Wednesday, August 30, 2017

The stand of Supreme Court on Triple Talaq तीन तलाक़ पर सुप्रीम कोर्ट का पक्षتین طلاق پر سپریم کورٹ کا موقف


تین طلاق پر سپریم کورٹ کا موقف
عبد المعید ازہری

تین طلاق کو لے کر سپریم کورٹ کا فیصلہ اور اس پر مختلف و متعدد سیاسی و غیر سیاسی جماعتوں کا اپنے موقف و منشاء کے مطابق رد عمل اس وقت ملک میں ایک غیر ضروری بحث کے ذریعے ملک کے نہایت ہی سنگین اور سنجیدہ مدعوں سے بھٹکائے ہوئے ہے۔اس پر میڈیا کی درباری اور سرکاری زبان نے آگ میں گھی ڈالنے کی وفاداری نبھائی ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کو مزکزی حکومت کی کامیابی، عورتوں کی تاریخی فتح اور مسلمانوں کے خلاف ایک سازش کی کامیابی کا نام دے رہے ہیں۔ جب کہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ سپریم کورٹ کا موقف کوئی نیا نہیں ہے۔ اس سے پہلے بھی اس موقف کی وضاحت ہو چکی ہے۔1937,1950 اور 2002 وغیرہ میں اس موضوع پر بحث وہ چکی ہے۔سچ کہیں تو یہ موقف امت مسلمہ کو ایک کریہہ اضطراب سے بچانے کا حل بھی ہو سکتا ہے۔جس موقف کی کھل کر وضاحت اور اس کی بھرپور تعلیم ہونی چاہئے تھی لیکن معلمین کچھ نااہلی اور کچھ غیر ضروری حکمتوں نے حالات کہاں سے کہاں پہنچا دئے ایسے میں عدالت عظمیٰ کی جانب سے اٹھایا جانے والا یہ قدم واقعی سوئی ہوئی فکروں کے جگانے کا کام کر سکتا ہے۔ہو سکتا ہے اس کے بعد امت کو باربار ذلت و پشیمانی سے محفوظ کرنے کے لئے کوئی مضبوط لائحہ عمل تیار کیا جائے۔ اس تین کے قرآن وضاحت کو دور حاضر کی نئی تکنیکی فہم و فراست کے رو بہ رو کرایا جا سکے۔ خیر یہ تو ابھی بعد کی باتیں ہیں لیکن کچھ سیاسی حلقوں میں تو جشن کا ماحول ہے۔ بالکل اسی طرح جیسے ابھی یو پی حکومت کی جانب سے مدرسوں کے لئے جاری کئے گئے ایک فرمان کے بعد تھا جس میں کہا گیا تھا کہ مدرسوں میں قومی پرچم لہرانا اور قومی ترانا گانا ضروری ہے۔ حالانکہ یہ کام اہل مدارس برسوں کے کر رہے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ لیکن اسے اس میڈیا اور کچھ سرکاری ٹکڑا خوروں نے یہ ثابت کرے کی کوشش کی کہ یہ یو پی حکومت کی بڑی کامیابی ہے کہ اس نے مدرسوں میں قومی پرچم لہرانے اور قومی ترانا گانے پر ان اہل مدارس اور مسلمانوں کو مجبور کر دیا۔ بھکت تو آخر بھکت ہیں۔ انہوں نے جشن منایا۔ اب میڈیا اس معاملے میں بھلا پیچھے کیسے رہ سکتی ہے۔ اس نے گورکھپور کے معصوموں کی جان پر کوئی توجہ دینے کی بجائے بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم کے ذریعہ ملک کے جذبات کا سودا کرنا زیادہ مناسب سمجھا۔ اس سنگین معاملے کو یوں ہی دبا دیا گیا۔ ناکامی کو جھوٹے جشن میں گم کر دیا گیا۔
سوشل میڈیا کی بھی اپنی ایک دنیا اور کبھی کبھی لگتا ہے اس کا اپنا ایک ملک اور اپنے قوانین ہیں۔ جہاں سچ کے علاوہ سب کچھ ہے۔سپریم کورٹ کے موقف کے مطابق تین طلاق کو ایک بیٹھک میں دینے پرچھہ ماہ کی پابندی لگائی گئی ہے۔ان چھہ مہینوں میں اس بابت ایک قانون بنانے کا حکم دیا گیا ہے۔ مرکزی حکومت اس سے پہلے اس معاملے میں اپنا حلف نامہ داخل کر چکی ہے۔ حالانکہ یہ مسئلہ خود قوم مسلم میں بھی برسوں سے بحث کا موضوع بنا ہوا ہے۔ اب شاید یہ قوم اور اس کے ذمہ دار اس حساس اور سنجیدہ مسئلے میں کسی حتمی نتیجے پر پہنچ جائیں۔اس معاملے میں جملہ احناف کا اگرچہ متفقہ موقف ایک بیٹھک میں تین طلاق کے واقع ہونے کا ہے لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک متفق علیہ رائے ہے کہ یہ عمل ناجائز، حرام یا کم سے کم باعث گناہ ہے۔ طلاق بذات خود ایک ایسا جائز عمل ہے جو رب کو سب سے زیادہ نا پسندیدہ ہے۔اس حوالے سے عقلی و نقلی دلائل کا خلاصہ یہ ہے کہ دونوں ہی صورتوں کا عملی وقوع تاریخ میں ملتا ہے۔اس کے ساتھ ایک ساتھ تین طلاق دینے والوں کوسزائیں بھی دی گئی ہیں۔ اب اگر حکومت اس معاملے میں ایک ساتھ تین طلاق دینے والے کے لئے کوئی سزا تجویز کرتی ہے تو شاید اب بات کو خود مسلم ذمہ دار محسوس کر رہے تھے۔ جبکہ ایک ساتھ تین طلاق کے نفاذ کا کوئی مسئلہ زیر بحث نہیں ہے۔وہ شریعت کے اعتبار سے نافظ ہوگا۔کیونکہ سزا کا تصور ہی اس بات کی وضاحت کرتا ہے کہ ایک بیٹھک میں دی گئی تین طلاق واقع ہو جانے کی وجہ سے چونکہ عورت نکاح
اور مرد کی ذمہ داری سے نکل گئی اس لئے مرد پر سزا لازم ہے۔
کورٹ نے اس کے ساتھ ہی ایک اور بڑا فیصلہ لیا ہے۔ پرسنل لاء میں جبری اور غیر قانونی دخل اندازی کو سرے سے خارج کر دیا اورہر ان امیدوں پر پانی پھیر دیا جن کے ذریعہ آنے والے اگلے دو برسوں کی سیاست کی بنیاد رکھی جانی تھی۔ یکساں سول کوڈ اور مسلم پرسنل لاء کو ختم کرنے کی گھناؤنی سازش بھی ناکام ہو گئی۔در اصل طلاق کبھی بھی اس ملک کا اہم اور سنجیدہ مدعیٰ تھا ہی نہیں۔ اس کی شروعات ملک کے وزیر اعظم ملک کی مسلم عورتوں کو انصاف دلانے کے لئے شروع کرتے ہیں لیکن کیا واقعی وہ ایسا چاہتے بھی ہیں، یہ سبھی نے دیکھ لیا ہے۔ خود انہیں کی ریاست کی مسلم عورت ذکیہ جعفری اب تک انصاف مانگ رہی ہے۔ نجیب، منہاج، اخلاق، پہلے خان جیسے سیکڑوں کے اہل خانہ کی نگاہیں انصاف دیکھنے کی آس میں سوکھی جا رہی ہیں۔ گجرات معاملے سے لے کر مظفر نگر، اجمیر اور مالے گاؤں جیسے سیکڑوں حادثات کی چپیٹ سے جوجھتی مسلم عورتوں کا درد نہ تو دکھا ئی دیتا ہے اور نہ ہی وہ معنیٰ رکھتا ہے۔ مسلم عورتوں کے بہتری کے لئے وزیر اعظم کی جانب سے اٹھائے جانے والے ہر اقدام کی نہ صرف تائید ہوتی بلکہ اس میں ہر ممکن تعاون بھی ہوتا اگر واقعی ملک کا مکھیا یہی کرنا چاہتا۔ ان مسلم ماں بہنوں کے اوپر ظلم کی ایک ہی صورت نظر آئی اور وہ ہے ایک بیٹھک میں تین طلاق۔ جب کہ زخموں کے نہا خانوں میں اور بھی درد ہیں جو رونے بھی نہیں دیتے ہیں۔جہاں تک طلاق کی وجہ سے بے گھر ہونے والی عورتوں کا سوال ہے تو اس کا فیصد جو اب تک نکالا گیا ہے اس میں تین گنا سے زیادہ فیصد غیر مسلم عورتوں کا ہے جنہیں گھر سے بے گھر کر دیا گیا ہے۔کیا کوئی قانون اس پر بھی بنانے کی بات ہوگی؟
در اصل 2014کی مرکزی حکومت ہو یا 2016 کی یوپی کی ریاستی حکومت دونوں کی واضح اکثریت نے دل اور دماغ کا توازن ختم کر دیا۔ دونوں ہی سرکاریں ایک طویل مدت کے بعد اقتدار میں آئی ہیں اس لئے ہڑبڑاہٹ میں ایسے کام کرنے لگیں جو خود اپنی ہی حکومت اور اس کے منشور کے خلاف ہونے لگا۔ یو پی حکومت کی جانب سے پیش کئے جانے والے بجٹ نے ساری اہلیت اور قابلیت کو صاف کر دیا کہ اس سرکار کے پاس بھی مذہب کی سیاست کے علاوہ کچھ اور کرنے کو نہیں ہے۔اس لئے اس نے بھی اپنی ساری طاقت ناموں کی تبدیلی اور گایوں کی حفاظت میں جھونک دی۔ یو پی کے دس سے زائد ضلعے باڑھ کی چپیٹ میں آگئے، سیکڑوں بے گھر ہو گئے اور اموات کا بھی شمار سو کو پہنچنے والا ہے۔ گائے کی حفاظت کے لئے انسانوں کا سر عام خون حلا ل کر دیا گیا۔
سیاست کی خونی پیاس یہاں بھی نہ بجھی 60سے زیادہ معصوموں کی موت پر خاموشی، مضحکہ خیز بلکہ توہین آمیز بیان دے کر بجھائی گئی۔لگاتار دو ٹرین حادثوں کی وجہ سے ہونے والی بیسوں اموات اور سیکڑوں کے زخموں نے جب آواز لگائی اور ادھر اجمیر بلاسٹ کے اہم ملزم کو جب ضمانت مل گئی اور لگا کہ پردا فاش ہو جائے گا تو سارا زور طلاق پر دے دیا گیا۔انسانی اموات کا سلسلہ چلتا رہا۔ میڈیا میں اس بات پر بحث جاری رہی کہ مدرسے قومی پرچم لہراکر اور قومی ترانہ گا کر اپنی وطن پرستی کا ثبوت دیں گے۔ مسلم عورتوں کے تین طلاق سے طلاق دلانا ہی اس سرکار کا اولین ترین مقصد ہے۔اپنی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کے لئے اس حکومت نے یہ ایک آسان راہ نکالی کہ میڈیا کے ذریعے اسے ایک مشتعل کن مسئلہ بنا دیا۔
یہ اس وقت کی سیاست کی نااہلی ہے یا بد عنوانی ہے کہ ہر بڑے حادثے کومذہبی جذبات اور انسانی خون سے دھو دیا جاتا ہے۔2014 سے2017اس سرکار کی جانب سے سرمایا داروں کے لئے اٹھائے گئے اقدامات پر مذہبی لیبا پوتی ہوتی رہی۔ بے روزگاری اور بدعنوانی ختم کرنے کے وعدے پر اقتدار میں اس حکومت نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ آج حکومتیں صرف بدعنوانی ہی کے لئے بنائی جاتی ہیں۔51فیصد FDIکی مخالفت کرنے والی حذب مخالف جماعت نے اقتدار میں آتے ہی 100فیصد FDIکو منظور کردیا۔ جب تک اقتدار سے باہر تھے GSTکا بائکاٹ کرتے رہے ، اقتدار میں آتے ہی بڑی چالاکی سے پاس کر دیا۔ نوٹ بندی بھی جاری کر دی اور نہ جانے کتنے ہزار کروڑ اس ادلا بدلی کا شکار ہوکر ملک کے غریب طبقے کو اور غریب کرنے اور کسانوں کو خودکشی پر آمادہ کر گئے۔ آخر یہ لاکھوں کروڑ کے گھوٹالے ایک نہیں ہزاروں اسکیم اس ملک کو کہاں لے جار ہے ہیں۔ لیکن ہماری عوام ابھی بھی اسی میں الجھی ہے کہ یو پی میں رہنا ے تو یوگی یوگی کہنا ہے اور بھارت میں رہنا ہے تو مودی مودی کہنا ہے۔
اس کا ذمہ دار ہر وہ شخص ہے جو بول سکتا پر خاموش ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Saturday, August 26, 2017

کیا یہ میڈیا کی وطن پرستی پر سوال نہیں؟Is it not a question on Media?क्या यह मीडिया की देश भक्ति पर प्रश्न चिन्ह नहीं है?


کیا یہ میڈیا کی وطن پرستی پر سوال نہیں؟

عبد المعید ازہری

جس طرح سے میڈیا اپنے اخلاق کا گلا گھونٹ کر ملک کو اخلاقی طور پر کھوکھلا کر رہی ہے، وہ اس مصداق پر پوری طرح کھری اتر رہی ہے کہ’’ ہم تو ڈوبیں گے صنم تم کو بھی لے ڈوبیں گے‘‘۔میڈیا کا گرتا معیار آج گرتی سرکاروں سے زیادہ بکاؤ ہوتا جا رہا ہے۔ اکیسویں صدی کی آزادی اور خود مختاری کے طوفان نے میڈیا اور سیاست کے دل و دماغ کو ایک ساتھ معزور و معزول کر دیا ہے۔آج کا میڈیا دہشت اور نفرت پھیلانے کا ایک ذریعہ بن چکا ہے۔ ایک زمانے میں میڈیا کو جمہوریت کا ستون کا کہا جاتا ہے۔آج بھی ستون ہی ہے لیکن سب سے پہلے گرنے اور بکنے والاستون۔اس ملک کے لئے میڈیا کی بھی بڑی قربانیاں رہی ہیں لیکن آج کے غدار اور کاروباری میڈیا والوں نے ان قربان ہونے والوں کی روحوں کو پھر سے مارنے کا کام کیا ہے۔ حق گوئی اور بے باکی، سچ بولنے، دکھانے اور اسے ثابت کرنے کا سارا جذبہ چمچا گیری کی نذر ہو گیا۔ آج جب بھی اخبار اور ٹی وی دیکھو تو ڈر لگتا ہے۔ نہ جانے اب کس خبر سے دہشت پیدا کر دی جائے۔ ایک داعش اور اس کی ہم فکر تنظیمیں دہشت کا کاروبار کر رہی ہیں۔ دوسری ہمارے ملک کی مخصوص بھیڑ ڈر کا کاروبار کر ہی ہے۔ بیچ چوراہے پر کسی کو بھی مار کر اس کی ویڈیو بناکر اسے خود شیئر کر کے ملک کے آئین اس کے دستور اور اس کے جمہوری نظاموں کو چیلنج دے کر انصاف اور قانون کا خون کر رہے ہیں ۔ وہیں میڈیا بھی ان کا آلہ کار بن کر اس کاروبارکو فروغ دینے کا کام کر رہی ہے۔لوگوں کو اطراف اکناف کی ضروری تبدیلیوں سے آگاہ کرنے کی بجائے ان پر خوف طاری کر رہی ہے۔ اس کے بعد اس خوف کے ازالہ کے لئے کاروباری دروازے کھول دئے جاتے ہیں۔ڈر کا کوروبار ایسا ہے جس میں نقصان نہیں ہوتا ہے۔
میڈیا کے اس ڈوبتے سورج کی کبھی صبح امید اور جوش کی تپش اور جنون کی گرمی بھی ہوا کرتی تھی جس میں نہ جانے کتنی باطل اور مجرم طاقتوں کی کالی بدلیاں کسی نا معلوم کونوں میں دبک جاتی تھیں۔ انصاف کے جب سارے دروازے بند ہو جاتے تھے تو یہی ایک دروازہ تھا جس نے کبھی کسی کو خالی ہاتھ نہیں بھیجا۔ سیاسی رہنماؤں کی طرح اس شعبہ نے بڑی قربانیاں دی ہیں۔ جو تاریخ میں زندہ ہیں اور انہیں کی وجہ سے آج کی صحافت کی آبروزندہ ہے ورنہ آج کے کاروباری اور بکاؤ صحافیوں نے تو اس کا گلا تقریبا گھونٹ ہی دیاہے۔ایک سچا صحافی اپنے آپ میں ایک انصاف بلکہ ایک انقلاب ہوتا ہے۔ ملک کے ذمہ داروں میں اس کا شمارہوتا ہے۔ جس طرح ملک کا مستقبل سیاسی،سماجی اور قانونی رہنماء طے کرتے ہیں اسی طرح اس میں ایک حصہ میڈیا کا بھی ہوتا ہے لیکن آج بد عنوانی کی آندھی میں یہ ستون بھی گر چکا ہے۔
آج اخبار میں کیا آنا ہے اور ٹی وی میں کیا دکھایا جانا ہے یہ سب بند کمرے کی سیاست طے کرتی ہے۔قومی سطح پر کس کو کہاں کیا اور کیسا مقام دینا ہے یہ سب طے شدہ ہوتا ہے۔ایک سینئر صحافی کے ۵۰ سالہ صحافتی تجربہ کے مطابق ملک میں رونما ہونے والے بڑے حادثات جیسے دنگے، فرقہ وارانہ فسادات،سر عام کسی کا قتل یا پھر انکاؤنٹر یہ سب پہلے سے طے ہوتا ہے۔ان تمام چیزوں سے پرے میڈیا کا اپنا ایک اصول ہے کہ وہ اپنی خبروں سے معاشرے میں ڈر پیدا نہیں کر سکتی۔ اسے ہر حال میں لوگوں میں ہمت اور امیدبنائے رکھنا ہوتا ہے۔ آج کی میڈیا میں بالکل اس کے مخالف کام ہو رہا ہے۔کسی کو بھی مجرم یا دہشت گرد کہنا تو اس کا یومیہ مشق ہو گیا ہے۔ اس کا جرم ہے بھی کہ نہیں، عدالت اورقانون اسے کیا کہتا ہے ان سب چیزوں کی پرواہ کئے بغیر ہمارے صاحب کیاکہتے ہیں اس کی پرواہ کی جاتی ہے۔ہر روز اپنا نیا ساتھی یا پھر ساتھ کے لئے ہر روز بکنے والا معیار ہو گیا ہے۔ اس کا یہ معیار خود اس میڈیانے اپنے ہاتھوں سے تیار کیا ہے۔ آج کی میڈیا محض کاروبار ہے، اس کے سوا کچھ نہیں ہے۔ یہ میڈیا کاروبار اور پیسہ کے لئے کچھ بھی کر سکتی ہے۔ وہ جی حضوری کے چکر میں ملک کی عظمت اور اس کے وقار کو بھی خاک میں ملا سکتی ہے۔ ایسا ہی واقعہ حال ہی میں ہوا ہے۔
TRP، سنسنی اور سب سے پہلے خبر دینے کی ہوڑ نے سب کے ہوش اڑادئے جب یہ خبر میڈیامیں عام ہوئی کہ’’ ملک کے پاس ہتھیار کم ہیں‘‘۔جنگ کی صورت میں مشکل کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔مطلب ہم کمزور ہیں۔ بظاہر یہ بہت چھوٹی بات ہے۔ لیکن اس کے پیچھے کے سوالات نہایت ہی خطرناک ہیں۔ سب سے پہلا سوال کہ ’ہمارے ملک میں کتنا ہتھیار ہے‘ یہ خبر ایسے ہی میڈیا میں کیسے آگئی؟یہ خبر چھاپنے یا دکھانے سے پہلے میڈیا نے کیوں نہیں سوچا کہ اس کا کیا رد عمل یا پس منظر و پیش منظر ہو سکتا ہے۔اس خبر کا قومی اور بین الاقوامی سطح پر ملک پر کیااثر پڑے گا۔ اس خبر سے کس کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہو سکتا ہے؟یہ سب بڑے ہی ڈرامائی اور فلمی انداز میں ہوا۔ چین کی جانب سے ملک کے خلاف بڑھتے اقدامات کے جواب میں کئی ممالک کی حمایت کی خبریں آتی ہیں۔ چینی سامان کے بائکاٹ کا پروپیگینڈہ ہوتا ہے۔ ہند و چین کے روزانہ بگڑتے حالات کی خبریں بھی آئی ہیں۔اچانک خبر آئی ہے کہ ہمارے پاس تو ہتھیار ہی نہیں ہیں۔سرجیکل اسٹرائک سے لے کر اب تک جس طرح سے ہماری فوج کا سیاسی استعمال اور قدرے استحصال ہوا وہ شاید ملک کی تاریخ میں ایک نمایاں باب ہو۔اس خبر نے جہاں ملک کو ایک طرف کشمکش میں ڈال دیا ہے وہیں دوسری طرف ایک بڑے خدشے کا بھی اشارہ دیا ہے۔ اب جب ملک میں ہتھیار کم ہیں۔ اس پر پاکستان اور چین کی طرف سے مسلسل دست درازی کا سلسلہ بھی جاری ہے۔ اس لئے بھاری مقدارمیں اسلحہ اور ہتھیار کی خریداری ہونی ہے۔ کچھ دن قبل فوجی ٹرک کی خریداری اور اس سے جڑے کچھ خلاصے سامنے آئے تھے۔ اس خریداری میں جس قدر گھوٹالہ اور اسکیم کامعاملہ سامنے آیا تھا کیا یہ اس سے بھی بھیانک ہو سکتا ہے۔یہ پانچ گھنٹے کی فلم میں ہر آدھے گھنٹے ،بیس منٹ، اور ایک گھنٹے میں جو سسپینس اور ٹویسٹ آرہے ہیں، وہ برے مہلک ہوتے جا رہے ہیں۔ ابھی تو دو گھنٹے کی فلم باقی بھی ہے۔ اس پر مزید یہ ہے کہ اگلے پانچ گھنٹے کی اس فلم کی دوسری سیریز بھی تقریبا تیار نظر آتی ہے۔کیونکہ تقریبا سارے پروڈکشن ہاؤس بند پڑے ہیں کہیں کوئی شوٹنگ چل ہی نہیں رہی ہے اور جس طرح سے یہ مسالہ فلم چل رہی ہے ایسا لگتا ہے کئی ریکارڑ توڑ کر ہی دم لے گی۔
ملک کی داخلی صورت حال وہ بھی سیکیورٹی سے متعلق خبریں نشر کرنا اور وہ بھی اتنی غیر ذمہ دارانہ طورمیڈیا کے ساتھ ساتھ ملک کے ساتھ بھی کھلواڑ ہے۔ اس سلسلے میں یہ عقدہ کشائی ایک طرف کہ آخر یہ خبر میڈیا میں آئی کیسے۔ اس کا سرجکل، نوٹ بندی،کشمیر، امرناتھ، GST ،صدر جمہوریہ کا الیکشن یا بہارکی سرکار اور سی بی آئی کے چھاپوں سے تو ہو سکتا ہے کوئی لینا دینا نہ ہو لیکن آج سیاست کی گھٹی میں شامل بد عنوانی کو تو کافی بڑا راستہ مل گیا ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ اس پر حکومتوں کا کیا رد عمل ہوتا ہے۔اس انتہا پسند بھیڑ کا کیا رد عمل ہوتا جو ملک میں کھانا، کپڑا، کاروبار، کہنا سننا اور بولنا طے کرتے ہیں۔ جو ملک کی وفاداری کا ٹیسٹ لیتے رہتے ہیں۔ اب وہ اس بات کو کس طرح سے دیکھتے ہیں۔احتجاجی پیشہ وروں کا اس پر کیا رد عمل ہوتا ہے۔ یہ ایک قابل غور امر ہے۔سوشل میڈیا کے کرانتی کاری بھی اب تک خاموش ہیں۔ یا تو انہیں اب تک بتایا نہیں گیا یا رموٹ آن نہیں کیا گیا۔اب ایسی صورت حال میں اس قدر خاموشی ذہنی و اخلاقی طورپر موت کے ساتھ ساتھ وطن پرستی کی امید کے دم مرگ کو بھی ظاہر کرتی ہے۔
یہ بھی میڈیا کی سفاکیت ہے کہ سیمانچل کے سیلاب زدگان، گورکھپور کے معصوم بچوں کی اموات، دو ٹرینوں کے حادثے اور کرنل پروہت کی ضمانت کو دباکر سپریم کورٹ کے تین طلاق کے فیصلے اور وطن پرستی کے تئین بھارت ماتا کی جئے اور وندے ماترم پر سارا زور لگا رہی ہے۔ اس میڈیا کے لئے سب سے زیادہ اہم یہ ہے کہ وہ کسی طرح سے یوپی حکومت کی چمچہ گیری کو ثابت کرنے کیلئے یہ ثابت کر دیں یوپی کی تاریخ میں یہ پہلی بار ہوا ہے کہ یوگی سرکار کے فرمان کی وجہ سے مسلمانوں نے اپنے مدرسوں میں ترنگا پھہرایا اب ناگپور میں کیا ہوا اس کی کوئی جانکاری نہیں ہے۔ مودی حکومت نے مسلم عورتوں کے حق کے لئے ملک کو لاکھوں نوجوانوں کے روزگار، کسانوں کی خودکشیوں اور عورتوں کی آبروریزی کے سنجیدہ معاملا ت کو بالائے طاق رکھ دیا۔ یہ سب بس چند ٹکڑوں کے لئے ہوا۔
یہ خالص ملک، اس کی حفاظت، اس کے وقار اور داخلی پالیسی کا مسئلہ ہے۔لیکن وطن پرستی کی یہ خاموشی واقعی حیران کرنے والی ہے۔
جس طرح سے محض افواہ میں بے گناہوں کا قتل کر کے ملک کی حفاظت کا دعوی کرنے والی دہشت پسند بھیڑ نے ملک کے وقار کے تئیں اپنے خون کی قربانی دینے کے دعوے کئے ہیں کیا وہ لوگ اب اس میڈیا اور اس خبر کے نشر کرنے والوں کے ذمہ داروں سے اس متعلق سوال کریں گے۔ حکومت خاموش ہے۔ قانون چپ ہے۔ وفاداری کے سارے دعوے دار بے زبان ہیں۔کھلے عام ملک کے وقار کی توہین کی گئی ۔ذمہ دار کون ہے، محاسب کون ہے اور حساب کون دے گا؟
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com
follow me:


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Monday, August 21, 2017

بھارت ماتا کی جئے Victory to Indiaभारत माता की जय


"بھارت ماتا کی جئے"
عبد المعید ازہری

ملک میں مختلف تہذیبیں اور متعدد زبانیں ہیں۔ ہر تہذیب و زبان نے وطن پرستی کے گیت گائے ہیں۔ یہی اس ملک کی شان رہی ہے۔کوئی چھوٹا سے چھوٹا قبیلہ اور بڑی سے بڑی آبادی وطن پرستی کے نعروں سے خالی نہیں رہی۔ کسی نے ’’وجئی وشو ترنگا پیارا‘‘ گایا تو کسی نے ’’ سارے جہاں سے اچھا ہندوستاں ہمارا گایا‘‘۔ گویا اس ملک میں بسنے والی ہر تہذیب و زبان اور اس میں پرورش پانے والے ہر بچے کو اپنی تہذیب وزبان میں وطن پرستی کے نعرے، گانے اور ترانے نہ صرف یاد ہیں بلکہ جوش میں وہ گنگنائے بھی جاتے ہیں۔ایسا شاید اس لئے ہوا کہ چونکہ ملک کا جغرافیائی حال دیکھیں تو ہر دس میل پر بولی اور لہجہ بدل جاتا ہے اور سو میل پر زبان تبدیل ہو جاتی ہے۔ اب اتنے طویل و عریض ملک میں جہاں لو گ ایک دوسرے کے زبان و بیان سے واقف نہیں ہیں لیکن وطن سب کا ایک ہے۔ اس کی محبت یکساں ہیں۔ اب اس کے لئے احسا س تو ایک ہے لیکن زبان و بیان میں تبدیلی کی ضرورت ہے تاکہ دل کے احساس کے ساتھ اس ملک سے محبت کا اظہار اور عقیدت بیان ہو سکے۔ ایسا ہوا بھی اور اب تک ہو بھی رہا ہے۔
اس یکجہتی میں بغاوت کی شروعات یا پھر اس کا علان اسی وقت ہو گیا تھا جب مجاہدین آزادی کی تاریخیں بدلی گئیں۔ مہاتما گاندھی کے قاتل کو دیوتا تصورکیا گیااور ایک سے زائد مجاہدین آزادی کی قربانیوں کو شک و شبہات کے دائرے میں لا کھڑا کیا گیا۔ وہیں سے وطن پرستی کا ایک ٹیسٹ پیپر بھی چھاپا گیا۔ جس میں پاس ہونا ضروری ہے۔اس پیپر کی خلاف ورزی ملک کی خلاف ورزی تصور کیا گیا۔ وطن پرستی کے اظہار کو مخصوص زبان و بیان اور اس کے نعرے، گانے اور ترانے کی بولی کو مخصوص کیا گیا۔یہ المیہ تو اسی وقت شروع ہو گیا تھا جب بند کمرے میں اے سی کی ہوا میں بیٹھ کر چند مفاد پرستوں کی ٹولی بغیر ٹھوکر اور دھوپ کی تمازیت برداشت کئے وطن پرستی کا ٹیسٹ پیپر تیار کرنے لگی۔ اس کے بعد جو ہوا وہ کم سے کم اس ملک کا مستقبل یا کم از کم حال تو نہیں تھا۔
’’وندے ماترم‘‘ یا’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘کے نعروں سے ملک کے تئیں وفاداری ثابت کرنے کا ایک چارٹ پلان تیار ہوا۔حکومتوں کی شراکت اس میں کس حد تک تھی کہنا مشکل ہے۔ ہاں اس ملک مخالف سرگرمی کو روکنے میں اس کا ذرا سا بھی ہاتھ نہیں ۔ یہ بات بڑے ہی وثوق سے کہی جا سکتی ہے۔ہندوستان کی راجہ مہاراجہ، اس سے پہلے دور حکومت اور اس کے بعد کی مغل حکومت کی مجموعی تاریخوں میں یہ کہیں نہیں ملتا کہ ملک سے وفاداری کے لئے کوئی مخصوص نعرہ لگوایا گیا ہو۔ اسی کے ساتھ یہ بھی تاریخ میں نہیں ہے کہ اس طرح کے نعروں پر کوئی سخت مذمت یا اس کے انکار میں کوئی شدید رد عمل رقم کیا گیاہو۔ جیسا کہ آج ہو رہاہے۔جبراکہلانے اور شدید انکار دونوں ہی شرم ناک اور قابل مذمت ہیں۔زبان و بیان کی تفریق کی وجہ سے صورت حال میں اس قدر خلش صرف ذاتی مفاد پرستی کے ساتھ بغض وعناد اور نفرت و وحشت کی بنیاد پر ہے۔
ملک نے ہر دور میں کچھ نہ کچھ قربانیاں مانگی ہیں۔ جان و مال اور خون کے علاوہ بھی بہت کچھ ہے جس کاملک تقاضہ کررہا ہے۔ اسے بد عنوانی ، لاعلمی، بے روزگاری، بیماری اور تعصب سے محفوظ کرنا ہے۔ اس کے لئے یکساں کوشش ہی در اصل وطن پرستی ہے۔اب اگر ہمارے تمہارے یا کسی کے بھی نعرہ لگا لینے سے ملک کا وقار بچتا ہے، اس کی عزت بڑھتی ہے، ضرورتیں پوری ہوتی ہیں، تو ایک نہیں ہزار بار کہوں گا ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘جس کسی زبان میں بھی ہندوستان زندہ باد کے نعرے لگائے جاتے ہیں ہر زبان میں یہ نعرہ دہرائیں گے۔ہزار بار دہرائیں گے۔لیکن کیا واقعی یہی وطن پرستی ہے؟ زبانی نعرہ لگا نے کے بعد نہ فکر میں تبدیلی ہے اور نہ ہی عمل میں کوئی بدلاؤ ہے۔ نفرت بڑھتی ہے تو بڑھتی جارہی ہے۔ غریبی، بھکمری، بے روزگاری، جہالت، بیماری بڑھتی جار ہی۔ سیاست بد عنوان سے اور زیادہ بد عنوان ہوتی جا رہی ہے۔ملک کو بیچ کھانے والوں کی تعداد میں روزانہ اضافہ ہو تا جا رہا ہے۔لیکن ہماری وفاداری بس نعروں سے مضبوط اور اسی میں محدودہوتی جا ر ہی ہے۔70برس کی آزادی کا جشن ہے۔ ملک کو آگے بڑھانے کے بارے میں فکر کریں۔ اس کی تہذیب اور بیان کو محدود نہ کریں۔
ایک سوال ان سے بھی ہے جو اس نعرہ سے چڑھتے ہیں۔ جان دے دیں گے لیکن یہ نعرہ نہیں لگائیں گے۔ تلوار کی نوک پر بھی وہ ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ نہیں کہیں گے۔کچھ لوگوں کا ایمان بھی چلا جاتا ہے۔ وہ دائرہ اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں۔ یہاں پر ایک واقعہ درج کرنا ضروری ہے کہ ابھی پچھلے سال مارچ مہینے میں ہندوستانی صوفیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ کی جانب سے ایک بین الاقوامی چار روزہ صوفی کانفرنس، ورلڈ صوفی فورم کے نام سے منعقد ہوئی تھی۔اس کے افتتاحی پروگرام ہی میں کسی نے ملک کے وزیر اعظم کی آمد پر ’’ بھارت ماتا کی جئے ‘‘کا نعرہ لگا دیا۔چونکہ اس صوفی کانفرنس سے کچھ مخصوص اور چند لوگوں کو چڑھ تھی۔جب کہ اس کانفرنس میں 25 سے زائد ملک کے علماء مشائخ اور دانشوروں کے علاوہ ہندوستان کے تقریبا ہر صوبے کے علماء و مشائخ اور دانش ور طبقے کی نمائندگی تھی۔ اس کانفرنس کو تاریخی کانفرنس بھی کہا گیاکہ ملک میں قیام امن اور دہشت گردی کے مخالف اتنی بڑی کانفرنس کبھی بھی منعقد نہیں ہوئی تھی۔ پھر بھی کچھ لوگ تھے جنہیں یہ کانفرنس پسند نہیں تھی۔ انہوں نے ورلڈ صوفی فورم کے افتتاحی پروگرام میں کسی کی جانب سے لگائے جانے والے ’’بھارت ماتا کی جئے‘‘ کے نعرے کی وجہ سے اس حال میں موجود سبھی علماء، مشائخ اور دانشوروں کے ساتھ شرکا ء کو اسلام سے خارج کر دیا۔
کچھ نام نہاد مفکر اور مصنفوں نے روشنائی اور پیپر بھی خراب کئے اور ایک طویل قلم کاری کے بعد یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ چونکہ بھارت ماتا ایک دیوی کا نام ہے اس لئے اس کی جئے کار کرنا کفر ہے۔ مجھے فورا ایک مقولہ یاد آ گیا’’ نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان‘‘۔ بھارت ماتا دیوی کے نام کی تحقیق پر بحث اور تحریر پھر کبھی۔ سوال یہ ہے کہ کسی اورکے تصور سے کسی دوسرے کا ایمان کیسے زائل ہو جاتا ہے جب کہ وہی فکر دوسری زبان میں ہمیں عزیز بھی ہے۔
ہندوستان کے مشہور سیاست داں اور بیرسٹر اسد الدین اویسی اور ان کے برادر خورد اکبر الدین اویسی کی بھی زلزلہ خیز تقریریں اس عنوان پر آکر اس مسئلے کو آگ لگانے کا کام کر گئیں۔ یہاں بھی سوال یہی ہے کہ ہندوستان زندہ بعد کے نعرے لگانے کے بعد اسی کو’’ بھارت ماتا کی جئے‘‘ کہنے میں کیا حرج ہے؟۔آج کی روزانہ کی زندگی میں نہ جانے کتنے سیاسی، قومی و غیر قومی لیڈروں کے لئے زندہ بعد کے نعرے لگاتے ہم نہیں تھکتے، اور ملک کے لئے اگر وہی نعرہ لگا لیا تو کفر ہوگیا۔ یہ ایمان اور اسلام اتنا کمزور کب سے ہو گیا ہے کہ دوسرے کے تصورات سے ٹوٹنے یا کمزور ہونے لگاہے۔ حالانکہ یہ اسلام کا موقف بالکل نہیں ہے۔ یہ محض لا علمی ہے۔ اب درگاہوں پر حاضری دے کر ہر ایک کے تصورات الگ ہوتے ہیں تو کیا سبھی کو ایک ہی تصور میں لاکر شرک کا فتوی داغ دیا جائے۔جس میں ہر قوم اور مذہب کے لوگ جاتے ہیں ۔ ان کے رسوم الگ اوراعتقاد الگ لیکن حاضری تو ساتھ ہی دیتے ہیں۔کفر کے لئے اب تک فقہی اور اعتقادی طور پر جو اصول سامنے آئے ہیں ان میں سب سے اہم یہ ہے کہ زبان سے ادا کئے جانے والے الفاظ صریح طور پر کفریہ ہونے کے ساتھ اس کی نیت بھی ہو۔ الفاظ کی ادائیگی کے بعد اس سے اس کی نیت دریافت کی جائے۔ اگر اس نے وہی کفریہ اعتقاد مراد لیا ہے تو اس پر حکم نافذ کرنے کے جو طریقے ہیں استعمال کئے جائیں۔ دوسرا اصول یہ ہے کہ کسی کے اوپر جب کفر کا مسئلہ سامنے ہو تو اس سو شق میں سے اگر ۹۹ سے کفر اور ایک سے ایمان ثابت ہوتا ہو تو اسے ایمان پر قائم رکھا جائے ۔ لیکن یہ عجیب وطیرہ ہے کہ کسی کردار و گفتار میں ایمان تلاش کرنے کی بجائے اس میں کفر تلاش کیا جا رہا ہے۔ اس کے لئے دلیلیں اکٹھا کی جاتی ہیں۔بند کمرے میں بیٹھ مجرمانہ طور پر خوشامدی تحریریں لکھ کر قوم کو گمرا ہ کیا جاتا ہے۔
اس پورے ماہ سوشل میڈیا پر ایک میسج بڑی تیزی کے ساتھ وائرل ہوا اور اسے خوب شیئر بھی کیا گیا۔ حیران کن بات یہ ہے کہ اسے مسلم اور غیر مسلم دونوں IDs سے پھیلایا گیا۔ میسج یہ تھا کہ آزادی کی تاریخ میں ایسے کئی نعرے ملتے ہیں جنہیں کسی مسلم مجاہد آزادی یا سماجی کرکن نے تخلیق کیا ہے۔ جیسے انقلاب زندہ باد، انگریزوں بھارت چھوڑو، مادر وطن بھارت کی جئے اور اس کے علاوہ یہ بات بھی کہی گئی کہ موجودہ ترنگے کو ایک مسلم خاتون نے ترتیب دیا ہے۔ اگر ایسا ہی ہے تو مذہب کی سیاست کرنے والے دونوں ہی گروہوں کے نام نہاد نمائندوں کو واقعی اس پر غور کرنا چاہئے۔
اگر واقعی ایسا ہے تو کم از کم ہندوستان کے جملہ علماء، مشائخ اور دانشوروں کا کسی ایک موقف پر اجماع ہو جانا چاہئے۔ ورنہ یہ تکفیر کی تجارت بند کر کے کچھ تعمیری کام میں حصہ داری کی جائے۔ اگر کچھ اچھا نہیں کر سکتے تو کم ازکم تخریب کا حصہ بن کرخود ذلیل ہو کر قوم کو رسوا کرنے کی کوشش نہ کی جائے۔
یہ ایک موقف ہے اور سوال بھی ہے۔ جواب کی تلاش ہے۔ مجھے سمجھنا ہے دوسرے کا تصور اور عقیدہ ہمارے ایمان کو کسیے زائل کرتا ہے۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi), Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Sunday, August 20, 2017

सीमांचल की त्रासदी पर समाज, राजनीति एवं धर्म की ख़ामोशी

सीमांचल की त्रासदी पर समाज, राजनीति एवं धर्म की ख़ामोशी
{अब्दुल मोईद अज़हरी}

सीमांचल में आई त्रासदी के चलते, हुई भीषण तबाही ने एक क़यामत का माहौल बना दिया है। UP, बिहार और असम के लगभग पचास जिले और उस में रहने वाले लाखों इन्सान अपनी मौत का इंतज़ार कर रहे हैं। अब तक दो सौ से ज़्यादा मौतें हो चुकी हैं। सैकड़ों ला पता हैं। हजारों बे घर हैं। कई रास्ते एवं सड़के ख़त्म हो चुकी हैं जिसके कारण उन तक पहुंचना असंभव हो गया है। ईश्वर के सहारे सहायता कि आस और उम्मीद में दिन काट रहें हैं। कई ऐसे भी हैं जिन के सामने उन का पूरा कुन्बा और घर बार सब बह गया। उन्हें कुछ समझ में नहीं आया तो उन्हों ने आत्म हत्याएं कर लीं। हर रात खौफ़ में और दिन उम्मीद में में गुज़र रहें हैं। उन्हें लगता है कि उन कि मदद को इन्सान आयेंगे।
हर रात उन्हें वो सारे द्रश्य याद आते हैं कि हम ने अपनी नेता के लिए क्या नहीं किया। उन के लिए किसी अच्छे या बुरे में फ़र्क किये बग़ैर काम करते रहे। उन्हों ने वादा किया था कि वो हमें बे सहारा नहीं छोड़ेंगें। हमारे गाँव में आने वाली हर राजनैतिक पार्टी ने और उस के उम्मीदवार के साथ उस के समर्थकों ने हमारी हर संभव मदद कि बात कही थी। अँधेरी काली रात के सन्नाटे में उन्हें वो दिन भी याद आते हैं जब धर्म और समुदाय कि रक्षा के नाम पर इन्हीं नेताओं के इशारे पर एक दुसरे पर घातक हमले भी किये थे। खूब खून बहाया था। लेकिन यह क्या जिस के पिता पुत्र या सम्बन्धी और रिश्तेदार का खून बहाया था आज वही हमारे साथ है। हम एक दुसरे का साथ दे रहे हैं। जीने का सहारा दे रहें। और जिन के लिए यह सब खून खराबा किया था उन को तो हमारी और हमारे बच्चों कि चीखें ही सुनाई नहीं दे रही हैं। यही सब सोंच कर रात कटती है और सुबह फ़िर किसी का जिस्म बेजान मिलता है। और फिर एक साथ एक दूसरे की ढारस बंधाते हैं। अब तो आँखों के आंसू भी सूख गए हैं।
रह रह कर यह ख़याल भी बेचैन करता है कि नव दुर्गा पूजा, क्रष्ण जन्माष्टमी और गणेश चतुर्थी में हम ने बढ़ चढ़ कर हिस्सा लिया। खूब भक्ति प्रदर्शन किया। इस के लिए धर्म-अधर्म की सीमाओं को तोड़ा। पंडित और धर्म गुरुओं की आव भगत की। उनकी सेवा की। लेकिन यह क्या उन्हें भी हमारी कोई फ़िक्र नहीं। उनकी वो सारी उदारता वाली बातें खोखली हो गईं। जलसे और उर्स में करोड़ों खर्च किये। पीरों, आलिमों, मुक़र्रिरों और नात ख्वानों को पात्र से ज़्यादा बल्कि औक़ात से ज़्यादा नज़राना पेश किया। उनकी तकरीरों ने हमेशा एक दूसरे की मदद की बात की लेकिन अफ़सोस आज इस मुश्किल घड़ी में वो भी काम ना आए। आज कोई भी धर्म गुरु हमारी इस दयनीय स्थिति में हमें देखने और हमारी सहायता के लिए निकलने को तैयार नहीं। तो क्या उनकी सहायता और उदारता वाली बातें झूटी हैं। या वो सिर्फ हमारे लिए ही थीं?
बिहार कि सरकार को जनता का इतना ख़याल था कि तेजस्वी यादव और लालू यादव के भ्रष्टाचार को बर्दाश्त नहीं कर पाए इस लिए एक साफ़ सुथरी और भ्रष्टाचार एवं किसी भी तरह के अधर्म से मुक्त पार्टी के साथ सरकार बना ली। लेकिन अब क्या हुआ? क्या इस सैलाब में डूबने वाले के प्रति उनकी कोई ज़िम्मेदारी नहीं है? अब उन का राज धर्म कहाँ गया? जनता के प्रति अपनी राजनीती और सत्ता को समर्पित करने वाली मर्यादा किस नकारता में विलीन हो गई? सभी खामोश हैं। हाँ यह सच है कि यह एक कुदरती आपदा है लेकिन क्या राजनीती के साथ मानवता का भी सर्वनाश हो गया है?
UP के भी बीस जिले इस बाढ़ कि चपेट में है। लेकिन यह सरकार गाय कि सुरक्षा से निकली तो मदरसे कि देश भक्ति में व्यस्त हो गई। एक सरकार कब्रस्तान और शमसान घाट में उलझी है तो दूसरी सड़कों पर ईद कि नमाज़ और थानों में जन्माष्टमी पर गहरी नज़र रख कर मामले को सुलझा रही है।गोरखपुर के मासूम बच्चों कि मौत हो या या बाढ़ कि गोद में समाने वाले लोगों कि चीखें हों, साहेब के कानों तक यह आवाजें उन्हें डिस्टर्ब कर रही हैं।
एक हमारे देश का मुखिया विश्व के किसी भी कोने में कोई छोटा से छोटा हादसा हो जाए तो न्यूज़ चैनल से पहले उनके ट्वीट से पता चल जाता है कि क्या हुआ है। लेकिन यहाँ इस भीषण आपदा की दयनीय स्थिति में नेट पैक ख़त्म हो गया और माइक काम नहीं कर रहा है। लाल किले से भी कोई संतुष्टि नहीं मिल पाई। गुजरात में GST के विरुध विशाल धरना प्रदर्शन के बाद जब वहाँ के कुछ इलाके बाढ़ से प्रभावित हो गये तो उस के लिए एक खास चार्ट प्लान तैयार किया गया था। लेकिन ना तो यहाँ कोई चार्ट है ना प्लान और ना ही कोई स्पष्ट इरादा है।
अभी सीमांचल की हालत यह है कि जो लोग बाढ़ से बच भी गए हैं अब वहाँ हुई जानवरों और इंसानों की मौतों की वजह से बदबू और सडन पैदा हो गई है उस कि वजह से लोग बुरी तरह से बीमार हो रहे हैं।
अभी भी बिहार एक एक इलाके में गायों कि रक्षा के लिए चार लो लोगों को पीट पीट कर लहू लुहान कर दिया गया। अरे इस बाढ़ में भी हज़ारों माताओं का निधन हो गया है। उन के अंतिम संस्कार कि तैयारी करों उन्हें वहाँ से निकालो। जो बची हैं उनकी सुरक्षा के प्रबल प्रबंध करो।
इन के साथ ही तमाम समाजी और धार्मिक संगठनों ने भी कुछ ना करने का निर्णय ले लिया है। जो यह साफ़ दर्शाता है कि कोई कोई भी सामाजिक और धार्मिक संगठन बग़ैर राजनितिक रिमोट के काम नहीं करता है। एक से एक बड़ी और छोटी तंजीमें जो धर्म बचाने में एड़ी चोटी का ज़ोर लगाती हैं, कहीं लम्बी छुट्टी पर चली गई हैं। ना कोई बयान है और ना ही किसी तरह के आर्थिक सहयोग की कोई ख़बर है। अगर यह लोग ही नहीं बचेंगे तो किस का धर्म और किस का मसलक बचाने के लिए धोके बाज़ी का व्यवसाय करेंगे?
अभी कुछ दिनों से दस बारह साल पुराना संगठन आल इंडिया उलमा व मशाईख़ बोर्ड के संस्थापक एवं अध्यक्ष के बयान देखने और सुनने को मिले हैं। मदद कि अपील भी की है। दुआवों का एहतमाम भी किया है। लेकिन यह समय उन के साथ खड़े होने, उन तक पहुँचने और उन्हें आर्थिक सहयोग पहुँचाने का है।
आज इंसानों के लिए इंसानियत की आवाज़ है। जो भी, जहाँ भी और जिस हाल में भी है, अपने तौर पर उन की मदद करे। वरना एक दूसरे को क्या मुंह दिखाओगे। धर्म, ज़ात, मसलक और राजनीती में मतभेद की लड़ाई के लिए बड़ा समय पड़ा है। लेकिन इन बाढ़ पीड़ितों के लिए क्षण क्षण की देरी उन्हें मौत के करीब कर रही है।
दवा, राशन और दूसरी ज़रूरी चीजों को पहुँचाने का हर संभव प्रयास किया जाये। जो अभी भी बच गए हैं उन्हें बचा लिया जाये। वर्ना याद रखें इतिहास कभी भी किसी भी लम्हे को भूलता और भुलाता नहीं है।
अगर अभी भी उन कि मदद के लिए आगे नहीं आ सकते तो फिर उतार दीजिये ये दस्तारें, जुब्बे, पगड़िया और माले। बंद कीजिये मानव सेवा का ढोंग। छोड़ दीजिये धर्म कि राजनीति। कर लीजिए अपने आप को इंसानियत से, धर्म से और जाती एवं बिरादरी से अलग। मुक्त कीजिये खुद को और सभी अपनी झूटी समाज कि ठेकेदारी से। छोड़ दीजिये उन को उन के हाल पर। जिस ने जान दी है वही ले रहा है। आज इस मुसीबत में हम हैं कल हम सब होंगे।

Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Thursday, August 17, 2017

'جامعہ ازہر' اور' ازہری' کی انفرادی حیثیتविश्व प्रसिद्ध अल अज़हर विश्व विद्यालय Al-Azhar University and its uniqueness


'جامعہ ازہر' اور' ازہری' کی انفرادی حیثیت
عبد المعید ازہری

جامعہ ازہر مصر دنیا کے اس عظیم بین الاقوامی ادارے کا نام ہے جو اس وقت امت مسلمہ کی صحیح ترجمانی کر رہاہے۔ یہی وہ ادارہ ہے جو پوری دنیا میں اسلام کے منہج اعدال، میانہ روی، خیر الامور اوسطہاکی نمائندگی قرآنی مصلحت و حکمت کے دائرے میں کر رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پوری امت مسلمہ اس ادارے اور اس کے اسلامی موقف کو نہ صرف ترجیح دیتی ہے بلکہ اسے متفقہ طور پر مانتی اور اس پر بخوشی عمل کرتی ہے۔جامعہ ازہر میں پندرہ لاکھ سے زائد طلباء بیک وقت زیر تعلیم ہیں اور دو سو سے زائد ممالک کے طلباء مقیم حال ہیں۔پوری دنیا میں اسلام کے متعلق ہونے والے سوالوں کا مناسب اور مدلل جواب کا حامل یہ اداراہ بنام مسلم ان متشدد افکار و نظریات کا بھی رد کرتا ہے جو محض اپنی انا مزاجی اور عیش پرستی کی بنیاد پر اسلامی تعلیمات کو بدنام کر رہے ہیں اور جہاد فی سبیل اللہ جیسے اسلام کے پاکیزہ فکر و نظر کو دہشت گردی کی نذر کرکے پامال کر رہے ہیں۔یہ ادارہ شروع ہی سے ایسے انتہا پسند افکار ونظریات کا مخالف رہا ہے۔ اس نے جامعہ ازہر کی پناہ گاہ میں کبھی بھی ایسی فکر کو پنپنے نہیں دیا۔ اگر چہ ملک میں اس طرح کی فکر موجود ہے لیکن جامعہ ازہر ہمیشہ سے اس سے محفوظ رہا ہے اور دین اسلام کی بنیادی تعلیمات کو لوگوں تک پہنچاتا رہا ہے۔جامعہ ازہر نے باقاعدہ اس کا اعلان کیا ہے کہ نہ تو اسلام میں کسی ایسی فکر کی گنجایش ہے اور نہ ہی جامعہ میں اس طرح کے نظریہ کو قبول کیا جائے گا۔جامعہ ازہر کے موجودہ شیخ الازہر الشیخ دکتور احمد طیب نے مسلمانوں کے عالمی اتحاد کی جو صورت نکالی ہے اس کی مثالیں تاریخ میں مشکل سے ملتی ہے۔جامعہ ازہر دنیا کے جملہ اسلامی اداروں میں امام اور فیصل کی حیثیت رکھتا ہے۔اس سے نسبت محض قوم مسلم میں مقبولیت کی ضامن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر شخص اس ادارے سے کسی نہ کسی طرح اپنے آ پ کو منسوب کر کے اپنی صفائی اور اہلیت و اہمیت کے ساتھ امت مسلمہ میں اپنی قبولیت کو یقینی بنانا چاہتا ہے۔اور جامعہ ازہر کی سند حاصل کرنا چاہتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ جامعہ ازہر کے نام سے منسوب کئی ادارے پوری دنیا میں ہیں جو اس اعظیم ادارے کے منہج و موقف کی نہ صرف ترویج واشاعت کرتے ہیں بلکہ خدمت دین کا بھی فریضہ انجام دیتے ہیں۔یہاں اس بات کی وضاحت اشد ضروری ہے کہ جامعہ ازہر کی انفرادی حیثیت اس میں زیر تعلیم طلباء کی کثرت یا ہمہ جہتی اعلیٰ تعلیم فقط نہیں ہے۔ بلکہ اس کی انفرادی حیثیت اس کے دینی موقف کی بنیاد پر ہے۔ اس کا منہج اعتدا ل اور میانہ روی اسے یکتا بناتا ہے۔ جامعہ ازہر جہاں ایک طرف بے جا مصلحت کا مخالف ہے تو دوسری طرف وہ مذہبی شدت پسندی کے بھی سخت خلاف ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مذہبی شدت پسندی سے منسوب ابن تیمیہ اور ان کی فکر کے ترجمان اداروں اور جماعتوں کو جامعہ ازہر خارج کرتا رہا ہے۔ اس فکر کی ترجمانی کرنے والی تنظیم اخوان المسلمین جو مصر، ٹیونیشیااور ترکی وغیرہ ممالک میں کافی سرگرم ہیں اور ایک خبر کے مطابق دہشت گرد تنظیم داعش میں بھی اس فکر کے دہشت گرد موجود ہیں۔ جامعہ ازہرنے ابن تیمیہ اور اخوان المسلمین کو کبھی پسند نہیں کیا۔ہمیشہ اس کے اسلام مخالف شدت پسند نظریات کا رد کرتا رہا ہے۔ اسی وجہ سے اخوان المسلمین کی نظر میں جامعہ ازہر اسلام مخالف ادارہ ہے۔ جب مصر میں ایک خونی انقلاب آیا تھا اور سابق صدر حسنی مبارک کو معزول کر کے نئے اخوانی صدر مرسی کرسی اقتدار پر بیٹھے تو انہوں نے سب سے پہلے اپنی فکر کی ترویج کرنی چاہی۔ جامعہ ازہر کے دستور کو تبدیل کرنا اپنا اولین فرض سمجھااور مصر کے اوقاف کی مساجد میں اپنی فکر کے ائمہ کی تقرری کو دسرا فرض تصور کیا۔
جامعہ ازہر کا یہ مختصر سا پس منظر اس کے افکار و نظریات کا واضح کرتا ہے۔ ابھی حال ہی میں ملک ہندوستان میں بھی اس نام سے موسوم ایک ادارہ قائم کرنے کی خبریں اخباروں اور اشتہارات کے ذریعہ دیکھنے اور سننے کو ملیں۔ اس پر کافی ہنگامہ بھی ہوا۔ جامعہ ازہر کے فارغین ازہری علماء نے اس کی مخالفت بھی تو انہیں
میں سے بعض نے حمایت بھی کی۔ مخالفت اس بات کی تھی کہ چونکہ جامعہ ازہر کی کوئی بیرونی شاخ نہیں ہے اسلئے اس نام سے اداررے کا قیام غلط ہے۔ نہ تو اس ادراے کے نصاب میں جامعہ ازہر کے موقف و منہج کی کوئی وضاحت ہے اور نہ ہی اس سے کسی بھی قسم کی کوئی وابستگی کا اظہار ہے۔ حالانکہ مجوزہ ادارہ کے ذمہ داروں کی جانب سے اس بات کی وضاحت بھی کی گئی کہ اس مجوزہ ادارے کا تعلق جامعہ ازہر سے نہیں ہے۔تاہم جامعہ ازہر کے نام کا استعمال ایک سوال قائم کئے ہوئے ہے۔ وہیں دوسری جگہ مخالفین نے اس بات کی وضاحت کی کہ انہیں علمی درسگاہ یا فکری دانشگاہ کے قیام سے کوئی اعتراض نہیں۔لیکن اس کے لئے علمی سرقہ کی ضرورت کیوں پڑ گئی۔ جن لوگوں نے حمایت کی ان کا بھی موقف تقریبا یہی تھا کہ یہ ایک ادارے کا قیام محض ہے۔ اس سے قوم مسلم کا علمی و فکر ی فائدہ ہے۔ قوم کی تربیت کا ایک ذریعہ ہے۔ لہٰذا ایسے کاموں کی حمایت ہونی چاہئے نہ کہ مخالفت۔
جامعہ ازہر کے مختصر پس منظر کو ذہن میں رکھتے ہوئے اس مجوزہ ادارے کے سنگ بنیاد کے موقعہ پر موجود علماء کرام کی فکری و نظریاتی موقف کا اندازہ لگائیں۔ ان میں سے کتنے ہیں جو جامعہ ازہر کے موقف سے متفق ہیں؟ ان میں سے کتنے ہیں جو ابن تیمیہ اور مولانا مودودی کی افکار و نظریات کا رد کرتے ہوں۔ جبکہ جامعہ ازہر نے دونوں کی فکر کو اسلام مخالف قرار دیا ہے۔ ان کی کتابوں سے دور رہنے کی تلقین کی ہے۔ یہاں تک کہ ایسا بھی ہوا ہے کہ مصر میں ان کی کتابوں کو نذر آتش کر کے لوگوں تک اس موقف میں تصلب کی تلقین کی گئی۔ اخباروں میں جامعہ ازہر کا موقف کھلے لفظوں میں تھا کہ مولانا مودودی کی فکر قوم مسلم کے لئے نقصان دہ ہے۔جبکہ سنگ بنیاد کی تقریب میں اس بات پر زرو دیا گیا کہ اس ادراے کو ابن تیمیہ کی فکر کو فروغ دینے اور ان کے نظریات سے لوگوں کو مستفید کرنے کیلئے بنایا جائے گا۔جامعہ ازہر مصر اور جامعہ ازہر ہند دو الگ دھارے ہیں۔ دو الگ اور مخالف فکریں ہیں۔ اب اس ایک ہی نام سے موسوم و منسوب کرنا اگر انصاف ہے تو اسے قبول کیا جائے۔اب اس مجوزہ ادارے کے مخالفین و حامیین کو یہ طے کرنا ہے کہ اس ادارے کے قیام کے اس پہلو کو دیکھ کروہ اپنا کیا موقف بناتے ہیں۔ یہاں اس بات کی وضاحت بھی کر دی جائے کہ اخباروں کے ذریعہ اس بات کا اعلان کیا گیا ہے کہ جامعہ ازہر اس مجوزہ ادارے کے قیام کے مخالف ہے۔ یعنی نام کو استعمال کرنے کے مخالف ہے اور اس کے متعلق اس کے کچھ بیان بھی سوشل میڈیا پر دیکھنے کو ملے ہیں۔ ان کی تصدیق و تحقیق سے پہلے یہ ہندوستانی مسلمان اور جملہ دانش مندوں کا حق ہے کہ وہ اس بارے میں سوچیں کہ کسی ادارے کا نام استعمال کرنا اور خاص طور پر اس کی فکر کے مخالف ہوکر، کتنا بڑ اجرم ہے۔ اگر دانش مندی اسے قبول کرتی ہے تو کوئی بات نہیں۔
یہاں اس ضمن میں یہ بھی عرض کرنا ضروری ہے کہ ہندوستان میں ازہری علماء کی تعداد آج کی تاریخ میں 300 سے زائد ہے۔ ازہری اس عالم دین، مفکر اور دانش مند کو کہتے ہیں جس نے جامعہ ازہر مصر سے تعلیمی فراغت حاصل کی اور اسے جامعہ ازہر کی سند موصول ہوئی ہو۔جس طرح جامعہ ازہر کا نام استعمال کرنا جرم ہے۔ اسی طرح’ ازہری‘ نام کا غیر ازہری کیلئے استعمال بھی جرم ہے۔ یہاں ہندوستان میں جامعہ ازہر مصر سے پرانے فارغ التحصیل عالم دین حضرت مولانا اختر رضاخان ازہریصاحب، جو کہ خانوادہ اعلیٰ حضرت کے اہم ترین شخص ہیں،اور جامعہ ازہر سے فارغ ہونے ہی کی وجہ سے ان کو ’ازہری میاں‘ کہا جاتا ہے، ان کے مریدین بھی اپنے آپ کو ازہری کہنا شروع کر دئے ہیں۔ جس کی وجہ سے بسا اوقات بڑی عجیب سی کشمکش صورت حال کا سامنا کرنا پڑ جاتا ہے۔ہر ازہری کو اس بات کی وضاحت درکار ہوتی ہے کہ کون سے ازہری ہو۔ جامعہ ازہر والے یا ازہری میاں والے۔دونوں ہی جرم ہیں۔ اور سوال دونوں سے ہے۔ خواہ جامعہ ازہر کا نام استعمال کر کے ایک نیا ادارہ قائم کرنا ہو یا ازہری نام کا استعمال مریدوں کیلئے ہو۔
یہ ایک ضمنی بات تھی ۔ اصل مدعیٰ یہ ہے کہ اس وقت اگر اتحاد بین المسلمین کی خواہش ہے تو اس کی ایک صورت جامعہ ازہر مصر کا موقف بھی ہے۔ جو آج کے نازک حالات میں اس مظلوم قوم کی رہنمائی کر سکتی ہے۔ یہ ادارہ شروع ہی سے اپنے فرائض انجام دے رہا ہے۔ ہندوستانی علماء و دانشوروں کو اس جانب بھی پہل کرنی چاہئے۔ اس موقعہ پر ایک خوش آئند امید کا اقراربھی کر تا چلوں کہ اس معاملے میں تقریبا پہل ہو چکی ہے۔ ہندوستان اور مصر کا علمی و فکر تبادلہ کا سلسلہ بڑی ہی سنجیدگی اور متانت سے شروع ہوا۔ اس میں تمام اہل علم کو شرکت کر کے نہ صرف مضبوت کرنا چاہئے بلکہ آئین کی شکل میں اسے فروغ دینا چاہئے۔*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385

Wednesday, August 9, 2017

وقف بورڈ اور DDA کی بڑھتی بدعنوانیاں वक़्फ़ बोर्ड और DDA का भ्रष्टाचारThe increasing corruption of Waqf Board and DDA


وقف بورڈ اور DDA کی بڑھتی بدعنوانیاں
عبدالمعید ازہری

ہندوستان سمیت پوری دنیا جہاں کہیں بھی اسلامی حکومتیں ہیں یا مسلم قوم قدیم زمانے سے آباد ہیں، تقریبا ہر جگہ وقف جائداد کا تصور اور اس کے تئیں نظم و نسق کا نظام موجود ہے۔ اس زمرے میں ہندوستان وقف جائداد کے معاملے میں کئی مسلم ممالک کی اراضی اوقاف سے آگے ہے۔ وقف جائداد کی نگہداشت کے لئے الگ الگ ممالک میں الگ الگ نظام قائم ہیں۔ کہیں سیدھے حکومت کی زیر نگرانی میں ہے تو کہیں مسلم اوقاف کے زیر نظم ہیں۔ ہمارے ملک میں بھی ان اوقاف کی جائدادوں کے لئے ایک بورڈ موجود ہے۔ جسے ہم وقف بورڈ کہتے ہیں۔ جس طرح سے حکومت کے دیگر ادارے ملک اور ملک کے باشندوں کی علمی،سیاسی ، سماجی اور اخلاقی تربیت و ترقی کے لئے قائم کئے گئے ہیں تاکہ اس ملک کا ہر باشندہ ذی شعور اور قابل و لائق اور فائق نکل کر ملک اور قوم کو ترقی سے ہم کنار کرے اور ایسا ہو بھی رہا ہے۔ اسی طرح سے وقف بورڈ کا قیام بھی اسی مقصد سے کیا گیا تھا۔ اس کی جائداد کا صحیح استعمال کر کے اقلیتی طبقے کی تعلیمی، معاشی اور سیاسی و سماجی زبوں حالی اور زوال پذیری پر قدغن لگایا جائے۔ اس کے صحیح استعمال سے نچلے طبقے کو بھی ترقی دے کر ملک کی تعمیر و ترقی کا برابر حصے دار بنایا جائے۔ تاکہ ملک کو ایک ساتھ مل کر ترقی یافتہ ممالک کی فہرست میں اول مقام دلا کر اس کے تئیں اپنی جان مال قربان کرنے والوں کو خراج پیش کیا جائے۔
وقف جائداد وہ جائداد ہیں جنہیں کار خیر اور ایصال ثواب کی نیت سے قوم کی خدمت کے لئے وقف کی گئی ہیں۔ صاحب حیثیت، زمیں دار اور اہل ثروت نے اپنے متعلقین اور لواحقین کے لئے ان کے ایصال ثوب کے لئے یا کار خیر کی نیب سے انہیں وقف کر دیا کہ اب اس جائداد کا استعمال امت کی بھلائی اور اس کی تعمیر و ترقی میں استعمال ہو۔ بنیادی طور پر وقف جائداد کا تصور یہیں سے وجود میں آیا۔ مذہب اسلام میں مرنے والے سے اس کی موت کے بعد بھی تعلق کا ایک اہی راستہ ہے۔ صدقہ جاریہ اور اس کے لئے ایصال ثواب کرنا۔ان جائداد، مال و دولت کو ضرورت مندوں پر خرچ کر کے اس کے صلہ میں مرحوم کے لئے دعائیں کرنا، ان کی مغفرت چاہنا۔یہ سلسلہ قدیم زمانے سے مسلمانوں میں رائج اور قائم و دائم ہے۔ اپنی اپنی حیثیت،نیت اور عقیدت و اردات کی بنیاد پر یہ کار خیر رواں دواں ہے۔جس کے نتیجے میں آج ملک بھر کی وقف جائداد کا اندازہ لگایا جائے تو اقلیت کے ساتھ ملک کے حالات بدلنے کے لئے کافی ہے۔ اس کے صحیح استعمال سے ایک اندازے کے مطابق محض دس برسوں میں قوم مسلم کے حالات یکسر بدل سکتے ہیں۔ان جائداد کے پیچھے ایک اور دلچسپ حقیقت اور سبق آموزنمائندہ اوراق پنہاں ہیں۔ جنہیں کم ہی کھولا جاتاہے۔ عام طور پر یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ اکثر اوقاف کی جائداد ایسی جگہ ہیں جہاں کسی بزرگ کی کوئی قبر، مزار، درگاہ اور اسی سے وابستہ ایک مسجد ہے۔ وقت و حالات کے بدلنے کے ساتھ ساتھ تعمیر و ترقی بھی انہدام و تنزلی بھی ہوتی رہی۔ کچھ جگہیں تو کافی نمایاں اور ترقی یافتہ ہو گئیں اور کچھ اتنی تاریکی میں چلی گئیں کہ آج و ہ موشیوں،غلیظ خانوں کی استعمال گاہ بن گئیں۔
بہر حال اس کے پیچھے کی دلچسپ تاریخ یہ ہے کہ ہندوستان جب اسلام آیا تو تصوف کے کردا ر میں آیا تھا۔ ایک درویش اپنی انسانی ہمدردی اور قومی ہم آہنگی کی تعلیم سے لوگوں کے لئے ہدایات کے راستے ہموار کرتا تھا۔ کسی جگہ بیٹھ کر وہ انسان کی بنیادی ضرورتوں کو پورا کرتے ہوئے اپنی زندگی گزارتا تھا۔ لوگ ان کے اس عمل اور کردا ر سے متاثر ہو کر اس بزرگ کے مذہب کو قبول کر لیتے تھے۔ اس انسانی ہمدردی اور رواداری کے چلتے ان کے پاس لوگوں کا جم غفیر ہونے لگتا تھا۔ لوگ دور دراز سے سفر کر کے ان بزرگوں کے پاس کچھ دن گزارنے اور انسانی رواداری کی تعلیم سیکھنے آتے تھے۔ مہینوں کا قیام رہتا تھا۔اب مہینوں تک رکنے کے لئے ان کی خاطر قیام و طعام کا انتظام بھی ضروری تھا۔ تو اس کے لئے اہل ثروت نے سخاوت دکھائی اور اس وقت کے حاکموں نے بھی اس میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور اس بزرگ کے مسکن کے قریب کی زمینوں کو اسی کار خیر کے لئے وقف کر دیا۔ اب اس میں کھیتی بھی ہوتی تھی۔ اور اسی کے غلے سے بھوکوں کو کھانا بھی کھلایا جاتا تھا۔اس طرح غریبوں اور مسکینوں کو ایک ایسا مرکز مل گیا جہاں سب کو کھانا ملتا تھا۔جہاں لوگوں کے ساتھ ہمدردی ان کے مذہب یا ذات کی بنیادپر نہیں بلکہ ان کی ضرورت کی بنیاد پر ان کے ساتھ معاملات کئے جاتے تھے۔
دہلی سمیت ملک کے الگ الگ حصوں میں خصوصا شہروں میں ان کی ترقی کے لئے قائم کردہ ایک ادارہ ہے جسے دہل میں DDA کہتے ہیں۔ دہلی ڈیولپمنٹ اتھارٹی۔دہلی، پنجاب اور یو پر سمیت کئی ریاستوں کی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کاحال یہ ہے کہ اس نے اوقاف پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ وقف بورڈوں کی ملی جلی سازش سے یہ کام بڑی بے باکی اور مجرمانہ طریقے سے عمل میں آرہا ہے۔دہلی وقت بورڈ کے وقف جائداد کی بڑھتی سودے بازی نے کئی بڑے سوال کھڑے کر دئے ہیں۔ اس جائداد کا استعمال قوم کے لئے بہترین اسکول سے لے کر یونیورسٹی تک کا قیام عمل میں آ سکتا تھا۔ صحت کی نگہداشت کے لئے نہ صرف بڑے اسپتال بلکہ میڈیکل کالج بھی قائم ہو سکتے تھے۔ جس سے پوری قوم مستفید ہوتی۔ لیکن اس کی غیر قانونی سودے بازی نے سیاسی لٹیروں کو بھی اس جانب متوجہ کرا دیا ہے کہ یہ بکنے والا ادارہ آپ کی بولی کا انتظار کر رہا ہے۔
وقف بورڈ کی یہ بے رخی کیوں ہے یہ سمجھ سے پرے ہے۔آیا انہیں بزرگوں کی روایت سے دلچسپی نہیں ہے۔ ان کے خدمت خلق کی روایت انہیں اچھی نہیں لگتی۔ درگاہ یا قبر و مزار اور ان کی تاریخ پسند نہیں۔ لہٰذا ایک گھنونہ کام اور سامنے آیا کہ مسجدوں کو مسمار کرنے کا کام شروع ہو گیا۔ چند برس قبل مہرولی کی غوثیہ مسجدسے شروع ہونے والا انہدام کا سلسلہ خسرو پارک کی مسجد اور لال مسجد تک ہوتا ہوا دہلی کی کئی اہم مساجد تل پہنچ چکا ہے۔ وقف بورڈ سامنے سا تماشہ دیکھ رہی ہے ۔اس جائداد کی حقدار قوم بھی خاموش ہے۔ جب اس کے سیاسی نااہل رہنما ہی اس کے سوداباز ہیں تو بے چاری قوم کر بھی کیا سکتی ہے۔اس وقف بورڈ میں عقیدہ اور مسلکی تصادم کا بھی بڑا رول ہے۔ عام طور پر اس جائداد کے نگراں ایسے لوگ منتخب ہوتے ہیں جنہیں اس صوفیوں اور بزرگوں کی روایات سے کسی بھی قسم ربط نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بے شمار خدمت خلق کے مثالی بزرگوں کی تاریخیں مسخ کر دی گئیں۔ ان کی روایات جلا دی گئیں۔یہ اپنی کوٹھیاں اور حویلیاں بناتے رہے۔ ابھی تک ایسے لوگ اس جائدا د کی نگہداشت کے لئے بورڈ کے ذمہ دار نہیں بنے جو صحیح معنوں میں اس کا جائز استعمال کر سکیں۔
جو بھی آیا ہے صرف مسمار اور کاروبار کیا ہے۔
حکومتوں کو اس طرف خصوصی توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ صرف مسلم ادارہ یا اسی کے لئے مخصوص کوئی ادارہ اگر نہیں بنتا تو کم سے کم اس کا استعمال عام ہندوستانیوں کی فلاح بہبود کے لئے تو ہو سکتا ہے۔ تعلیمی اور طبی مراکز قائم کر لے ملک کی لا علمی اور عدم صحت کو تو کم از کم دور کیا جا سکتا ہے۔اس بورڈ اور اس کے ساتھ DDA کی بد عنوانی اورناجائز کاروبار کو روکنا ہوگا۔اس جائداد کا صحیح اور جائز استعمال کر کے ملک اور قوم کی ترقی کے کئی اہم اور بڑے مراحل طے کئے جا سکتے ہیں۔وقف بورڈ میں کسی ایسے کی تقرری پر فوری رو ک لگائی جانی چاہئے تو ان کی تاریخ اور تعلیم سے واقف نہیں اور اس روایت میں یقین نہیں رکھتا ۔ کیوں کہ اگر اس کی ذاتی عقیدت نہیں ہے تو اس کاروبار ہی کرے گا۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi), Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com



@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@