Friday, January 26, 2018

Global Peace Movementवैश्विक शांति संवादبین الاقوامی امن کی کوشش


بین الاقوامی امن کی کوشش ایک اہم اور ضروری اقدام

عبد المعید ازہری

دہلی کی شاہی جامع مسجد سیاسی، سماجی اور مذہبی اعتبار سے بین الاقوامی شہرت کی حامل ہے۔ اس کی شہرت کا تعلق جہاں اس کی دیدہ زیب تعمیر اور دیواروں، گنبدوں اور پتھروں پر کی گئی نقاشی ہے وہیں دوسری طرح کچھ اہل دل کی عقیدت کا مرکز جامع مسجد کی دائیں جانب واقع ایک درگاہ ہے۔ جسے درگاہ آثار شریف کہتے ہیں۔ جو اپنی قدر و منزلت اور پاکی طہارت کی بنیاد پر بین الاقوامی زیارت کا مرکز بنا ہوا ہے۔درگاہ آثار شریف کی اہمیت و فضیلت متعدد کتابوں اور رسالوں میں بقید تحریر ہے۔ اس درگاہ میں حضرت علی، حضرت امام حسن اور حضرت امام حسین علیہم السلام کے مقدس ہاتھوں سے لکھے گئے قرآن پاک اور ان کے اجزاء ہیں۔ نقش پائے نبی،حضور اکرم کے داڑھی مبارک کا بال مبارک،نعلین مقدس کے علاوہ دیگر تبرکات ہیں جو مغلوں کے دور میں شاہی خزانے میں برکات و حسنات کے طور پر رکھے گئے تھے۔ خزانوں میں ان تبرکات کے رکھنے کے پیچھے نیت یہ تھی کہ ان کی پاکی کی وجہ سے خزانے میں برکت ہوگی اور آسیب بلیات اور لوٹ مار سے محفوظ رہیں گے۔ یہ تبرکات خلفاء بنو عباس، شاہان سلاجقہ اور خلفاء عثمانیہ کے گھرانوں سے ہوتے ہوئے آل تیمور میں آئے۔ اور شہنشاہ ہمایوں کی معیت میں ان اسلاف کے ساتھ ہندوستان آئے جو سادات حسنی حسینی تھے۔ جب شاہ جہاں نے جامع مسجد کی تعمیر کی تو ان تبرکات کی نگرانی خواجہ محمد قیام الدین المعروف خواجہ محمد عرب حسنی حسینی کو دے دی گئی۔تاکہ عوام بھی ان فیوض و برکات سے فائدہ حاصل کر کر سکیں۔ اس درگاہ کی نگرانی صدیوں سے اسی سید خاندان کے ذمہ ہے ۔ جو آج بھی کئی نسلوں سے اس ذمہ داری کے فرائض کو انجام دے رہے ہیں۔ اس خاندان کو خصوصی طور پر ان باقیات و تبرکات کی نگہ داشت کے لئے بلایا گیا تھا۔ پاک آثار کے لئے پاک ذات کا انتخاب عین فطرت کے مطابق ہے۔
اس خاندان سے صرف درگاہ آثار شریف کی زیارت ہی تک اپنے آپ کو محدود نہیں رکھا بلکہ اسے اپنی موروثی خدمات سے بھی امت محمدیہ کو روشناس کرایا۔ چونکہ دہلی اپنی تعمیرات اور اردو ادب کے ساتھ ساتھ تصوف کی وجہ سے بھی جانا جاتا ہے۔ تقریبا ۲۲ خواجگان کی وابستگی اس دہلی کو حاصل ہے۔ اسی لئے اسے تصوف اور صوفیا کے مرکز کے طور پر بھی جانا جاتا ہے۔ اس تصوف کا اثر دہلی کے باقی تمام آثار پر بھی مرتب ہوا۔ چونکہ مرزا غالب نے بھی اپنے انداز میں بات کہی کہ’’ یہ مسائل تصوف یہ تیرا بیان غالب، تجھے ہم ولی سمجھتے جو نہ بادہ خوار ہوتا‘‘۔آثار قدیمہ میں بھی اس کے اثرات واضح ہیں۔ اب چونکہ تصوف کی ندیاں خاندان اہل بیت سے ہی جاری ہوئی جس کے ماخذ مولائے کائنات ہیں۔ انہیں کا ایک سرچشمہ سرزمین ہندوستان میں حضرت سید معین الدین چشتی ؑ کے نام سے جاری ہوا جس کے تبلیغی اور ایمانی پانی سے سبھی ہندوستانی مسلمان بحرہ ور ہوئے۔ جب کبھی بھی تصوف کا نام لیا جائے گا تو اس کے اعمال میں ذاتی ذکر و اذکار کے ساتھ ہی سب سے زیادہ جس چیز کو اہمیت دی گئی ہے وہ ہے خدا کی مخلوق کی خدمت۔ پیغمبر اسلام کے دور سے لیکر بعد کے خلفاء اور امراء کے دور تک اور اس کے بعد بھی سبھی صوفیا کے دور میں یہ سلسلہ جاری رہا ہے۔ ان صوفیوں نے الگ الگ طرح کی محفلیں قائم کی تاکہ اس میں شامل ہونے والے لوگوں کی خدمت کر سکیں۔ انہیں کھانا کھلائیں، پانی پلائیں اور فرصت و سکون کے چند لمحے گزارنے کے مواقع فراہم کر سکیں۔ ہندوستان بھر کی خانقاہوں میں لنگر کا نظام اسی کی سنت ہے۔صوفیوں نے خانقاہیں بنائیں۔ دور دراز کا سفر طے کر کے لوگ ہفتہ دو ہفتہ سے لیکر مہینوں تک رہتے تھے اور ان کی باتیں سنتے تھے۔ کیونکہ زائرین کی زندگی میںیہی وہ جگہ ہوتی تھی جہاں نہ تو ان کی ذات پوچھی جاتی تھی اور نہ ہی ان کا مذہب اور ان کا نام دریافت کیا جاتا تھا۔ اسی لئے یہاں ہر وقت زائرین کی بھیڑ ہوتی تھی۔کھیتی بھی خود ہوتی تھی۔ کاشت کاری کے بعد خود ہی بناتے تھے اور پھر آپس میں ایک دوسرے کو کھلاتے بھی تھے۔ اس کے بعد صوفیوں کی محفلوں میں بیٹھ کر قلبی اور روحانی سکون بھی پاتے تھے۔
ان صوفیوں نے ہر طرح کے مراکز قائم کئے۔ علمی، سماجی، مذہبی اور ثقافتی مراکز کے ساتھ متعلقہ محفلیں قائم ہونے لگیں۔ ہر میدان کی ضرورتوں کی تکمیل ہوتی رہی۔سبھی محفلوں میں ایک بات مشترک ہوتی تھی۔ وہ تھی نفرتوں کے خلاف محبتوں کی فضا کا قیام کرنا۔کیونکہ ماحول بندی وقت طلب کام ہے۔ اس لئے اس کی زیادہ ترغیب دی جاتی تھی۔ مذہبی، معاشی اور سماجی منافرت ختم کر کے یکجہتی، ہم آہنگی اور بقائے باہم کی روایتیں قائم کرنے کی تعلیم و ترغیب دی جاتی رہی ہیں۔ آج ہمارے معاشرے سے وہی ختم ہوتا جا رہا ہے۔ کبھی اسے خود ہم مذہب و ہم خیال نے شرک و بدعت کے نذر کردیا تو کبھی مغربی تہذہب نے اس کی روح ختم کردی۔ لیکن ابھی تک وہ سلسلہ وار روایتیں خانقاہوں میں برقرار ہیں۔
درگاہ آثار سوسائٹی کے زیر اہتمام اس خانوادے نے درجنوں نے علمی و تبلیغی مراکز قائم کئے۔فروغ تصوف اور امن کی تبلیغ کے لئے ہر سال مولد نبوی شریف کا انعقاد کرتے ہیں۔ بین الاقوامی شخصیات مدعو ہوتی ہیں۔ ملکی سطح پر تشددو نفرت کے خلاف امن و محبت کے قیام کی باہمی کوششیں ہوتی ہیں۔گذشتہ سال انہوں نے ملک میں ایک تاریخی کیلیگرافی کا بین الاقوامی مقابلہ کرایا تھا۔ جس نے دم توڑتی ثقافت اور ہنر کو یکسر سہارا دیا۔ہفتہ وار اور مہینہ وار اجتماعات کے ساتھ موقعہ بہ موقعہ ایسی مذہبی اور سماجی اجلاس کا قیام کیا جس میں غریبوں کی تن پوشی کے لئے کپڑے، خوردونوش کی اشیا ء تقسیم کئے۔ بچوں کی بنیادی تعلیم کے لئے درجوں مکاتب قائم کئے۔
روایات کو قائم رکھتے ہوئے اس سال بھی آنے والی 14دسمبر کو ایک بین الاقوامی میلاد کانفرنس کا انعقاد کیا جانا ہے۔جس میں ترکی، مصر، ملیشیاء، سینیگل اور ترکمینستان ودیگر ممالک کے مندوبین کی آمد ہوگی۔نفرت سے بھرے اس سماج کو پھر سے کیسے امن و محبت کا گہوارہ بنایا جائے اس پر بات ہوگی۔ ملک میں قیام امن کے لئے کئی ممالک ایک ساتھ کھڑے ہوں گے۔
یہ وقت ہے جب تمام امن پسند افراد کو ساتھ ہونا چاہئے اور اس طرح کی کسی بھی کوشش کو کامیاب بنانے میں ہر طرح کا تعاون پیش کرنا چاہئے۔تشدد و نفرت کو ختم کرنے کے لئے تصوف اور محبت کو عام کرنا ہی ہوگا۔ ہر امن پسند انسان یوں تو اپنے اپنے طورپر کوشش کرتاہے لیکن اسے اجتماعی شکل دے کر مزید موثر بنانے کے لئے اس طرح کے موقعوں پر کھڑے ہونا اور کوشش کرنے والے افراد کی حوصلہ افزائی کرنا نہایت ہی اہم ہے۔


Abdul Moid Azhari

(Journalist, Motivational Speaker/Writer, Translator, Trainer)
+919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Politics on Interfaith Marriage and Religion Conversionبین المذاہب شادی اور تبدیلی مذہب پر سیاست


بین المذاہب شادی اور تبدیلی مذہب پر سیاست

عبد المعید ازہری

ایک سوال بار بار کیا جاتا ہے کہ جب دو لوگوں نے آپس میں نکاح کے پاک رشتے میں جڑنے کا فیصلہ کر لیا ہے تو پھر اس کے لئے تبدیلی مذہب کی ضرورت کیوں کر پڑ جاتی ہے۔سوال کافی اہم ہے۔ جواب میں کئی فلسفوں کی ضرورت درکار ہو سکتی ہے۔اگرچہ اس طرح کی شادیوں کی کامیابیوں کی ایک لمبی فہرست بھی ہے، جس میں سیاسی شخصیات، فلمی دینا کے اداکاران کے علاوہ قومی لیڈران کی شادیاں شامل ہیں۔لیکن اس سکے کا دوسرا پہلو متعدد فرقہ وارانہ فسادات سے پر بھی ہے۔جو لو جہاد یا گھر واپسی کے نام سے ہوئے ہیں۔چونکہ کچھ بین المذاہب شادیوں میں فرقہ وارانہ کشیدگی اور ہنگاموں کا ایک الم ناک پس منظر ہمارے سامنے ہے، اس لئے اس مسئلے کو ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور عوامی بات چیت درکار ہے تاکہ مزید مذہبی نفرتوں اور عدم رواداری کے واقعات سے گریز کیا جا سکے۔کمیونٹی کے لیڈران اور دیگر با اثر افراد کی ذمہ داری ہے کہ دو قوموں کی اپنی ذاتی دلچسپیوں کے جذبات کو مشتعل نہ کریں۔ جس کی وجہ سے علیحدگی اور فرقہ واریت مزید تیزی سے بڑھ سکتی ہے۔اس کے لئے خواہ کورٹ کی شادی کا راستہ اختیار کیاجائے یا پھر مذہبی رسومات ادا کی جائیں۔من مرضی شادی ہو یا بین المذاہب رشتہ یہ دو لوگوں کی اپنی پسند ہے۔ اسے کسی مذہب یا سماجی روایت سے جوڑ کر فرقہ وارانہ سیاست کو ہوا دینا بڑا جرم ہے۔ جب کوئی شخص اس طرح کے اقدامات کرتا ہے تو سب سے پہلے وہ اپنے مذہب کے اصول اور سماج کی روایتوں کو ٹھکراتا ہے اور اپنے آپ کو کسی بھی سماجی و مذہبی بندھن سے آزاد کرلیتا ہے۔


Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@ 

भारतीय संस्कृति, सूफी और दरगाहIndian Culture, Sufis and Shrinesہندوستانی تہذیب، صوفیا اور درگاہیں


ہندوستانی تہذیب، صوفیا اور درگاہیں

عبد المعید ازہری

دنیا کے قیام سے لے کر جاری دور تک ہزاروں تہذیبوں نے جنم لیا اور بے شمار ثقافتیں دنیا میں آئیں۔ ان کے اپنے اثرات رہے ۔ صدیاں گذر گئیں اور ان کے ساتھ ہی کئی تمدن اور ان سے وابستہ روایتیں ختم ہو گئیں۔یہاں تک کہ ان کے اثرات بھی باقی نہیں رہے۔ لیکن ہندوستانی تہذیب دنیا کی ان مخصوص روایتوں میں سے ایک ہے جو ہزاروں سال گزر جانے کے باوجود باقی ہے۔ زندہ و جاوید ہے۔ پوری دنیا کے لئے ایک مثال ہے۔ اس تہذیب کے باقی رہنے اور اس کی سالمیت کی بنیادی وجہ یہ کہ اس ثقافت میں قبولیت، یکجہتی، بقائے باہم اور آپسی میل جول اس کے بنیادی عناصر میں ہیں۔ ملک کی قدیم تاریخ سے لے آج کی موجودہ شکل و صورت تک ملک کے دامن سے وابستہ سبھی تہذیبیں زندہ و جاوید ہیں۔ہندوستانی تہذیب کا ایک بے مثال عنصر یہ بھی ہے کہ اس ملک نے ہر تہذیب اور رویات، مذہب و رسومات کو یکساں جگہ دی۔ ایک ساتھ ملک بھر کی پھیلی ہوئی وسیع و عریض زمین پر اپنے اپنے عقائد و نظریات کے مطابق جبیں بوسی، سجدہ ریزی اور دل وارفتگی کے نظارے دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اس ملک نے ہمیشہ سے ہی دو روایتوں کی حفاظت کی ہے اور یہی اس ملک کی ایک الگ شناخت بناتی ہے۔ یہ ملک مذہب کا گرویدہ ہے۔ یہاں مذہبی وابستگی کسی دوسرے ملک کے مقابل زیادہ ہے۔یہی وجہ ہے کہ اس ملک کے اسلاف کے طور پر یہاں کے صوفی سنت اور فقیروں کو یاد کیا جاتا ہے۔ وہی اس ملک بانی، مبانی، فلاسفر اور رہنما ہیں۔ اسی لئے اس ملک کو صوفیوں کا ملک بھی کہا جاتا ہے۔ ان لوگوں نے اپنے اپنے مذہب کی مذہبی روایات و عبادات کو اپنے تشخص میں برقرار رکھتے ہوئے ملک کی تہذیب کو ایسی بلندی عطا کی جہاں مذہب، ملت، ذات اور برادری کے نام پر کسی بھی طرح کی غیریت، تعصب اور نفرت و حسد نہیں ہے۔ملک کی قدیم تاریخ سے لیکر جدید توضیح تک اس روایت کو باقی رکھا گیا۔ ملک میں حکومت کرنے والوں کے دور اور دن بدلتے گئے۔ نئی تہذیب اور روایتوں کے پروردہ اشخاص نے حکومت کی باگ ڈور سنبھالی۔ لیکن سب نے ہندوستانی تہذیب اور اس کی مسلسل روایت کو کھونے نہیں دیا۔یہ ملک اپنے مذہب میں یقین اور دوسرے مذہب کے احترام کے لئے جانا جاتا ہے۔ہر گھر میں مذہب موجود تھا اور ہے لیکن گلیوں محلوں اور ملک کے کونے کونے میں انسان اور صرف انسان نظر آتے تھے۔ یہی ہم ہندوستانیوں کا قومی اور ملکی سرمایہ ہے۔ شاید آج اس دولت کی حفاظت کی اشد ضرورت ہے۔
یہی وجہ ہے کہ صوفی سنتوں اور فقیروں کے مسکن، ان کی تعلیمات اور ان کی سماجی خدمات کو یکساں طور پر انسان دوستی کے لئے یاد کیا جاتا ہے۔ آج بھی درگاہوں پر آنے والے زائرین اور عقیدت مندوں میں بلا تفریق مذہب و ملت ہر طبقہ کے لوگ آتے ہیں یا یوں کہیں کہ لوگ اپنی ذات، برادری، مذہب و ملت گھر چھوڑ کر انسان کے طور پر آتے ہیں۔یہاں اہل دولت و ثروت اور صاحب اثر رسوخ بھی فریادی ہوتے ہیں۔سیکڑوں کی سیکیورٹی والا شخص بھی درگاہ کے احاطے بھر میں ننگے پیر گھومتا ہے اور دن بھر محنت اور مزدوری کرنے والا ایک عام انسان بھی اس کے برابر میں کھڑا ہو کر اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتا ہے۔ ان صاحب درگاہ صوفیوں نے اپنی پوری زندگی انہیں اعمال وافعال اور کردار و اخلاق کی تعلیم دی ہے۔قومی یکجہتی، سماجی رواداری، انسان دوستی اور اخوت و مساوات کی زندہ مثالیں ان درگاہوں کے علاوہ بڑی مشکل سے ملتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جب کبھی بھی عدم رواداری، مذہبی منافرت، فرقہ واریت یا انسان دشمنی جیسے افکار و نظریا ت کو فروغ دے کر انانیت اور بد عنوان سیاست کا آغاز کیا جاتا ہے تو سب سے پہلے ملک کی اس قدیم تہذیب کو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ مذہب اور اس کی روایتوں میں شکوک شبہات داخل کر دئے جاتے ہیں۔ اچانک سے ان روایتوں کو جھٹلانا شروع کر دیا جاتا ہے۔ اکیسویں صدی کا سب بڑا رزولیوشن یہی ہے کہ اگر دنیا کو نفرت و تشدد اور مذہبی فرقہ پرستی سے آزاد کرنا اور رکھنا چاہتے ہیں تو صوفیا کی تعلیمات کو عام کرنا ہوگا۔ یوں ہی اگر مزید فساد اور انتہا پسند چاہتے ہو تو درگاہوں اور سنت فقیروں کی روایتوں کو یکسر جھٹلا دو۔
اس میں کو ئی شک نہیں کہ صوفیوں نے ہمیشہ انسان کو ملانے اور ان میں آپس میں محبت اور بھائی چارگی قائم کرنے کا کام کیا ہے۔ اس کی ایک مثال دہلی میں واقع چشتی سلسلے کے ایک عظیم بزرگ حضرت خواجہ قطب الدین بختیار کاکیؓ کی درگاہ ہے۔ یہ درگاہ دہلی کے مہرولی میں واقع ہے۔ یہاں ہر سال پھولوں کی سیر کے نام سے ایک میلا لگتا ہے۔ جسے نہایات ہی تزک اہتشام کے ساتھ منایا جاتا ہے۔ ہندو، مسلم سبھی لوگ اس میں بخوشی شامل ہوتے ہیں۔اس موقعہ پر مہرولی میں ہی واقع یوگ مایا مندر اور درگاہ قطب پاک پر پھولوں کی خوشبودار چادریں چڑھائی جاتی ہیں۔ اس کے علاوہ میلے میں مختلف رنگ و خوشبو کے پھولوں سے الگ الگ طرح کی کی چیزیں مثلا، پنکھا ، چادر وغیرہ بنائی جاتی ہیں۔اس روایت کی شروعات مغل بادشاہ اکبر شاہ دوم کے دور حکومت میں بادشاہ کی بیوی ممتاز محل نے شروع کی تھی۔بادشاہ کے شہزادے مرزا جہانگیر کے برٹش ریزیڈنٹ سے جھگڑا ہو گیا تھا۔ اس کے بعد انگریزوں نے شہزادے کو الٰہ آباد جیل میں بند کردیا۔ بیٹے کی محبت میں ممتاز محل نے منت مانی کہ بیٹے کی رہائی پر وہ صوفی درویش خواجہ قطب پاک کی درگاہ پر پھولوں کی چادر چڑھائیں گی۔بیگم کی دعا جلد ہی قبول ہو گئی۔انگریزوں اور مغلوں میں صلح ہوئی۔مرزا جہانگیر رہا کر دئے گئے۔اس موقعہ پر سلطنت کے باشندوں نے خوشی میں درگاہ حضرت قطب الدین بختیار کاکیؒ اور یوگ مایا مندر کو پھولوں سے سجا کر تین دن تک خوشیاں منائیں۔یہ ہندوستانیوں کی مذہبی وابستگی اور مذہبی احترام ہے کہ انہوں نے اپنی خوشی میں بھی اپنی مذہبی رویات کو برقرار رکھا۔ ایک دوسرے کا برابر احترام کیا۔
آج بھی یہ میلا انجمن سیر گل فروشاں سوسائٹی کے ذریعے منعقد کیا جاتا ہے۔ لوگ درگاہ پر حاضری دے کر اپنی عقیدتوں کا اظہار کرتے ہیں اور ملک کی تہذیب سے محبت کو پختہ کرتے ہیں۔


Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Spreading Hates in the name of Faith Protection धर्मं रक्षा के नाम पर फैलती नफरतेंجہاد اور دھرم رکشا کے نام پر بڑھتا ظلم


جہاد اور دھرم رکشا کے نام پر بڑھتا ظلم
عبد المعید ازہری


جہاد اور ظالمانہ قتل و غارت گری دو الگ فکر اور عمل کے نتیجے ہیں۔ اگر چہ دونوں لفظوں کا تعلق اسلام سے ہے لیکن الگ پس منظر میں ہے۔ ظالمانہ قتل و غارت گری کے خلاف جہاد کرنا اسلامی تعلیمات و ترغیبات کا حصہ ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اپنی انانیت اور بد عنوانی کے لئے جہاد کا استعمال کرنا نہ تو اسلام کا حصہ ہے اور نہ اس کی تعلیمات و ترغیبات کسی امن پسند مذہب و فرد سے ملتی ہیں۔ جہاد دو طرح کے ہیں۔ ایک جنگ میں جہاد دوسرا نفس سے جہاد۔پیغمبر اسلام نے بارہا نفس کو پاس کرنے، اس میں اٹھ رہی غلط خواہشات کو مٹانے، پنپ رہی برائیوں سے خود کو دور رکھنے اور اپنے آپ کو کسی پر ظلم کرنے سے بچانے کا نام جہاد ہے۔ یہی بڑا جہاد ہے۔ اس کے بارے بے شمار قرآنی آیات اور نبوی ارشادات کا ورود ہوا ہے۔ایک انسان کے دل میں دوسرے انسان کے خلاف پیدا ہونے والے جذبات کا تعلق نفس سے ہے۔ اسی بنیاد پر وہ دوسروں پر ظلم کرتا ہے۔ زمین پر فساد برپا کرتا ہے۔ خدا کے بندوں پر ناحق ظلم کرتا ہے۔ ان کے حقوق کو غصب کرتا ہے۔ یا یوں کہیں کہ جانے انجانے میں خدائی کا دعوا کر بیٹھتا ہے۔ اسی لئے اس طرح کے برے افکار و خیالات سے نفس اور نیت کو پاک کرنا سب سے بڑا جہاد ہے۔اس جہاد پر عمل کرنے والوں کی تاریخیں آج تک زندہ ہیں اور لوگوں کے لئے مشعل راہ ہیں۔ ایسا جہاد کرنے والوں کو خدا کریم بھی پسند کرتا ہے اور انہیں اپنے اسرار رموز سے بھی واقف کراتا ہے۔ انہیں کے بارے قرآن کا ارشاد ہے کہ جب انسان خدا کی نگہبانی کا اقرار کر لیتا ہے۔ اس کے احکام پر عمل پیرا ہو کر تقوی کے راستے ولایت کا راستہ اختیار کر لیتا ہے تو پھر رب کی قدرت و کرشمائی کا عالم اس بندے پر یہ ہوتا ہے کہ چلتا تو بندہ ہے لیکن اقدام خدا کا ہوتا ہے۔ دیکھتا بندہ ہے لیکن بصارت رب کی ہوتی ہے۔ پکڑتا اور ہاتھ بندہ بڑھاتا ہے لیکن قدرت رب کریم کی ہوتی۔ ایسے صفت کو مومن کی فراست بھی کہتے ہیں کہ اس کے بارے میں قرآن کہتا ہے کہ مومن کی فراست کے مقابلے میں آنے سے بچو کہ بولتا تو وہ لیکن گویائی خدا کی ہوتی ہے۔کیونکہ اب وہ خدا کا دوست ہو جا تا ہے۔ تقوی اور صفائی کا عمل جہاد کے ذریعے جیسے جیسے بڑھتا جاتا ہے دوستی اتنی مضبوط ہوتی جاتی ہے۔ اسی اعتبار سے اس کی قدرت اور اختیارات میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔
جہاد کا دوسرا معنی جنگ اور آلات حرب و ضرب سے لڑائی بھی ہے۔ یہ بھی اسلام میں موجود ہے۔ لیکن قرآن کی جتنی آیتیں اس لفظ کے ساتھ وارد ہوئی ہیں ہر جگہ اس کا ایک پس منظر ہے۔ بغیر کسی سیاق و سباق، غرض و غایت اور مقاصد کے نہیں ہے۔ یہاں اس بات کی وضاحت لازمی ہے کہ جہاں اس بات میں کو ئی پس پیش نہیں اور من و عن درست ہے کہ اسلام تلوار کی زور پر نہیں بلکہ کردار کی فطرت سے پھیلا ہے۔ وہیں اس بات سے بھی انکار ممکن نہیں کہ اسلام میں تلوار کا تصور بھی ہے۔ جنگیں اور غزوات ہوئی ہیں۔ خود پیغمبر اسلام بھی شامل ہوئے ہیں۔ دنیا کے کسی بھی نظام میں ایسا نہیں ہے کہ برائی کو ختم کرنے کے لئے آلات و حرب و ضرب کا استعمال غیر مناسب تصور کیا گیا ہو۔ سناتن دھرم اور فکر جس کی تاریخ کافی قدیم ہے۔ وہاں بھی جب دھرم کو ادھرم سے خطرہ لاحق ہوتا ہے تو جنگ کے اپدیش، تعلیمات و ترغیبات ملتی ہیں۔ لیکن کسی بھی جنگ کے لئے ضروری ہے کہ اس کے سامنے بھی لو گ ہتھیار سے لیث ہوں۔ جنگ پر آمادہ ہوں۔ آپ نہیں ماروگے تو وہ مار دیں گے۔ یا خدا کی مخلوق پر ان کاظلم جاری و ساری رہے گا۔ ایسے میں لازم ہو جاتا ہے کہ انسان کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے اگر تلوار اٹھانی پڑے تو بے جھجھک اٹھائی جائے ۔ لیکن کسی نہتے پر وار کرنا غیر اسلامی اور غیر مذہبی عمل ہے۔بے گناہوں کا خون بہانا جرم اور ظلم ہے۔ خواہ اس کا مرتکب کسی بھی مذہب و ملت سے تعلق رکھتا ہو۔یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے حکومتیں اپنی انتظامیہ کو ہتھیار سے لیث کرتی ہیں تاکہ اگر کوئی ظالم کسی بے گناہ کو ظلم کا شکار بنائے تو اس کا مقابلہ کیا جا سکے۔ کسی مجرم کو سزا دینا یا کسی ظالم کے خلاف آلات کا استعمال کرنا بے جا و نامناسب نہیں ہے۔
تاریخی واقعات شواہت بکثرت موجود ہیں کہ اسلام کو کسی بھی ملک کی سرحد میں تلوار کی زور پر داخل نہیں کیا گیا۔ اکثر ایسا ہوا ہے کہ اسلام پہنچ گیا اس کے بعد اگر ضرورت پڑی تو تلوار داخل ہوئی ہے۔ ایسا بھی ہوا ہے کہ اسلام پہنچ گیا لیکن کبھی بھی اسلام کے نام پر تلوار اٹھی ہی نہیں۔ جہاد تو مسلمانوں نے صرف اپنی قوم کو ظلم سے نجات دلانے کے لئے نہیں اٹھایا بلکہ دوسری قوموں کو بھی محفوظ رکھنے کے لئے انسان دوستی اور فطرت کی حفاظت کے لئے جہاد کیا ہے۔ہاں کچھ سرفروں نے اپنے مفاد اور سیاسی ہتھکنڈوں کی وجہ سے اس پاک و پاکیزہ نام کا ناجائز استعمال کیا ہے۔ دہشت گردی کو جہاد کے لباس میں پیش کر کے لوگوں کو گمراہ کیا ہے۔ اسیے میں ہر ایک کی ذمہ داری بنتی ہے کہ اس کو سمجھیں۔آج کے دہشت گرد تو خود مسلمانوں کو کو تختہ مشق بنائے ہوئے ہیں۔ وہ کو ن ساجہاد کر
رہے ہیں۔ کسی غیر مسلم کو یوں ہی بے قصور قتل کرنا کون سا جہاد ہے۔جبکہ خود پیغمبر اسلام نے فرمایا کہ اگر کسی شخص نے کسی بے گناہ کو قتل کر دیا میں میں اس کے لئے دعا کروں گا۔ جنگ کی شرطوں میں یہ شامل ہے کہ جب تک مد مقابل حملہ کے لئے تیار نہ ہو اس سے جنگ یا اس پر وار کرنا جائز نہیں۔
جنگ وقتل کا یہ تصور صرف اسلام میں ہی نہیں بلکہ تقریبا ہر نظرئیے میں ملتا ہے۔ کسی بے گناہ کے قتل کی اجازت کوئی بھی مذہب نہیں دیتا۔ ایسا کرنے والے سب سے پہلے اپنے ہی مذہب کے دشمن ہیں۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہر امن پسند انسان اپنے مذہب کے نام ہو رہی دہشت گردی، تشدد ، انتہاپسندی اور فرقہ واریت کے خلاف خود کھڑا ہو تاکہ دوسری قوموں سے یہ کہا جا سکے کہ ہمارے گھر سے منسوب شخص کی غلط 
کار کے خلاف ہم کھڑے ہیں ۔ آپ اپنے گھر کی صفائی کے لئے کب کھڑے ہوں گے۔


Abdul Moid Azhari

(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
                          +919582859385

@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Friday, January 5, 2018

तीन तलाक़ बिल: मुस्लिम विद्वानता पर प्रश्न चिन्हتین طلاق بل: مسلم دانشوری پر سوالیہ نشانTriple Talaq Bill:Question mark on Muslim intelligence


تین طلاق بل: مسلم دانشوری پر سوالیہ نشان
عبد المعید ازہری

لوک سبھامیں تین طلاق کو پابندکئے جانے کے متعلق بل پیش ہو کر پاس بھی ہو گیا۔ البتہ ابھی راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہونا باقی ہے۔بل کے مختلف پہلؤں پر متعدد باتیں بھی عوامی میڈیا کے ذریعے سامنے آچکی ہیں۔حالات ایسے بنا دئے گئے ہیں کہ لگتا ہے کہ ملک بھی یہی چاہتا ہے کہ اس بل کو پاس ہی کیا جانا چاہئے تھا۔پھر کچھ نادان مسلمان نہ جانے کیوں مظاہر ہ، مخالفت اور ضد پا آمادہ ہیں۔ کیا ان کا یہ احتجاج، مظاہرہ یا ضد اس بل کے پاس یا رد ہونے میں کوئی کردار ادا کر سکتا ہے، یہ ایک اہم سوال ہے۔ جس کا ابھی تک کوئی معقول جواب موصول ہونا باقی ہے۔کچھ مسلمانوں اور اکثر ہندوستانیوں کا یہ خیال ہے کہ بی جے پی واضح طور پر ایک مذہبی اور نظریاتی پشت پناہی میں کام کرنے والی سیاسی پارٹی ہے۔ یہ مسلمانوں کی کھلی مخالف ہے۔ بی جے پی نے اسے جھوٹا ثابت کرنے کے لئے مسلم خواتین کے حق میں آواز بلند کی اور تین طلاق کے ذریعے ان پر ہونے والے مظالم کے خلاف پارلیا منٹ میں ایک بل پاس کر دیا۔بی جے پی کی یہ مسلم دوستی کتنا سیاسی اور کتنا سماجی ہے، اس کے لئے حق شناس اور حق گو انسان درکار ہیں۔ جو اس وقت تقریبا معدوم ہیں۔ لیکن بی جے پی حکومت کے اس اقدام کے بعد کیا اس کی امید کی جائے کہ بیس لاکھ سے زائد ہندو خواتین کے لئے بھی حکومت کوئی اقدام کرے گی جنہیں بے گھر اور بے آسرا چھوڑ دیا گیا۔ ان کی صورت تو ان مسلم خواتین سے بھی بدتر ہے کہ وہ دوسری شادی بھی نہیں کر سکتیں۔ کیا یہ حکومت ان خواتین کو انصاف دلانے کے لئے کوئی اقدام کرے گی یا صرف انہیں ملک کے اس خاص مسلم طبقے کی خواتین سے ہمدردی ہے اور باقی کو قدرت کے سہارے چھوڑ دیا ہے۔
پاس ہونے والے اس بل کے متعلق یہ اشکال بر قرار ہے کہ کیا سپریم کورٹ نے اپنے پرانے فیصلے میں کسی ایسے بل کے پیش کرنے کی بات کہی تھی۔ کیا یہی وہ بل ہے جس کا تقاضہ کچھ مسلم خواتین نے میڈیا کے سامنے آکر اپنی مظلومیت کی داستان سنا کر کیا تھا۔ چونکہ یہ خالص مذہب سے متعلق بل ہے؟ تو کیا یہ ضروری نہیں ہے کہ کسی مذہب و عقیدے سے متعلق کوئی قانون بنانے سے پہلے ان سے اس بابت بات کی جائے۔ اس طرح کے کئی سوال ہیں جن کے جواب آنے باقی ہیں۔ لوک سبھا کے بعد ابھی راجیہ سبھا میں اس پر بحث ہونا باقی ہے۔ تو کیا راجیہ سبھا میں موجود مسلم ممبران اس بل کی اہمیت و افادیت یا پھر اس سے متعلق اشکال و اعتراضات کے لئے تیار ہیں۔یا ان کا غم و غصہ فقط بندکمروں کی آواز بن کر ہوا میں دم گھونٹ دے گا۔
اس نازک معاملے کو کورٹ کچہری کے چکر لگاتے ہوئے تقریبا چھہ مہینے ہو گئے۔ چھہ مہیوں میں وقفہ وقفہ سے مسلم تنظیموں نے جملہ بازی کے علاوہ کچھ نہیں کیا ہے۔ جمعہ کے بعد احتجاج کر لینا فرض کی ادائگی تصور کرتے ہیں۔ علماء، ائمہ، مفتی، مفکرین اور جملہ مسلم دانش ور حضرات مل کر ابھی تک اپنا کوئی موقف طئے نہیں کر سکے ہیں۔ ایک بار میں تین طلاق دینے کے متعلق اگر تینوں یا ایک واقع ہوگی ، دونوں طرح کی روایات موجود ہیں،اس کے ساتھ ہی تین طلاق ناجائز و حرام کے سا تھ تین طلاق دینے والے کو کو ڑے کی سزا دی گئی ہے۔ تو کیا پھر سے اس پر غور کر کے کوئی نیا لائحہ تیار کر لینے کی ضرورت نہیں ہے۔ یا کم از کم اگر کسی بھی طرح کی گنجائش باقی نہیں ہے تو ملک بھر کے مفتیان کرام اور علماء و دانشور حضرات نے اس چھہ مہینے کی مدت میں متفق موقف حکومتوں کو پیش کرنے کی کوشش کیوں نہیں کی۔ گر ایک بار میں تین طلا ق کی کثرت ہو رہی ہے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں خواتین کو پریشانی کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے اور خواتین مجبور ہو کر کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹا رہی ہیں تو کیا سوچنے کا مقام نہیں ہے کہ آخر ہم اپنے ہی معاشرے کے مذہبی مسائل کو حل کرنے کے اہل کیوں نہیں ہے۔ طلاق کے علاوہ دیگر کئی معاملات کی اس قدرسنگینی نے ایک بات تو واضح کر دی کہ موجودہ مسلم پرسنل لاء بورڈ اپنی اہلیت کھو چکا ہے۔ اسے ترمیم کرکے اہل ذمہ دار اور فعال لوگوں کو آنے کی ضرورت ہے ورنہ وہ موروثی وراثت کی طرح اس کے عہدے تقسیم ہوتے رہیں گے اور یوں ہی ہر وقفے پر کوئی نہ کوئی تماشہ کھڑا ہوتا رہے گا۔ آخر میں اس سوال پر لوگ احتجاج اور لعن طعن کر کے خاموش ہو جائیں گے کہ آخر کار مولانا اسرار الحق نے پارلیا منٹ میں آواز کیوں نہیں اٹھائی۔ کیا وہ آواز اٹھاتے تو بل رک جاتا ۔ کیا وہ اس پوزیشن میں تھے کہ آواز اٹھاپاتے۔نے جواس پوزیشن میں تھے جیسے کہ جناب اسد الدین اویسی انہوں نے اپنی بات رکھی۔ جو سوال انہیں واجب لگے انہوں نے کئے۔ لیکن اس کے باوجود اس کا حل کیا نکلا۔بدر الدین اجمل کی اپنی پارٹی ہے۔ انہیں بھی بولنا چاہئے تھا ان کی خاموشی مجرمانہ ہے۔
اصل مدعی تو یہ ہے کہ ہمارے پاس جملے بازی کے علاوہ حل کیا ہے۔جمعہ کی نماز کے علاوہ اگر دس بیس پچاس کلومیٹر کے سفر کی دوری پر کوئی بڑا اور ہنگامی احتجاج منعقد بھی کیا جائے تو لوگ کتنے آئیں گے۔ اس جانب قدم اٹھانے والے کو پہلے قسمیں کھانی ہو ں گی کہ آپ ان کا سودا تو نہیں کر دوگے جن کی کوئی قیمت نہیں ہے۔ یا پھرانہیں دوسرے دن انصاف چاہئے۔ پورا ذمہ دار طبقہ کسی نئے داماد کی طرح ناراض ہو جائے گا کہ آخر کوئی اور اس میں پیش پیش کیوں ہے۔موجودہ صورت حال کے لئے ذمہ دار طبقے کا ہر فرد قصور وار ہے جنہوں نے اپنی ذاتی انا کی خاطر اپنی آنکھو ں کے آگے دین کا سودا ہونے دیا۔ خواہ وہ خانقاہ میں بیٹھے پیران عظام ہوں، مدارس کے اساتذہ ہوں، ائمہ و مبلغین ہوں، مقرررین و شاعر ہوں، تبلیغی ہوں یا دعوتی ہوں کیوں کہ انہیں جب خود کیلئے کوئی ضرورت محسوس ہوتی ہے تو کسی نہ کسی طرح دین کی دہائی دے کر اس کاانتظام کر لیتے ہیں۔لیکن دین کے لئے ان کے فلک بوس نعروں اور جادو اور کرامتوں نے کوئی انقلاب برپا نہیں کیا اور نہ زمین آسمان میں کوئی زلزلہ آیا۔
چھہ مہینے پہلے بھی بند کمروں میں یا دوچند لوگوں کے ساتھ نماز جمعہ کے بعد احتجاج کیا تھا آج بھی وہی کر رہے ہیں۔ آج بھی ہمارے پاس کوئی لائحہ عمل نہیں ہے۔ اگر ابھی بل پاس کرانے والی جماعت آکر کہتی ہے کہ چلو اس بل کو منسوخ کرتے ہیں۔ تمہارے اپنے پاس اس متعلق کیا خاکہ و منسوبہ ہے۔ کیا ہم اس جواب کے لئے تیار ہیں؟ آخر دسیوں ممالک نے تین طلاق پر مطلقا پابندی عائد کردی ہے، اور وہ مسلم ممالک ہیں۔پڑوسی ملک پاکستا ن نے بھی ایسا قانون بنایا ہے۔ تو آخرہندوستان میں اسے لاگو کرنے میں کیا حرج ہے؟ کیا ان سوالوں کا کوئی معقول جواب ہمارے پاس ہے؟ اگر ہے، تو اس سے پوری قوم مسلم کے ساتھ حکومتی اور غیر حکومتی اداروں کو آگاہ کیا جائے اور اگر نہیں ہے، تو جملہ بازی کرنے کی بجائے سنجیدگی سے اس پر غور کر لیا جائے۔ یا پھر اس کا تیسرا طریقہ یہ ہے کہ خاموشی اور خوشی سے اس بل کااستقبال کریں۔
ایک آخری امید آل انڈیا علماء و مشائخ بورڈ سے ابھی بھی باقی ہے کیونکہ جب حکومت نے تین طلاق کے خلاف کورٹ میں اپنا حلف نامہ داخل کیا تھا اس وقت بورڈ کے بانی و صدر نے اعلان کیا تھا کہ وہ اس مسئلے کو ملک کے جملہ مقتفدر علماء و مشائخ کے درمیان رکھیں گے اور اس پر ایک متفق رائے بنانے کی کوشش کریں گے۔ ابھی ان کے موقف کا انتظار ہے۔ شاید اس وقت قوم سلم کو سنجیدگی کے ساتھ بیٹھ اس معاملے پر غور کرنا چاہئے۔ بورڈ کو آگے آکر ایک عظیم اور انقلابی اقدام کرنا چاہئے کیونکہ یہ اس وقت قوم کی سب سے بڑی ضرورت ہے۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Contact: 9582859385, Email: abdulmoid07@gmail.com


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@

Wednesday, January 3, 2018

بی جے پی کی مسلم خواتین پر مہربانیBJP kind on Muslim Women बीजेपी की मुस्लिम महिलाओं पर मेहरबानी


بی جے پی کی مسلم خواتین پر مہربانی
عبد المعید ازہری

مسلم خواتین کی نمائندہ سیاسی پارٹی بی جے پی نے آخر کار اپنی سیاسی منشا کی تکمیل کی اور طلاق ثلاثہ کے مخالف بل کو لوک سبھا میں پیش بھی کر دیا اور اپنی حامی جماعتوں کی تائید حاصل کرتے ہوئے اسے پاس بھی کر دیا۔ بڑی حریف جماعتوں نے زیادہ مخالفت کی کوشش نہیں کی۔ کچھ نے ہمت نہیں دکھائی شاید باقی نہیں رہی اور کچھ نے احسان کا بدلہ چکا دیا۔میڈیا اپنا کام بڑی ایمانداری سے کر رہی ہے۔ ملک کے کونے کونے سے مظلوم خواتین کی فہرست تیار کر رہی ہے اور انہیں ٹی وی کیمرا کے سامنے لا کر ان کے حق میں کئے گئے انصاف کی چرچا کرنے میں مصروف ہے۔مسلم حلقوں میں کچھ بے مطلب کی سی بے چینی ہے۔ کچھ زبانی مظاہرے ہیں جو دو چند روز میں سر د ہو جائیں کے۔ وہ معزور بھی ہو سکتے ہیں یا ان کی اپنی کوئی مجوری بھی ہو سکتی ہے۔کچھ دانش وروں نے سوال اٹھائے ہیں ۔ بڑی باریکی سے طلاق ثلاثہ کے متعلق پاس کئے گئے بل کو دیکھا اور اس پر غور کیا اور چند غور طلب پہلؤں کو اجاگر کیا۔ بند کمروں میں ان کا اظہار جاری ہے۔ سوشل میڈیا پر احتجاج اور تائید مسلسل جاری ہے۔ اس وہم محض کے ساتھ کہ ہم اس سوشل میڈیا کے توسط سے جنگ جیت لیں گے۔ٹی وی پر بحث کا موضوع آج کل کافی ٹی آر پی بڑھا رہا ہے۔ مسلمانوں کی نمائندگی کرنے والے علماء اور سیاسی قائدین کی جنگ بھی جاری ہے۔ یہ بھی شاید سچ ہے کہ وہ کر ہی کیا سکتے ہیں۔ کم از کم اسی بہانے ٹی وی کے ذریعے اس سوئی ہوئی غافل قوم کے اندر ان کی اپنی ساخت بن جائے گی کہ انہوں نے قوم کے حق میں ٹی وی چینلوں پر کتنے ہی بحث کر ڈالے۔
اخباروں، ٹی وی چینلوں اور سوشل میڈیاکے ذریعے ملی خبروں کے مطابق بل میں کچھ کمی رہ گئی ہے یا کر دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ مسلم خواتین کے حقوق کی لڑائی لڑنے والی بی جے پی نے آخر ملک کے اتنے سنگین مسائل مثلا، بے روزگاری، عام خواتین کی عصمت دری، کسانوں کی خودکشی،فرقہ پرست طاقتوں کی آئین دشمنی کو چھوڑ کر آخر مسلم خواتین کے ذاتی و مذہبی مسئلے میں دلچسپی لینے کے پیچھے کیا وجہ ہو سکتی ہے۔ حالانکہ ملک کے مکھیا ہونے کے ناطے کسی بھی وزیر اعظم کی یہ ذمہ داری ہے کہ ملک کے ہر باشندے کا خیال رکھے اس کے تحفظ اور حقوق کی ادائگی کے ساتھ اس کے ساتھ انصاف اور برابری کے سلوک کو یقینی بنائے۔اس لحاظ سے وزیر اعظم کا شکریہ ادا کرنا چاہئے کہ انہوں نے اپنی ذمہ داری کا احساس کرتے ہوئے مسلم خواتین کے تئیں اقدام کی فکر کی۔ لیکن اس اقدام میں خود آئین کی بھی خلاف ورزی ہو رہی ہے کہ کیونکہ ملک کا آئیں کسی بھی شخص کو اس کی مذہبی آزادی دیتا ہے۔ اس بل کے مطابق اگر کسی نے اپنی بیوی کو ایک بار میں تین طلاق دے دیا تو اسے تین سال کی سزا ہوگی۔ اس کے ساتھ ہی تین طلاق واقع بھی نہیں ہوں گی۔ وہ ایک ہی مانی جائے گی۔ اب یہاں سوال یہ ہے کہ اگر طلاق واقع ہی نہیں ہوئی تو سزا کس بات کی دی جائے گی۔ شیعہ اور اہل حدیث کے یہاں پہلے سے ہی یہ نظام ہے کہ تین ہو یا تین سو یا اس بھی مزید چاہے جتنی طلاقیں دی جائیں ایک بار میں صرف ایک طلاق ہی وقع ہوگی۔ تو ایسے میں کوئی قانون یا بل لانے کی کیا ضرورت تھی۔
تین طلاق کے بعد بھی وہ بیوی ہی رہے گی یہ الگ بات ہے۔ طلاق دینے والا جیل بھی جائے گا اور بیوی اور بچوں کا خرچ بھی اٹھائے گا۔تین طلاق کے ثبوت کا حق بھی عورت کو ہوگا۔ جیسے کہ جہیز کے خلاف عورت کو خصوصی اور رعائتی حق حاصل ہے۔ اگر کسی عورت نے اپنے شوہر کے خلاف جہیز کا کیس درج کرا دیا تو شوہر سے پوچھے بغیر اور اس سے اس بابت کوئی بھی سوال جواب کئے بغیر اسے پہلے جیل میں بھیجا جائے گا اس کے بعد ہی کوئی پوچھ تاچھ کی کارروائی ہوگی۔ اب اس معاملے میں آج کے حالات کیا ہیں سب کے سامنے ہیں۔
جب سے یہ طلاق کا مدعیٰ اٹھا ہے تب سے ایک بات بڑے تسلسل کے ساتھ چل رہی ہے۔ سیاسی جماعتوں ، ان کے نمائندوں اور ٹی وی چینلوں کے ساتھ اخبار والوں نے اب تک کسی طلاق دینے والے کو بلا کر اس سے اس کے طلاق دینے کی وجہ نہیں پوچھی۔ جن خواتین کو میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا ان کے ساتھ ہونے والی ناانصافی کو تو دکھایا گیا لیکن کس نے کیوں ایسا کیا اس معاملے تک پہنچنے کی کوشش نہیں کی گئی۔ اب تک جن خواتین نے اس معاملے میں اگوائی کی ہے ان میں سے اکثر کا کسی بھی گروہ میں یقین ہونا یقینی نہیں ہے۔ سرے سے وہ کسی نظام کو نہیں مانتی تو ان کے لئے ایک، دو یا تین طلاق کوئی معنیٰ نہیں رکھتا۔اس معاملے میں شروع سے ایسے کردار گڑھے گئے ہیں کہ معاملہ کو اتنا پیچیدہ بنا دیا جائے کہ اس کے بارے میں کچھ کہنے اور بولنے سے پہلے لوگ پس وپیش کا شکار ہو جائیں۔
طلاق ثلاثہ، لو جہاد اور گؤ رکشا کے مدعوں سے اپنی سیاسی ناکامی پر پردہ ڈالا گیا تھا وہ آج تک بدستور جاری ہے۔ترقی اور روزگار کی ناکامی اور نوٹ بندی اور جی ایس ٹی کی نااہلی کی پردہ پوشی کے لئے یہ مذہبی کارڈ انتخاب کے دنوں سے لے کر اب تک چل رہا ہے۔اس کارڈ کو مسلمانوں نے ہی آسان کر دیا ہے۔ابھی حال ہی میں ملک کے سب سے بڑے گھوٹالے 2Gکے بارے میں کورٹ کا ایک فیصلہ آیا اور کئی ملزمین کے اوپر سے الزام ہٹایا گیا اور سبھی کو بے گناہ قرار دیا گیا۔حالانکہ اس گھوٹالے کے بارے میں انکشاف کرنے والی ایسی ایجنسیا بھی ہیں جو ملک میں اساس کا درجہ رکھتی ہیں۔اب ان کا بھی یقین داؤں پر لگ گیا ہے۔ حالانکہ جس طرح بی جے پی حکومت کی دیکھ ریکھ میں یہ اے راجہ کے علاوہ دیگر ملزمین کو ایک عرصے کے بعد انصاف ملا اسی طرح اگر چہ کانگریس بی جے سے ناراض اور اس کی سخت مخالف ہو اس کے باوجوس لوک سبھا میں اس نے بی جے پی کی جانب سے طلاق ثلاثہ سے متعلق بل کی زیادہ مخالفت نہیں کی کیونکہ اسے بھی لگا یہ بل درست ہے۔
یوپی کی بی جے پی حکومت نے جب اپنا تعلیمی بل پیش کیا تو اس میں لوگوں نے حکومت کی قابلیت اور اہلیت کو پہچان لیا اور ہر طرف سے لوگ اس کے متعلق بحث اور چرچہ کرنے لگے۔ حکومت کو لگا کہ اس کی پالیسی کی کافی چرچہ ہو رہی ہے اس لئے اس نے موضوع بدلنے کے لئے گو کشی کو بند کرنے کا اہم اعلان کیا اور کیونکہ یو پی کی ترقی کا سب سے بڑا روڑا یہی تھا۔ غیر قانونی بوچڑ خانوں کو آن کی آن میں بند کر دیا گیااور ریاست ترقی کی راہوں پر چل پڑا۔ رہی سہی کسر لو جہاد اور گو رکشک دلوں نے پوری کر دی۔ چونکہ حکومت انصاف نہیں کر پا رہی تھی۔ اس لئے ان لوگوں کو قانون ہاتھ میں لینا پڑا اور ملک کے کونے کونے میں انہوں نے حکومت کی پشت پناہی میں انصاف خانے کھول دئے۔ 
امید ہے ایسا ہی چلتا رہے گا۔ ایک دن آئے گا جب ریاستوں کو حکومت کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔
Abdul Moid Azhari (Amethi) Emai: abdulmlid07@gmail.com, Contact: 9582859385


@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@