Thursday, June 22, 2017

رمضان کریم، علماء کرام اور اپنا محاسبہHoly Ramzan, Respected Scholar and self Introspectionरमज़ान उलमा और अध्यात्म


رمضان کریم، علماء کرام اور اپنا محاسبہ

عبد المعید ازہری

رمضان یقیناًروحانی اور انسانی تربیت کا مہینہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ماہ انسان ہمدردی کے نہایت ہی قریب ہوتا ہے۔ کسمپرسی کے حالات کم سے کم تر کئے جانے کی روایتیں کثر ت سے دیکھنے کو ملتی ہیں۔دل بڑا نرم ہوتا ہے۔ ضرورت مندوں کی فریاد رسی میں جلدی بھی کی جاتی ہے۔ صوفیا کہتے ہیں کہ رمضان احتساب نفس کا مہینہ ہے۔ جب اس مہینہ انسان اس قدر مہذب رہ سکتا ہے تو دیگر ایام میں وہ رب کی قربت کا متلاشی کیوں نہیں ہوتا۔آج کل تو سوشل میڈیا پر بھی اس ماہ مبارک کی مناسبت سے کار ثواب کی خوب کمائی ہوتی ہے۔ ایک روز اسی سوشل میڈیا کے ذریعہ کسی صاحب کا ایک اسٹیٹس پڑھا ’جو قوم اپنے علماء کو رسیدیں لے کر در در بھٹکنے پر مجبور کرے، وہ قوم چین و سکون سے کیسے رہ سکتی ہے‘۔ واقعی جملہ تو اچھا تھا۔ دل پر اثر بھی ہوا۔ جس جماعت کی اہمیت و فضیلت میں قرآنی آیات و نبوی پیغامات کا نزول ہو ا ہو، اسے یوں گلی گلی گھمانا واقعی انصاف نہیں ہے۔بڑی ذلت و رسوائی کا سامنا کرنا پڑتاہے۔ ممبئی جیسے شہرمیں تو باقاعدہ لائن لگتی ہے۔ اہل ثروت کے دروازے سیکڑوں کی تعدادمیں بڑی داڑھی ، اونچی ٹوپی اور سفید کرتا پجامہ رومال اور دیگر دیدہ زیب کیلئے ضروری ملبوسات کے ساتھ ایک لمبی قطار ہوتی ہے۔ انہیں بڑی ہی پر تکلف حالات کا سامناکرنا پڑتا ہے۔ ہر اہل و نا اہل کی کھری کھوٹی سننی پڑتی ہے۔بڑی رقم لینے کیلئے بڑے سے بڑے جھوٹ اورمکر کا سہارا لینا پڑتا ہے۔اس سے بھی بڑے برے حالات ہوتے ہیں جو تحریر کی زد سے باہر ہیں۔
سوال یہ ہے کہ قطار بند جملہ اہل ٹوپی و کرتا کیا واقعی میں علماء ہی ہیں؟یا اگر ان میں کچھ علماء بھی ہیں تو آخر انہیں ایسی ذلت کا سامنا کرنے پر کیاچیز اکساتی ہے؟ایسا کیا مجبوری ہے جس کی وجہ سے انہیں در در کی ٹھوکریں کھانے کو ملتی ہیں؟ایک اندازے کے مطابق قطار میں کھڑے لوگوں میں واقعی علماء کی تعداد نہ کے برابر ہوتی ہے۔ ان میں سے اکثر 30 فیصد سے لیکر 80فیصد یا پھر 100 فیصد والے لوگ ہوتے ہیں۔ فرضی ڈگری، فرضی مدرسہ اور فرضی شکل و شباہت والے ہوتے ہیں۔اس فرضی تجارت نے اصل حقدار کو محروم کر رکھا ہے۔ اسی کی وجہ سے انہیں بھی مکر و فریب کا سہارا لینا پڑتا ہے۔آخر مدرسہ اور مسجد کی کمیٹی چندے کیلئے کیوں نہیں جاتی؟ مذہبی معاملات میں تو خوب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں اور کسی مفتی کی طرح فیصل فتوی داغتے ہیں۔ لیکن بوقت ضرورت وہ بھی اپنے مدرسین کو ایک ماہ کا اضافی نذرانہ دے کر انہیں رقم وصولی پر بھیجتے ہیں اور یہ لوگ نکل پڑتے ہیں۔ ان سب کیفیات و حالات سے قطع نظر اصل سوال یہ ہے کہ وصول کی جانے والی رقم کی کیا حیثیت ہے؟ وہ یا تو زکوٰۃ وصولتے ہیں یا فطرہ۔ دونوں ہی رقموں کے حقدار کون ہیں؟ یہ جو لوگ اس رقم کو وصول کرتے ہیں اور پڑھے لکھے ہوتے اور انہیں کچھ نہ کچھ مسائل سے علم بھی ہے۔ کیا انہیں اس بات کا علم نہیں کہ اس مال کا صحیح حقدار کون ہے۔اگر انہیں پتہ اور اس کے باوجود اسے وصول رہے ہیں تو کیا یہ لوگ اہل حق کا حق نہیں مار رہے ہیں؟ یہی سوال ادائگی کرنے والوں سے بھی ہے کہ صرف پیسہ خرچ کر دینا ہی کافی نہیں ہے۔ اس مال کو اس کے حقدار تک پہنچانا بھی انہیں کی ذمہ داری ہے۔
یہ ایک نہایت ہی نازک اور حساس مسئلہ ہے ۔ بہت سے اہل مدارس یا پھر چندہ کے تاجروں کو اس تحریر سے سخت اختلاف ہو سکتا ہے۔ لیکن اگر صحیح معنوں میں غور کیا جائے تو یہ اتنا سنگین مسئلہ ہے کہ اس روش سے نہ صرف جرم ، گناہ اور حق تلفی ہو رہی ہے بلکہ قوم کا ہر میدان میں نقصان ہو رہا ہے۔
ایک سروے کے مطابق رمضان کے مہینے میں پورے ملک بھر میں زکوٰۃ اور فطرہ کے نام پر نکلنے والی رقم 30 ارب روپئے کم و بیش ہے۔ اتنی رقم مستحقین کیلئے نکلتی ہے۔ اب اس میں سے کتنی رقم مستحقین تک پہچنتی ہے، یہ ایک قابل غور مسئلہ ہے۔اس پر دوسرا مسئلہ یہ ہے کہ اگر یہ رقم مستحقین تک نہیں پہنچی توکیا وہ زکوٰۃ اور فطرہ کے نام پر نکلنے والی رقم کی صحیح ادائکی ہو گئی؟
یہ اتنی بڑی رقم ہے کہ دس برسوں میں قوم کا نقشہ بدلنے کیلئے کافی ہے۔ اب اس نظم اور سسٹم پر غور کریں کہ کس قدر بد عنوانی بھری پڑی ہے۔ اب اس میں رقم نکالنے والوں کی مجبوری ہے یا وصولنے والوں کی ہے۔ یہ آپ کے صواب دید پر چھوڑتے ہیں۔ لیکن مسئلہ کی نزاکت بدستور باقی ہے۔قوم کی زبوں حالی، علمی و فکری زوال جاری ہے، پسماندگی مقدر بنتی جا رہی ہے۔جو دور ہو سکتی ہے۔ کسی کے آگے ہاتھ پھیلائے بغیر یہ قوم اپنے مسائل حل کرنے کی اہل ہے۔بس ضروری ہے کہ یہ قوم ان مشکلوں سے خود نکلنا چاہے۔ گداگری اور کشکول برداری کی ذلت سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنا چاہے، تو کچھ بھی مشکل نہیں۔
اتنی بڑی رقم میں اگر ہر سال دس ہزار گھروں کی کفالت کی ذمہ داری لے لی، اتنے نوجوانوں کیلئے روزگار مہیا کر دیا جائے، ان کے لئے چھوٹے کاروبار کا انتظام کر دیا جائے، تو ذرا غور کریں کہ یہ قوم کہاں ہوگی۔یہ قوم پڑگی لکھی ہوگی، اپنے پیروں پر کھڑی ہوگی۔ کسی کے آگے مجبوری اور بے بسی کی فریاد نہ کر رہی ہوگی۔ یہ قوم کسی کے لئے تختہ مشق ستم نہ ہوگی۔
اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ مدارس و مساجد کی طرف سے یکسر منہ موڑ لیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ ایک خدا کا گھر دوسرا اس کے محبوب کا گھر ہے۔ اب اس گھرمیں کس طرح کا پیسہ لگایا جائے۔ زکوٰہ جسے اہل ثروت کے لئے میل کہا گیا ہے۔ اب اگر اسے اپنی قوم کی مذہبی تعلیم میں لگایا جائے تو نتیجہ کیا ہوگا! مسجد و مدرسہ قوم کی اپنی ذمہ داری ہے۔ خدا کریم نے مؤمن کی کمائی کو جن حصوں میں تقسیم کیا ہے، اس میں ایک حق و حصہ مسجد و مدرسہ کا ہے۔ جس طرح خود کا ، اپنے اہل عیال، والدین اور تعمیرملک و معاشرہ کیلئے ہماری کمائی کا حصہ مختص ہے، اسی طرح خدا اور اس کے محبو ب کا بھی حصہ مختص ہے۔اس مال سے اس میں امدا د کی جانی چاہئے ۔ ایسا ممکن اور آسان ہے۔بس نیب ہونی چاہئے۔
علماء کرام میں تبلیغ دین اور تدریس علم دین کے علاوہ اگر روزی روٹی کیلئے اضافی ہنر کا، تجارت و کاروبار کا رجحان پیدا ہو جائے، تو خدمت میں خلوص کے ساتھ ضرورتوں کی بھی کافی حد تک تکمیل ہو سکتی ہے۔ ایسا اکثر انبیا ، صحابہ اور بزرگوں کی تاریخ زندگی میں دیکھنے کو ملتا ہے۔اس کی تفصیلی وضاحت پھر کبھی۔
مال کی ادائکی جتنا زیادہ مستحقین کو ہوگی اتنی ہی جلد ان کی تعدام میں کمی آئے گی۔ خود کار طور پر ضرورتیں ختم ہوتی چلی جائیں گی۔سب خود کفیل ہوں گے۔ تعلیم و تربیت کے لئے خود خرچ کریں گے۔ مفت میں تعلیم کے خواہاں نہیں ہوں گے۔ یا دینی تعلیم کیلئے پھر رقم کی ضرورت نہیں پڑے گی۔ دونوں طرف سے کوشش ہوگی۔ یہ راستہ کافی آسان ہے۔
ایسا نہیں ہے کہ زکوٰۃ و فطرہ کے علاوہ اپنی اصل کمائی سے مال کی ادائکی نہیں ہوتی ہے۔ ایک دوسرے سروے کے مطابق اتنی ہی رقم 30 ارب روپئے کم وبیش سالانہ جلسے جلوس، فاتحہ، نذر و نیاز، عرس و محافل میں خرچ ہوتے ہیں۔اس سے یہ بات تو واضح ہو گئی کہ پیسے کی ادائگی میں کہیں کوئی خاص کمی نہیں بلکہ سسٹم اور نظم و نسق میں کمی ہے۔
مجوزہ چندہ خوری کا نظام اگر بند ہوتا ہے اور اس کی جگہ صحیح نطام قائم ہوتا ہے، تو اس سے فراڈ اور فرضی چندہ خوروں کی تعداد میں بھاری کمی آئے گی۔جن کی تعداد تقریبا90 فیصد ہے۔ علماء کا وقار بھی برقرار رہے گا۔ انہیں در در بھٹکنا نہیں پڑے گا اور نہ ہی انہیں قطار بند ہو گر ذلیل و رسوا ہونا پڑے گا۔
اہل ثروت اگر کروڑوں روپئے نکال سکتے ہیں، تو ان کیلئے کیا بعید ہے کہ وہ مستحقین کو تلاش کریں اور قوم کی پسمانگی کو دور۔ اس کی غریبی اور احتیاج کو ختم کریں۔ بھکاریوں کی تعداد سے اس قوم کو نکالیں۔ اور خود کو اس کا حصہ بننے کی لعنت سے نکلیں۔
*****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Tuesday, June 20, 2017

مہمان کی رخصتی اورہزار مہینوں سے افضل را ت The Night better than thousand monthsहज़ार महीनों से अफज़ल रात


مہمان کی رخصتی اورہزار مہینوں سے افضل را ت 
عبد المعید ازہری

یہ مبارک مہینہ اپنے آخری ایام پورے کر رہا ہے۔ اس کی برکتیں اور سعادتیں ہر کسی کے لئے عام رہی ہیں ۔ جس کو جتنی توفیق ہوئی اس نے فائدہ حاصل کیا اور اب وہ ہم سے رخصت ہو رہا ہے ۔آنے والا جمعہ رمضان کا آخری جمعہ ہے ۔جسے ہم جمعۃ الوداع کہتے ہیں ۔ اس جمعہ کی اپنی ایک روایت ہے ۔چونکہ رمضان ایک مہمان کی حیثیت سے ہمارے درمیان آیا تھا اور جب تک رہا بڑا ہی سخی اور فیاض رہا ۔ ہر خاص و عام پر اس کا انعام ہوا ۔ سبھی نے اس کی برکتیں لوٹیں اور جس کا جتنا دامن تھا اس کے سوا حاصل کیا ۔آج رمضان جب رخصت ہونے کو ہے، ایک روزہ دار کا روزہ اس سے مخاطب ہے’’ الوداع اے ماہ مبارک الوداع ، الوداع اے ماہ رمضان الوداع، آنکھیں پر نم ہیں۔ دل غمگین ہے ۔ لب پر شکر خداہے کہ اے ماہ مبارک یہ تیرا احسان اور رب کا خاص فضل ہے کہ توہمارے درمیان آیا اور ہمیں تیرے ذریعہ رب کی قربت کا موقعہ ملا ۔ شکر ہے رب کا کہ اس ماہ مبارک میں اس نے ہمیں اپنے قریب ہونے کا خاص موقعہ دیا ۔شکر اس کا کہ اس نے ہمیں خدمت خلق کا عادی بنا یا۔شکر اس کاکہ اس نے انسانیت سے قریب کیا ۔ قرآن سے قریب کیا۔عبادت کا شوق دیا ۔بندگی اور نیاز مندی سے روشناس کرایا۔حقوق اللہ اور حقوق العباد کا سلیقہ، طریقہ ،موقعہ اور اس کی ادائگی کا جزبہ دیا ۔اے خدا اس رمضان کے صدقہ میں تو نے وہ راستے کھولے جو فلاح و بہبود کے تھے ۔کامیابی و کامرانی کے تھے۔ تو نے ہمیں شر و فساد سے محفوظ کیا ۔ شیطان کو بند کیا تاکہ ہم بھٹک نہ سکیں۔اب یہ ماہ مبارک ہم سے رخصت ہونے کو ہے ۔اس کی بے بہا نعمت و تکریم کے باوجود ہم اس کی کما حقہ ضیافت نہ کر سکے ۔ ہم شکر گزار ہیں کہ ہمیں تیری بدولت سحری و افطار ملی ، قرآن و تراویح ملی اور لیلۃ القدر جیسی عظیم رات کا تحفہ ملاجو ہزار مہینوں سے افضل ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے ’’ہم نے قرآن کو شب قدر میں نازل کیا۔ شب قدر جو ہزار مہینوں سے افضل ہے‘‘(القرآن)
اس ماہ مبار ک کی رخصتی کے وقت ایک محاسبہ کرنے کی ضرورت ہے کہ یہ بابرکت مہینہ ہمارے درمیان کیوں آیا۔ ہمیں کیا دے کر جارہے ۔ ہم سے کس بات کا تقاضہ کرتا ہے ۔ اس عظیم مہینہ میں نازل نعمتوں کو ہم پورے سال تک کے لئے کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ جس تقوی اور بندگی کا شوق اس مبارک مہینہ میں پیدا ہوا ہے، کہیں وہ ہم اسی مہینہ تک محدود تو نہیں کر دیں گے۔جس اخلاص اور رواداری کا معاملہ ہم نے اس مہینہ میں کیا ہے، کیا ہم اسے آگے بھی کرنے کیلئے تیار ہیں۔اگر ہم متقی نہ ہوسکے ۔ خدا پرست نہ بن سکے، خلوص و للہیت کا جزبہ پیدا نہ ہو سکا، تو شاید ہم نے رمضان مبارک سے کچھ سبق حاصل نہیں کیا۔ رمضان میں حاصل کی گئی نعمتوں کا اظہار آئندہ ایام میں ہوتاہے ۔ اگر ہم نے وہی ایثار و عبادت کا ذوق قائم رکھا، تو یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس ماہ مبارک سے ہم نے کچھ حاصل کیا۔ اگر ہم آئندہ کیلئے بھی صبرو رضا اور استقرار و استقلال کا پیکر بنے رہے، تو رمضان کی تعمتیں اب بھی جاری و ساری ہے۔تراویح کی لذتوں کو اب بھی محسوس کر رہے ہیں تو ہماری تربیت ہو گئی ہے ۔ ہماری جبینوں میں سجدوں کی تڑپ اور ہمارے دل میں خلق خدا سے محبت اور ان کی خدمت کا جزبہ آ گیا، تو ہم نے ہزار مہینوں سے افضل رات کے قیام کو پالیا ہے۔
اللہ کے پیارے حبیب ﷺ کا ارشاد ہے کہ اللہ نے رمضان کے آخری عشرہ میں تمہاری نجات کا پروانہ رکھ دیاہے۔ اسے تم آخری عشرہ کی تاک راتوں میں تلاش کرو۔دوسری جگہ فرمایا جو لیلۃ القدر کی رات پائے اور قیام نہ کرے تو وہ محروم وکم نصیب رہا۔ اور اس طرح کی کئی احادیث کریمہ ہیں جو لیلۃ القدر کی فضیلت کو بیان کرتی ہیں۔ ویسے رمضان کریم کے مہینہ میں یہ اللہ کا خاص فضل ہی ہے کہ بظاہر ایک جیسی رات ہے۔ اس کا وقت اور اسکی چال وہی عام راتوں جیسی ہے۔روز کی طرح آج بھی سورج غروب ہوتے ہی اس رات کی شروعات ہوگئی تھی ۔ لیکن اس کی فضیلت اتنی کی یہ ہزار مہینوں سے بھی افضل ہے۔ یہ رب کا ہی کما ل ہے کہ وہ بسا اوقات بظاہر ایک جیسی نظر آنے والی چیزوں میں بھی اتنا فرق پید کر دیتا ہے کہ ایک دوسرے کی ضد معلوم دینے لگتی ہیں۔اسلام میں ایسی ہزاروں مثالیں ہیں جو نسبت کی وجہ سے الگ اور ممتاز نظر آتی ہیں۔ صفاء و مروہ جیسی پہاڑی جو محض پتھر ہیں لیکن اسے اپنی نشانی قرار دے دی۔ مقام ابراہیم جو ایک پتھر ہے اس کے سامنے دورکعت نماز ادا کرنے کو حج کا حصہ بنا دیا۔ حجر اسود جو ایک پتھر ہے اس کا بوسہ ضروری ہے۔ اس طرح کی کئی ایسی چیزیں ہیں جو بظاہر ایک جیسی نظر آتی ہیں ۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے کسی کا رتبہ اتنا بلند کر دیا کہ ایسا لگتا ہے کہ وہ اپنی اصل میں باقی رہتے ہوئے اصل سے الگ ہے۔یہ ایک آزمائش بھی ہو سکتی ہے کہ یہ رب کی قدرت ہے کہ ایک انسان مزدوری کرتا ہے دوسرا انسان ملک کا حاکم ہوتا ہے بظاہر ایک جیسے ہیں لیکن زمین آسمان کا فرق ہے ۔اسی طرح سے رمضان مبارک کی ہر رات اہم اور عام راتوں سے افضل ہے لیکن شب قدر وہ رمضان کی بھی عام راتوں سے افضل ہے ۔ اس کی عظمت کا اندازہ رب کے فرمان سے لگایا جاسکتا ہے کہ وہ ہزار راتوں سے افضل ہے ۔ یعنی عام دنوں میں اگر ایک بند ہ ہزار راتوں تک عبادت کرے اور ایک شب قدر کی رات کو عبادت کرے تو شب قدر کی عبادت ہزار راتوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے ۔
اس رات کاذکر قرآن کریم نے بھی کیا ہے۔ ’’بے شک ہم نے قرآن کو قدر والی رات میں نازل کیا ، یہ قدر والی رات ہزار مہینوں سے افضل ہے(القرآن)یہ عبادت کی رات ہے اس رات کو کسی بھی قیمت پر کھونا نہیں چاہئے۔ کیونکہ پھر یہ موقعہ سال بھرنہیںآئے گا اور کیا خبر سال بھر کے بعد واپس آئے تو ہم اس کے لئے موجود ہوں نہ ہوں۔ اس لئے مؤمنوں! ایک عزم مستقل کے ساتھ اس رات کااستقبال کرو اور اپنے گذشتہ گناہوں کی مغفرت طلب کرو۔ اللہ کے رسول حضرت محمد ﷺ کا فرمان ہے کہ اس قدر والی را ت قیام اور عبادت سے ماضی کے گناہوں کی معافی مل جایا کرتی ہے۔اس رات کو اپنی ہی نہیں بلکہ اپنوں کی مغفرت کا ذریعہ بناؤ کہ اس دار فانی سے کوچ کر جانے والے آباو اجداد و جملہ مؤمنین و مؤمنات کو اس بات کا انتطار رہتاہے کہ کوئی تو ہو جو انکے لئے اس
مبارک رات میں مغفرت کی دعا کر دے جس سے رب انکے گناہوں کو معاف کردے۔
یہ رب سے حد درجہ نزدیکی کی رات ہے۔ اس رات رب کی خاص قربت نصیب ہوتی ہے۔ اس کی خاص تجلی نازل ہوتی ہے۔اس رات وہ اپنے بہت سے راز افشا کرتا ہے۔ اہل معرفت کو دیدار الٰہی بھی نصیب ہوتاہے۔ اس لحاظ سے یہ ان کے لئے معراج کی رات ہے ۔
ہمیں چاہئے کہ اس رات کو ہم خالص عبادت کی رات بنائیں ۔ نوافل اور وظائف کی کثرت کریں۔ رب کی بارگاہ میں توبہ کریں اور آنسو بہائیں ۔ یاد رہے! رب پکار کر کہتا ہے ائے میرے بندوں !تمہیں معاف کرنے کیلئے میرے پاس بہت وقت ہے۔ کیا تمہارے پاس تھوڑا سا وقت ہے کہ تم اپنی نجات چاہو، توبہ و استگفارکرو؟ائے مسلمانوں !یہ ایک موقعہ ہے۔ اس کو استعمال کر لو۔ اس رات کی قدر کر لو کہ پھر ہاتھ ملنے اور پچھتانے کے سوا کچھ نہیں رہیگا۔کل کے پچھتاوے سے آج کی رات کا قیام بہتر ہے ۔ کیونکہ اب یہ مبارک رمضان کا مہینہ بھی ہم سے رخصت ہونے کو ہے۔ اسے ہمیں الوداع کہنا ہے۔ یہ جاتے جاتے اپنی عظیم ترین نعمت دیکر جانا چاہتاہے۔ اس لئے مؤ منوں اسے ٹھکراؤ نہیں اس کی قدر کرو کہ پھر یہ موقعہ باربار نہیںآئے گا ۔
لیلۃ القدر کے بارے میں کئی روایتیں ہیں۔۲۱ ویں رات سے لیکر ۲۹ تک کی تاک راتوں کاذکر ہے۔ لیکن ۲۷ کی رات کے بارے میں زیادہ اقوال ہیں۔ لہٰذا اسے اپنی عبادت کے لئے لازم پکڑلو۔یہ نجات کی رات ہے ۔قربت الٰہی کی رات ہے ۔ پچھلے و پچھلوں کے گناہوں کی مغفرت کی رات ہے ۔ قرآن کی رات ہے ۔ فرشتوں کے بھی نزول کی رات ہے ۔ اس را ت رب خود تم سے قریب ہوتا ہے ۔ بس تم اس کے لئے تیاری کر لو۔ قیام و عبادت میں مشغول ہو جاؤ۔ پھر دیکھو ساری راتیں کیسے سکون سے گزرتی ہیں۔اے لوگوں!اس مہمان کے باقی بچے ہوئے چند دنوں کی خوب ضیافت کرلو۔ اب تک جو نہ کر سکے
ہوں، وہ اب کرلیں۔ جنہوں نے کیا ہو وہ اور کر لیں۔دو دنوں بعد یہ مہمان چلا جائے گا۔یعنی کہ ماہ مبارک رمضان چلا جائے گا۔آنکھیں نم ہیں دل غمگین ہے۔لب پہ خدا کا شکر ہے ۔الوداع اے ماہ مبارک الوداع۔ *****
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com

Sunday, June 18, 2017

رہبری کے لبادے میں گھومتے رہزنCheater in the face of Leaderरहबर या रहज़न


رہبری کے لبادے میں گھومتے رہزن

عبد المعید ازہری

ملک میں مسلمانوں کی موجودہ تشویس ناک صورت حال میں دن بہ دن ہوتا اضافہ ایک بڑ ی تباہی کا اشارہ کر رہی ہے۔ تاریخ شاہد ہے جب کبھی بھی کسی ملک کے ایسے حالات ہوئے ہیں، وہاں شر پسندوں کو موقعہ ملا ہے۔ انسانی خون سے انسان نما حیوان آسودہ ہوئے ہیں۔ جب شہرت و طاقت کا نشہ دل و دماغ کو انسانی حدود کے باہر کر دے، تو وہاں یہی سب ہوتا جو ہم اپنی ماتھے کی نگاہوں سے دیکھ رہے ہیں۔ آئے دن ظلم و زیادتی،فتنہ و فساد کی نئی اور دلدوز وارداتیں ذہن و دماغ میں ایک دوسرے کے خلاف نفرت اور صرف نفرت بھرنے کا کام کر رہی ہیں۔ ایک دن یہ چھالے سیاسی مفاد کی نظر ہو جاتے ہیں۔پھر اپنے ہی چھالوں سے اپنے سینوں کو جلا لیتے ہیں۔کسی کے خلاف نفرت اس قدر بھر جاتی ہے کہ اس کی جگہ محبت کس سے کی جائے اس کا بھی خیال نہیں رہ پاتا ۔یہ کیفیت کسی مخصوص قوم یا طبقے کیلئے نہیں۔ ملک کے موجودہ حالات کسی کو بھی ایسا بنانے کے اہل ہیں۔جب انسان کی قدر جانوروں سے کم تر ہو جائے، تو سمجھ لینا چاہئے کہ آج کے معاشرے کو انسانوں کی نہیں حیوانوں کی ضرورت ہے۔ آئے دن کوئی نہ کوئی حادثہ ہوتا ہی رہتاہے۔ انسانی سماج کا ہر شعبہ اس طرح کی بے چینی سے دو چار ہے۔ ہر طبقہ پریشان ہے۔ جو موجودہ انسانیت سے خالی فکر و روش میں ڈھل گیا وہ محفوظ و مامون ہو گیا۔ جس نے اپنے ضمیر کی آواز سننے کی کوشش کی وہ تختہ مشق بن گیا۔
ملک کے کسی نہ کسی کونے میں ہر روز کوئی بچہ یتیم ہوتا ہے،کوئی عورت بیوا ، ماں بے آسرا اور باپ بے سہارا ہوتا ہے۔ اس سے بڑھ کر انسانی سماج کے لئے سب سے زیادہ تکلیف دہ وہ گھڑی ہے جب ہر روز کوئی ماں، بہن یا بیٹی رسواہوتی، عصمت زدہ ہو کر انسانی برادری پر ایک دھبہ چھوڑ جاتی ہے۔ اس غیر انسانی جرم کے پیچھے کوئی بیٹا، باپ یا بھائی ہی ہوتا۔ لوٹ مار ، چوری ڈکیتی، بد عنوانی ایک عام بات ہوتی جا رہی ہے۔ ویسے تو اچھائی اور برائی انسان کے فطری اعمال ہیں۔ لیکن جرم پر بے باکی قطعی انسانی طرز عمل نہیں۔ظلم کے خلاف کھڑاہونا بھی انسانی فطرت ہے جو آج معدوم ہے۔ یہ طبقہ کہیں گوشہ نشیی اختیار کئے ہوئے کسی مسیحا کا انتظار کرتے ہوئے اپنے فرض سے منہہ موڑ رہا ہے۔ آج ہمارے ملک کا انسانی سماج اتنے ٹکڑوں میں بٹ چکا ہے کہ سب اپنی باری پر ہی درد سے چیختے ہیں۔ وہی مرغی درد سے کراہتی ہے جو ذبح ہو رہی ہے، باقی شکنجے میں قید بے پروائی سے دانہ چغتے ہوئے اپنی باری کا انتظار کر رہی ہیں۔مذہب کے نام پر، ذات برادری اور صوبوں کے نام پر ہم اس قدر منقسم ہو گئے ہیں کہ کبھی کبھار ہم اپنی خود کی اصل شناخت بھو ل جاتے ہیں۔اس فطرت سے یکسر فراموش ہو جاتے ہیں کہ سب کچھ ہوتے ہوئے بھی ہم انسان ہیں۔ اس میں قسمیں نہیں ہیں۔ہم صرف منقسم ہی نہیں ہوئے بلکہ ایک دوسرے کے وجود کا احساس بھی ہمارے اندر سے ختم ہوگیا۔ انسانی بردادری کو الگ نام اور شناخت اسلئے دی گئی تھی کہ ایک دوسرے کو بآسانی جان پہچان سکیں۔ آج حال یہ ہے کہ صرف مذہب و برادری او ر صوبوں میں انسان منقسم نہیں ہوا بلکہ ہر مذہب ، برادری اور صوبے میں بھی سیکڑوں حصوں میں بٹ کر رہ گیا۔
مذہب کو گھر اور دل میں رکھ کر باہر اگر انسان ہی رہتے تو شاید آج انسان کو یہ دن دیکھنے نہ پڑتے۔ کسی بہن کی لٹتی عصمت کوئی دوسرا بھائی تماشے کی طرح نہ دیکھ رہا ہوتا۔ بلکہ کوئی بھائی ایسی ذلیل حرکت کرنے کی ہمت نہ کر پاتا۔کسی کی بہن کی زندگی کو تاریک کرنے والے بھائی کو اس کی بہن اپنی زندگی سے نکال دیتی۔ اس کی ماں اس کی شکل نہ دیکھتی۔ پوراگھر اس کا بایکاٹ کر دیتا۔ہم جہاں رہتے ہیں۔ اپنے افکار و اعمال سے جیسا معاشرہ بناتے ہیں۔اس کے اثرات سے ہمیں ایک دن آشنا ہونا پڑتا ہے۔ملک کے کسی بھی بیٹے یا بیٹی، ماں یا باپ یا کسی کے ساتھ بھی ہونے والی ناانصافی کو جب تک ہم یہ مان کر نظر انداز کرتے رہیں گے، کہ اس مظلوم کا تعلق ہمارے گروہ یا گھرسے نہیں، اس وقت تک تباہی، ذلت اور خونریری کے یہ منظر ہمارا مقدر بنتے رہیں گے۔جو چیزیں ذاتی تھیں وہ سماجی ہو گئیں اور جومعاشرتی تھیں وہ انا کی نذر ہو گئیں۔
آج ماتھے کی نگاہوں سے اس بات کا مشاہدہ کیا جا سکتا ہے۔ خواہ جس معاشرے میں عورت دیوی ہوتی ہے، اس کی پوجا ہوتی ہے، یا وہ سماج جس میں عورت آدھا ایمان اور جنت کا سبب ہوتی ہے، ہر جگہ اس کی عصمتیں تار تار ہیں۔کیوں کہ اچھے کو اچھا اور برے کو برا کہنے کا پیمانہ متعصب اور منقسم ہو چکا ہے۔ابھی حال ہی میں بجنور کی ایک لڑکی کے ساتھ ہوا حیوانی سلوک اس بات کی واضح مثال ہے۔بجنور کی لڑکی اکیلی نہیں جس کو انسانی برادری نے انسان ماننے سے انکار کیا ہو، روزانہ نہ جانے کتنی بنت ہوا کو یہ نام نہاد انسانی سماج کھیل تماشہ اور سامان لہو لعب سمجھتا ہے۔ افسوس اور المیہ اس بات کاہے کہ کسی بھی قومی نمائندے میں اتنی جسارت نہ ہوسکی کہ ان مظلوموں کیلئے انصاف کی آواز بلند کر سکے۔ سوال یہ ہے کہ آواز کون بلند کرے۔ گھر کی چہار دیواری سے لے کر باہر گلی بازار اور ہر شعبوں میں تو ہم منقسم اور منفرد ہیں۔ بلکہ ایک دوسرے سے جداہیں۔ اپنی اپنی ضرورتوں کیلئے ایک دوسرے سے مل رہے ہیں۔ تو ایک دوسرے کی پرواہ کیوں کریں۔اب جو آوازیں اٹھتی بھی ہین، وہ ظلم کی آندھیوں میں دب کر رہ جاتی ہیں۔ہمارے رہنماؤں کے ساتھ پریشانی اس بات کی ہے کہ اگر انصاف کی آواز بلند کر دی تو یا تو ان کے سیاسی آقا ناراض ہو جائیں گے یا انہیں ڈر ہے کہ آگے سے ان کی دوکان بند جانے کا خطرہ ہے۔ ایک ڈر یہ بھی ہے کہ اس سرزمین پر جب کسی اور بیٹی مظلوم ہوئی تو آپ کہاں تھے اب جب خود کے گھر میں آگ لگی تو خدا یا د آیا۔عوامی حمایت کی ریاکاری کے کھیل میں تو زمین آسمان ایک کر دیں گے۔ اس کے لئے تو خدا سے ذاتی فرمان بھی حاصل کرنے کا دعویٰ کر دیں گے۔ لیکن وہی قوم جب مصیبت زدہ ہو مظلوم ہوجاتی ہے تو بند آشائسی کمروں تک یہ آوازیں نہیں پہنچتی ہیں۔
آج کا المیہ یہ بھی ہے کہ مظلوم کو مجرم بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگتی۔یہ سارا کھیل اسی انسانی سماجی کے ہاتھوں ہوتا ہے۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ اس کھیل میں شامل کوئی بھی شخص محفوظ نہیں۔
جب تک یہ سماج یوں ہی اپنی جھوٹی دنیا میں خیال خام میں بٹتا رہے گا یہ سارا کھیل یوں ہی چلتا رہے گا۔ رہبری کے لبادے میں رہزن ہماری رہنمائی کرتے رہیں گے۔ ارے اتار کر پھینک دو یہ یہ جبے یہ دستار یہ عبائیں جس میں قوم و ملت کی تباہی کا پروانہ پیوستہ ہے۔ کھل کر سامنے آکر وار کرو۔ ظالم کے ساتھ مل کر کھلے عام تم بھی عصمتوں کا سودا کرو۔یہ چوغے جو مظلوموں کی رستی گوں سے سلے گئے ہیں انہیں آگ لگادو۔ جھوٹے دین و مذہب کے نام پر تقسیم کا کاروبار بند کر دو۔ جہاں نہ دنیاہے اور نہ ہی آخرت ہے۔یہ کیسی رہبری ہے جو قوم کی روتی ہوئی آنکھوں کو اپنا آستین تک نہیں دے سکتی۔ مظلوموں کی آہوں کو سرد کرنے کیلئے اپنے کندھے نہیں دے سکتی۔ ان کا درد نہیں سن سکتی۔ اپنے دین و ایمان کا سودا کرکے ان کیلئے دلاسے کے دو بول نہیں بول سکتی۔ تمہاری اس کاروباری رہبری سے تو کہیں بہتر وہ رہزنی ہے جو ہمیں آگاہ کر کے ہم پر حملہ کرتی ہے۔جنت کی لالچ اور جہنم کا خوف دلاکر اپنے اپنے خانوں میں محدود کرنے والے سارے رہبران قوم سے ان کی رہبری کا سوال ہے۔
در اصل یہ ایک قومی یا یک مذہبی مسئل نہیں ہے۔ آج ہم ایسے سماج کو تشکیل دے رہے ہیں جہاں انسان تو ہیں لیکن انسانیت نہیں۔ جہاں رشتے ضرورتوں کیلئے بنتے اور بگڑتے ہیں۔جہاں جذبات ضروریات سے مغلوب ہو گئے۔
خدارا انسانی تقسیم سے باہر بھی نکلو۔ورنہ نہ دین ہاتھ آئے اور نہ ہی انسان رہ پاؤگے۔ کف مل کر ورد کروگے ۔ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com, Contact: 9582859385

Saturday, June 17, 2017

رمضان : قرآن کے نزول کا مہینہ Ramzan: The month of Quran रमज़ान:क़ुरान का महीना


رمضان : قرآن کے نزول کا مہینہ
آج اس بات کی ضرورت زیادہ ہے کہ قرآن خوانی سے زیادہ قرآن فہمی پر زور دیا جائے ورنہ تلاوت تو ہوگی لیکن یہ قرآن حلق کے نیچے نہیں اترے گا ۔
عبد المعید ازہری

رمضان المبارک کو روزہ ، تقوی، عبادت کے ساتھ قرآن کا مہینہ بھی کہا جاتا ہے ۔ قرآ ن میں خود اس بات کا ذکر موجود ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا ۔ جس میں لوگوں کیلئے یدایت۔ ہے راہ راست اور حق و باطل کے درمیان فرق و امتیاز کے بیانات ہیں‘‘(القرآن : ترجمہ)۔ اس آیت کی توضیح میں مفسرین کرام کی چند آراء ہیں: رمضان وہ مہینہ ہے جس کی عظمت و شرافت میں قرآن کا نزول ہوا یعنی اس کی فرضیت ، اہمیت و افادیت میں قرآن کی آیات نازل ہوئیں جو اس ماہ کے روزوں کو مخصوص کر تے ہیں ۔ چانچہ قرآن کا ارشاد ہے ۔’’ائے ایمان والوں ! تم پرخاص دنوں کیلئے روزے فرض کئے گئے جیساکہ تم سے پہلوں پر فرض تھے تاکہ تم متقی و پرہیزگا ر ہو جاؤ‘‘۔ تو جو تم میں سے مریض ہو یا سفر میں ہو (جس کی وجہ سے روزہ رکھنا مشکل ہو)تو وہ دوسرے دنوں میں روزہ رکھے (جب بیماری سے شفا مل جائے اورسفر ختم ہو جائے )۔جو لوگ طاقت و استطاعت رکھتے ہیں وہ مسکینوں کو کھانا کھلا کر فدیہ ادا کریں۔بہتری پر عمل کرنا باعث خیر ہے ۔ اگر صاحب علم ہو تو(جان لو کہ ) روزہ رکھنا زیادہ بہتر ہے ‘‘(القرآن :ترجمہ)۔
دوسری وجہ مفسرین بیان فرماتے ہیں کہ قرآن کا نزول اسی مہینے سے شروع ہوا ہے ۔ تیسری توجیہ جس پر اکثر لوگوں کو رجحان ہے وہ یہ ہے کہ اس مہینہ کی شب قدر کو پورا قرآن لوح محفوظ سے آسمان دنیا یا بیت العزت پر نازل کیا گیا ۔ اس کے بعد ضرورت اور موقعہ و محل کے اعتبار سے دھیرے دھیرے ۲۳ سال تک نازل ہوتا رہا ۔ان توضیحات کے علاوہ اکثر مؤمین کا یہ معمول ہے کہ وہ اس ماہ کثرت سے قرآن کی تلاوت کرتے ہیں۔مرد و عورت ، بچے اور بوڑھے سبھی میں قرآن کی تلاوت کا ذوق و شوق پیدا ہوتا ہے ۔ فجر کی نماز سے فارغ ہوکر مسجد میں اکٹھا ہوکر اس کار ثواب کو انجام دیتے ہیں۔ اس کے علاوہ تراویح میں بھی ختم قرآن کا معمول ہے ۔ تقریبا ہر چھوٹی بڑی مسجد میں تراویح اور ختم قرآن کا اہتمام ہوتاہے ۔ ۵ دن سے لیکر ۲۷ دن کی تراویح ہوتی ہے ۔ کہیں کہیں ایک شب میں بھی ختم قرآن ہوتاہے جس کو شبینہ کہا جاتا ہے ۔اس معمولات کے اعتبار سے بھی یہ قرآن کا مہینہ ہے ۔ بلا شبہ قرآن کی تلاوت کے اثرات مرتب ہوتے ہیں ۔ تلاوت قرآن کے وقت خاص رحمتوں کا نزول ہوتاہے ۔قرآن کے بارے میں فرمان نبوی ہے کہ ہر ایک حرف کی تلاوت کے بدلے ثواب ہے یہاں تک کہ جو قرآن پڑھ نہیں سکتے ان کیلئے اس قرآن کا چومنا ، دیکھنا اور ادب و تعظیم کرنا بھی ثواب ہے ۔
قرآن ایک معجزہ ہے ۔ قرآن دنیا کی پہلی وہ کتا ب جس نے اپنے بارے میں یہ دعوہ کیا ہے کہ’ اس کا بدل پیش کرو اور ہرگز پیش نہیں کر سکتے ‘۔جب پیغمبر اعظم ﷺ نے لوگوں کو قرآن سنایا اور فرمان خداوندی کی طرف لوگوں کو مدعو کیا تو قوم عرب نے آپ کو جادوگر کہنا شروع کردیا۔ جادوگر کہنے کی وجہ یہ تھی کہ آپ جب قرآن سنا تے تھے تو لوگ متاثر ہو کر آپ کی طرف مائل ہو جاتے تھے ۔ لوگوں نے مشہور کرنا شروع کیا کہ عبداللہ کے بیٹے نے جادو کرنا شروع کر دیا۔ ان کے پاس کچھ منتر ہے ۔ آپ نے فرمایا کہ میں جو پڑھتا ہوں وہ میرا کلام نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا کلام ہے ۔ جو معبود حقیقی ہے ۔سنجیدہ اور پڑھے لکھے طبقے میں بے چینی پیدا ہو گئی ۔ بنو ہاشم اور خاندان قریش ابن عبد اللہ یعنی محمد ﷺ کو اچھی طرح جانتے تھے ۔ آپ ؑ ﷺ کے شب و روز انہیں کے درمیان گزرے ہیں۔اعلان نبوت سے پہلے انہیں لوگوں نے آپ کو ’صادق،امین ‘ کہہ کر پکارا تھا ۔ اپنے معاملات میں آپ کو حاکم بھی بناتے تھے ۔ انہیں پتہ تھا کہ یہ کلام عرب کے کسی بڑے شاعر ، فصیح البیان اور بلیغ اللسان کا معلوم پڑتا ہے ۔ ابن عبد اللہ نے تو کسی سے تعلیم بھی حاصل نہیں کی ہے ۔ پورے عرب میں کوئی بھی ان کا استاد ہونے کا دعویٰ نہیں کر سکتا ۔ لہٰذا یہ ان کاخود کا کلام تو نہیں ہو سکتا ۔ اس کے علاوہ یہ کسی شاعر کا بھی کلام نہیں ۔ کیونکہ شاعری جیسا انداز تو ہے لیکن شاعری نہیں ہے ۔ دشمنوں نے خوب کوشش کی ۔ لیکن وہ یہ بات ثابت نہ کر سکے کہ یہ کلام ابن عبداللہ کا ہے۔ اسی کو قرآن نے اپنے انداز میں بیا ن کی ہے ۔
’اور اگر تمہیں اس بات میں تردد ہے کہ جو (قرآن)ہم نے اپنے بندے (محمد ﷺ) پر نازل کیا (وہ ہمارا کلام نہیں )تو کوئی ایک سورت اس کے مثل لے کر آؤ۔اللہ کے سوا تمام ہم نواؤں کی مدد لے لو ۔اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو (تو قرآن کی ایک سورت کے مثل کوئی سور ت لے کر آؤ)۔اور اگر ایسا نہ کر سکو ، اور ہر گذ نہیں کر سکوگے ۔تو اس آگ سے ڈروجس کے اندھن انسان اور پتھر ہیں‘‘(القرآن : ترجمہ)۔مفسرین فرماتے ہیں کہ یہ قرآن کا عجاز ہے کہ پورا قرآن یا اس کی ایک سورت تو الگ بات ہے، اس کی ایک آیت کی بھی مثال نہ پیش کی جا سکی ۔ قرآن کے نزول سے لیکر اب تک حاسدین کوشش کرتے رہے لیکن وہ ایساکر نہ سکے ۔ جس عربی زبان میں یہ قرآن نازل ہوا اس زبان کے ماہر بڑے بڑے فصاحت و بلاغت کے تاجوروں نے اپنے گھٹنے ٹیک دیے ۔ قرآن کا یہ دعوی آج بھی سلامت ہے ۔عرب کے سب سے مشہور عربی داں کو ابو جہل اور اس کے ہم نوا ؤں نے اس بات پر راضی کیا کہ وہ ایک سورت پیش کرے گا ۔ چھہ مہینہ تک ایک کمرے بند ہوکر وہ اس پر کام کرتا رہا ۔ جب باہر آیا تو خالی ہاتھ تھا ۔وہ قرآن کے اعجاز کا قائل ہو گیا۔
اس کلام کی تاثیر کا یہ حال ہے کہ کفار مکہ لوگوں کو قرآن سننے سے منع کرتے تھے۔ ان کا یہ ماننا تھا کہ اگر کوئی اس کلام کو سنے گا تو متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکے گا ۔ چنانچہ جب تاجروں کا قافلہ مکہ آتا تھا یا کعبہ کی زیارت کرنے کیلئے لوگ مکہ آتے تھے، تو باقاعدہ دشمنوں کی یہ جماعت ان لوگوں کے کان بند کرنے کیلئے کپڑا تقسیم کرتی تھی ۔ اپنے اپنے چبوترے پر لوگوں کی ڈیوٹی تھی کہ ہر آنے جانے والے کو اس سے آگاہ کیاجائے ۔ان کا عقیدہ راسخ تھا کہ جو بھی قرآن سنے گا وہ متاثر ضرورہوگا ۔ ایسا ہوا بھی ۔ کئی لوگ صرف قرآن سن کر گرویدہ ہوگئے اور حلقہ بگوش اسلام ہو گئے ۔ کسی مسلمان کے دروازے سے جب یہ لوگ گذرتے تھے تو اپنے کانوں میں انگلیاں ڈال لیا کرتے تھے ۔ قرآن پڑھنے پر پابند عائد کی گئی ۔ حضرت صدیق اکبر پر پابندی لگائی گئی کہ یہ بلند آواز میں قرآن کی تلاوت نہیں کریں گے ۔حضرت عمر کا مشہور واقعہ ہے ۔ جب آپ نے اپنی بہن اور بہنوئی کو قرآن پڑھتے ہوئے سنا تو اس کا سیدھا اثر آپ دل پر ہوا۔ دل کی کیفیت بدل گئی ۔ قتل کرنے کا ارادہ ترک کیا ۔ مسلمان ہوگئے ۔
قرآن پڑھنے کے کئی لحن ہیں ۔ ان میں سے ایک لحن داؤدی ہے ۔ حضرت داؤد ؑ کی خصوصیت تھی کہ جب آپ اللہ کا کلام پڑھتے تھے تو پرندے بھی ٹھہر کر سنا کرتے تھے ۔ فضا میں ایک قسم کا سقوط و جمود طاری ہوجاتا تھا۔ اسی طرح قرآن پڑھنے کا ایک لہجہ ’حسینی‘ ہے ۔ اس انداز میں قرآن جب پڑھا جاتا ہے تو آنکھوں سے آنسو چھلک پڑتے ہیں۔ قرآن کا اعجاز اس کی تاثیر اور موثر ہونے کی تاریخ ہماری نگاہوں کے سامنے ہے ۔آج بھی قرآن کی تلاوت ہوتی ہے ۔ہزاروں کی تعداد میں حفاظ کرام ہیں ۔ بالخصوص رمضان المبارک کے مہینے میں تو ختم قرآن کا با قاعدہ اہتمام بھی کیا جاتا ہے ۔ پھر بھی کیا وجہ ہے کہ قرآن ہمارے حلق سے نہیں اترتا ہے۔مقررین کے خطاب میں دلائل بھی قرآن کی آیات ہوتی ہیں۔ اس کے باوجود ہماری عقلوں کی اس تک رسائی نہیں ہو پاتی ۔ نہ دل میں کسی قسم کا لرزہ طاری ہوتاہے اورنہ ہی ہماری آنکھو ں میں کوئی نمی آتی ہے ۔ کسی بھی لہجہ میں پڑھا جائے ۔ویسے یہ بھی ایک مشکل مسئلہ ہے ۔ ہمارے قراء حضرات کہتے توہیں کہ یہ فلاں لحن ہے اور یہ فلا ں لہجہ ہے ۔ لیکن اب ہم کیا کریں جب اس کا کوئی اثر سرے سے مرتب ہی نہین ہوتا ۔
غور کرنے کا مقام ہے کہ ہم سے غلطی کہاں ہو رہی ہے ۔ہماری خود کی عبادتوں سے ہمیں ہی کوئی لذت نہیں ملتی ۔ ہماری تلاوتوں کا خود ہم پر کوئی اثر نہیں ہورہا ہے ۔نہ روزوں سے ہم تربیت حاصل کر پا رہے ہیں اور نہ ہی حج سے کسی قسم کی عبرت لے رہے ہیں۔شاید ہماری عبادتیں ذوق و شوق سے خالی ہو گئی ہیں۔ اسے ہم رسم یا ڈیوٹی سمجھ کر ادا کر رہے ہیں۔اس کے اندر جا کر اسرار و معرفت کے دروازوں تک پہنچنے کی کوشش نہیں کر رہے ہیں۔ یا ہم نے یہ سمجھ لیا ہے کہ معرفت بس کچھ لوگوں کے لئے ہی محفوظ ہے ۔
رمضان مبارک اس لحاظ سے بھی اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں قرآن جیسی معجز اور عظیم کتاب سے قریب ہونے اور اسے سمجھنے کا زیادہ موقعہ ہو تا ہے ۔قرآن کی
رسمی تلاوت سے زیادہ اہم یہ ہے کہ اسے سمجھا جائے ۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Email: abdulmoid07@gmail.com Contact: 9582859385

Wednesday, June 7, 2017

زکوٰۃ:غربت ، افلاس اور پسماندگی دور کرنے کا حل ज़कात: ग़रीबी एवं पिछड़े पन का इलाज Zakaat: the absolute solution of poverty and backwardness


زکوٰۃ:غربت ، افلاس اور پسماندگی دور کرنے کا حل
عبد المعید ازہری

رمضان ایک خاص کیفیت اور انسانی و انسانیت سے پر احساسات و جذبات کا مہینہ ہے ۔مکمل انسانی قدر و منزلت کا مہینہ ہے ۔ جسے ہم اسلامی یا انسانی مہینہ بھی کہہ سکتے ہیں ۔ جس رویہ اور زندگی کے طرز عمل کی تعلیم اسلام دیتا ہے، رمضان اس کا ایک عملی نمونہ ہے ۔خود بھوکے رہ کر دوسروں کو کھانا کھلانے کا مقدس جذبہ اس مہینے کی خصوصیت ہے ۔ خود کھانے سے زیادہ دوسروں کو کھلانے میں خوش ہونا بھی اس ماہ کی خاص دین ہے ۔ ایک ہی صف میں محمود و ایاز کی مجلس، نماز کی صفوں کے بعدبھی اس مہینے کے دیگر معمولات میں دیکھنے کو ملتی ہے ۔شاہراہوں پر شربت پلانا ، سبیل لگانا ، کھانے پینے کی دوسری اشیاء کو تقسیم کرنا اس ماہ عام طور پر دیکھنے کو مل جاتا ہے ۔افطار کے وقت راستے میں پھنسے مسافروں کے لئے افطار کا انتظام بھی نظروں سے گزرتاہے ۔بڑا پر خلوص میل جول اور آپسی اخوت و رواداری پائی جاتی ہے ۔بلا تفریق مذہب و ملت لوگ افطار کا اہتمام کرتے ہیں۔
یہ وہ مقدس و بابرکت مہینہ ہے جس کی وجہ سے آج پورے ملک کے ہزاروں سرکاری وغیر سرکاری مدارس چل رہے ہیں۔ اس ایک مہینہ کی آمدنی سے پورا سال نکل جاتاہے ۔ہزاروں مدارس میں پڑھنے والے لاکھوں طالب علموں کی رہائش اور کھانے پینے کا انتظام اسی مہینے میں کیا جاتاہے ۔جواز و عدم جواز ،مستحق و غیر مستحق ایک الگ مسئلہ ہے ۔اس ایک مہینہ میں بہت بڑی رقم جمع کی جاتی ہے ۔ ہزاروں مدارس میں صرف ہونے والے اخراجات کا اندازہ لگا کر رقم کی قیمت کا جائزہ لیں تو پتہ چلے گا کہ ا س مہینے میں کتنی برکت ہے ۔اساتذہ ، ملازمین و دیگر کارکن کی تنخواہ ، کتابوں اور دفتر میں کے اخراجات ، تعمیری کام کے الگ سے اخراجات اور مطبخ کا خرچہ الگ سے ہے ۔ اس طرح کل ملا کر ایک بہت بڑی رقم کی ضرورت ہوتی ہے جو اس مہینے پوری بھی کی جاتی ہے ۔یہ وہ مہینہ ہے جس میں صدقات و خیرات کی کثرت ہوتی ہے۔ جس سے کئیوں کے کارخانے چلتے ہیں۔
اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ نے ایک خاص نعمت رکھی ہے ۔ وہ زکوٰۃ ہے ۔ زکوٰۃ اسلام کے فرائض میں سے ایک اہم فرض ہے ۔حالانکہ کہ زکوۃ اس ماہ کے لئے مخصوص نہیں ہے ۔ زکوٰۃ کی فرضیت الگ ہے ۔ اس کی ادائگی کا کوئی خاص مہینہ بھی مختص اور مقرر نہیں ہے ۔چونکہ ماہ رمضان میں صدقات و خیرات کی کثر ت ہوتی ہے اسلئے عام طور پر لوگ اسی مہینے میں خاص فرض عبادت زکوٰۃ کی بھی ادائگی کرتے ہیں۔زکوٰۃ بھی ماہ صیام کی مانند ایک نہایت ہی اہم فریضہ ہے ۔ زکوٰۃ امت مسلمہ کیلئے ایک عظیم نعمت ہے جو فقر اور احتیاج سے نجات دلاتی ہے ۔ اللہ کے سوا کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے کی ضرورت پر تالا ڈال دیتی ہے ۔ اگر زکوٰۃ کی ادائگی صحیح طریقے سے کی جائے اور اس کا مال مستحق لوگوں تک پہنچایا جائے یا ضروری عمل میں صرف کیا جائے تو دور حاضرمیں مسلمانوں کی غربت ، مفسلی اور پسماندگی بڑی آسانی سے دور کی جاسکتی ہے ۔
زکوٰۃ سال میں کسی بھی وقت ادا کی جانے والی ایسی عبادت ہے جو سب پر فرض نہیں ہے ۔یہ صرف مالک نصاب افراد پر ہی فرض ہے ۔ مالک نصاب کے بارے میں فقہاء نے فرمایا ہے کہ انسانی ضرورت کے سوا باقی بچی دولت اگر ساڑھے سات طولہ سونا یا ساڑھے باون طولہ چاندی کی مقدار میں ہے اور جمع رقم ایک سال تک آپ کے پاس موجو د رہی تو آپ ملک نصاب ہیں ۔ آپ پر زکوٰۃ فرض ہے ۔ایک طولہ دس سے بارہ گرام کا ہوتاہے ۔نصاب کی رقم کے بارے میں فقہاء نے مزید توضیح فرمائی ہے ۔ سونا چاندی کی مقرر مقدار نہ پائے جانے کی صورت میں اگر دونوں کو ملاکر مقدار پوری ہوتی ہے تو بھی زکوٰۃ فرض ہے ۔ اسی طرح اگر سونا چاندی نہیں ہے بلکہ پیسہ یا ضرورت سے سوا زمین ،جائداد یا گاڑیاں ہیں جن کی قیمت مقررہ سونا چاندی کی قیمت کو پہنچتی ہو، تو اس پر زکوٰۃ فرض ہے ۔آج کے وقت میں کم و بیش تیس ہزار کی قیمت پر آدمی مالک نصاب ہو جاتا ہے ۔ اگر آپ کے پاس آپ کی ضرورت کے سوا کم و بیش تیس ہزار روپئے محفوظ ہیں ۔ یہ رقم ایک سال تک محفوظ رہی تو اس پر زکوٰۃ واجب ہے ۔مزید مسائل اور تفصیلات کیلئے علماء ، فقہاء اور مفتیان کرام سے رابطہ کرنا چاہئے ۔
زکوٰۃکی مقدار اس محفوظ مال کا ڈھائی فیصد ہے ۔ سوروپئے میں سے ڈھائی روپئے ۔عام طور پر مسلمان زکوٰۃ کے معاملے میں سستی سے کام لیتا ہے ۔ آج کے شئر مارکٹ کو دیکھتے ہوئے سونا اور چاندی کی قیمت میں کافی فرق ہے اسلئے ایک غلط فہمی پیدا ہوجاتی ہے کہ جب تک ساڑھے ساتھ طولہ سونا نہیں ہوجاتا زکوٰۃ فرض نہیں ہوتی ۔ جبکہ سونے کی قیمت کو دیکھتے ہوئے تقریبا دو طولہ سونا ہی سے چاندی کے نصاب کی مقدار پوری ہوجا تی ہے ۔ زمین جائداد اور گاڑیوں کے معاملے میں بھی سستی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ سب بڑی کوتاہی گھروں میں موجود عورتوں کے زیورات کو لیکر ہوتی ہے ۔ اکثر ہم ان کے زیورات کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ جبکہ ہمیں خوب خیال رکھنا چاہئے۔ اپنے علماء سے تفصیلی معلومات حاصل کر کے اس فرض کو ادا کرنا چاہئے کیونکہ یہ اسلام کے فرائض میں سے ہونے کے علاہ کسی دوسرے کا حق ہے جو ہم نہیں کھا سکتے ہیں۔ اللہ کے حق کے ساتھ بندوں کے حق مارنے کا جرم ہم پر عائد ہوتا ہے ۔
زکوٰۃ کے مستحقین کے بارے میں قرآن نے بیان کیا ہے ۔ زکوٰۃ فقراء ، مساکین ،غرباء، یتیم او ر بیوا وغیرہ کو دیا جانا چاہئے ۔اس میں بھی اکثر غلطی کر تے ہیں ۔ زکوٰۃ اداکرنے کے بعد مستحق کو نہیں پہنچاتے ہیں ۔ اس سے مال تو چلا جاتا ہے لیکن زکوٰۃ ادا نہیں ہوتی ہے ۔زکوٰۃ کی قیمت ،صورتوں کے ساتھ مستحق کی تلاش بھی اشد ضروری ہے ۔کیونکہ زکوٰۃ کا مقصد مال صرف کرنا نہیں ہے بلکہ اس مال سے دوسروں کی ضروتوں کو پورا کرنا مقصود ہے ۔اس معاملے میں بڑی بے راہ روی کا معاملہ بھی در پیش ہے ۔ آج کل کچھ لوگ زکوٰۃ کی رقم کو الگ الگ وجوہات کے نام پر وصولنے کا کاروبار کر رہے ہیں ۔ جس سے نہ تو مال خرچ کرنے والے کی زکوٰۃ ادا ہوتی ہے اور نہ ہے وہ مال صحیح و مستحق جگہ پہنچ کر اپنا مقصد پورا کر پاتا ہے ۔افسوس اس کاروبار میں دین کے ذمہ داروں کا نام بدنام کیا جاتا ہے ۔ چند نام نہاد علماء نما بہروپئے اس قبیح عمل کو انجام دیتے ہیں جس کی وجہ سے پوری علماء برادری سوالوں کے گھریے میں آ جاتی ہے ۔
ایک با ت ذہن نشین رہے کہ اللہ تعالیٰ کی جانب سے فرض کی گئی عبادتوں میں سے کوئی بھی عبادت ایسی نہیں جس کسی حکمت سے خالی ہو۔اس حکمت میں انسان کے جسمانی و روحانی ، فکری و عملی ہر پہلو ملحوظ خاطر ہوتا ہے ۔ جس طر ح نماز انسان کو برائی اور بے حیائی سے باز رکھتے ہے اور روزہ انسان کی روح کو عیبوں اور برائیون سے پاک رکھتا ہے اسی طرح زکوٰۃ انسان کے مال کو پاک کرتا ہے ۔اس مال کی حفاظت کرتا ہے ۔ اس زکوٰۃ کا بھی فلسفہ روزہ جیسا ہے ۔ جس طرح بھوکا رہنے سے انسان کی روح غذا پاتی ہے اسی طرح جب مال سے زکوٰۃ اداکر دی جاتی ہے تو اس میں اور برکت پیدا ہو جاتا ہے ۔ روزہ کا جسمانی فائدہ ہے ۔ زکوٰۃ کا بھی جسمانی فائدہ ہے کہ وہ ضرورت مندوں کی ضرورت کو پوری کرتاہے ۔یہ نظام قدرت ہے ۔ آپ کے مال میں دوسروں کا حق ہے ۔ وہ آپ کے یہاں سے جائے گا ۔ ہر حال میں جائے گا۔ اگر بتائے ہوئے راستے سے اس کو روانہ نہیں کریں گے تو وہ اپنے راستے خود بنا لے گا جو بسا اوقات بلکہ اکثر تکلیف دہ ہوتے ہیں۔ لیکن شاید ہماری عقلوں پر دولت کی وجہ سے پردہ پڑ جاتا ہے ۔ ہم دیکھ نہیں پاتے۔
انسان کی تخلیق بھی اس نے ہی کی ہے ۔ اس کو علم و ہنر بھی اسی نے دیا ہے ۔ اس کے ذریعہ دولت مند بھی اس نے بنایا ہے ۔ اب وہی کہتا ہے ائے کھالی ہا تھ پیدا ہونے والے انسا ن اور واپس خالی جانے والی مخلوق، کمائی ہوئی دولت سے زکوٰۃ کا حصہ ضرورت مندوں کو پہنچا دو اور باقی بچی ہوئی دولت اپنے پاس رکھو۔
اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ کے نظام کے ذریعہ امت مسلمہ پر عظیم احسان فرمایا ہے ۔ آج سماج و مذہب کے ذمہ داروں کو بیٹھ کر سوچنا چاہئے کہ آج ہماری قوم مسلم جس علمی و لیاقتی پسماندگی کا شکار ہے ۔ جس کی وجہ سے ذلت خوارگی اس قوم کا مقدر بنتی جار ہے ہے ۔ اس کا حل اسلام نے پہلے ہی دے دیا ہے ۔تعلیم ، صحت ، تجار ت ، روزگار اور دیگر ضرورتوں کو اہم اس عظیم نظام کے ذریعہ پورا کر سکتے ہیں۔ ہر وہ وسائل اور ذرائع ہمارے پاس ہونگے جن کی ہمیں ضرورت ہے ۔کالج، یونیورسٹیا ، اسپتال ، کارخانے اور ہر قسم کی تجارت میں ہمارا حصہ ہوگا ۔ہر طرح کی پسماندگی دور ہوسکتی ہے ۔ دور خلافت میں اسی زکوٰۃ و صدقات کے کے پیسوں سے بنا بیت المال تما م مسلماون کی کفالت کیا کر تاتھا ۔ آج تو اور آسانیاں پیدا ہو گئی ہیں۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے دلوں میں ایک دوسرے فکر پیدا ہو ۔ فرائض کی ادائگی کا جذبہ بے دار ہو ۔ ہم خود اپنے آپ کو پسماندگی کے دلدل سے نکلنے کیلئے ذہنی و فکر ی طور پر تیار ہوں۔ اقدام کی ہمت ہو اور فکر میں اخلاص کے ساتھ گیرائی و گہرائی ہو تو کوئی میدان ہماری دست قدرت سے دور نہیں ۔ یہ ماہ صیام ہمیں اس نظام کے بہت قریب کرتاہے ۔ باقی دنوں کی بنسبت اس مہینے ایک قسم کی فکر پیدا ہو جاتی ہے ۔ بڑی تعداد میں لوگ زکوٰۃ ادر کرتے ہیں۔ آج دونوں چیزوں کی ضرورت ہے ۔ زکوٰۃ ادا کرنے کی فکر اور مستحق تک پہنچانے کی جستجو۔ ایک ادنی سی تو جہ پوری قوم کا رخ بدلنے کیلئے کافی ہے ۔البتہ ہمیں اپنے آپ سے سوال کرنا ہوگا کہ ہم خود کو بدلنے کیلئے تیار ہیں کہ نہیں ۔ کیونکہ خود رب تبارک و تعالیٰ نے بھی فرمایا ہے کہ ’ خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی جسے خود ہی بدلنے کا شعور فکر نہ ہو ‘(القرآن : ترجمہ)۔
یہ ایک لمحہ فکریہ کے ساتھ موقعہ ہے ۔ توجہ ،اخلاص اور اقدام ہمیں بدلنے کیلئے تیار ہے ۔ کیا ہم کمر بستہ ہیں؟

Saturday, June 3, 2017

دعوت وتبلیغ کے چند فراموش پہلو Few skipped ways of Dawat दीन के प्रचार के कुछ भूले हुए सबक़


دعوت وتبلیغ کے چند فراموش پہلو

عبد المعید ازہری


تاریخ انسانی میں جب کبھی بھی حق و باطل کی بات ہوتی ہے اس میں چند نام بطور مثال پیش کئے جاتے ہیں۔ جیسے ابراہیمؑ کے ساتھ نمرود کا اور موسیٰؑ کے ساتھ فرعون کا۔ یوں ہی حسین ؑ کے ساتھ یزید کا۔ مشہور کہاوت ہے ’لکل فرعون موسیٰ‘۔ایسے اشعار بھی ہیں۔ ’ہر دور میں اٹھتے ہیں یزیدی فتنے، ہر دور میں شبیر جنم لیتے ہیں‘ ،’ فرعون کا سر جب اٹھتا ہے کوئی موسیٰ پیدا ہوتا ہے‘۔ان کہاوتوں اور مثالوں کے پیچھے کچھ مثالی روایتیں ہیں۔ در اصل وہی سب کودعوت فکر دیتی ہیں۔قرآن ان افکار و روایات کا امین ہے۔قرآن اور اس کی دعوت ہر دور میں، از ازل خدائی فرمان اور اس کا محبوب عمل رہا ہے اور تا ابد یہ رہے گا۔ جب تک قرآن کی بقا ہے، اس وقت تک اس کی دعوت کا تسلسل ہے۔ خدا کریم قرآنی آیات و نبوی ارشادات کے ذریعہ اپنے محبوبین کو اس کار خیر کیلئے منتخب کرتا رہتاہے۔اسے خیر امت سے یاد کرتے ہوئے فرمایا کہ یہ امت کے اچھے لوگ ہیں جو اچھی باتوں کی ترغیب دیتے ہیں اور بری باتوں سے روکتے ہیں۔ اس میں بنیادی بات یہ ہے کہ وہ اچھے لوگ ہیں۔ ان کی اچھائی پہلے ان کی سیرت کو نکھارتی ہے۔ ان کے قلب کو صاف کرتی ہے۔ وہاں جب حق کا نور پہنچتا ہے تو ان کے اخلاق و کردار سے اس نور کی ضو فشانی ہوتی ہے۔ اسی کا اثر ہوتا ہے۔ ورنہ ایک ہی بات کو دسیوں لوگ کہتے ہیں لیکن اثر کسی ایک کا ہی ہوتا ہے۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ پہلے اپنی زندگی نبوی تعلیمات کے نور سے روشن کرتے ہیں اس کے بعد انعام خداوندی ہوتا ہے کہ اب بولو! زبان تمہاری ہوگی بولنا رب کا ہوگا۔آنکھیں تمہاری ہوں گی نظر رب کی ہوگی۔ اقدام تمہارا ہوگاتکمیل اس کی ہوگی۔
دعوت کی فکری تصویر اس کی حکمتیں بڑی آسان ہیں لیکن اس پر عمل اتنا ہی مشکل ہے۔ لیکن ارادہ کرنے والوں کیلئے وہ بھی آسان ہے۔ قرآن نے سیدھا اس کا ایک طریقہ بتایا ہے۔ ’رب کی طرف لوگوں کو حکمت اور اچھی وعظ ونصیحت کے ساتھ بلاؤ۔جب جدال کی نوبت آئے تو سب سے احسن طریقے سے کرو۔ اس کے عملی ثبوت پیغمبرروں کی زندگیوں میں ملتے ہیں۔ان سے ان کے محبوبین نے سیکھ کر خدا کے بندوں تک پہنچایا۔ پیغمبر اسلام کی مکمل زندگی کو رب کریم نے زندگی کے لئے بہترین نمونہء عمل قرار دیا ہے۔اس عظیم محسن انسانیت کی زندگی کے ہر ہر لمحے سے زندگیوں کی سوگات ملتی ہے۔ یہ خداکا بڑا احسان ہے کہ اس نے اپنے محبوب کی زندگی کے ہر شعبے کو اس کی امت کیلئے بقید تحریر و بیان کر دیا ہے۔جن کے نقوش ہر قدم پر نسل انسانی کی رہنمائی کر رہے ہیں۔آپ کے اوپر کوڑا پھینکے والی ضعیفہ کے ساتھ آپ کا حسن سلوک ایک واحد نمونہ نہیں ہے۔ ایسی مثالیں بھری پڑی ہیں۔ایک واضح اور غالی منافق کی قبر میں اپنی چادر ڈال کر انسانی کرامت کے تئیں اعلیٰ معیار کی حکمت عملی کی مثال پیش کی۔ اعلان نبوت سے پہلے مکی زندگی میں کعبہ کی زیارت کے لئے آنے والے زائرین کی حفاظت کیلئے ایک جماعت ترتیب کی گئی تھی جس میں آپ کا بھی نام تھا۔ اعلان نبوت کے بعد مدینہ میں اسلامی ریاست قائم ہونے کے بعد ملی مسائل اور خدمت خلق کے جزبے کی ترغیب کی خاطر آپ نے فرمایا اگر آج بھی اس جماعت میں شریک ہونے کا موقعہ ملے تو خوشی سے شامل ہو جاؤں۔ اسی طرح جن اہل مکہ نے آپ اور آپ کے اصحاب پر ظلم و ستم کے پہاڑ توڑ دئے ان پر غلبہ پانے کے بعد نہ تو آپ نے ان کو جبرا اسلام میں داخل کیا اور نہ ہی ان سے بدلہ لیا۔ بلکہ سب کو انتم الطلقاء کہہ کر آزادی کا پروانہ دے دیا۔زکوٰۃ و عطیات کا مال ان کو دیا جنہوں نے آپ کے اصحاب کے خلاف سازشیں کی تھیں۔
نبیوں کی آمد کے تعلق سے جو حکمت بیان کی گئی ہے وہ بھی دعوت ہی بتائی گئی ہے۔ فرعون کا شر جب برھ گیا۔ جرم وجرئت، گستاخی و بد عنواکی حدوں کو جب فرعون نے عبور کر لیا، تو رب تعالیٰ نے موسیٰ ؑ کو بھیجا۔ بھیجتے وقت فرمایا ۔ ائے موسیٰؑ و شعیب ؑ فرعون کے پاس جاؤ کیونکہ وہ باغی ہو گیا اورخدائی کا دعویٰ کر چکا ہے۔ اور ہاں اس سے نرمی سے گفتگو کرنا۔کیونکہ نرم گفتگو اصلاح کے امکانات بڑھا دیتی ہیں۔ اس واقعہ پر غور کرنے کے بعد معلوم ہوا کہ فرعون کی شر انگیزی کو آج کون پہنچ سکتا ہے۔ اور پیغمبروں کی سیرت بھی ہماری رسائی میں نہیں۔ رب کو خوب معلوم ہے کہ فرعون سدھرنے والا نہیں۔ اس کے باوجود پیغمبروں کو فرعون کے پاس بھیجنے کی تلقین کرتا ہے اور کہتا ہے کہ نرمی سے گفتگو کرنا۔ آج اس سے تمام داعیوں کو سیکھ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک طرف جرم و گستاخی کی انہتا جس کی وضاحت قرآن کرتا ہے کہ انہ طغی۔ دوسری طرف پیغمبران خدا جن کی عصمت کا ضامن خود خدا کریم ہے، اس کے باوجود نرم گفتگو کی تلقین! بہت کچھ بیان کرتی ہے۔
آج ہمارے معاشرے میں نہ ہی موسیٰؑ و ہارون ؑ جیسے کردار ہیں اورنہ ہی فرعون جیسی بغاوت ہے اس کے باوجود ہمارے معاملات ہمیں دعوت فکر دے رہے ہیں۔ہم کس طرف جا رہے ہیں۔
جبر کا بدلہ اور اس کی اصلاح کبھی جبر سے نہیں ہوئی اسی طرح گستاخی کو گستاخی سے ختم نہیں کیا گیا ہے۔کسی کی گستاخی پر ہمارا آج کا رد عمل اور اصلاح کا طریقہ ہمیں خود بھی گستاخ بنا رہا ہے۔ایک سوال امت کے ہر ذمہ دار فرد سے ہے کہ کسی کے جرم کی داستان بیان کرنے یا اسے مجرم قرار دینے سے پہلے کیا ہم نے کبھی اس سے اس کے جرم کے بارے میں بات کی ہے۔ اسے دعوت اصلاح دی ہے۔اگر ایسا نہیں تو کیا ہمیں اسے برا کہنے اس کی برائی کا اعلان کرنے اور اس میں اپنی ساری محنت صرف کرنے کا حق ہے؟
ایک مسئلہ اور بھی پریشان کن ہے۔ عام طور پر گستاخوں اور مذہبی مجرموں کے تعلق سے الگ الگ روایتیں سننے کو ملتی ہیں۔ کسی کی صحت اور یا عدم صحت کے بارے میں بات کرنے کی بجائے ہمیں اس بات کی وضاحت طلب ہے کہ ایسی روایت کب ،کیوں اور کہاں بیان کرنی چاہئیں۔ گستاخون کے بارے میں اکثر مقررین کا خیال ہے اور اب تو دھڑلے سے یہ سوشل میڈیا پر بھی تحریر نظر آئی ہے کہ ہر گستاخ کی نسل خراب ہوتی ہے۔اسیے کئی پیغمبر اور ان کے اہل و عیال گذرے ہیں جن کے اہل خانہ نے ایمان لانے سے انکار کر دیا ۔ اب ان کی نسل کے بارے میں اس روایت کے ساتھ کہاں تک انصاف کر پائیں گے۔ گستاخی یقیقنا جرم عظیم ہے۔ لیکن اسے ثابت کرنے اور اسے اطلاق کرنے کا حق کس کو ہے؟
پیغمبر اسلام کی زندگی اور ان کی نمائندگی کرنے والے صوفیاء کی زندگی ہمیں اس بارے میں فکر کرنے کی دعوت دیتی ہے۔کہیں ایسا تو نہیں کہ جرم کو جرم سے اور گستاخی کو گستاخی سے ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہو۔’گستاخ نبی کی ایک سزا ، سر تن سے جدا سر تن سے جدا‘ کا نعرہ دینے کے ساتھ اس بات کی کی وضاحت اشد درکار ہے کہ اس کا حق کسے اور کب ہے۔کو ن گستا خ ہے اور کس کی گستاخی کس درجے کی ہے اس کے کیا اصول ہیں، اس بارے میں کوئی متفق علیہ لائحہ عمل یا کیا حکمت عملی ہے؟
اصحاب کرام میں کئی اسیے لوگوں کی مثالیں ملتی ہیں جنہوں دور نبوی میں بھی آپ کی شان میں گستاخی کو برداشت نہیں کیا۔ شدت کا رخ اختیار کیا۔ یہ اس وقت کی بات تھی۔ اس میں ایک نام حضرت عمرؓ کا ہے۔ لیکن انہیں عمر کی زندگی کے ان پہلوؤں سے ہماری نظر ہٹ گئی جب انہوں نے گھر میں پوچھا کہ کھانا پڑوسی کو پہنچا دیا گیا۔ جواب ملا وہ تو دین کا دشمن اور نبی کا گستاخ ہے۔ آپ نے فرمایااس کا معاملہ الگ سے نپٹیں گے لیکن چونکہ وہ ہمارا پڑوسی ہے اسلئے پڑوسی والا معاملہ بھی ادا کریں گے۔ آج شاید تشدد کی جگہ تصلب کی ضرورت ہے۔
دیگر قوموں میں قوم مسلم کے تعلق سے بڑھتی نفرتوں کی وجہ یہ بھی ہے اس قوم نے نبوی سیرت کے مطابق خدمت خلق میں اپنی نمایا حصہ داری ختم کر دی۔ اپنے معاشرے کے ملی مسائل اور قوم ہم آہنگی میں اس قوم کی شرکت واضح نہیں ہے۔ دوسری بڑی وجہ تعلیم ہے۔ جس قوم کی بنیاد ہی اقراٗہو اس میں علمی فقدان
!ہیف سد ہیف!
علم و تربیت ایک دوسرے کو مکمل کرتے ہیں۔نبوی تعلیم و سیرت کی تربیت ہی علم کے صحیح استعمال اور اس سے مستفید ہونے کا راستا ہموار کر سکتے ہیں۔اصل دین کی طرف رجوع وقت کا اہم تقاضہ ہے۔ صوفیاء اور بزرگوں کے طرز عمل کو پھر سے اپنانے کی ضرورت ہے۔ اسی میں امن ہے۔