Monday, February 26, 2018
Friday, February 23, 2018
Tuesday, February 13, 2018
یکجہتی کی مسدود راہیںBlocked Ways of solidarityएकजुटता के बंद रास्ते
کیا یکجہتی کی سبھی راہیں مسدود ہو گئیں؟
عبد المعید ازہری
کچھ لوگ خدا کو مسجد، مندر، گردوارے اور چرچ میں تلاش کرتے ہیں تو کچھ لوگ اسے اپنے من اور کائنات کے ہر ذرے میں اور یا ان ذروں سے محسوس کرتے ہیں۔ مندر و مسجد اور گردوارہ و چرچ کے تقاضے اپنی جگہ اور انسانیت اور اس کے مطالبات اپنی جگہ ہیں کیونکہ انسانی ہمدردی ہر جگہ یکساں ہے۔ انسان، خالق انسان اور کائنات کی فطرت یعنی گنگا جمنی تہذیب کا بھی یہی فلسفہ ہے۔انسانیت اور انسانی تہذیب کی یہ بنیادی فہم و فراست ہمارے ملک کا اٹوٹ حصہ رہا ہے جس کی امیدیں ابھی تک برقرار ہیں۔ گاہے بہ گاہے اس کی عملی مثالیں ملتی رہتی ہیں جو اس بات کو ثابت کرتی ہیں کہ ابھی ملک کا وقار زندہ ہے۔ کیونکہ یہاں کہ انسانی تہذیب ابھی زندہ ہے۔ہزاروں مربع میل میں پھیلی ہوئی ملک کی زمین کے کئی کونوں میں ایسے سیکڑوں سنسکرت اور سناتن دھرم کی تعلیم والے ادارے مل جائیں گے جہاں صرف رام ہی نہیں پڑھتے ہیں بلکہ کئی رحیم بھی پڑھتے ہیں۔ جہاں پڑھنے والے رحیم کو ان کے نماز کے وقت خصوصی رعایتی چھٹی ملتی ہے وہیں رحیم اس اسکول کی روایتوں کا لحاظ کرتے ہیں۔ پڑھنے والے طلبہ اور ان کے والدین کا کہنا ہے کہ ان کے بچوں کو اچھی تعلیم کے ساتھ اچھی تربیت مل رہی ہے۔سنسکرت کے اشلوک، قومی اور علمی ترانے ان کے علمی اور ملکی رجحان میں اضافہ کرتے ہیں۔وہاں موجود دیگر طلبہ جن میں رام، گرو اور جانسن ہوتے ہیں، ان کے ساتھ ایک مخلوط تہذیب میں تربیت پا کر ملکی تہذیب پروان چڑھتی ہے۔ اسی طرح سیکڑوں مدرسے ہندوستانی تاریخ سے سینے میں دل کی دھڑکن کی طرح دھڑک رہے ہیں جہاں رام نہ صرف اردو پڑھتے ہیں بلکہ اس کی محبت کی زبان وبیان کا لطف لیتے ہیں۔آج مدارس تکنیکی سہولتوں سے آراستہ ہو رہے ہیں۔ ان کی تعلیمی سرگرمیاں نہایت ہی موثرہو رہی ہیں ۔ اس لئے علم و اداب کی تلاش کرنے والا کوئی بھی طالب علم بالخصوص ہندوستانی باشندہ خالص اور معیاری علم کے حصول کے لئے کسی بھی طرح کے تعصب و تشدد کے گریز کرتا ہے اور ملک کی مخلوط تہذیب کو فروغ دیتا ہے۔یہ ہمارے ہی ملک کی خاصیت ہے جہاں اس طرح کے مختلف اور متعدد سنگم دیکھنے کو ملتے ہیں۔اسی تعلیم و تربیت کا پروردہ آگے بڑھ کر بین المذاہب رواداری کو فروغ دیتے ہیں۔ منافرت کو ختم کرنے کے لئے آپسی بات چیت کے دروازے کھولنے ہیں۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
نفرت کی جنگ محبت سے Love Against Hateनफरत के बदले प्यार
نفرت کی جنگ محبت سے لڑی جائے
عبد المعید ازہری
مذہب کے نام پر سماجی تفریق چند مفاد پرست مذہب مخالف افراد و افکار کی اپنی نجی و ناپاک کوشش ہی ہے ورنہ یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عام مسلمان اور غیر مسلم کے رہن سہن اور ان کے سوچنے کے طریقے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔معاشرے میں بظاہر پھیلی اس نفرت اور اسے ہوا دینے والے سماجی میڈیا کی بدولت دور و نزدیک تک پہنچنے والے اس زہر کے باجود اجتماعیت، تکثیریت اور یکجہتی ایک عام انسان کا وطیرہ و دستورہے جس کا عکس معاشرے میں صاف نظر آتا ہے۔ملک کے ہر کونے میں ابھی ہندوستانیت پر بھروسے کی پر اعتماد تصویریں دیکھنے کو ملتی ہیں جو اس بات کا واضح ثبوت ہیں کہ ملک کی سالمیت کے لاکھ دشمن ہوں اور اس کی ہم آہنگی کو توڑنے والی قوتیں خواہ کتنی ہو کوششیں کر رہی ہوں لیکن ملک کی صدیوں پرانی تہذیب آج بھی اپنے وقار و آبرو کے ساتھ باقی ہے۔ ہاں کبھی سسکتی ہے اور آہیں بھی بھرتی ہے لیکن زندہ ہے۔ یہی وہ ملکی وراثت اور روایت ہے جو ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی قبولیت کو فروغ دیتا ہے۔ایک عام مسلمان ہو یا غیر مسلم، سب بحیثیت انسان برابر ہیں۔تاہم ہر گروہ میں کچھ ایسے افرادہوتے ہیں جو اپنی زبان، مذہب یا گروہ کو دوسرو ں کے بالمقابل زیادہ پسند کرنے کے لئے پوری جماعت کو بیجا اکساتے رہتے ہیں۔جبکہ ایک عام مسلمان کسی دوسرے کو صرف اس وجہ سے مارنا یا پریشان کرنا پسند نہیں کرے گا کہ وہ شخص کسی دوسرے مذہب کا پیروکار ہے۔اسی طرح ایک عام غیر مسلم بھی ایسا نہیں کرے گا۔یہی وہ بنیادی فکر ہے جو دونوں ہی قوموں کو ایک ساتھ مل کر رہنے کی طبعی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔ان فرقہ پرست طاقتوں کا تعلق کسی بھی مذہب وفکر سے نہیں ہوتا ہے بلکہ دور حاضر کے تناظر میں یہ کہنا بے جا نہیں ہو گا کہ یہ فرقہ پرست طاقتیں انتہا پسند فکروں کے ساتھ فروغ پاتی ہیں۔اسی میں انہیں جلا ملتی ہے۔ اس کے بر عکس ایک عام آدمی خواہ کسی بھی مذہب کا ہو وہ یکجہتی کے ساتھ زندگی میں یقین رکھتا ہے اور اسی میں فروغ پاتا ہے۔وہیں فرقہ پرست طاقتیں پس و پیش میں رہتے ہیں عمر بھر غیر یقینی زندگی گذارتی ہیں۔یہ فرقہ پرست طاقتیں بلا تفریق مذہب و ملت ہمیشہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ رکھتی ہیں۔
تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ساتھ اسلاموفوبیا ایسے دائرے ہیں جہاں ایک کے فروغ سے دوسرے کو مددملتی ہے۔سبھی آپس میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔جتنا تشدد کو فروغ ملے گا اتنا ہی اسلاموفوبیا کو بڑھاوا ملے گا۔اسی طرح بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے درمیا ن کوئی فرق نہیں ہے۔بنیاد پرستی ایک ذہنی دہشت گردی ہے جب کہ دہشت گردی کسی تشدد کا اعلیٰ نمونہ ہے۔مختلف افکار و نظریات کے نام سے سیاسی مفاد اور ذاتی اقتدار کے لئے ابھاری گئی یہ تنظیمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرتی ہیں۔ ایک دوسرے کا انیدھن ہیں۔ایک دوسرے کے فروغ میں ایک دوسرے کی حمایت کرتی ہیں۔ جیسے ہی فرقہ پرستی کمزور ہونے لگتی ہے ایک دوسرے کو تقویت دے کر بہر حال اس انتہا پسندی کو ایک ساتھ مل کر فروغ دیا جاتا ہے۔مختلف رنگ ڈھنگ میں پائی جانے والی یہ واحد فکر جالوں کا ایسا پلندہ ہے جس کی آپسی کڑیوں کا جوڑ پانا مشکل ہی نہیں نا ممکن سا لگتا ہے۔تلوار و ترشول میں بٹی یہ فکر اور رام اور رحیم کے نام دہشت پھیلانے والے ایک دوسرے کے وفادار بھی ہوتے ہیں اس سچائی تک پہنچنا اگر چہ سب کے بس کی بات نہیں لیکن یہ ایک ناگذیر حقیقت ہے۔ایک کمزور پڑتا ہے تو دوسرا طاقت دیتا ہے اور دوسرا کمزور پڑتا ہے تو پہلا اسے تقویت پہنچاتا ہے۔اس مایا نگری اور سیاسی جال کے چنگل میں پھنسی بھولی بھالی ہندوستانی عوام آج تک اپنے خون کے نذرانے دے کر ملک کی قومی یکجہتی کے باغیچے کو سینچ رہی ہے اور چیخ کر کہہ رہی ہے کہ سرحدیں جتنا لہو مانگیں گی ہم دیں گے مگر پھر سے اس ملک کا نقشہ نہ سمٹنے دیں گے۔
یہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں ایک طرف دہشت گردی اور آتنک واد کے خلاف مسلسل کوششیں جاری ہیں، وہیں دوسری طرف چند بنیاد پرست تحریکیں جیسے کہ خوارج، تکفیری، اخوانی، کراماتی اور حشاشینی فکر اسلامی تاریخ میں اپنی موجودگی درج کرا رہی ہیں۔جن کی وجہ سے جہاد کے نام پر ہو رہے تشدد کو پھلنے پھولنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ حال ہی میں ابھری دہشت گرد تنظیمیں داعش، القاعدہ اور لشکر طیبہ اسی کڑی کا اہم حصہ ہیں۔آج ان غیر قانونی تنظیموں کی کرتوتوں کی وجہ عالمی امن کو خطرہ پیدا ہو گیا اور انہوں نے اسلام کو بنیاد پرست مذہب اور مسلمانوں کی تصویرکو انتہاپسند بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے۔اس لئے یہ اس مسلم قوم کی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ اجتماعیت اور یکجہتی کو فروغ دیں تاکہ تباہ کن فکر کے ساتھ ساتھ داعش جیسی تنظیموں کے اثر و رسوخ کو بھی نیست و نابود کیا جا سکے۔جو نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں۔یہ اس قوم کی دہری ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے دامن میں لگے اس داغ کو صاف کرنے کے لئے خود سے سامنے آئیں اور کچھ ایسے کڑے فیصلے لیں جس نہ صرف ان کی شبیہ پر اچھلنے والے کیچڑ کو جگہ نہ ملے بلکہ ہندوستانی قومی برادری کو بھی سامنے آکر اس بات کا اقرار کرنا پڑے کہ یہ قوم خود بھی مظلوم ہے۔ اسی کے ساتھ بنام مسلم ہونے والی دہشت گردانہ واقعات و حادثات کو آڑ بنا کر اپنی ناپاک سیاست چمکانے والوں کو بھی ایک واضح اور کھلا ہوا جواب ملے کہ دونوں میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔یہ وقت کی ہم ضرورت ہے کہ اپنی قومی انفرادی اور اجتماعی ذمہ داریوں کا نہ صرف احساس کیا جائے بلکہ اسے عملی جامہ بھی پہنایا جائے۔ اس سے پہلے کہ پانی سر سے اوپر آجائے نجات اور دفاع کی تیاری کر لینی چاہئے۔
دہشت گردی، آتنک واد اور انتہا پسندی ایک عالمی اور اجتماعی مسئلہ ہے اسے مل کر ہی لڑناہوگا۔ ایک دوسرے پر الزام لگا کر اور انہیں ہی مورد الزام ٹھہرا کر اس لڑائی کو لڑنا ممکن نہیں بلکہ اس سے مزید ان فرقہ پرست طاقتوں کو ہوا ملے اور ان کے ارادے مضبوط ہوں گے۔ ہمیں ایسے ہر کسی عمل سے گریز کرنے کی ضرورت ہے جو ان انتہا پسند طاقتون کو تقویت پہنچا سکتی ہوں۔ ہمیں ہر حال میں قومی یکجہتی کو فروغ دے کر ان طاقتوں کے منہ پر ایک زور دار طمانچہ لگانا ہی ہوگا۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Writer, Translator, Trainer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/ raebarely
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
The Quranic Concept of Co Existenceبقائے باہم کا قرآن تصورआपसी मेल जोल का क़ुरानी सिद्धांत
بقائے باہم اور رواداری کا قرآنی تصور
عبد المعید ازہری
’ہم اپنے عمل کے لئے جواب دہ ہیں اور تم اپنے اعمال کے ذمہ دار ہو۔ ہمارے اور تمہارے درمیان کوئی بحث نہیں ہے۔ رب کریم ہمیں ایک ساتھ اکٹھا کرے گا۔ ہمیں اسی کی طرف جانا ہے‘ (القرآن:ترجمہ)۔ یہ آیت کریمہ ہمیں انسانی رواداری کی تعلیم دیتی ہے۔ چونکہ مجموعی سماج کی تعمیر و ترقی کے لئے رواداری ایک بنیادی تصوراتی اور عملی خیال ہے، جہاں مختلف مذاہب کے لوگ ایک ساتھ رہتے ہیں۔ اس وسیع ترین دنیا میں بقائے باہم، آپسی میل جول اور انسانی ترقی کی رفتار کی ترویج کے لئے رواداری اور ہم آہنگی بنیادی ضرورتیں ہیں۔ اسی سے ایک ملن سار ماحول میں مختلف اقدار اور بقائے باہم کے ساتھ شناختوں میں تکثیریت اور تنوع کا تصور کیا جا سکتا ہے۔اس کے برعکس احساس برتری ایک ایسا نظام ہے جہاں ایک خاص قدر کو دوسروں پر جبرا تھوپا جاتا ہے۔ رواداری، یقینا ایک روحانی تصور ہے جو تعدد اور کثرت کو ایک خدا کی اصطلاح اور تصور کی جانب لے جاتا ہے۔ قرآن نے واضح طور پر اجتماعیت اور رواداری کو تسلیم کیا ہے۔اسے بڑی ہی سنجیدگی سے بیان کیا ہے ’مذہب میں کوئی زور و جبر نہیں ہے‘(القرآن: ترجمہ)۔ خدا کی جانب سے آدم کی سبھی اولاد کو عزت دی گئی ہے (القرآن:ترجمہ)۔ ان بیانات میں مسلم اور غیر مسلم کی تمیز نہیں کی گئی ہے۔ قرآن مذہبی تنوع کو صرف انسانی وجود کی بنیادی حقیقتوں کے لئے ہی متعارف نہیں کراتا بلکہ انسانیت کی روحانی ترقی کے لئے مقام خاص کے بطور بھی اسے فروغ دیتا ہے۔ قرآنی آیات آج کی ہماری تکثیریتی دنیا کی حقیقتوں کو مزید مناسب ترین انداز میں واضح کرتی ہیں۔ کسی کی اپنی مذہبی، اعتقادی نظریہ کی حقیقت کو تسلیم کرنے میں کوئی دقت نہیں ہے۔ اسی طرح دوسروں کے عقائد کے ساتھ رواداری اور احترام کا برتاؤ کرنے میں کوئی حرج نہیں ہونا چاہئے۔ ہمدردی ایک مثبت سماج کا سنگ میل اور باہم زندگی کی بنیادی ضرورت ہے۔ ایک دوسرے کے عقائد، عقیدتوں اور نظریوں کا احترام کرتے ہوئے ہمیں خوشی سے جینا ہے۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
आतंकवाद पर लगेगी लगामA Decision Countering Terrorism دہشت گردیپر کسے گا شنکنجہ
انسداد دہشت گردی کے باب میں ایک نیا فیصلہ
عبد المعید ازہری
مکرمی!
اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ اسلام کے نام پر ہو رہی دہشت گردی کا شکار سب سے زیادہ خود مسلم قوم ہے۔عرب ممالک کے علاقہ خود پاکستان و بنگلا دیش اس کے واضح ثبوت ہیں۔جہاد کے نام پر ہونے والے انسانی خون کی سیاست کے خلاف یوں تو مسلم تنظیمیں ہر ممکن کوشش کر رہی ہیں، لیکن بنگلا دیش کی دہشت گردی کی روک تھام کی قومی کمیٹی کی اگوائی میں بنگلا دیش مدرسہ تعلیمی بورڈ نے اس بابت ایک اہم فیصلہ لیا ہے۔ جو انسداد دہشت گردی کے باب میں مشعل اور رہنما اقدام ثابت ہو سکتا ہے۔اسلامی مدارس میں برسوں سے رائج نصاب سے ’جہاد‘کے موضوع کو سرے سے خارج کرنے کا یہ فیصلہ بنگلا دیش کے مسلم نوجوانوں کو انتہا پسندی کا شکارہونے سے بچانے کے لئے ایک نئی حکمت عملی اور لائحہ عمل کی طرح سامنے آیا ہے۔حالانکہ اس پر ملا جلا رد عمل ہے۔ لیکن اس پر غور بھی کیا جانے کا محل ہے۔تعلیمی بورڈ مزید ،جہاد سے متعلق الفاظ، جملوں اور ان ترجموں پر پابندی عائد کرنے کے حق میں ہے جس سے اسلام ایک انتہا پسندی اورتشدد کا مذہب تصور کیا جائے۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
Education and Empowerment are Women Rightsخواتین کی تعلیم اور مساوی حیثیتशिक्षा और सम्मान महिलाओं का अधिकार
خواتین کی تعلیم اور مساوی حیثیت کے بغیر ادھورے ہیں ہم
عبد المعید ازہری
تعلیم یافتہ،طاقت ور اورترقی تافتہ ملک کا خواب بغیر خواتین کی تعلیم و رتبیت اور ہر میدان میں ان کی مساوی شراکت کے شرمندہ تعبیر نہیں ہو سکتا۔ہماری حکومت اور سیاست داں مسلسل سماجی اورمذہبی ذمہ داروں سے درخواست کرتے رہے ہیں کہ خواتین کو مناسب فروغ دیں۔انہیں مکمل طور پر تعلیم یافتہ بنائیں۔ ہرضروری میدان میں ان کی شراکت کو یقینی بنائیں۔اس سے ملک کے لئے دنیا کی قیادت کا راستہ کھلے گا۔آج کل خواتین بالکل مسلمان عورتوں کی حالت بہت بہتر نہیں ہے۔کم تعلیم اور خواتین کی جانب معاشرے اور قائدین عدم توجہ کی وجہ متعدد میدان میں خواتین کی شرکت صفر ہوگئی ہے۔ اسی لئے نیو انڈیا کے نعر ہ بے سود سا ہو گیا ہے۔ان کی برابری کے قانونی او ر سماجی حقوق اوران کی سیاسی شراکت بغیر تعلیم کے ممکن نہیں۔اس کے تئیں نجی اور مکتبی مدارس جو کہ بنیادی تعلیم کے لئے خواتین کو ان کے قریبی علاقوں میں پڑھنے لکھنے کی سہولت فراہم کرتے ہیں،ان کے نصاب میں آج کی ضرورت کے لحاظ سے ترمیم اور اصلاح کی جا سکتی ہے۔حکومت کے ذریعہ تعاون یافتہ ادارے ، ٹرسٹ، تعلیمی و تربیتی مراکز اورپرائیویٹ مدرسے لڑکیوں کو وقت و حالات کے اعتبار سے ضرورت کے موضوعات کے تئیں بے دار کریں اور پھر مسلم خواتین کو تعلیم یافتہ، طاقتور اور ہنر مند بنانے کے لئے اعلیٰ تعلیمی ادارے اور تربیتی مراکز کے تعاون سے پیشہ ورانہ اور صنعتی ادارہ چلانے کا مکمل انتظام کریں تبھی خواتین کی تقویت کا خواب پورا ہوگا۔ عورتوں کی شراکت اور مساوی حیثیت آنے والی نسل کو اہل بنانے اور ملک کی ہمہ جہت ترقی کے لئے نہایت ہی ضروری ہے۔اس کے لئے ریاستی اور مرکزی حکومتوں، مسلم اداروں اور سماجی کارکنوں کو ایک ساتھ لے کر ایک قومی اسکیم بنائی جا سکتی ہے۔جس سے ہم خواتین کو ان کا واجب مساوی حق دلا سکیں گے۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
Humanity or Political Diversionsانسانی اتحاد یا سیاسی انتشار मानवता या सांप्रदायिक राजनीति
ملکی و انسانی اتحاد یا آئین مخالف سیاسی انتشار
عبد المعید ازہری
یہ ایک حقیقت ہے کہ ایک عام مسلمان اور غیر مسلم کے رہن سہن اور ان کے سوچنے کے طریقے میں کوئی خاص فرق نہیں ہے۔ مذہب کے نام پر ان کی سماجی تفریق چند مفاد پرست مذہب مخالف افراد و افکار کی اپنی نجی و ناپاک کوشش ہی ہے۔تاہم اجتماعیت اور یکجہتی ایک عام انسان کا وطیرہ ہے جس کا عکس معاشرے میں صاف نظر آتا ہے۔یہی وطیرہ ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر رہنے کی قبولیت کو بھی فروغ دیتا ہے۔ایک عام مسلمان ہو یا غیر مسلم، سب بحیثیت انسان برابر ہیں۔تاہم ہر گروہ میں کچھ ایسے افرادہوتے ہیں جو اپنی زبان، مذہب یا گروہ کو دوسرو ں کے بالمقابل زیادہ پسند کرنے کے لئے پوری جماعت کو بیجا اکساتے ہیں۔حالانکہ ایک عام مسلمان کسی دوسرے کو صرف اس وجہ سے مارنا پسند نہیں کرے گا کہ وہ شخص کسی دوسرے مذہب کا پیروکار ہے۔اسی طرح ایک عام غیر مسلم بھی ایسا نہیں کرے گا۔یہی وہ بنیادی فکر ہے جو دونوں ہی قوموں کو ایک ساتھ مل کر رہنے کی طبعی خواہش کو اجاگر کرتا ہے۔یہ فرقہ پرست طاقتیں تو انتہا پسند فکروں کے ساتھ فروغ پاتی ہیں۔اس کے باوجو ایک عام آدمی خواہ کسی بھی مذہب کا ہو وہ یکجہتی کے ساتھ زندگی میں یقین رکھتا ہے اور اسی میں فروغ پاتا ہے۔وہیں فرقہ پرست طاقتیں پس و پیش میں رہتے ہیں عمر بھر غیر یقینی زندگی گذارتی ہیں۔یہ فرقہ پرست طاقتیں بلا تفریق مذہب و ملت ہمیشہ لوگوں کو جنگ پر آمادہ رکھتی ہیں۔
تشدد، انتہاپسندی اور دہشت گردی کے ساتھ اسلاموفوبیا ایسے دائرے ہیں جہاں ایک کے فروغ سے دوسرے کو مددملتی ہے۔سبھی آپس میں ایک دوسرے کے معاون ہیں۔جتنا تشدد کو فروغ ملے گا اتنا ہی اسلاموفوبیا کو بڑھاوا ملے گا۔اسی طرح بنیاد پرستی اور دہشت گردی کے درمیا ن کوئی فرق نہیں ہے۔بنیاد پرستی ایک ذہنی دہشت گردی ہے جب کہ دہشت گردی کسی تشدد کا اعلیٰ نمونہ ہے۔یہ افسوس کی بات ہے کہ جہاں ایک طرف دہشت گردی اور آتنک واد کے خلاف مسلسل کوششیں جاری ہیں، وہیں دوسری طرف چند بنیاد پرست تحریکیں جیسے کہ خوارج، تکفیری، اخوانی، کراماتی اور حشاشینی فکر اسلامی تاریخ میں اپنی موجودگی درج کرا رہی ہیں۔جن کی وجہ سے جہاد کے نام پر ہو رہے تشدد کو پھلنے پھولنے کا موقعہ مل رہا ہے۔ حال ہی میں ابھری دہشت گرد تنظیمیں داعش، القاعدہ اور لشکر طیبہ اسی کڑی کا اہم حصہ ہیں۔آج ان غیر قانونی تنظیموں کی کرتوتوں کی وجہ عالمی امن کو خطرہ پیدا ہو گیا اور انہوں نے اسلام کو بنیاد پرست مذہب اور مسلمانوں کی تصویرکو انتہاپسند بنانے کی ناپاک کوشش کی ہے۔اس لئے یہ اس مسلم قوم کی معاشرتی، سیاسی اور مذہبی ذمہ داری ہے کہ اجتماعیت اور یکجہتی کو فروغ دیں تاکہ تباہ کن فکر کے ساتھ ساتھ داعش جیسی تنظیموں کے اثر و رسوخ کو بھی نیست و نابود کیا جا سکے۔جو نوجوانوں کو ورغلا رہی ہیں۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
@@---Save Water, Tree and Girl Child Save the World---@@
Difference in Religion and its followersمذہب اور اہل مذہب میں فرق धर्म और उसके अनुयायियों में फ़र्क़
مذہب اور اہل مذہب میں بڑا فرق ہے
عبد المعید ازہری
آج دنیا بھر کی دہشت گرد اور انتہاپسند تنظیمیں جس قدر مذہب کا لبادہ اوڑھ مذہب ملک اور انسانیت کو بدنام کرنے پر تلی ہوئی ہیں جس نہ صرف انسانیت کو نقصان پہنچ رہا ہے بلکہ وہ مذہب بھی نشانہ بن رہا ہے جس کے نام پر یہ فکریں فروغ پارہی ہیںْ۔ ان تنظیموں کی اپنی ایک فکر ہے۔ اس کا اگر چہ کسی بھی دھرم، مذہب یا قوم سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے لیکن وہ فکر ہر جگہ موجود ہے۔آج پوری دنیا میں مذہب مخالف نظریہ اپنا دبدبہ قائم کرنا چاہتا ہے۔سماجی اور معاشرتی یکجہتی اور ہم آہنگی و رواداری کو یکسر توڑنے کے لئے اس مذہب کا زور شور سے استعمال کیا جا رہا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بسا اوقات لگتا ہے کہ ان انہتا پسند تنظیموں کو مختلف مذاہب سے خوراک ملتی ہے۔ ان کے فروغ میں مذہبی تعلیمات شامل ہیں۔ حالانکہ ایسا نہیں ہے۔ آج حالات یہ ہیں کہ کبھی کبھی خود مذہب ان کے جبر کے آگے بے بس و مجبور نظر آتاہے۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ایک عام نظریہ قائم ہو گیاکہ دہشت گرد تنظیمیں اسلام کے نام پر فروغ پا رہی ہیں۔در اصل آض انتہا پسندی ، تشدد اور انانیت و بے لگامی کی راہ کا پتہ لگانے کی ضرورت ہے۔ اس کے ماخذ اور محرکات کی تفتیش لازم ہے۔کیونکہ یہ انتہا پسند نظریہ اسلام کی شبیہ کو ایک سخت اور غیر واضح مذہب کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ جبکہ یہ مذہب انسان دوستجی، ہم آہنگی اور ہمدردی جیسی خصوصیات پر مشتمل ایک مستقل انسانی زندگی کا مکمل نظریہ ہے۔اس انتہا پسند فکر نے اتنا تو کر دیا کہ آج اسلام کے مکمل طور پر دو مختلف نظریے ہو گئے ہیں۔ ایک پیار اور رواداری جیسی پرانی روایتوں کااسلام جو صوفی ازم کہلاتا ہے ۔دوسرا کم بولنے والا، فرقہ پرست ، تفریق کار، توڑنے اور نفرتیں پھیلانے والا نظریہ جس میں انسانیت اور اخلاقیات کیلئے کو ئی جگہ نہیں۔جو ایک خاص فکر کی ترجمان ہے اور جسے کچھ مخصوص ممالک کی حمایت حاصل ہے۔ کچھ ہی برسوں میں اس فکر نے توحید کے نا م پر اپنے نظریے کو تیزی سے بڑھانے میں کامیابی حاصل کی ہے ۔
قرآن وحدیث، اجماع اور قیاس پر مبنی دین کی عملی شریعت میں ذاتی مفاد و نظریہ شامل کرنے والی اس فکر نے قرآنی آیات کو اپنی مرضی کے مطابق استعمال کرنا شروع کردیا۔ جہاد سے متعلق آیات کی غلط تشریح کرکے اس کے مقام استعمال کو اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ قوم کی نئی نسل کو گمراہ کیا۔ ہونے والے فرقہ وارانہ فسادات کو آلہ کار بنایا اور انسان کے اندر نفرت کا بارود بھر دیا۔احادیث مبارکہ کی من مانی تاویل کی۔ اس غلط تاویل اور بے تشریح و توضیح نے اصل اسلام کے مقابل ایک نیا اسلام کھڑا کر دیا۔ جسے کچھ ممالک نے اپنے سیاسی فائدے کے لئے استعمال کیا۔ نفرت اور ہتھیاروں کے سوداگروں نے نہ صرف دین اسلام بلکہ دیگر مذاہب کے اندر بھی انتہا پسند فکر ڈال دی۔ ایک دوسرے کو ایک دوسرے کے لئے خطرہ ثابت کردیا۔ ہر ہونے والے فطری حادثات کا سیاسی استعمال کیا۔ اس کے ذریعہ فرقہ واریت کو ہوا دی۔اگر چہ ان فکروں نے سب سے زیادہ اپنی ہو قوموں کا نقصان کیا ہے لیکن انسان دشمن عناصر نے بڑی ہی چالاکی سے اس فکر کے فروغ کو دین کی صحیح خدمات تصور کرا دیا۔آج جب ہم اپنے ملک کو دیکھتے ہیں تو ماتھے کی نگاہیں اس کی فکر کی مضبوط ہوتی جڑوں کو دیکھ سکتی ہیں۔ ایک عجیب سی فضا قائم ہے۔ جہاں ایک مذہب دوسرے مذہب کا دشمن ہے۔ جبکہ زمینی سچائی یہ ہے کہ ایک عام آدمی کو اس بات کی خبر ہی نہیں کہ کس مذہب کو کس سے خطرہ ہے۔پوری دنیا میں مسلمانوں کی شبیہ خراب کرنے کے بعد اب دیگر مذاہب کے ساتھ بھی یہی ہو رہا ہے۔ انہیں بھی انتہا پسند بنایا جا رہا ہے۔ یا ان کے تشدد کا اب باقاعدہ اظہار ہو رہا ہے۔
آج دنیا کو یہ سمجھنے کے ساتھ بتانے کی ضرورت ہے کہ دنیا میں کوئی بھی مذہب تشدد کے لئے نہیں آیا۔ انسان کے اندر کی شیطنت کو ختم کرنے کے لئے ہی مذہبی فلسفوں کا وجود ہوا ہے۔ جب شیطان حاوی ہوتا ہے تو اس کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔آج دنیاکے سامنے ہر مذہب کو اپنی مذہبی تعلیمات رکھنے کی ضرورت ہے۔ ان
تاریخی روایات کو دوہرانے کی ضرورت ہے جن کی بنیاد پر صدیوں نے ان مذاہب کی روایات برقرارہیں۔ہر مذہب میں ایک چیز مشترکہ طور پر پائی جاتی ہے۔ وہ ہے روحانی تقویت جسے تصوف کے ذریعے حاصل کیا جاتا ہے۔ آج اس کی اہم اور اشد ضرورت ہے کہ اسلاف کی ان روایت کو زندہ کیا جائے۔ کیونکہ آج کے اس پر آشوب اور پر فتن دور میں پھر سے انہیں صوفیانہ کرداروں اور روایتوں کی ضرورت ہے۔قرآن فہمی اور حدیث بیانی کی وہ روایتیں اور تعلیمات جنہوں نے پتھر دل انسان کو دردمند اور ہمدرد بنا دیا۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آج بھی وہی قرآنی نسخہ اور احادیث کا مجموعہ موجود ہے لیکن اس کی تاثیر سے دلوں پر نہ تو رقت طاری ہوتی ہے اور نہ ہو وہ پسیجتا اور پگھلتا ہے۔
مذہب انسانی تربیت کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ اگر یہی مذہب انسان مخالف ہو جائے تو سمجھ لینا چاہئے کہ یا تو وہ مذہب ہی نہیں رہا یا پھر اس کی ضرورت ختم ہوگئی ہے۔مذہب ہمیشہ اپنی تعلیمات سے زندہ رہتا ہے۔ اپنی دلیلوں سے فروغ پاتا ہے۔ انہیں دلیلوں اور تعلیمات کو اختیار کر کے لوگ انسان بنتے ہیں۔ انسانی تعلیمات کا پہلا سبق محبت اور انسیت ہے۔رشتوں کا احترام، ان کی تعظیم وتوقیر اور ان روایتوں کی حفاظت ہمیں اشرف المخلوقات بناتی ہیں۔
Abdul Moid Azhari
(Journalist, Translator, Motivational Speaker/Writer)
+919582859385
Facebook: https://www.facebook.com/ Abdulmoid07/
Twitter: https://twitter.com/ AbdulMoid07
Instagram: instagram.com/moid_abdul/
Monday, February 5, 2018
Subscribe to:
Comments (Atom)

