रीम कोर्ट का पक्षتین طلاق پر سپریم کورٹ کا موقف


تین طلاق پر سپریم کورٹ کا موقف
عبد المعید ازہری

تین طلاق کو لے کر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس پر مختلف و متعدد سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا اپنے موقف و منشاء کے مطابق رد عمل اس وقت ملک میں ایک غیر ضروری بحث کے ذریعے ملک کے نہایت ہی سنگین اور سنجیدہ مدعوں سے بھٹکائے ہوئے ہے۔اس پر میڈیا کی درباری اور سرکاری زبان نے آگ میں گھی ڈالنے کی وفاداری نبھائی ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کو مزکزی حکومت کی کامیابی، عورتوں کی تاریخی فتح اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کی کامیابی کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کا موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس موقف کی وضاحت ہو چکی ہے۔1937,1950 اور 2002 وغیرہ میں اس موضوع پر بحث وہ چکی ہے۔سچ کہیں تو یہ موقف امت مسلمہ کو ایک کریہہ اضطراب سے بچانے کا حل بھی ہو سکتا ہے۔جس موقف کی کھل کر وضاحت اور اس کی بھرپور تعلیم ہونی چاہئے تھی لیکن معلمین کچھ نااہلی اور کچھ غیر ضروری حکمتوں نے حالات کہاں سے کہاں پہنچا دئے ایسے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم واقعی سوئی ہوئی فکروں کے جگانے کا کام کر سکتا ہے۔ہو سکتا ہے اس کے بعد امت کو باربار ذلت و پشیمانی سے محفوظ کرنے کے لئے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس تین کے قرآن وضاحت کو دور حاضر کی نئی تکنیکی فہم و فراست کے رو بہ رو کرایا جا سکے۔ خیر یہ تو ابھی بعد کی باتیں ہیں لیکن کچھ سیاسی حلقوں میں تو جشن کا ماحول ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی یو پی حکومت کی جانب سے مدرسوں کے لئے جاری کئے گئے ایک فرمان کے بعد تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مدرسوں میں قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانا گانا ضروری ہے۔ حالانکہ یہ کام اہل مدارس برسوں کے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اسے اس میڈیا اور کچھ سرکاری ٹکڑا خوروں نے یہ ثابت کرے کی کوشش کی کہ یہ یو پی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مدرسوں میں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانا گانے پر ان اہل مدارس اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا۔ بھکت تو آخر بھکت ہیں۔ انہوں نے جشن منایا۔ اب میڈیا اس معاملے میں بھلا پیچھے کیسے رہ سکتی ہے۔ اس نے گورکھپور کے معصوموں کی جان پر کوئی توجہ دینے کی بجائے بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے ذریعہ ملک کے جذبات کا سودا کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس سنگین معاملے کو یوں ہی دبا دیا گیا۔ ناکامی کو جھوٹے جشن میں گم کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا کی بھی اپنی ایک دنیا اور کبھی کبھی لگتا ہے اس کا اپنا ایک ملک اور اپنے قوانین ہیں۔ جہاں سچ کے علاوہ سب کچھ ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کے مطابق تین طلاق کو ایک بیٹھک میں دینے پرچھہ ماہ کی پابندی لگائی گئی ہے۔ان چھہ مہینوں میں اس بابت ایک قانون بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت اس سے پہلے اس معاملے میں اپنا حلف نامہ داخل کر چکی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ خود قوم مسلم میں بھی برسوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اب شاید یہ قوم اور اس کے ذمہ دار اس حساس اور سنجیدہ مسئلے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں۔اس معاملے میں جملہ احناف کا اگرچہ متفقہ موقف ایک بیٹھک میں تین طلاق کے واقع ہونے کا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک متفق علیہ رائے ہے کہ یہ عمل ناجائز، حرام یا کم سے کم باعث گناہ ہے۔ طلاق بذات خود ایک ایسا جائز عمل ہے جو رب کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے۔اس حوالے سے عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ہی صورتوں کا عملی وقوع تاریخ میں ملتا ہے۔اس کے ساتھ ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کوسزائیں بھی دی گئی ہیں۔ اب اگر حکومت اس معاملے میں ایک ساتھ تین طلاق دینے والے کے لئے کوئی سزا تجویز کرتی ہے تو شاید اب بات کو خود مسلم ذمہ دار محسوس کر رہے تھے۔ جبکہ ایک ساتھ تین طلاق کے نفاذ کا کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں ہے۔وہ شریعت کے اعتبار سے نافظ ہوگا۔کیونکہ سزا کا تصور ہی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک بیٹھک میں دی گئی تین طلاق واقع ہو جانے کی وجہ سے چونکہ عورت نکاح
اور مرد کی ذمہ داری سے نکل گئی اس لئے مرد پر سزا لازم ہے۔
کورٹ نے اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا فیصلہ لیا ہے۔ پرسنل لاء میں جبری اور غیر قانونی دخل اندازی کو سرے سے خارج کر دیا اورہر ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جن کے ذریعہ آنے والے اگلے دو برسوں کی سیاست کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ناکام ہو گئی۔در اصل طلاق کبھی بھی اس ملک کا اہم اور سنجیدہ مدعیٰ تھا ہی نہیں۔ اس کی شروعات ملک کے وزیر اعظم ملک کی مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کے لئے شروع کرتے ہیں لیکن کیا واقعی وہ ایسا چاہتے بھی ہیں، یہ سبھی نے دیکھ لیا ہے۔ خود انہیں کی ریاست کی مسلم عورت ذکیہ جعفری اب تک انصاف مانگ رہی ہے۔ نجیب، منہاج، اخلاق، پہلے خان جیسے سیکڑوں کے اہل خانہ کی نگاہیں انصاف دیکھنے کی آس میں سوکھی جا رہی ہیں۔ گجرات معاملے سے لے کر مظفر نگر، اجمیر اور مالے گاؤں جیسے سیکڑوں حادثات کی چپیٹ سے جوجھتی مسلم عورتوں کا درد نہ تو دکھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی وہ معنیٰ رکھتا ہے۔ مسلم عورتوں کے بہتری کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کی نہ صرف تائید ہوتی بلکہ اس میں ہر ممکن تعاون بھی ہوتا اگر واقعی ملک کا مکھیا یہی کرنا چاہتا۔ ان مسلم ماں بہنوں کے اوپر ظلم کی ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ ہے ایک بیٹھک میں تین طلاق۔ جب کہ زخموں کے نہا خانوں میں اور بھی درد ہیں جو رونے بھی نہیں دیتے ہیں۔جہاں تک طلاق کی وجہ سے بے گھر ہونے والی عورتوں کا سوال ہے تو اس کا فیصد جو اب تک نکالا گیا ہے اس میں تین گنا سے زیادہ فیصد غیر مسلم عورتوں کا ہے جنہیں گھر سے بے گھر کر دیا گیا ہے۔کیا کوئی قانون اس پر بھی بنانے کی بات ہوگی؟
در اصل 2014کی مرکزی حکومت ہو یا 2016 کی یوپی کی ریاستی حکومت دونوں کی واضح اکثریت نے دل اور دماغ کا توازن ختم کر دیا۔ دونوں ہی سرکاریں ایک طویل مدت کے بعد اقتدار میں آئی ہیں اس لئے ہڑبڑاہٹ میں ایسے کام کرنے لگیں جو خود اپنی ہی حکومت اور اس کے منشور کے خلاف ہونے لگا۔ یو پی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ نے ساری اہلیت اور قابلیت کو صاف کر دیا کہ اس سرکار کے پاس بھی مذہب کی سیاست کے علاوہ کچھ اور کرنے کو نہیں ہے۔اس لئے اس نے بھی اپنی ساری طاقت ناموں کی تبدیلی اور گایوں کی حفاظت میں جھونک دی۔ یو پی کے دس سے زائد ضلعے باڑھ کی چپیٹ میں آگئے، سیکڑوں بے گھر ہو گئے اور اموات کا بھی شمار سو کو پہنچنے والا ہے۔ گائے کی حفاظت کے لئے انسانوں کا سر عام خون حلا ل کر دیا گیا۔
سیاست کی خونی پیاس یہاں بھی نہ بجھی 60سے زیادہ معصوموں کی موت پر خاموشی، مضحکہ خیز بلکہ توہین آمیز بیان دے کر بجھائی گئی۔لگاتار دو ٹرین حادثوں کی وجہ سے ہونے والی بیسوں اموات اور سیکڑوں کے زخموں نے جب آواز لگائی اور ادھر اجمیر بلاسٹ کے اہم ملزم کو جب ضمانت مل گئی اور لگا کہ پردا فاش ہو جائے گا تو سارا زور طلاق پر دے دیا گیا۔انسانی اموات کا سلسلہ چلتا رہا۔ میڈیا میں اس بات پر بحث جاری رہی کہ مدرسے قومی پرچم لہراکر اور قومی ترانہ گا کر اپنی وطن پرستی کا ثبوت دیں گے۔ مسلم عورتوں کے تین طلاق سے طلاق دلانا ہی اس سرکار کا اولین ترین مقصد ہے۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس حکومت نے یہ ایک آسان راہ نکالی کہ میڈیا کے ذریعے اسے ایک مشتعل کن مسئلہ بنا دیا۔
یہ اس وقت کی سیاست کی نااہلی ہے یا بد عنوانی ہے کہ ہر بڑے حادثے کومذہبی جذبات اور انسانی خون سے دھو دیا جاتا ہے۔2014 سے2017اس سرکار کی جانب سے سرمایا داروں کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر مذہبی لیبا پوتی ہوتی رہی۔ بے روزگاری اور بدعنوانی ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں اس حکومت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ آج حکومتیں صرف بدعنوانی ہی کے لئے بنائی جاتی ہیں۔51فیصد FDIکی مخالفت کرنے والی حذب مخالف جماعت نے اقتدار میں آتے ہی 100فیصد FDIکو منظور کردیا۔ جب تک اقتدار سے باہر تھے GSTکا بائکاٹ کرتے رہے ، اقتدار میں آتے ہی بڑی چالاکی سے پاس کر دیا۔ نوٹ بندی بھی جاری کر دی اور نہ جانے کتنے ہزار کروڑ اس ادلا بدلی کا شکار ہوکر ملک کے غریب طبقے کو اور غریب کرنے اور کسانوں کو خودکشی پر آمادہ کر گئے۔ آخر یہ لاکھوں کروڑ کے گھوٹالے ایک نہیں ہزاروں اسکیم اس ملک کو کہاں لے جار ہے ہیں۔ لیکن ہماری عوام ابھی بھی اسی میں الجھی ہے کہ یو پی میں رہنا ے تو یوگی یوگی کہنا ہے اور بھارت میں رہنا ہے تو مودی مودی کہنا ہے۔
اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو بول سکتا پر خاموش ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Saturday, August 26, 2017

کیا یہ میڈیا کی وطن پرستی پر سوال نہیں؟Is it not a question on Media?क्या यह मीडिया की देश भक्ति पर प्रश्न चिन्ह नहीं है?


کیا یہ میڈیا کی وطن پرستی پر سوال نہیں؟

عبد المعید ازہری

جس طرح سے میڈیا اپنے اخلاق کا گلا گھونٹ کر ملک کو اخلاقی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے، وہ اس مصداق پر پوری طرح کھری اتر رہی ہے کہ’’ ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔میڈیا کا گرتا معیار آج گرتی سرکاروں سے زیادہ بکاؤ ہوتا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کی آزادی اور خود مختاری کے طوفان نے میڈیا اور سیاست کے دل و دماغ کو ایک ساتھ معزور و معزول کر دیا ہے۔آج کا میڈیا دہشت اور نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک زمانے میں میڈیا کو جمہوریت کا ستون کا کہا جاتا ہے۔آج بھی ستون ہی ہے لیکن سب سے پہلے گرنے اور بکنے والاستون۔اس ملک کے لئے میڈیا کی بھی بڑی قربانیاں رہی ہیں لیکن آج کے غدار اور کاروباری میڈیا والوں نے ان قربان ہونے والوں کی روحوں کو پھر سے مارنے کا کام کیا ہے۔ حق گوئی اور بے باکی، سچ بولنے، دکھانے اور اسے ثابت کرنے کا سارا جذبہ چمچا گیری کی نذر ہو گیا۔ آج جب بھی اخبار اور ٹی وی دیکھو تو ڈر لگتا ہے۔ نہ جانے اب کس خبر سے دہشت پیدا کر دی جائے۔ ایک داعش اور اس کی ہم فکر تنظیمیں دہشت کا کاروبار کر رہی ہیں۔ دوسری ہمارے ملک کی مخصوص بھیڑ ڈر کا کاروبار کر ہی ہے۔ بیچ چوراہے پر کسی کو بھی مار کر اس کی ویڈیو بناکر اسے خود شیئر کر کے ملک کے آئین اس کے دستور اور اس کے جمہوری نظاموں کو چیلنج دے کر انصاف اور قانون کا خون کر رہے ہیں ۔ وہیں میڈیا بھی ان کا آلہ کار بن کر اس کاروبارکو فروغ دینے کا کام کر رہی ہے۔لوگوں کو اطراف اکناف کی ضروری تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی بجائے ان پر خوف طاری کر رہی ہے۔ اس کے بعد اس خوف کے ازالہ کے لئے کاروباری دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ڈر کا کوروبار ایسا ہے جس میں نقصان نہیں ہوتا ہے۔
میڈیا کے اس ڈوبتے سورج کی کبھی صبح امید اور جوش کی تپش اور جنون کی گرمی بھی ہوا کرتی تھی جس میں نہ جانے کتنی باطل اور مجرم طاقتوں کی کالی بدلیاں کسی نا معلوم کونوں میں دبک جاتی تھیں۔ انصاف کے جب سارے دروازے بند ہو جاتے تھے تو یہی ایک دروازہ تھا جس نے کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ سیاسی رہنماؤں کی طرح اس شعبہ نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جو تاریخ میں زندہ ہیں اور انہیں کی وجہ سے آج کی صحافت کی آبروزندہ ہے ورنہ آج کے کاروباری اور بکاؤ صحافیوں نے تو اس کا گلا تقریبا گھونٹ ہی دیاہے۔ایک سچا صحافی اپنے آپ میں ایک انصاف بلکہ ایک انقلاب ہوتا ہے۔ ملک کے ذمہ داروں میں اس کا شمارہوتا ہے۔ جس طرح ملک کا مستقبل سیاسی،سماجی اور قانونی رہنماء طے کرتے ہیں اسی طرح اس میں ایک حصہ میڈیا کا بھی ہوتا ہے لیکن آج بد عنوانی کی آندھی میں یہ ستون بھی گر چکا ہے۔
آج اخبار میں کیا آنا ہے اور ٹی وی میں کیا دکھایا جانا ہے یہ سب بند کمرے کی سیاست طے کرتی ہے۔قومی سطح پر کس کو کہاں کیا اور کیسا مقام دینا ہے یہ سب طے شدہ ہوتا ہے۔ایک سینئر صحافی کے ۵۰ سالہ صحافتی تجربہ کے مطابق ملک میں رونما ہونے والے بڑے حادثات جیسے دنگے، فرقہ وارانہ فسادات،سر عام کسی کا قتل یا پھر انکاؤنٹر یہ سب پہلے سے طے ہوتا ہے۔ان تمام چیزوں سے پرے میڈیا کا اپنا ایک اصول ہے کہ وہ اپنی خبروں سے معاشرے میں ڈر پیدا نہیں کر سکتی۔ اسے ہر حال میں لوگوں میں ہمت اور امیدبنائے رکھنا ہوتا ہے۔ آج کی میڈیا میں بالکل اس کے مخالف کام ہو رہا ہے۔کسی کو بھی مجرم یا دہشت گرد کہنا تو اس کا یومیہ مشق ہو گیا ہے۔ اس کا جرم ہے بھی کہ نہیں، عدالت اورقانون اسے کیا کہتا ہے ان سب چیزوں کی پرواہ کئے بغیر ہمارے صاحب کیاکہتے ہیں اس کی پرواہ کی جاتی ہے۔ہر روز اپنا نیا ساتھی یا پھر ساتھ کے لئے ہر روز بکنے والا معیار ہو گیا ہے۔ اس کا یہ معیار خود اس میڈیانے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ آج کی میڈیا محض کاروبار ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ میڈیا کاروبار اور پیسہ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جی حضوری کے چکر میں ملک کی عظمت اور اس کے وقار کو بھی خاک میں ملا سکتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ حال ہی میں ہوا ہے۔
TRP، سنسنی اور سب سے پہلے خبر دینے کی ہوڑ نے سب کے ہوش اڑادئے جب یہ خبر میڈیامیں عام ہوئی کہ’’ ملک کے پاس ہتھیار کم ہیں‘‘۔جنگ کی صورت میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مطلب ہم کمزور ہیں۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کے سوالات نہایت ہی خطرناک ہیں۔ سب سے پہلا سوال کہ ’ہمارے ملک میں کتنا ہتھیار ہے‘ یہ خبر ایسے ہی میڈیا میں کیسے آگئی؟یہ خبر چھاپنے یا دکھانے سے پہلے میڈیا نے کیوں نہیں سوچا کہ اس کا کیا رد عمل یا پس منظر و پیش منظر ہو سکتا ہے۔اس خبر کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک پر کیااثر پڑے گا۔ اس خبر سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟یہ سب بڑے ہی ڈرامائی اور فلمی انداز میں ہوا۔ چین کی جانب سے ملک کے خلاف بڑھتے اقدامات کے جواب میں کئی ممالک کی حمایت کی خبریں آتی ہیں۔ چینی سامان کے بائکاٹ کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے۔ ہند و چین کے روزانہ بگڑتے حالات کی خبریں بھی آئی ہیں۔اچانک خبر آئی ہے کہ ہمارے پاس تو ہتھیار ہی نہیں ہیں۔سرجیکل اسٹرائک سے لے کر اب تک جس طرح سے ہماری فوج کا سیاسی استعمال اور قدرے استحصال ہوا وہ شاید ملک کی تاریخ میں ایک نمایاں باب ہو۔اس خبر نے جہاں ملک کو ایک طرف کشمکش میں ڈال دیا ہے وہیں دوسری طرف ایک بڑے خدشے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اب جب ملک میں ہتھیار کم ہیں۔ اس پر پاکستان اور چین کی طرف سے مسلسل دست درازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس لئے بھاری مقدارمیں اسلحہ اور ہتھیار کی خریداری ہونی ہے۔ کچھ دن قبل فوجی ٹرک کی خریداری اور اس سے جڑے کچھ خلاصے سامنے آئے تھے۔ اس خریداری میں جس قدر گھوٹالہ اور اسکیم کامعاملہ سامنے آیا تھا کیا یہ اس سے بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔یہ پانچ گھنٹے کی فلم میں ہر آدھے گھنٹے ،بیس منٹ، اور ایک گھنٹے میں جو سسپینس اور ٹویسٹ آرہے ہیں، وہ برے مہلک ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی تو دو گھنٹے کی فلم باقی بھی ہے۔ اس پر مزید یہ ہے کہ اگلے پانچ گھنٹے کی اس فلم کی دوسری سیریز بھی تقریبا تیار نظر آتی ہے۔کیونکہ تقریبا سارے پروڈکشن ہاؤس بند پڑے ہیں کہیں کوئی شوٹنگ چل ہی نہیں رہی ہے اور جس طرح سے یہ مسالہ فلم چل رہی ہے ایسا لگتا ہے کئی ریکارڑ توڑ کر ہی دم لے گی۔
ملک کی داخلی صورت حال وہ بھی سیکیورٹی سے متعلق خبریں نشر کرنا اور وہ بھی اتنی غیر ذمہ دارانہ طورمیڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ اس سلسلے میں یہ عقدہ کشائی ایک طرف کہ آخر یہ خبر میڈیا میں آئی کیسے۔ اس کا سرجکل، نوٹ بندی،کشمیر، امرناتھ، GST ،صدر جمہوریہ کا الیکشن یا بہارکی سرکار اور سی بی آئی کے چھاپوں سے تو ہو سکتا ہے کوئی لینا دینا نہ ہو لیکن آج سیاست کی گھٹی میں شامل بد عنوانی کو تو کافی بڑا راستہ مل گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر حکومتوں کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔اس انتہا پسند بھیڑ کا کیا رد عمل ہوتا جو ملک میں کھانا، کپڑا، کاروبار، کہنا سننا اور بولنا طے کرتے ہیں۔ جو ملک کی وفاداری کا ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں۔ اب وہ اس بات کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔احتجاجی پیشہ وروں کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک قابل غور امر ہے۔سوشل میڈیا کے کرانتی کاری بھی اب تک خاموش ہیں۔ یا تو انہیں اب تک بتایا نہیں گیا یا رموٹ آن نہیں کیا گیا۔اب ایسی صورت حال میں اس قدر خاموشی ذہنی و اخلاقی طورپر موت کے ساتھ ساتھ وطن پرستی کی امید کے دم مرگ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی میڈیا کی سفاکیت ہے کہ سیمانچل کے سیلاب زدگان، گورکھپور کے معصوم بچوں کی اموات، دو ٹرینوں کے حادثے اور کرنل پروہت کی ضمانت کو دباکر سپریم کورٹ کے تین طلاق کے فیصلے اور وطن پرستی کے تئین بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم پر سارا زور لگا رہی ہے۔ اس میڈیا کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کسی طرح سے یوپی حکومت کی چمچہ گیری کو ثابت کرنے کیلئے یہ ثابت کر دیں یوپی کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یوگی سرکار کے فرمان کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مدرسوں میں ترنگا پھہرایا اب ناگپور میں کیا ہوا اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ مودی حکومت نے مسلم عورتوں کے حق کے لئے ملک کو لاکھوں نوجوانوں کے روزگار، کسانوں کی خودکشیوں اور عورتوں کی آبروریزی کے سنجیدہ معاملا ت کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یہ سب بس چند ٹکڑوں کے لئے ہوا۔
یہ خالص ملک، اس کی حفاظت، اس کے وقار اور داخلی پالیسی کا مسئلہ ہے۔لیکن وطن پرستی کی یہ خاموشی واقعی حیران کرنے والی ہے۔
جس طرح سے محض افواہ میں بے گناہوں کا قتل کر کے ملک کی حفاظت کا دعوی کرنے والی دہشت پسند بھیڑ نے ملک کے وقار کے تئیں اپنے خون کی قربانی دینے کے دعوے کئے ہیں کیا وہ لوگ اب اس میڈیا اور اس خبر کے نشر کرنے والوں کے ذمہ داروں سے اس متعلق سوال کریں گے۔ حکومت خاموش ہے۔ قانون چپ ہے۔ وفاداری کے سارے دعوے دار بے زبان ہیں۔کھلے عام ملک کے وقار کی توہین کی گئی ۔ذمہ دار کون ہے، محاسب کون ہے اور حساب کون دے گا؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
follow me:


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, August 21, 2017

بھارت ماتا کی جئے Victory to Indiaभारत माता की जय


"بھارت ماتا کی جئے"
عبد المعید ازہری

ملک میں مختلف تہذیبیں اور متعدد زبانیں ہیں۔ ہر تہذیب و زبان نے وطن پرستی کے گیت گائے ہیں۔ یہی اس ملک کی شان رہی ہے۔کوئی چھوٹا سے چھوٹا قبیلہ اور بڑی سے بڑی آبادی وطن پرستی کے نعروں سے خالی نہیں رہی۔ کسی نے ’’وجئی وشو ترنگا پیارا‘‘ گایا تو کسی نے ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گایا‘‘۔ گویا اس ملک میں بسنے والی ہر تہذیب و زبان اور اس میں پرورش پانے والے ہر بچے کو اپنی تہذیب وزبان میں وطن پرستی کے نعرے، گانے اور ترانے نہ صرف یاد ہیں بلکہ جوش میں وہ گنگنائے بھی جاتے ہیں۔ایسا شاید اس لئے ہوا کہ چونکہ ملک کا جغرافیائی حال دیکھیں تو ہر دس میل پر بولی اور لہجہ بدل جاتا ہے اور سو میل پر زبان تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب اتنے طویل و عریض ملک میں جہاں لو گ ایک دوسرے کے زبان و بیان سے واقف نہیں ہیں لیکن وطن سب کا ایک ہے۔ اس کی محبت یکساں ہیں۔ اب اس کے لئے احسا س تو ایک ہے لیکن زبان و بیان میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ دل کے احساس کے ساتھ اس ملک سے محبت کا اظہار اور عقیدت بیان ہو سکے۔ ایسا ہوا بھی اور اب تک ہو بھی رہا ہے۔
اس یکجہتی میں بغاوت کی شروعات یا پھر اس کا علان اسی وقت ہو گیا تھا جب مجاہدین آزادی کی تاریخیں بدلی گئیں۔ مہاتما گاندھی کے قاتل کو دیوتا تصورکیا گیااور ایک سے زائد مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو شک و شبہات کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ وہیں سے وطن پرستی کا ایک ٹیسٹ پیپر بھی چھاپا گیا۔ جس میں پاس ہونا ضروری ہے۔اس پیپر کی خلاف ورزی ملک کی خلاف ورزی تصور کیا گیا۔ وطن پرستی کے اظہار کو مخصوص زبان و بیان اور اس کے نعرے، گانے اور ترانے کی بولی کو مخصوص کیا گیا۔یہ المیہ تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب بند کمرے میں اے سی کی ہوا میں بیٹھ کر چند مفاد پرستوں کی ٹولی بغیر ٹھوکر اور دھوپ کی تمازیت برداشت کئے وطن پرستی کا ٹیسٹ پیپر تیار کرنے لگی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کم سے کم اس ملک کا مستقبل یا کم از کم حال تو نہیں تھا۔
’’وندے ماترم‘‘ یا’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘کے نعروں سے ملک کے تئیں وفاداری ثابت کرنے کا ایک چارٹ پلان تیار ہوا۔حکومتوں کی شراکت اس میں کس حد تک تھی کہنا مشکل ہے۔ ہاں اس ملک مخالف سرگرمی کو روکنے میں اس کا ذرا سا بھی ہاتھ نہیں ۔ یہ بات بڑے ہی وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔ہندوستان کی راجہ مہاراجہ، اس سے پہلے دور حکومت اور اس کے بعد کی مغل حکومت کی مجموعی تاریخوں میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ ملک سے وفاداری کے لئے کوئی مخصوص نعرہ لگوایا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی تاریخ میں نہیں ہے کہ اس طرح کے نعروں پر کوئی سخت مذمت یا اس کے انکار میں کوئی شدید رد عمل رقم کیا گیاہو۔ جیسا کہ آج ہو رہاہے۔جبراکہلانے اور شدید انکار دونوں ہی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔زبان و بیان کی تفریق کی وجہ سے صورت حال میں اس قدر خلش صرف ذاتی مفاد پرستی کے ساتھ بغض وعناد اور نفرت و وحشت کی بنیاد پر ہے۔
ملک نے ہر دور میں کچھ نہ کچھ قربانیاں مانگی ہیں۔ جان و مال اور خون کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کاملک تقاضہ کررہا ہے۔ اسے بد عنوانی ، لاعلمی، بے روزگاری، بیماری اور تعصب سے محفوظ کرنا ہے۔ اس کے لئے یکساں کوشش ہی در اصل وطن پرستی ہے۔اب اگر ہمارے تمہارے یا کسی کے بھی نعرہ لگا لینے سے ملک کا وقار بچتا ہے، اس کی عزت بڑھتی ہے، ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، تو ایک نہیں ہزار بار کہوں گا ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘جس کسی زبان میں بھی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں ہر زبان میں یہ نعرہ دہرائیں گے۔ہزار بار دہرائیں گے۔لیکن کیا واقعی یہی وطن پرستی ہے؟ زبانی نعرہ لگا نے کے بعد نہ فکر میں تبدیلی ہے اور نہ ہی عمل میں کوئی بدلاؤ ہے۔ نفرت بڑھتی ہے تو بڑھتی جارہی ہے۔ غریبی، بھکمری، بے روزگاری، جہالت، بیماری بڑھتی جار ہی۔ سیاست بد عنوان سے اور زیادہ بد عنوان ہوتی جا رہی ہے۔ملک کو بیچ کھانے والوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔لیکن ہماری وفاداری بس نعروں سے مضبوط اور اسی میں محدودہوتی جا ر ہی ہے۔70برس کی آزادی کا جشن ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے بارے میں فکر کریں۔ اس کی تہذیب اور بیان کو محدود نہ کریں۔
ایک سوال ان سے بھی ہے جو اس نعرہ سے چڑھتے ہیں۔ جان دے دیں گے لیکن یہ نعرہ نہیں لگائیں گے۔ تلوار کی نوک پر بھی وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ نہیں کہیں گے۔کچھ لوگوں کا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ درج کرنا ضروری ہے کہ ابھی پچھلے سال مارچ مہینے میں ہندوستانی صوفیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے ایک بین الاقوامی چار روزہ صوفی کانفرنس، ورلڈ صوفی فورم کے نام سے منعقد ہوئی تھی۔اس کے افتتاحی پروگرام ہی میں کسی نے ملک کے وزیر اعظم کی آمد پر ’’ بھارت ماتا کی جئے ‘‘کا نعرہ لگا دیا۔چونکہ اس صوفی کانفرنس سے کچھ مخصوص اور چند لوگوں کو چڑھ تھی۔جب کہ اس کانفرنس میں 25 سے زائد ملک کے علماء مشائخ اور دانشوروں کے علاوہ ہندوستان کے تقریبا ہر صوبے کے علماء و مشائخ اور دانش ور طبقے کی نمائندگی تھی۔ اس کانفرنس کو تاریخی کانفرنس بھی کہا گیاکہ ملک میں قیام امن اور دہشت گردی کے مخالف اتنی بڑی کانفرنس کبھی بھی منعقد نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی کچھ لوگ تھے جنہیں یہ کانفرنس پسند نہیں تھی۔ انہوں نے ورلڈ صوفی فورم کے افتتاحی پروگرام میں کسی کی جانب سے لگائے جانے والے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے کی وجہ سے اس حال میں موجود سبھی علماء، مشائخ اور دانشوروں کے ساتھ شرکا ء کو اسلام سے خارج کر دیا۔
کچھ نام نہاد مفکر اور مصنفوں نے روشنائی اور پیپر بھی خراب کئے اور ایک طویل قلم کاری کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ بھارت ماتا ایک دیوی کا نام ہے اس لئے اس کی جئے کار کرنا کفر ہے۔ مجھے فورا ایک مقولہ یاد آ گیا’’ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان‘‘۔ بھارت ماتا دیوی کے نام کی تحقیق پر بحث اور تحریر پھر کبھی۔ سوال یہ ہے کہ کسی اورکے تصور سے کسی دوسرے کا ایمان کیسے زائل ہو جاتا ہے جب کہ وہی فکر دوسری زبان میں ہمیں عزیز بھی ہے۔
ہندوستان کے مشہور سیاست داں اور بیرسٹر اسد الدین اویسی اور ان کے برادر خورد اکبر الدین اویسی کی بھی زلزلہ خیز تقریریں اس عنوان پر آکر اس مسئلے کو آگ لگانے کا کام کر گئیں۔ یہاں بھی سوال یہی ہے کہ ہندوستان زندہ بعد کے نعرے لگانے کے بعد اسی کو’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟۔آج کی روزانہ کی زندگی میں نہ جانے کتنے سیاسی، قومی و غیر قومی لیڈروں کے لئے زندہ بعد کے نعرے لگاتے ہم نہیں تھکتے، اور ملک کے لئے اگر وہی نعرہ لگا لیا تو کفر ہوگیا۔ یہ ایمان اور اسلام اتنا کمزور کب سے ہو گیا ہے کہ دوسرے کے تصورات سے ٹوٹنے یا کمزور ہونے لگاہے۔ حالانکہ یہ اسلام کا موقف بالکل نہیں ہے۔ یہ محض لا علمی ہے۔ اب درگاہوں پر حاضری دے کر ہر ایک کے تصورات الگ ہوتے ہیں تو کیا سبھی کو ایک ہی تصور میں لاکر شرک کا فتوی داغ دیا جائے۔جس میں ہر قوم اور مذہب کے لوگ جاتے ہیں ۔ ان کے رسوم الگ اوراعتقاد الگ لیکن حاضری تو ساتھ ہی دیتے ہیں۔کفر کے لئے اب تک فقہی اور اعتقادی طور پر جو اصول سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ صریح طور پر کفریہ ہونے کے ساتھ اس کی نیت بھی ہو۔ الفاظ کی ادائیگی کے بعد اس سے اس کی نیت دریافت کی جائے۔ اگر اس نے وہی کفریہ اعتقاد مراد لیا ہے تو اس پر حکم نافذ کرنے کے جو طریقے ہیں استعمال کئے جائیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی کے اوپر جب کفر کا مسئلہ سامنے ہو تو اس سو شق میں سے اگر ۹۹ سے کفر اور ایک سے ایمان ثابت ہوتا ہو تو اسے ایمان پر قائم رکھا جائے ۔ لیکن یہ عجیب وطیرہ ہے کہ کسی کردار و گفتار میں ایمان تلاش کرنے کی بجائے اس میں کفر تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے دلیلیں اکٹھا کی جاتی ہیں۔بند کمرے میں بیٹھ مجرمانہ طور پر خوشامدی تحریریں لکھ کر قوم کو گمرا ہ کیا جاتا ہے۔
اس پورے ماہ سوشل میڈیا پر ایک میسج بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہوا اور اسے خوب شیئر بھی کیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسے مسلم اور غیر مسلم دونوں IDs سے پھیلایا گیا۔ میسج یہ تھا کہ آزادی کی تاریخ میں ایسے کئی نعرے ملتے ہیں جنہیں کسی مسلم مجاہد آزادی یا سماجی کرکن نے تخلیق کیا ہے۔ جیسے انقلاب زندہ باد، انگریزوں بھارت چھوڑو، مادر وطن بھارت کی جئے اور اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی گئی کہ موجودہ ترنگے کو ایک مسلم خاتون نے ترتیب دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو مذہب کی سیاست کرنے والے دونوں ہی گروہوں کے نام نہاد نمائندوں کو واقعی اس پر غور کرنا چاہئے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو کم از کم ہندوستان کے جملہ علماء، مشائخ اور دانشوروں کا کسی ایک موقف پر اجماع ہو جانا چاہئے۔ ورنہ یہ تکفیر کی تجارت بند کر کے کچھ تعمیری کام میں حصہ داری کی جائے۔ اگر کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو کم ازکم تخریب کا حصہ بن کرخود ذلیل ہو کر قوم کو رسوا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
یہ ایک موقف ہے اور سوال بھی ہے۔ جواب کی تلاش ہے۔ مجھے سمجھنا ہے دوسرے کا تصور اور عقیدہ ہمارے ایمان کو کسیے زائل کرتا ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi), Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Sunday, August 20, 2017

सीमांचल की त्रासदी पर समाज, राजनीति एवं धर्म की ख़ामोशी

सीमांचल की त्रासदी पर समाज, राजनीति एवं धर्म की ख़ामोशी
{अब्दुल मोईद अज़हरी}

सीमांचल में आई त्रासदी के चलते, हुई भीषण तबाही ने एक क़यामत का माहौल बना दिया है। UP, बिहार और असम के लगभग पचास जिले और उस में रहने वाले लाखों इन्सान अपनी मौत का इंतज़ार कर रहे हैं। अब तक दो सौ से ज़्यादा मौतें हो चुकी हैं। सैकड़ों ला पता हैं। हजारों बे घर हैं। कई रास्ते एवं सड़के ख़त्म हो चुकी हैं जिसके कारण उन तक पहुंचना असंभव हो गया है। ईश्वर के सहारे सहायता कि आस और उम्मीद में दिन काट रहें हैं। कई ऐसे भी हैं जिन के सामने उन का पूरा कुन्बा और घर बार सब बह गया। उन्हें कुछ समझ में नहीं आया तो उन्हों ने आत्म हत्याएं कर लीं। हर रात खौफ़ में और दिन उम्मीद में में गुज़र रहें हैं। उन्हें लगता है कि उन कि मदद को इन्सान आयेंगे।
हर रात उन्हें वो सारे द्रश्य याद आते हैं कि हम ने अपनी नेता के लिए क्या नहीं किया। उन के लिए किसी अच्छे या बुरे में फ़र्क किये बग़ैर काम करते रहे। उन्हों ने वादा किया था कि वो हमें बे सहारा नहीं छोड़ेंगें। हमारे गाँव में आने वाली हर राजनैतिक पार्टी ने और उस के उम्मीदवार के साथ उस के समर्थकों ने हमारी हर संभव मदद कि बात कही थी। अँधेरी काली रात के सन्नाटे में उन्हें वो दिन भी याद आते हैं जब धर्म और समुदाय कि रक्षा के नाम पर इन्हीं नेताओं के इशारे पर एक दुसरे पर घातक हमले भी किये थे। खूब खून बहाया था। लेकिन यह क्या जिस के पिता पुत्र या सम्बन्धी और रिश्तेदार का खून बहाया था आज वही हमारे साथ है। हम एक दुसरे का साथ दे रहे हैं। जीने का सहारा दे रहें। और जिन के लिए यह सब खून खराबा किया था उन को तो हमारी और हमारे बच्चों कि चीखें ही सुनाई नहीं दे रही हैं। यही सब सोंच कर रात कटती है और सुबह फ़िर किसी का जिस्म बेजान मिलता है। और फिर एक साथ एक दूसरे की ढारस बंधाते हैं। अब तो आँखों के आंसू भी सूख गए हैं।
रह रह कर यह ख़याल भी बेचैन करता है कि नव दुर्गा पूजा, क्रष्ण जन्माष्टमी और गणेश चतुर्थी में हम ने बढ़ चढ़ कर हिस्सा लिया। खूब भक्ति प्रदर्शन किया। इस के लिए धर्म-अधर्म की सीमाओं को तोड़ा। पंडित और धर्म गुरुओं की आव भगत की। उनकी सेवा की। लेकिन यह क्या उन्हें भी हमारी कोई फ़िक्र नहीं। उनकी वो सारी उदारता वाली बातें खोखली हो गईं। जलसे और उर्स में करोड़ों खर्च किये। पीरों, आलिमों, मुक़र्रिरों और नात ख्वानों को पात्र से ज़्यादा बल्कि औक़ात से ज़्यादा नज़राना पेश किया। उनकी तकरीरों ने हमेशा एक दूसरे की मदद की बात की लेकिन अफ़सोस आज इस मुश्किल घड़ी में वो भी काम ना आए। आज कोई भी धर्म गुरु हमारी इस दयनीय स्थिति में हमें देखने और हमारी सहायता के लिए निकलने को तैयार नहीं। तो क्या उनकी सहायता और उदारता वाली बातें झूटी हैं। या वो सिर्फ हमारे लिए ही थीं?
बिहार कि सरकार को जनता का इतना ख़याल था कि तेजस्वी यादव और लालू यादव के भ्रष्टाचार को बर्दाश्त नहीं कर पाए इस लिए एक साफ़ सुथरी और भ्रष्टाचार एवं किसी भी तरह के अधर्म से मुक्त पार्टी के साथ सरकार बना ली। लेकिन अब क्या हुआ? क्या इस सैलाब में डूबने वाले के प्रति उनकी कोई ज़िम्मेदारी नहीं है? अब उन का राज धर्म कहाँ गया? जनता के प्रति अपनी राजनीती और सत्ता को समर्पित करने वाली मर्यादा किस नकारता में विलीन हो गई? सभी खामोश हैं। हाँ यह सच है कि यह एक कुदरती आपदा है लेकिन क्या राजनीती के साथ मानवता का भी सर्वनाश हो गया है?
UP के भी बीस जिले इस बाढ़ कि चपेट में है। लेकिन यह सरकार गाय कि सुरक्षा से निकली तो मदरसे कि देश भक्ति में व्यस्त हो गई। एक सरकार कब्रस्तान और शमसान घाट में उलझी है तो दूसरी सड़कों पर ईद कि नमाज़ और थानों में जन्माष्टमी पर गहरी नज़र रख कर मामले को सुलझा रही है।गोरखपुर के मासूम बच्चों कि मौत हो या या बाढ़ कि गोद में समाने वाले लोगों कि चीखें हों, साहेब के कानों तक यह आवाजें उन्हें डिस्टर्ब कर रही हैं।
एक हमारे देश का मुखिया विश्व के किसी भी कोने में कोई छोटा से छोटा हादसा हो जाए तो न्यूज़ चैनल से पहले उनके ट्वीट से पता चल जाता है कि क्या हुआ है। लेकिन यहाँ इस भीषण आपदा की दयनीय स्थिति में नेट पैक ख़त्म हो गया और माइक काम नहीं कर रहा है। लाल किले से भी कोई संतुष्टि नहीं मिल पाई। गुजरात में GST के विरुध विशाल धरना प्रदर्शन के बाद जब वहाँ के कुछ इलाके बाढ़ से प्रभावित हो गये तो उस के लिए एक खास चार्ट प्लान तैयार किया गया था। लेकिन ना तो यहाँ कोई चार्ट है ना प्लान और ना ही कोई स्पष्ट इरादा है।
अभी सीमांचल की हालत यह है कि जो लोग बाढ़ से बच भी गए हैं अब वहाँ हुई जानवरों और इंसानों की मौतों की वजह से बदबू और सडन पैदा हो गई है उस कि वजह से लोग बुरी तरह से बीमार हो रहे हैं।
अभी भी बिहार एक एक इलाके में गायों कि रक्षा के लिए चार लो लोगों को पीट पीट कर लहू लुहान कर दिया गया। अरे इस बाढ़ में भी हज़ारों माताओं का निधन हो गया है। उन के अंतिम संस्कार कि तैयारी करों उन्हें वहाँ से निकालो। जो बची हैं उनकी सुरक्षा के प्रबल प्रबंध करो।
इन के साथ ही तमाम समाजी और धार्मिक संगठनों ने भी कुछ ना करने का निर्णय ले लिया है। जो यह साफ़ दर्शाता है कि कोई कोई भी सामाजिक और धार्मिक संगठन बग़ैर राजनितिक रिमोट के काम नहीं करता है। एक से एक बड़ी और छोटी तंजीमें जो धर्म बचाने में एड़ी चोटी का ज़ोर लगाती हैं, कहीं लम्बी छुट्टी पर चली गई हैं। ना कोई बयान है और ना ही किसी तरह के आर्थिक सहयोग की कोई ख़बर है। अगर यह लोग ही नहीं बचेंगे तो किस का धर्म और किस का मसलक बचाने के लिए धोके बाज़ी का व्यवसाय करेंगे?
अभी कुछ दिनों से दस बारह साल पुराना संगठन आल इंडिया उलमा व मशाईख़ बोर्ड के संस्थापक एवं अध्यक्ष के बयान देखने और सुनने को मिले हैं। मदद कि अपील भी की है। दुआवों का एहतमाम भी किया है। लेकिन यह समय उन के साथ खड़े होने, उन तक पहुँचने और उन्हें आर्थिक सहयोग पहुँचाने का है।
आज इंसानों के लिए इंसानियत की आवाज़ है। जो भी, जहाँ भी और जिस हाल में भी है, अपने तौर पर उन की मदद करे। वरना एक दूसरे को क्या मुंह दिखाओगे। धर्म, ज़ात, मसलक और राजनीती में मतभेद की लड़ाई के लिए बड़ा समय पड़ा है। लेकिन इन बाढ़ पीड़ितों के लिए क्षण क्षण की देरी उन्हें मौत के करीब कर रही है।
दवा, राशन और दूसरी ज़रूरी चीजों को पहुँचाने का हर संभव प्रयास किया जाये। जो अभी भी बच गए हैं उन्हें बचा लिया जाये। वर्ना याद रखें इतिहास कभी भी किसी भी लम्हे को भूलता और भुलाता नहीं है।
अगर अभी भी उन कि मदद के लिए आगे नहीं आ सकते तो फिर उतार दीजिये ये दस्तारें, जुब्बे, पगड़िया और माले। बंद कीजिये मानव सेवा का ढोंग। छोड़ दीजिये धर्म कि राजनीति। कर लीजिए अपने आप को इंसानियत से, धर्म से और जाती एवं बिरादरी से अलग। मुक्त कीजिये खुद को और सभी अपनी झूटी समाज कि ठेकेदारी से। छोड़ दीजिये उन को उन के हाल पर। जिस ने जान दी है वही ले रहा है। आज इस मुसीबत में हम हैं कल हम सब होंगे।

Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com